کلاسیکی موسیقی موسیقی میں خیال

فرخ منظور

لائبریرین
نظامی صاحب بہت خوشی ہوئی کہ کسی نے اس طرف بھی توجہ کی - اصل میں راگ کی کئی شکلیں ہیں جن میں سے سب سے خالص شکل اور انگریزی میں سب سے pure form کو خیال کہا جاتا ہے - خیال جتنا مجرّد یعنی abstract ہوگا اتنا ہی وہ بہتر خیال ہوگا - جیسے کہا جاتا ہے راگ دیپک میں خیال - راگ میں دوسری light شکل "ٹھمری" کی ہے اور ٹھمری مونث صنف ہے اور دوسری مذکر شکل "دادرا" کہلاتی ہے - اور آخری شکل غزل اور گیت کی ہے - امیر خسرو نے اسی لیے راگ کو مجرد کرنے کے لیے مبہم بول بنائے تھے جیسے - "تنا نی دی نی تان دھین دھین تنا نا نن"
اور "یالی یللا" وغیرہ - مزید وضاحت درکار ہو تو بتائیے گا - بہت شکریہ!
 

محمد وارث

لائبریرین
مجھے بھی بہت خوشی ہوئی یہ تھریڈ دیکھ کر۔ :)

مجھے فرخ صاحب کی بات سے اتفاق ہے کہ خیال کلاسیکی موسیقی کی ایک خالص شکل ہے، لیکن اس سے بھی اوپر شاید دھرپد ہے جو کہ قدیم ترین راگوں کی اقسام دھورا اور پد کے ملاپ سے وجود میں آیا تھا۔ دھرپد کے بعد خیال کا راگوں کی قدیم ترین قسم میں شمار ہوتا ہے۔ خیال کی ایجاد کا سہرہ پندرھویں صدی کے جونپور کے شاہانِ شرقیہ میں سے ایک عظیم موسیقار سلطان حسین شرقی کے سر باندھا جاتا ہے۔ خیال دو حصوں استھائی اور انترہ پر مشتمل ہوتا ہے اور تان، پلٹے، مرکی اور زمزمے سے اساتذہ اس میں قوس و قزح کے رنگ بھر دیتے ہیں۔ دھرپد اور خیال کا بنیادی موضوع حمد اور بھجن کے کچھ بول ہوتے تھے اور آج بھی اس کو ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے۔

اور فرخ صاحب ترانے کے بول لکھ کر کیا سماں باندھ دیا آپ نے میرے ذہن میں :)، بہرحال اس موضوع پر جتنی بھی معلومات ملیں کم ہیں۔
 

فاتح

لائبریرین
انتہائی قابل ستائش معلومات مہیا کی ہیں فرخ اور وارث صاحبان آپ نے۔ ایک مرتبہ شاکر القادری صاحب نے ذکر کیا تھا علم موسیقی پر ایک نادر کتاب کا جو ان کی لائبریری میں موجود تھی۔ میں ان سے دوبارہ تقاضا کرتا ہوں کہ اگر ممکن ہو تو اس کی کاپی عنایت فرما دیں تا کہ مجھ جیسے بہتوں کا بھلا ہو۔
 

محمد وارث

لائبریرین
فاتح صاحب مجھے بھی انتظار رہے گا اس کتاب کو دیکھنے کا اگر شاکر القادری صاحب نے ادھر نطر کرم کی تو۔

ویسے اگر موسیقی پر بنیادی معلومات حاصل کرنا چاہیں تو ایچ اقبال کی کتاب 'ابجدِ موسیقی' بہت اہم اور معلوماتی کتاب ہے اس موضوع پر، اسی مصنف کی دوسری کتاب 'سر سنگ گیت' بھی اچھی کتاب ہے لیکن یہ دراصل مشہور گانوں اور گیتوں کی نوٹیشن پر مشتمل ہے، یعنی ان کی دھن کو ہارمونیم یا کسی اور ساز بھی پر کیسے بجایا جا سکتا ہے۔ دونوں کتب عام ملتی ہیں۔
 

فاتح

لائبریرین
فاتح صاحب مجھے بھی انتظار رہے گا اس کتاب کو دیکھنے کا اگر شاکر القادری صاحب نے ادھر نطر کرم کی تو۔

ویسے اگر موسیقی پر بنیادی معلومات حاصل کرنا چاہیں تو ایچ اقبال کی کتاب 'ابجدِ موسیقی' بہت اہم اور معلوماتی کتاب ہے اس موضوع پر، اسی مصنف کی دوسری کتاب 'سر سنگ گیت' بھی اچھی کتاب ہے لیکن یہ دراصل مشہور گانوں اور گیتوں کی نوٹیشن پر مشتمل ہے، یعنی ان کی دھن کو ہارمونیم یا کسی اور ساز بھی پر کیسے بجایا جا سکتا ہے۔ دونوں کتب عام ملتی ہیں۔

ایچ اقبال کی 'سر سنگ سنگیت' تو میرے پاس بھی ہے لیکن 'ابجد موسیقی' نہیں ہے۔ شاکر صاحب نے جس کتاب کا تذکرہ فرمایا تھا، ان کے بقول وہ انتہائی نادر اور اس موضوع پر خوبصورت ترین کتاب مانی جاتی ہے۔

میں آج شاکر صاحب سے فون پر پتا کرتا ہوں اس کتاب کے متعلق۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ایچ اقبال کی 'سر سنگ سنگیت' تو میرے پاس بھی ہے لیکن 'ابجد موسیقی' نہیں ہے۔ شاکر صاحب نے جس کتاب کا تذکرہ فرمایا تھا، ان کے بقول وہ انتہائی نادر اور اس موضوع پر خوبصورت ترین کتاب مانی جاتی ہے۔

میں آج شاکر صاحب سے فون پر پتا کرتا ہوں اس کتاب کے متعلق۔

تو کیا فاتح صاحب کوئی سرگم وغیرہ بھی یاد کی اور ہارمونیم یا الیکڑک آرگن پر ہاتھ بھی کھولے یا فقط مطالعہ ہی کیا ہے۔

شاکر صاحب کے پاس جو کتاب ہے اسکی تفصیلات جاننے کیلیئے بیتاب ہو رہا ہوں۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
مجھے بھی بہت خوشی ہوئی یہ تھریڈ دیکھ کر۔ :)

مجھے فرخ صاحب کی بات سے اتفاق ہے کہ خیال کلاسیکی موسیقی کی ایک خالص شکل ہے، لیکن اس سے بھی اوپر شاید دھرپد ہے جو کہ قدیم ترین راگوں کی اقسام دھورا اور پد کے ملاپ سے وجود میں آیا تھا۔ دھرپد کے بعد خیال کا راگوں کی قدیم ترین قسم میں شمار ہوتا ہے۔ خیال کی ایجاد کا سہرہ پندرھویں صدی کے جونپور کے شاہانِ شرقیہ میں سے ایک عظیم موسیقار سلطان حسین شرقی کے سر باندھا جاتا ہے۔ خیال دو حصوں استھائی اور انترہ پر مشتمل ہوتا ہے اور تان، پلٹے، مرکی اور زمزمے سے اساتذہ اس میں قوس و قزح کے رنگ بھر دیتے ہیں۔ دھرپد اور خیال کا بنیادی موضوع حمد اور بھجن کے کچھ بول ہوتے تھے اور آج بھی اس کو ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے۔

اور فرخ صاحب ترانے کے بول لکھ کر کیا سماں باندھ دیا آپ نے میرے ذہن میں :)، بہرحال اس موضوع پر جتنی بھی معلومات ملیں کم ہیں۔

بہت شکریہ وارث صاحب یہ بالکل ٹھیک کہا اسے ترانہ کہا جاتا ہے - اور یقینا" خیال سے پہلے دھرپد گائیکی برصغیر میں ہوتی تھی لیکن چونکہ نظامی صاحب نے خیال کے بارے میں پوچھا اس لیے صرف اسی پر اکتفا کیا- دھرپد انگ کی گائیکی اب بھی گائی جاتی ہے لیکن بہت کم - اصل میں خیال دھرپد سے زیادہ خوبصورت ہے اور سننے میں دھرپد سے زیادہ لطف آتا ہے اس لیے اب راگ کی یہی شکل زیادہ گائی جاتی ہے - لیکن وارث صاحب استھائی اور انترہ خیال کے نہیں بلکہ گیت اور غزل کے حصّے ہوتے ہیں - خیال کے تین حصّے ہوتے ہیں - پہلا الاپ دوسرا بلمپت اور تیسرا دھرت - الاپ کا تو سبھی کو پتہ ہوگا "آ آ آ" کی آواز سے الاپ کیا جاتا ہے - دوسرا حصی بلمپت ہے جس میں راگ کو بڑھایا یعنی انگریزی میں‌‌‌‌‌ اسے improvise کرنا کہا جاتا ہے - اس میں گائک راگ کے تمام ممکنات یعنی possiblities تلاش کرتا ہے اور اسی میں‌‌ فن کار کی صلاحیتوں‌‌ کا پتہ چلتا ہے کہ فن کار کس حد تک راگ کو بڑھا سکتا ہے - یہ ایسے ہی ہے جیسے شطرنج کھیلتے وقت کوئی اچھا کھلاڑی تمام امکانات کو مدنظر رکھے - تیسرا اور آخری حصہ دھرت ہوتا ہے جس میں راگ کو سمیٹا جاتا ہے - یہ حصہ بلمپت کے مقابلے میں تیز یعنی فاسٹ ہوتا ہے جبکہ بلمپت سست اور slow ہوتی ہے یعنی ان میں طبلے کی جو تال استعمال ہوتی ہے وہ سست ہوتی ہے جبکہ آخری حصے یعنی دھرت میں طبلے کی تال بہت تیز ہوجاتی ہے - خیال گاتے وقت ایک بہت اہم ساز سارنگی ہوتا ہے - سارنگی پس منظر میں وہی دھرا رہی ہوتی ہے جو گائک یا فن کار گا رہا ہوتا ہے -
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت شکریہ وارث صاحب یہ بالکل ٹھیک کہا اسے ترانہ کہا جاتا ہے - اور یقینا" خیال سے پہلے دھرپد گائیکی برصغیر میں ہوتی تھی لیکن چونکہ نظامی صاحب نے خیال کے بارے میں پوچھا اس لیے صرف اسی پر اکتفا کیا- دھرپد انگ کی گائیکی اب بھی گائی جاتی ہے لیکن بہت کم - اصل میں خیال دھرپد سے زیادہ خوبصورت ہے اور سننے میں دھرپد سے زیادہ لطف آتا ہے اس لیے اب راگ کی یہی شکل زیادہ گائی جاتی ہے - لیکن وارث صاحب استھائی اور انترہ خیال کے نہیں بلکہ گیت اور غزل کے حصّے ہوتے ہیں - خیال کے تین حصّے ہوتے ہیں - پہلا الاپ دوسرا بلمپت اور تیسرا دھرت - الاپ کا تو سبھی کو پتہ ہوگا "آ آ آ" کی آواز سے الاپ کیا جاتا ہے - دوسرا حصی بلمپت ہے جس میں راگ کو بڑھایا یعنی انگریزی میں‌‌‌‌‌ اسے improvise کرنا کہا جاتا ہے - اس میں گائک راگ کے تمام ممکنات یعنی possiblities تلاش کرتا ہے اور اسی میں‌‌ فن کار کی صلاحیتوں‌‌ کا پتہ چلتا ہے کہ فن کار کس حد تک راگ کو بڑھا سکتا ہے - یہ ایسے ہی ہے جیسے شطرنج کھیلتے وقت کوئی اچھا کھلاڑی تمام امکانات کو مدنظر رکھے - تیسرا اور آخری حصہ دھرت ہوتا ہے جس میں راگ کو سمیٹا جاتا ہے - یہ حصہ بلمپت کے مقابلے میں تیز یعنی فاسٹ ہوتا ہے جبکہ بلمپت سست اور slow ہوتی ہے یعنی ان میں طبلے کی جو تال استعمال ہوتی ہے وہ سست ہوتی ہے جبکہ آخری حصے یعنی دھرت میں طبلے کی تال بہت تیز ہوجاتی ہے - خیال گاتے وقت ایک بہت اہم ساز سارنگی ہوتا ہے - سارنگی پس منظر میں وہی دھرا رہی ہوتی ہے جو گائک یا فن کار گا رہا ہوتا ہے -


فرخ صاحب میں آپ کا انتہائی شکر گزار ہوں ان خوبصورت اور مفید معلومات کیلیئے، اور مجھے یقین ہے کہ آپ آئندہ بھی ادھر اپنی توجہ کرتے رہیں گے۔

خیال میں استھائی اور انترا والی بات اردو انسئیکلوپیڈیا میں سے دیکھ کر لکھی تھی بلکہ انہوں نے دھرپد کے چار حصے بیان کیئے ہیں، استھائی، انترا، سچائی اور ابھوگ۔

جیسے جیسے یہ فن اور علم کم ہوتا جا رہا ہے ان موضوعات پر ملنی والی معلومات بھی کم ہوتی جا رہی ہیں، نا جانے کیوں ایسی چیزیں کم کم ہی پسند کی جاتی میرا خیال ہے اگر ان راگوں میں سے الاپ نکال دیا جائے تو شاید کچھ افاقہ ہو۔ :)

نوازش آپکی محترم اور ایک بار پھر شکریہ اس پوسٹ کیلیئے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
میرا خیال ہے کہ الاپ کے ساتھ ساتھ مہدی حسن کو بھی نکال دیا جائے تو زیادہ بہتری ہوگی :rolleyes:


ارے نہیں قیصرانی صاحب :)

ویسے مہدی حسن کا کلاسیکی موسیقی کے ساتھ کوئی تعلق بھی نہیں ہے وہ تو گیت اور غزل کا گلوکار ہے اور کلاسیکی موسیقی کے استاد تو ٹھمری اور دادرا گانے کو بھی بچوں کا کام سمجھتے تھے کجا گیت اور غزل اور مہدی حسن کی تو میں نے آج تک کوئی ٹھمری بھی نہیں سنی۔ :) میرے پاس کبھی ایک کیسٹ ہوتی تھی استاد فتح علی خان (پٹیالہ گھرانہ) کی، شاید لوک ورثہ کا کوئی پروگرام تھا اس میں اسنے مہدی حسن کی بہت مٹی پلید کی ہوئی ہے اور بے نقط سنائی ہوئی ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
نظامی صاحب بہت خوشی ہوئی کہ کسی نے اس طرف بھی توجہ کی - اصل میں راگ کی کئی شکلیں ہیں جن میں سے سب سے خالص شکل اور انگریزی میں سب سے pure form کو خیال کہا جاتا ہے - خیال جتنا مجرّد یعنی abstract ہوگا اتنا ہی وہ بہتر خیال ہوگا - جیسے کہا جاتا ہے راگ دیپک میں خیال - راگ میں دوسری light شکل "ٹھمری" کی ہے اور ٹھمری مونث صنف ہے اور دوسری مذکر شکل "دادرا" کہلاتی ہے - اور آخری شکل غزل اور گیت کی ہے - امیر خسرو نے اسی لیے راگ کو مجرد کرنے کے لیے مبہم بول بنائے تھے جیسے - "تنا نی دی نی تان دھین دھین تنا نا نن"
اور "یالی یللا" وغیرہ - مزید وضاحت درکار ہو تو بتائیے گا - بہت شکریہ!
بہت شکریہ سخنور، ایک بات تو یہ پتہ چلی کہ خیال راگ کی سب سے خالص شکل ہوتی ہے لیکن خالص سے کیا مراد ہے؟ اور راگ بھی کیا ہوتا ہے؟
دوسرا خیال کے مجرد ہونے کا کیا مطلب ہے اور تنا نی دی نی تان دھین دھین تنا نا نن کیسے راگ کو مجرد کرتے ہیں؟
ہوسکتا ہے کہ میرے سوالات بہت بچگانہ ہوں لیکن مجھے موسیقی کی الف با بھی نہیں پتہ لہذا یہ سوالات کر رہا ہوں۔:)
 

محمد وارث

لائبریرین
نظامی صاحب موسیقی کے متعلق مجھے کچھ زیادہ علم تو نہیں ہے کہ اس موضوع پر پڑھنے کو بہت کم ملتا ہے اور فن ابھی تک بھی سینہ بسینہ ہی چل رہا ہے (اور اسی وجہ سے شاید کم بھی ہوتا جا رہا ہے) اور اس کو صحیح طور پر سمجھنے کیلیئے اس کی کسی شناسا کی ملاقات بہت ضروری ہے۔

ہماری موسیقی میں سات سر ہیں جسے سرگم کہتے ہیں اور ہر سر کی آواز مختلف ہوتی ہے، ان سروں کی ترتیب و تنظیم اور مہارت سے ساری موسیقی جنم لیتی ہے۔ ان سات سروں کو ایک دفع سیدھا پڑھتے ہیں (سا، رے، گا، ما، پا، دھا، نی) اور ایک دفع الٹا (نی، دھا، پا، ما، گا، رے، سا)۔ اس طرح یہ ایک ترتیب بنتی ہے۔

ان دونوں ترتیبوں میں جو آخری سر ہوتا ہے اسکے فوراً بعد اگلی سرگم کا پہلا سر شروع ہو جاتا ہے جیسے نی کے بعد 'سا' اور الٹی ترتیب میں سا کے بعد پھر نی۔ اس طرح سیٹ بنتے ہیں جس کو سپتک کہتے ہیں، اور کل تین سپتک ہوتے ہیں۔ اسکے بعد ان سات سروں میں سے پانچ کی دو حالتیں ہوتی ہیں ایک کو 'کومل' اور دوسری کو شاید 'ات کومل' کہتے ہیں۔

اب دیکھیں کہ کچھ پیٹرنز بن رہے ہیں پہلے سات سروں کی دو ترتیبیں، پھر ان سروں کی مختلف حالتیں اور پھر سپتک۔ انہی سروں کی ترتیب اور الٹ پھیر بلکہ زیر و بم سے راگ بنتے ہیں اور ہر راگ کی ان سروں میں اپنی علیحدہ ترتیب ہوتی ہے۔ جیسے کسی راگ میں سات سروں استعمال ہوئے کسی میں کم، کسی میں کومل سر اور کسی میں ات کومل، کسی کی سیدھی ترتیب میں کچھ اور الٹی تریتب میں کچھ۔ (جس راگ میں ساتوں سر استعمال ہوتے ہیں اس کو سمپورن کہتے ہیں۔ اور ملتے جلتے راگوں کے گروپ کو ٹھاٹھ کہتے ہیں۔) سروں کی اسی زیر و بم سے کئی ٹھاٹھ اور بے شمار راگ راگنیاں بنتی ہیں۔ سر میں گائی گئی ہر چیز کسی نہ کسی راگ میں ہوتی ہے جسطرح ہر با وزن شعر کسی نہ کسی بحر میں ہوتا ہے۔

موسیقی کا فطرت اور انسان کی نفسیات کے ساتھ بہت گہرا عمل دخل ہے، اس لیے راگوں کو دن اور رات کے مختلف حصوں اور موسموں کے تغیر و تبدل کے مزاج کے ساتھ اور انکا انسان کے مزاج پر ہونے والے اثرات کے ساتھ منطبق کر کے راگ گانے کا وقت اور موسم مقرر کیا جاتا ہے۔ راگوں کو دن رات کے آٹھوں پہر اور چوبیس گھڑیوں کے لحاظ سے تقسیم کیا جاتا ہے اور پھر موسموں کے حوالے سے بھی جیسے راگ 'بسنت' بہار کے ساتھ منسلک ہے، 'ملہار' برسات کے ساتھ۔ بے وقت کی راگنی یہیں سے آئی ہے، ہاں راگنی بھیرویں کے بارے میں، جسکا اصل وقت صبح کا ہے یہ کہتے ہیں کہ اسی کسی وقت بھی الاپا جا سکتا ہے۔ (موسیقی دانوں نے راگوں کو مذکر اور مونث کے لحاظ سے تقسیم کر ڈالا ہے)۔

موسیقار کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ الفاظ کا سہارا لیئے بغیر جس قدر ممکن ہو محض اپنی آواز کے زیر و بم اور اسکے ارتعاش اور اس سے پیدا ہونے والے تاثر اور اس راگ میں جتنی بھی ممکنات ہو سکتی ہیں ان سے شیشے کو توڑ دے اور چراغوں کو آگ لگا دے۔ :) اس قسم کی باتیں افسانہ سہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس تاثر اور زیر و بم سے انسان پر وارفتگی چھا جاتی ہے اور سماں بندھ جاتا ہے اسی لیئے موسیقی کا مطلب بھی ہوا میں گرہ لگانا ہے۔ اور یہی مجرد پن ہے اور موسیقار جب الفاظ کا سہارا لیتے بھی ہیں تو یا تو وہ مبہم اور لا یعنی ہوتے ہیں یا ان کو ادا اسطرح کرتے ہیں کہ صرف 'کن رس' ہی سمجھ سکتے ہیں۔ اسکی وجہ شاید یہ بھی ہوسکتی ہے کہ الفاظ یا اشعار کی صورت میں سامع کی توجہ بجائے موسیقی کے اور موسیقار کے فن کے، شاعری کی طرف چلی جاتی ہے۔

استاد جب فنِ موسیقی کی معراج پر پہنچ جاتا ہے تو پھر راگ اور راگنیاں اختراع کرنا شروع کر دیتا ہے، انہیں اتنا عبور حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ سروں کی نئی نئی ترتیبیں اور پیٹرنز ایجاد کرنا شروع کر دیتے ہیں، جیسے امیر خسرو علیہ الرحمہ کے انہوں نے کئی راگ راگنیاں ایجاد کیں جیسے راگ ایمن، درپن، فرغنہ، منم، قول، قلبانہ، ترانہ، تلانہ وغیرہ وغیرہ۔ انہوں نے کئی ساز بھی ایجاد کیے۔ اسی طرح پندرھویں صدی کے سلطان حسین شرقی اور اکبر کے رتن میاں تان سین، میاں کی ملہار، اور میاں کی ٹوڈی وغیرہ تان سین سے منسوب ہیں۔

ایک بات یہ کہ آپ نے لکھا کہ خیال ایک راگ کا نام ہے، دراصل خیال راگ کا نام نہیں بلکہ گانے کا ایک طریقہ یا طرز ہے اور (شاید) یہ کسی بھی راگ میں گایا جا سکتا ہے۔ اور جتنے بھی گانے کے طریقے ہیں جیسے دھرپد، خیال، ٹھمری، دادرا، غزل، گیت وغیرہ وہ سب کسی نا کسی راگ یا راگنی میں ہی گائے جاتے ہیں۔ جیسے "کو بکو پھیل گئی" غزل، اور "انوکھا لاڈلا کھلن کو مانگے چاند" گیت، راگ درباری میں ترتیب دیے گئے اور گائے گئے ہیں۔
 

خرم

محفلین
ارے نہیں قیصرانی صاحب :)

ویسے مہدی حسن کا کلاسیکی موسیقی کے ساتھ کوئی تعلق بھی نہیں ہے وہ تو گیت اور غزل کا گلوکار ہے اور کلاسیکی موسیقی کے استاد تو ٹھمری اور دادرا گانے کو بھی بچوں کا کام سمجھتے تھے کجا گیت اور غزل اور مہدی حسن کی تو میں نے آج تک کوئی ٹھمری بھی نہیں سنی۔ :) میرے پاس کبھی ایک کیسٹ ہوتی تھی استاد فتح علی خان (پٹیالہ گھرانہ) کی، شاید لوک ورثہ کا کوئی پروگرام تھا اس میں اسنے مہدی حسن کی بہت مٹی پلید کی ہوئی ہے اور بے نقط سنائی ہوئی ہیں۔

استاد فتح علی خاں صاحب کی تو خیر پیشہ ورانہ چپقلش بھی تھی مہدی حسن خاں صاحب سے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ عمومی طور پر خاں‌صاحب کے گیت اور غزلیات ہی مشہور ہیں اور ان میں بھی راگ درباری کے اثر میں گائی ہوئی ان کی غزلیات زیادہ مشہور ہیں لیکن میرے خیال میں اگر آپ تلاش کریں تو ان کی ٹھمریاں بھی ملیں گی۔ اب یہ عمومی بات ہے کہ فنکار جس وجہ سے مشہور ہوتا ہے وہی اس کی پہچان بن جاتی ہے۔ جیسے میں نے بھی فتح علی خان صاحب کی کب آؤ گے کے سوا کوئی ٹھمری نہیں سُنی اور استاد امانت علی خاں صاحب کی پہچان بھی انشاء جی اٹھو اور اسی طرح کی غزلوں سے زیادہ ہے بہ نسبت ان کی کلاسیکی گائیکی کے۔ وجہ صرف یہ کہ عوام ان فن پاروں سے زیادہ واقف ہیں بہ نسبت کلاسیکی کام کے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
استاد فتح علی خاں صاحب کی تو خیر پیشہ ورانہ چپقلش بھی تھی مہدی حسن خاں صاحب سے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ عمومی طور پر خاں‌صاحب کے گیت اور غزلیات ہی مشہور ہیں اور ان میں بھی راگ درباری کے اثر میں گائی ہوئی ان کی غزلیات زیادہ مشہور ہیں لیکن میرے خیال میں اگر آپ تلاش کریں تو ان کی ٹھمریاں بھی ملیں گی۔ اب یہ عمومی بات ہے کہ فنکار جس وجہ سے مشہور ہوتا ہے وہی اس کی پہچان بن جاتی ہے۔ جیسے میں نے بھی فتح علی خان صاحب کی کب آؤ گے کے سوا کوئی ٹھمری نہیں سُنی اور استاد امانت علی خاں صاحب کی پہچان بھی انشاء جی اٹھو اور اسی طرح کی غزلوں سے زیادہ ہے بہ نسبت ان کی کلاسیکی گائیکی کے۔ وجہ صرف یہ کہ عوام ان فن پاروں سے زیادہ واقف ہیں بہ نسبت کلاسیکی کام کے۔


آپ کی سبھی باتیں بہت صائب اور خوب ہیں خرم صاحب اور مجھے ان سے مکمل اتفاق ہے۔ میری پوسٹ کا مقصد مہدی حسن کی تحقیر نہیں تھا بلکہ اساتدہ کا سیمی کلاسیکل اور لائٹ کلاسیکل کے متعلق رویہ ظاہر کرنا تھا، جیسے جب ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے اور مشہور ادیب شاہد احمد دہلوی کو جوش ملیح آبادی نے 'میراثی' ہونے کا طعنہ مارا تھا تو جواباً انہوں نے فرمایا تھا کہ میں اس گھٹیا موسیقی ٹھمری اور دادرے کا گلوکار نہیں ہوں بلکہ خیال گاتا ہوں (شاہد احمد دہلوی ریڈیو پاکستان سے کلاسیکی موسیقی کا پروگرام کرتے تھے اور گاتے بھی تھے)۔ مہدی حسن کا اپنا مقام ہے اور کیا خوب مقام ہے۔

لیکن مرورِ زمانہ سے کلاسیکی موسیقی کے اساتذہ کو گانا پڑھا سیمی کلاسیکل اور لائٹ کلاسیکل میں کہ اور کوئی 'سروائی وَل' کا رستہ نہیں تھا، جیسے پچھلے دنوں ایک گانا بہت مشہور ہوا تھا 'مورا سیاں موسے بولے نا" کسی بینڈ نے گائی اور اسکی ویڈیو بھی ہٹ ہوئی، لیکن معدودے چند ہی نے سنی ہوگئی کہ اصل میں یہ ٹھمری استاد فتح علی خان نے کس خوبصورت انداز سے گائی ہے کہ بس۔
 

خرم

محفلین
چلئے بھائی اب بھی ان کے بھتیجے شفقت امانت علی نے ہی گائی۔ ویسے اب یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ فتح‌علی خان صاحب خود لوگوں کو کہتے ہیں کہ اگر شوق ہے تو آکر سیکھو۔ میرے تئیں تو صرف یہی ایک طریقہ ہے اس فن کی بقا کا کہ اساتذہ اپنے فن کو منتقل کرنے میں کسی قسم کے بخل سے کام نہ لیں۔ باقی شاہد احمد دہلوی مرحوم کی تو کیا بات تھی۔ ان معدودے چند لوگوں میں سے تھے جو تھے تو عطائی لیکن اساتذہ نے اپنے گھرانے کے لوگوں‌کو ان کے پاس تربیت کے لئے بھیجا۔
 

مرزا عباس

محفلین
خیال کے بارے میں جو بھی معلومات وارث صاحب اور سخنور صاحب نے نے دی ہے وہ میرے خیال میں سیرشکم
ہے۔ ان باتوں کو سمجھنے کے لیے پہلے سر کو سمجھنا اور اس کا عملی تجربہ ہونا بہت ضروری
ہے۔تب ہی انسان راگ اور اس کی شکل کو سمجھ سکتا ہے۔اور میں یہ بات اپنے تجربے کی بنا پر کر رہا ہوں‌ کے
موسیقی کو سمجھنے کے لیے صرف کتابیں کام نہیں دیتیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اب جب کہ یہاں اساتذہ کی بات چل نکلی ہے، تو میں نے سوچا کہ فرمائش بھی لکھ ہی دوں۔

دو غزلیں جو کہ میں نے پی ٹی وی پر کبھی سنی تھیں اور یقیناً بہت سے احباب نے سنی ہوں گی، انکی تلاش ہے۔

ایک استاد فتح علی خان کی ہے، دل میں کسی کی یاد چھپائے ایک زمانہ بیت گیا۔

اور دوسری استاد رئیس نے گائی ہے، وہی قصے ہیں وہی بات پرانی اپنی۔

اگر کوئی دوست ان کو ڈھونڈ سکیں تو بقول غالب "حج کا ثواب نذر کروں گا حضور کی"۔ فرخ صاحب اور فاتح صاحب سے اس سلسلے میں خصوصی درخواست ہے۔
 
Top