موت کے دہانے پر خودکشی؟

سارہ خان

محفلین
جی یہ خبر روزنامہ دنیا میں شائع ہوئی تھی 29 تاریخ کو اس لئے یہ خبر نیٹ پر دستیاب نہیں ۔میں نے اس خبر کو ڈھونڈنے کی سر گپھائی کی مگر بے سود۔
مجھے خود یہ خبر سچ نہیں لگتی مگر اخبار میں پڑھی تھی اس لئے لکھ دی۔
ویسے تو کچھ بھی نا ممکن نہیں لگتا اب یہاں ۔۔ لیکن اس خبر پر یقین نہیں آ رہا ۔۔۔
 

bilal260

محفلین
ویسے تو کچھ بھی نا ممکن نہیں لگتا اب یہاں ۔۔ لیکن اس خبر پر یقین نہیں آ رہا ۔۔۔
مجھے خود یقین نہیں آ رہا تھا
مگر وہ خبر اب مجھ سے گم ہو گئی دنیا نیوز پیپر میں پڑھی تھی۔
معذرت کہ یہ واقعہ میں نے کوٹ کیا مگر میں جھوٹھا نہیں ہوں۔
 

سارہ خان

محفلین
مجھے خود یقین نہیں آ رہا تھا
مگر وہ خبر اب مجھ سے گم ہو گئی دنیا نیوز پیپر میں پڑھی تھی۔
معذرت کہ یہ واقعہ میں نے کوٹ کیا مگر میں جھوٹھا نہیں ہوں۔
ہم نے اپ کو جھوٹا نہیں کہا خبر پر حیرت کا اظہار کیا۔۔ اخبار میں چھپی ہے تو ہو سکتا ہے حقیقت ہو۔۔
 
ہم نے اپ کو جھوٹا نہیں کہا خبر پر حیرت کا اظہار کیا۔۔ اخبار میں چھپی ہے تو ہو سکتا ہے حقیقت ہو۔۔
اخبار کا تو مجهے علم نہیں لیکن سما نیوز پر یہ خبر نشر ہوئی تهی اور کچھ مناظر بهی دکهائے گئے تهے۔ بعد میں شاید سنسر کر یا کروا دی گئی۔
یہ واقعہ پشاور شہر کا تها۔
 
فرض کریں ایک شخص کو کینسر ہے۔ علاج کرایا مگر فرق نہیں پڑا۔ کیموتھیرپی، ریڈیئشن کسی سے کینسر کم نہیں ہوا بلکہ بڑھتا گیا۔ ایک عضو سے بڑھ کر باقی جسم میں بھی پھیلنے گا۔

علاج کے تین چار راؤنڈ کے بعد ڈاکٹر بھی مایوس ہونے لگے۔ تکلیف بڑھنے لگی اور ہر وقت درد اور مشکل میں زندگی گزرتی۔

اب اس شخص کے پاس تین راستے ہیں:
  1. ایک تجرباتی علاج جس میں فائدے کا امکان بہت کم ہے اور مزید تکلیف کا امکان بہت زیادہ
  2. درد وغیرہ کم کرنے کی دوائیں لے مگر کینسر کو اس کے حال پر چھوڑ دے اور مرنے کی تیاری کرے
  3. خودکشی
آپ کا کیا خیال ہے اسے کیا کرنا چاہیئے؟
اگر اخلاقی اورمالی برداشت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو زندگی ہمت اور جستجو کا دوسرا نام ہے۔ عین ممکن ہے کہ اس شخص کے علاج کی کوششوں کے دوران ڈاکٹروں کے آئندہ کے لیے کوئی بہتر تجربہ حاصل ہو جو اس بندے کے ساتھ ساتھ طبی لحاظ سے کئی اور مریضوں کے لیے راہِ نجات ثابت ہو سکے۔ لیکن اس میں مالی لحاظ سے برداشت کر سکنے کا عنصر ٍغالب ہے۔

اور اگر میں اپنے طرزِ عمل کے تحت دیکھوں تو جو صورتحال آپ نے بیان کی ہے اس کے مطابق میں اپنے وقت کو خوب انجوائے کرتا اور شاید اس تمام قلیل عرصے کے لیے یہ سب بھلا روزہ مرہ ضرورت کے تحت دردکش ادویات لے کر زندگی گزارنے کے لیے اپنے دماغ کو مجبور کر کے خوش رہتا اور رکھتا۔
 

عثمان

محفلین
آپ کا مفروضہ اس بات پر قائم ہے کہ مریض مرض الموت میں مبتلا ہے۔
فرض کیجیے کہ مریض مرض الموت میں مبتلا نہیں ہے۔ تاہم وہ ایک دائمی جسمانی تکلیف کا شکار ہے جسے برداشت کرنا اس کےلیے عموما مشکل ہے۔ کیا آپ اس صورت میں خود کشی کی حمایت کریں گے ؟
فرض کیجیے ایک شخص کسی مرض میں مبتلا نہیں ہے۔ تاہم وہ اپنی زندگی کا خاتمہ چاہتا ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ منطقی طور پر کسی بھی فرد کو اپنی زندگی کبھی بھی ختم کرنے کا حق حاصل ہے ؟
 

زیک

مسافر
آپ کا مفروضہ اس بات پر قائم ہے کہ مریض مرض الموت میں مبتلا ہے۔
فرض کیجیے کہ مریض مرض الموت میں مبتلا نہیں ہے۔ تاہم وہ ایک دائمی جسمانی تکلیف کا شکار ہے جسے برداشت کرنا اس کےلیے عموما مشکل ہے۔ کیا آپ اس صورت میں خود کشی کی حمایت کریں گے ؟
فرض کیجیے ایک شخص کسی مرض میں مبتلا نہیں ہے۔ تاہم وہ اپنی زندگی کا خاتمہ چاہتا ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ منطقی طور پر کسی بھی فرد کو اپنی زندگی کبھی بھی ختم کرنے کا حق حاصل ہے ؟
اس صورت میں معاملات زیادہ مشکل شکل اختیار کر لیتے ہیں۔

بہرحال میرے خیال میں ہر شخص کو اپنی زندگی ختم کرنے کا حق ہے۔ مگر اکثر خودکشی کی کوشش کچھ مسائل و مصائب کی وجہ سے ہوتی ہے جس کے لئے معاشرہ ریسورسز فراہم کر سکتا ہے۔
 

عثمان

محفلین
میری رائے میں کوئی فرد اپنی جان لینے کا حق نہیں رکھتا۔ جان کی حرمت یکساں ہے۔ چاہے اپنی ہو یا کسی دوسرے کی۔
شائد ایک استثنا جس میں مریض اس حالت کو پہنچ جائے کہ کوئی شعور برقرار نہ رہے۔ اور اس کا جسم تمام معاملات میں مشین کا محتاج ہو تو وہاں ڈاکٹر کے فیصلے پر مشین ہٹائی جا سکتی ہے کہ مریض کی طبعی موت ہونے دی جائے۔
میری رائے میں وہ موت خودکشی نہیں کہ اس میں مریض کو موت میں کوئی مدد فراہم نہیں کی گئی بلکہ محض مصنوعی مدد ہٹا لی گئی۔
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
میری رائے میں کوئی فرد اپنی جان لینے کا حق نہیں رکھتا۔ جان کی حرمت یکساں ہے۔ چاہے اپنی ہو یا کسی دوسرے کی۔
شائد ایک استثنا جس میں مریض اس حالت کو پہنچ جائے کہ کوئی شعور برقرار نہ رہے۔ اور اس کا جسم تمام معاملات میں مشین کا محتاج ہو تو وہاں ڈاکٹر کے فیصلے پر مشین ہٹائی جا سکتی ہے کہ مریض کی طبعی موت ہونے دی جائے۔
میری رائے میں وہ موت خودکشی نہیں کہ اس میں مریض کو موت میں کوئی مدد فراہم نہیں کی گئی بلکہ محض مصنوعی مدد ہٹا لی گئی۔
میری رائے میں آپ کے استثنائی کیس میں فیصلہ ڈاکٹر کی بجائے مریض کو خود (وقت سے پہلے) کرنا چاہیئے۔ اس کے لئے ایڈوانس ڈائریکٹو یا لِوِنگ وِل کی سہولت موجود ہے۔
 
زیک میرے خیال میں لمحہ لمحہ مرنے سے باوقار انداز سے مرنا بہتر ہے کجا یہ کہ بندہ خود تو تکلیف میں ہے ہی دوسروں کو بھی مسلسل اذیت میں رکھے یہ میری اپنی ذاتی رائے ہے جو کہ غلط بھی ہو سکتی ہے لیکن اگر دوسروں کے حوالہ سے بات کی جائے تو میں انہیں نمبر دو کا مشورہ دوں گا
 

bilal260

محفلین
خبر مل گئی یہ روزنامہ جنگ میں 28 فروری کو شائع ہوئی تھی۔
2014.gif
 

bilal260

محفلین
بہرحال میرے خیال میں ہر شخص کو اپنی زندگی ختم کرنے کا حق ہے۔
خ خ خودکشی۔
آپ کی یہ بات ہر کوئی جانتا ہے اس لئی پاکستان میں خودکشی کی شرح بڑھ رہی ہے۔
مگر حالات سے گھبرا کر بھاگ جانا بہادری نہیں ۔حالات بدل بھی سکتے ہیں اس وقت کچھ ہے تو دوسرے پل کچھ اور ۔
ایپل کے بانی سٹیوو جا ب کو ان ہی کی کمپنی اور انہی کے آفس سے نکا ل دیا گیا تو وہ اس بہت ہی بڑی مصیبت پر ہار مان جاتا اور اگر خود کشی کر لیتا تو کیا ٹھیک تھا۔
اس کا کتنابڑا نقصان ہوا کہ اس نے جس بندے کو اپنے آفس میں رکھا اسی کی وجہ سے اس کو اس کی کمپنی سے نکال دیا گیا ۔
اگر قدرے کمزور دل کا ہوتا تو ہارٹ اٹیک سے مر گیا ہوتا۔
مذہبی نقطہ نظر سے ہر تکلیف پر اجر ہے زیادہ تکلیف پر زیادہ اجر اور یہاں تک کہ بندہ فوت ہو جائے تو ایسا گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے کہ جیسے گناہ کیا ہی نہ ہو اور تکلیف میں مر جانے والے بندے کا بعد کا معاملہ آسان ہوتا ہے اور وہ جنت کا حقدار ٹھہرایا جاتا ہے۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جس کی مرضی سے پیدا ہوئے ہے اس ہی کی مرضی سے مرتے جب وقت مقرر ہوتا لیکن دنیا کی سوچ ہی بدلی جا رہی ہے کہ
"ہر شخص کو اپنی زندگی ختم کرنے کا حق ہے
میں تو آپ کی اس بات سے متفق نہیں ہوں۔
 

bilal260

محفلین
جب جنگ ختم ہوئی کفار سے تو
ایک واقعہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی گئی کہ فلاں بندہ بڑی بہادری سے لڑا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جہنمی ہے۔تو صحابہ کرام علیہ الرضوان بہت حیران ہوئے کہ وہ کیسے تو معلومات کرنے پر پتہ چلا کہ دوران جنگ اس کو بہت زخم آئے تو ان زخموں کی تکلیف برداشت نہ کرتے ہوئے تلوار کا رخ اپنی جانب کیا اور خود کشی کر لی۔
اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب سے بتا یا گیا ہے فلاں جہنمی ہے۔
اتنی شدید تکلیف تھی تو اجر بھی تھا اور مر تو اس نے جانا تھا مگر چند لمحے یا منٹ پہلے ہی خود کشی کر لی اور جہنمیوں میں سے ہوا۔
 

arifkarim

معطل
جب جنگ ختم ہوئی کفار سے تو
ایک واقعہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی گئی کہ فلاں بندہ بڑی بہادری سے لڑا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جہنمی ہے۔تو صحابہ کرام علیہ الرضوان بہت حیران ہوئے کہ وہ کیسے تو معلومات کرنے پر پتہ چلا کہ دوران جنگ اس کو بہت زخم آئے تو ان زخموں کی تکلیف برداشت نہ کرتے ہوئے تلوار کا رخ اپنی جانب کیا اور خود کشی کر لی۔
اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب سے بتا یا گیا ہے فلاں جہنمی ہے۔
اتنی شدید تکلیف تھی تو اجر بھی تھا اور مر تو اس نے جانا تھا مگر چند لمحے یا منٹ پہلے ہی خود کشی کر لی اور جہنمیوں میں سے ہوا۔
محمد وارث شہید کی ایک اور تعریف :)
تڑپ تڑپ کر مرنا ہی اصل شہادت ہے۔ اگر میدان جنگ میں شدید زخمی ہونے کے بعد خودکشی کی یا درد کم کرنے والی ادویات کا استعمال کیا تو جہنمی ہوگا۔
 

bilal260

محفلین
پاکستانی معاشرے میں عدم برداشت کی چند مثالیں۔
یہ بقول زیک
بہرحال میرے خیال میں ہر شخص کو اپنی زندگی ختم کرنے کا حق ہے۔


اس بات کی یعنی خودکشی کی مثالیں۔ ہے اس تھریڈ کا آپشن نمبر تین جس حق کو کوئی بھی انسان کسی بھی وقت استعمال کر سکتا ہے ۔
مگر میں بذات خود اس سے متفق نہیں ہوں۔
 
Top