کفایت ہاشمی
محفلین
مجھے کیوں نہ آئے گا پسند آپ کا مشورہ ، جزاک اللہ۔ میں ضرور رابطہ کرتا ہوں محترمہ شگفتہ صاحبہ سے ۔۔آپ کو غالباً میرا مشورہ پسند نہیں آیا۔
آپ رابطہ تو کریں سیدہ شگفتہ سے۔
مجھے کیوں نہ آئے گا پسند آپ کا مشورہ ، جزاک اللہ۔ میں ضرور رابطہ کرتا ہوں محترمہ شگفتہ صاحبہ سے ۔۔آپ کو غالباً میرا مشورہ پسند نہیں آیا۔
آپ رابطہ تو کریں سیدہ شگفتہ سے۔
معاف کیجئے گا ، میں نے نظر نہ کی کہ آپ منتظم یعنی ٹیم لیڈر ہیں ۔کفایت بھائی یہاں ایک ٹیم ورک ہوتا ہے۔ اور ٹیم ورک میں ایک ٹیم لیڈر کی ہدایات کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے۔
وعلیکم السلام ۔کفایت صاحب السلام علیکم اور محفل میں خوش آمدید
وعلیکم السلامالسلام علیکم ، کفایت ہاشمی صاحب ، اردو محفل میں خوش آمدید !
کیا آپ مذکورہ مسودہ کا اسکین ارسال کر سکتے ہیں ؟
وعلیکم السلام
جی یہی تو مشکل ہے ۔ اصل میں ، میں نے مسودے پر نظر ثانی کے دوران خوب حذف و اضافے کیے ہیں اس لیے اس کو سکین کرنا تو دگنی مشکل ہوگی ۔ ایک میرے لیے دوسرا خود ٹائپ کرنے والے کیلئے۔ اس لیے میں نے یہ عرض کیا تھا کہ میں خود ہی ٹائپ کر وں اور کوئی بندہ خدا اس کو برقیا دے ۔
جناب من !برادرم کفایت، آپ کے نزدیک برقیانے سےکیا مراد ہے؟ اگر ٹائپنگ مکمل ہو جائے تو اسی کو ہم برقیانا کہتے ہیں۔ اگر آپ نے ان پیج میں ٹائپنگ مکمل کر لی ہو تو اسے یونیکوڈ میں تبدیل کرنا زیادہ مشکل نہیں رہتا۔
جناب من !
میری برقیانہ سے یہ مراد ہے کہ مسودے کو کتاب کی صورت دے دی جائے ۔صرف ٹائپ سے تو کتاب نہیں بن جاتی۔ اسکی سیٹنگ اور صوتی حسن کا ’’پانی ‘‘ بھی تو چڑھانا ہوتا ہے۔
جناب من !
میری برقیانہ سے یہ مراد ہے کہ مسودے کو کتاب کی صورت دے دی جائے ۔صرف ٹائپ سے تو کتاب نہیں بن جاتی۔ اسکی سیٹنگ اور صوتی حسن کا ’’پانی ‘‘ بھی تو چڑھانا ہوتا ہے۔
دلچسپ اور قابل مطالعہ کتاب نظر آتی ہے۔فقیر کے دادا مولانا اعظم ہاشمی اپنے وطن مالوف سے ہجرت کر آئے تھے اور سنہ 70ء کی دہائی میں ان کی داستان ہجرت ’’سمرقند و بخارا کی خونیں سرگزشت ‘‘ کے نام سے شائع ہوئی تھی اور اس لنک پر بھی دستیاب ہے :
http://www.archive.org/details/Samarqand-O-Bukhara--Ki-Khuni-Sargazisht
اس داستاں کے مخاطب یوں تو وہ نام نہاد "مولانا" اور "مفتی" بھی ہیں جو سوشلزم کے گماشتوں کے ہاتھوں میں دانستہ یا نادانستہ کھیل رہے ہیں۔ اگر ان کے دل میں رائی برابر بھی ایمان موجود ہے تو خدارا سوچیں کہ وہ کیسا خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں اور کن لوگوں کا آلۂ کار بنے ہوئے ہیں؟
تاہم اس داستان کے اصل مخاطب پاکستان کے مسلمان عوام ہیں جنہوں نے اپنے دین ، اپنی تہذیب ، اپنی روایات کو ہندوؤں کے چنگل سے بچانے اور اسلام کے سایے میں زندگی بسر کرنے کے لیے جنگ لڑی اور آگ اور خون کے وسیع اور ہولناک سمندر سے گزر کر پاکستان کے ساحلِ مراد پر پہنچے۔
یہ خونیں سرگذشت انہی کے لیے لکھی گئی ہے تاکہ وہ اس سے عبرت حاصل کریں ، پاکستان کو سمرقند و بخارا بنانے کی تگ و دو میں جو لوگ مصروف ہیں ، ان کے نعروں اور شرعی وضع قطع سے دھوکا نہ کھائیں اور کفر و الحاد کے ان علمبرداروں کے خلاف اسی جوش و جذبے کے ساتھ بنیانِ مرصوص بن کر کھڑے ہو جائیں جس جذبے کے ساتھ وہ ہندوؤں کے عزائم کے خلاف کھڑے ہوئے تھے۔ اس وقت جو خطرہ مسلمانانِ ہند کو ہندوؤں سے تھا آج وہی خطرہ پاکستان کی اسلامی مملکت کو سوشلزم کے گماشتوں اور ان کے نام نہاد شرعی رکابداروں سے ہے۔
24/دسمبر 1969ء
آباد شاہ پوری
وعلیکم السلامالسلام علیکم ، حالیہ صورت میں ٹائپنگ کے ساتھ پروف ریڈنگ کے مراحل آپ انجام دے سکیں گے ؟
ماشاء اللہ ۔ مجھے سچ مچ خوشی ہوئی کہ آپ اس کتاب کو پڑھ رہے ہیں۔ محترم آباد شاہ پوری مرحوم نے اس سرگزشت کو ترتیب دیا تھا یعنی اس کو ادبی سانچے میں انھوں نے ہی ڈھالا۔اللہ ان کی اس خدمت کو قبول فرمائے اور انھیں اپنی جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے آمیندلچسپ اور قابل مطالعہ کتاب نظر آتی ہے۔
ڈاؤن لوڈ کر کے ابھی مطالعہ شروع کیا ہے۔ شروعات کے صفحات ہی سے طرز تحریر کا سحر طاری ہونے لگتا ہے۔ جبکہ اس کتاب کے سال اشاعت (1969ء) سے اندازہ ہوا تھا کہ قدیم اردو ہوگی مگر بہرحال اتنی قدیم تو نہیں ہے۔
آباد شاہ پوری نے اپنے "دیباچہ" میں جو یہ باتیں لکھی ہیں ۔۔۔ زائد از 40 سال بعد والی موجودہ صورتحال بھی کم و بیش اتنی ہی محسوس ہوتی ہے ۔۔۔ ۔