عمران خان نے الیکشن سے قبل اپنی مختلف تقاریر میں کہا تھا کہ میں اتنا ٹیکس اکٹھا کر لوں گا کہ ملک چلانے کیلئے بھیک مانگنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ابھی تو حکومت کی شروعات ہیں۔ ایک دو سال تک صحیح تصویر سامنے آئے گی کہ حکومت اس میں کتنا کامیاب ہوئی۔ ویسے دسمبر کی رپورٹ کے مطابق ٹیکس فائلرز میں اضافہ تو ہوا ہے۔ٓ
یار، ٹیکس کی وصولی کا انتظام تو شیر شاہ سوری کے زمانے میں بھی چل رہا تھا۔ ان عقل بندوں کو یہ تجویز بھی ہم کو دینی ہوگی کہ بھائی ٹیکس وصول کرنے کے لئے ادائیگی کرنے والوں کے لئے ٓادائیگی کے گوشوارے ایف بی آر کو جمع کراؤ؟ تاکہ ٹیکس دہندگان کی آمدنی کا تخمینہ لگایا جاسکے ؟؟؟؟
یہ کافی معقول تجویز ہے۔ لیکن آپ کو تو پتا ہی ہے کہ ؛ یہ ملک تمہارا ہے، ہم ہیں خوامخواہ اس میںٓاگر پاکسان ملّی ٹّری پارٹی (انتخابی نشان بندوق) کو حکوٓمت کرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو ریٹائیرڈ جنرلوں کی ایک واضح پارٹی بنائے اور انتخابات میں حصہ لے تاکہ یہ لوگ بھی آئین کے تحت رہٓیں۔
پتا نہیں یہ کس قسم کے پلاسٹک انصافین ہیں جو ایسے میسج کرتے رہتے ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ اس وقت عدلیہ، فوج اور سول حکومت ایک پیج پر ہے۔ ایسے میں فوج کو براہ راست سامنے لانے کی کیا ضرورت ہے۔ فوج کو جو کام سول حکومت سے لینا ہے وہ مارشل لا لگائے بغیر لیا جا سکتا ہے۔Now the option is that before dissolving the present government, some measurements be taken up to finish certain constitutional amendments, bring up some new points and then bring a government of military leadership coupled with civil assistance that can take Pakistan to a strong future.
آئی ایم ایف کے پاس کون گیا ہے؟ جو ہمسایہ ممالک سے قرضے لئے ہیں وہ سابقہ حکومتوں میں لئے گئے قرضوں کی قسطیں اتارنے کیلئے ناگزیر تھا۔ وگرنہ ملک دیوالیہ ہوجاتا۔ اگر عمران خان ملک کو دیوالیہ ڈکلیر کر دے تو برا۔ قرضہ واپس کرنے کیلئے امدادی قرضے لے تو برا۔ آخر وہ ایسا کیا کرے کہ عوام تھوڑا سا خوش ہو جائے؟ استعفیٰ دے کر حکومت زرداری و نواز شریف کے حوالہ کر دے؟لوٹا پیسہ باہر سے واپس لاوے گا، خود کو مار ڈالے گا پر آئی ایم ایف کے پاس نہ جاوے گا وغیرہ بھی۔
یہ ملک فوج نے نہیں بنایا۔ سیاست دانوں اور عام عوام کی کوششوں سے بنا ہے۔ لیکن افسوس فوج کو اس حال تک بھی انہی سیاست دانوں اور عوام نے پہنچایا ہے۔ضرورت ہے کہ پاکستان ملٹری جو کام بہتر کرتی ہے وہی کرتی رہے یعنی دفاع پاکستان۔ اور ملک کے مالی معاملات میں دخل نا دے، لوٹ مار (جیسی 1973 کے قومیانے کے نام پر کی ) سے گریز ٓکرے، اور حکومت پاکستان کے ماتحت ہو۔ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر جوڈیشیل مارشل لاء اور سیلیکٹڈ وزراء بٹھانے سے گریز کرے۔
پتا نہیں یہ کس قسم کے پلاسٹک انصافین ہیں جو ایسے میسج کرتے رہتے ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ اس وقت عدلیہ، فوج اور سول حکومت ایک پیج پر ہے۔ ایسے میں فوج کو براہ راست سامنے لانے کی کیا ضرورت ہے۔ فوج کو جو کام سول حکومت سے لینا ہے وہ مارشل لا لگائے بغیر لیا جا سکتا ہے۔
یہ ملک فوج نے نہیں بنایا۔
اس سلسلہ میں ایف بی آر اور دیگر اداروں کو ریفارمز کیا جا رہا ہے۔ ۳۵ مختلف ٹیکسوں کو کم کرکے ۱۵ کر دیا گیا۔ سابق حکمرانوں نے جان بوجھ کر ٹیکس کا نظام پیچیدہ بنایا تاکہ امیروں کو ٹیکس چھوٹ دے کر سارا بوجھ غریب عوام پر ڈالا جائے۔کمال ہے کہ تیلیفون کا بل تو ہم الیکترانک دیکھ کر ادا کرسکتے ہیں لیکن ٹیکس کا بل نہیں؟؟؟؟
برادر محترم، ایف بی آر ، کیا کرے گی جب پارلیمینٹ نے ایسا کوئی قانون ہی نہیں پاس کیا جو ایف بی آر کو لازمی مینڈیٹ دیتا ہو کہ تمام کی تمام ادائیگیوں کا حساب رکھنے کا نظام تشکیل دیا جائے۔ یہ اتنا مشکل بھی نہیں ہے۔اس سلسلہ میں ایف بی آر اور دیگر اداروں کو ریفارمز کیا جا رہا ہے۔ ۳۵ مختلف ٹیکسوں کو کم کرکے ۱۵ کر دیا گیا۔ سابق حکمرانوں نے جان بوجھ کر ٹیکس کا نظام پیچیدہ بنایا تاکہ امیروں کو ٹیکس چھوٹ دے کر سارا بوجھ غریب عوام پر ڈالا جائے۔
بھائی پاکستان میں مسئلہ صرف بہتر قانون سازی کا نہیں ہے۔ بلکہ جو قوانین پہلے سے موجود ہیں ان پر کمزور عمل در آمد زیادہ سنگین پرابلم ہے۔۔ مناسب قانون کے بغیر کسی بھی قسم کے ریفارم کی توقع کرنا فضول ہے۔
یہ ٹیکس ختم نہیں ہو رہا۔ جو بینک کھاتے دار انکم ٹیکس ریٹرن فائل نہیں کرتے یعنی 'فائلر' نہیں ہیں، ان پر یہ ٹیکس صفر اعشاریہ چھ فیصد کے حساب سے لاگو ہے اور لاگو رہے گا۔ جو کھاتے دار فائلر ہیں ان پر اس ٹیکس کی شرح آدھی یعنی صفر اعشاریہ تین فیصد ہے اور اس کو ختم کرنے کی تجویز ہے یعنی فائلرز پر ٹیکس ختم ہو رہا ہے، نان فائلر پر پہلی شرح سے موجود رہے گا۔کیا بینک ٹرانزایکشن والا ٹیکس جو صفر اعشاریہ چھے (0ء6)تھا ۔ ختم ہوگیا؟
اگر نہیں تو کب سے ختم ہوگا ؟
یہ ٹیکس ختم نہیں ہو رہا۔ جو بینک کھاتے دار انکم ٹیکس ریٹرن فائل نہیں کرتے یعنی 'فائلر' نہیں ہیں، ان پر یہ ٹیکس صفر اعشاریہ چھ فیصد کے حساب سے لاگو ہے اور لاگو رہے گا۔ جو کھاتے دار فائلر ہیں ان پر اس ٹیکس کی شرح آدھی یعنی صفر اعشاریہ تین فیصد ہے اور اس کو ختم کرنے کی تجویز ہے یعنی فائلرز پر ٹیکس ختم ہو رہا ہے، نان فائلر پر پہلی شرح سے موجود رہے گا۔
جس ٹیکس کی بات ہو رہی ہے وہ بینکوں سے پیسے نکالنے پر ہے سو ہر کوئی دیتا ہے۔جب ایف بی آر کے پاس یہ ریکارڈ ہی نہیں کہ کس پر کتنا ٹیکس واجب الادا ہے تو ایسا ٹیکس کس مد میں ؟؟؟
وضاحت کا شکریہ،جس ٹیکس کی بات ہو رہی ہے وہ بینکوں سے پیسے نکالنے پر ہے سو ہر کوئی دیتا ہے۔
ایف بی آر ایک فرسودہ اور تباہ حال ادارہ ہے جس میں جلد سے جلد ریفارم ناگزیر ہے۔ خالی بے تلے نوٹس بھیج دینے سے عوام ٹیکس دہندگان نہیں بنتی۔میرے ایک دوست نے سات لاکھ کا ایک پلاٹ خریدا، اس کے پاس دو سال بعد ایک خط آیا ایف بی آر سے کہ تم نے یہ پیسے کہاں سے کمائے اور کیا اس آمدنی پر ٹیکس ادا کیا یا نہیں؟ ہائیں بھائی ، کیا کہہ رہے ہو؟ ان کو پتہ ہی نہیں کہ کس نے کس کو ادائیگی کی؟ کس نے کیا کمایا؟
یہ شخص سارے پیسے سعودی عرب سے کما کر لایا تھا اور اس کے پاس ریکارڈ تھا کہ وہ اپنی رقم باہر سے بھیجتا رہا ہے۔ لیکن اس نے یہ پلاٹ فوراً بیچ دیا ۔ اس کے پاس پھر کوئی خط نہیں آیا۔
ایک اور دوست کی بیوی نے کراچی میں کار خریدی، ان کے پاس بل آگیا کہ آپ نے ایک کار خریدی ہے، جس کی قیمت اتنی ہے، آپ کے پاس اتنے پیسے کہاں سے آئے۔ ہائیں ؟ دولت کمانا جرم ہے؟ ٹیکس نا دینا جرم ہے ، لیکن یہ ٹیکس کتنا بنتا ہے ۔ اس کا کوئی حساب ہی نہیں ایف بی آر کے پاس۔ بجلی کا بل دیکھ سکتے ہیں، فون کا بل دیکھ سکتے ہیں ۔ لیکن ٹیکس کا نہیں ؟ کیوں؟ اس کا ذمہ دار کون؟ چور کون؟ کون اپنی ذمہ داری پوری نہیں کررہا؟ اور کس کی ایماء پر گنے چنے لوگوں سے حساب مانگا جاتا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ہر ادائیگی کا حساب ایف بی آر کے پاس جمع کرایا جائے۔ خرابی کہیں اور ہے اور دیکھا کہیں اور جارہا ہے۔ اگر اسی طرح یہ نظام جاری رہا تو میری پیشین گوئی ہے کہ آج بھی جو بچہ پیدا ہوا ہے وہ کل ٹیکس چوری کرے گا ۔۔۔۔ ام، چوری ، نہیں ، جبا کوئی حساب ہی نہیں تو چوری کیسی ؟ یہ ہے بنیادی نکتہ ۔۔۔
ایف بی آر ایک فرسودہ اور تباہ حال ادارہ ہے جس میں جلد سے جلد ریفارم ناگزیر ہے۔ خالی بے تلے نوٹس بھیج دینے سے عوام ٹیکس دہندگان نہیں بنتی۔
اس کا درست طریقہ وہی ہے جو کہ ترقی یافتہ ممالک میں عرصہ دراز سےرائج ہے۔ یعنی ۱۸ سال سے اوپر ہر شخص کیلیے ذرائع آمدن جمع کروانا لازم قرار دیا جائے۔ اور ایسا نہ کرنے والے کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے۔
جب ایف بی آر کے پاس ہر پاکستانی کے آمدن کا ڈیٹا جمع ہو جائے تو اس بنیاد پر اگلے سال ٹیکس وصولی کے نوٹس بھیجے جائیں۔ جو بروقت ٹیکس جمع کر وا دے اس کو ریلیف اور اس میں دیر کرنے والوں کو جرمانہ کیا جائے۔
یوں جائز ٹیکس دہندگان حکومتی سرپرستی میں آجائیں گے اور ٹیکس چوروں کے خلاف ایف بی آر سخت ایکشن لے گا۔ پھر دیکھتے ہیں یہ ملک کیسے نہیں ٹھیک ہوتا۔