فاتح صاحب مجھے بھی انتظار رہے گا اس کتاب کو دیکھنے کا اگر شاکر القادری صاحب نے ادھر نطر کرم کی تو۔
ویسے اگر موسیقی پر بنیادی معلومات حاصل کرنا چاہیں تو ایچ اقبال کی کتاب 'ابجدِ موسیقی' بہت اہم اور معلوماتی کتاب ہے اس موضوع پر، اسی مصنف کی دوسری کتاب 'سر سنگ گیت' بھی اچھی کتاب ہے لیکن یہ دراصل مشہور گانوں اور گیتوں کی نوٹیشن پر مشتمل ہے، یعنی ان کی دھن کو ہارمونیم یا کسی اور ساز بھی پر کیسے بجایا جا سکتا ہے۔ دونوں کتب عام ملتی ہیں۔
ایچ اقبال کی 'سر سنگ سنگیت' تو میرے پاس بھی ہے لیکن 'ابجد موسیقی' نہیں ہے۔ شاکر صاحب نے جس کتاب کا تذکرہ فرمایا تھا، ان کے بقول وہ انتہائی نادر اور اس موضوع پر خوبصورت ترین کتاب مانی جاتی ہے۔
میں آج شاکر صاحب سے فون پر پتا کرتا ہوں اس کتاب کے متعلق۔
مجھے بھی بہت خوشی ہوئی یہ تھریڈ دیکھ کر۔
مجھے فرخ صاحب کی بات سے اتفاق ہے کہ خیال کلاسیکی موسیقی کی ایک خالص شکل ہے، لیکن اس سے بھی اوپر شاید دھرپد ہے جو کہ قدیم ترین راگوں کی اقسام دھورا اور پد کے ملاپ سے وجود میں آیا تھا۔ دھرپد کے بعد خیال کا راگوں کی قدیم ترین قسم میں شمار ہوتا ہے۔ خیال کی ایجاد کا سہرہ پندرھویں صدی کے جونپور کے شاہانِ شرقیہ میں سے ایک عظیم موسیقار سلطان حسین شرقی کے سر باندھا جاتا ہے۔ خیال دو حصوں استھائی اور انترہ پر مشتمل ہوتا ہے اور تان، پلٹے، مرکی اور زمزمے سے اساتذہ اس میں قوس و قزح کے رنگ بھر دیتے ہیں۔ دھرپد اور خیال کا بنیادی موضوع حمد اور بھجن کے کچھ بول ہوتے تھے اور آج بھی اس کو ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے۔
اور فرخ صاحب ترانے کے بول لکھ کر کیا سماں باندھ دیا آپ نے میرے ذہن میں ، بہرحال اس موضوع پر جتنی بھی معلومات ملیں کم ہیں۔
بہت شکریہ وارث صاحب یہ بالکل ٹھیک کہا اسے ترانہ کہا جاتا ہے - اور یقینا" خیال سے پہلے دھرپد گائیکی برصغیر میں ہوتی تھی لیکن چونکہ نظامی صاحب نے خیال کے بارے میں پوچھا اس لیے صرف اسی پر اکتفا کیا- دھرپد انگ کی گائیکی اب بھی گائی جاتی ہے لیکن بہت کم - اصل میں خیال دھرپد سے زیادہ خوبصورت ہے اور سننے میں دھرپد سے زیادہ لطف آتا ہے اس لیے اب راگ کی یہی شکل زیادہ گائی جاتی ہے - لیکن وارث صاحب استھائی اور انترہ خیال کے نہیں بلکہ گیت اور غزل کے حصّے ہوتے ہیں - خیال کے تین حصّے ہوتے ہیں - پہلا الاپ دوسرا بلمپت اور تیسرا دھرت - الاپ کا تو سبھی کو پتہ ہوگا "آ آ آ" کی آواز سے الاپ کیا جاتا ہے - دوسرا حصی بلمپت ہے جس میں راگ کو بڑھایا یعنی انگریزی میں اسے improvise کرنا کہا جاتا ہے - اس میں گائک راگ کے تمام ممکنات یعنی possiblities تلاش کرتا ہے اور اسی میں فن کار کی صلاحیتوں کا پتہ چلتا ہے کہ فن کار کس حد تک راگ کو بڑھا سکتا ہے - یہ ایسے ہی ہے جیسے شطرنج کھیلتے وقت کوئی اچھا کھلاڑی تمام امکانات کو مدنظر رکھے - تیسرا اور آخری حصہ دھرت ہوتا ہے جس میں راگ کو سمیٹا جاتا ہے - یہ حصہ بلمپت کے مقابلے میں تیز یعنی فاسٹ ہوتا ہے جبکہ بلمپت سست اور slow ہوتی ہے یعنی ان میں طبلے کی جو تال استعمال ہوتی ہے وہ سست ہوتی ہے جبکہ آخری حصے یعنی دھرت میں طبلے کی تال بہت تیز ہوجاتی ہے - خیال گاتے وقت ایک بہت اہم ساز سارنگی ہوتا ہے - سارنگی پس منظر میں وہی دھرا رہی ہوتی ہے جو گائک یا فن کار گا رہا ہوتا ہے -
میرا خیال ہے کہ الاپ کے ساتھ ساتھ مہدی حسن کو بھی نکال دیا جائے تو زیادہ بہتری ہوگی
بہت شکریہ سخنور، ایک بات تو یہ پتہ چلی کہ خیال راگ کی سب سے خالص شکل ہوتی ہے لیکن خالص سے کیا مراد ہے؟ اور راگ بھی کیا ہوتا ہے؟نظامی صاحب بہت خوشی ہوئی کہ کسی نے اس طرف بھی توجہ کی - اصل میں راگ کی کئی شکلیں ہیں جن میں سے سب سے خالص شکل اور انگریزی میں سب سے pure form کو خیال کہا جاتا ہے - خیال جتنا مجرّد یعنی abstract ہوگا اتنا ہی وہ بہتر خیال ہوگا - جیسے کہا جاتا ہے راگ دیپک میں خیال - راگ میں دوسری light شکل "ٹھمری" کی ہے اور ٹھمری مونث صنف ہے اور دوسری مذکر شکل "دادرا" کہلاتی ہے - اور آخری شکل غزل اور گیت کی ہے - امیر خسرو نے اسی لیے راگ کو مجرد کرنے کے لیے مبہم بول بنائے تھے جیسے - "تنا نی دی نی تان دھین دھین تنا نا نن"
اور "یالی یللا" وغیرہ - مزید وضاحت درکار ہو تو بتائیے گا - بہت شکریہ!
ارے نہیں قیصرانی صاحب
ویسے مہدی حسن کا کلاسیکی موسیقی کے ساتھ کوئی تعلق بھی نہیں ہے وہ تو گیت اور غزل کا گلوکار ہے اور کلاسیکی موسیقی کے استاد تو ٹھمری اور دادرا گانے کو بھی بچوں کا کام سمجھتے تھے کجا گیت اور غزل اور مہدی حسن کی تو میں نے آج تک کوئی ٹھمری بھی نہیں سنی۔ میرے پاس کبھی ایک کیسٹ ہوتی تھی استاد فتح علی خان (پٹیالہ گھرانہ) کی، شاید لوک ورثہ کا کوئی پروگرام تھا اس میں اسنے مہدی حسن کی بہت مٹی پلید کی ہوئی ہے اور بے نقط سنائی ہوئی ہیں۔
استاد فتح علی خاں صاحب کی تو خیر پیشہ ورانہ چپقلش بھی تھی مہدی حسن خاں صاحب سے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ عمومی طور پر خاںصاحب کے گیت اور غزلیات ہی مشہور ہیں اور ان میں بھی راگ درباری کے اثر میں گائی ہوئی ان کی غزلیات زیادہ مشہور ہیں لیکن میرے خیال میں اگر آپ تلاش کریں تو ان کی ٹھمریاں بھی ملیں گی۔ اب یہ عمومی بات ہے کہ فنکار جس وجہ سے مشہور ہوتا ہے وہی اس کی پہچان بن جاتی ہے۔ جیسے میں نے بھی فتح علی خان صاحب کی کب آؤ گے کے سوا کوئی ٹھمری نہیں سُنی اور استاد امانت علی خاں صاحب کی پہچان بھی انشاء جی اٹھو اور اسی طرح کی غزلوں سے زیادہ ہے بہ نسبت ان کی کلاسیکی گائیکی کے۔ وجہ صرف یہ کہ عوام ان فن پاروں سے زیادہ واقف ہیں بہ نسبت کلاسیکی کام کے۔