مولانافضل الرحمان نے حکومت کیخلاف تحریک کو جہاد قرار دیدیا

جاسم محمد

محفلین
مولانافضل الرحمان نے حکومت کیخلاف تحریک کو جہاد قرار دیدیا
mm-news-logo-e1578476324389-24x24.png
ویب ڈیسک
8 hours ago
fazal-ur-rehman.jpg


بہاولپور: امیر جمعیت علماء اسلام اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ پی ڈی ایم میں سیاسی بالغ لوگ ہیں،آئین و قانون کےتحت لڑیں گے،جب تک حکومت ختم نہیں ہوجاتی،عمران خان کےخلاف تحریک جہاد ہے،پیچھے ہٹنا گناہ کبیرہ ہے۔
فضل الرحمان نے بہاولپور میں ریلی کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پی ڈی ایم کی عظیم الشان ریلی میں ہرطرف سےلوگوں نےشرکت کی، ریلی کے شرکاء نے حکومت پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔
پی ڈی ایم آزاد جمہوری ہواؤں کی جدوجہد کررہی ہے،اس عظیم مقصد کیلئے یہ قومی تحریک ہے، پی ڈی ایم کی تحریک جمہوری تحریک ہے،پی ڈی ایم کےاجلاس کےوقت یہ اتحاد ٹوٹنے کاانتظارکررہے تھے،عوام کے نمائندے وہی ہیں جو پی ڈی ایم پلیٹ فارم پر جمع ہیں۔۔
انہوں نے کہا کہ کشمیر کو 3 حصوں میں تقسیم کرنےکافارمولا عمران خان نےپیش کیاتھا،ناکام پالیسی کے نتیجےمیں کشمیریوں کومودی کےظلم و ستم پرچھوڑ دیاہے،بھارت میں کشمیر کےقبضہ کیلئےعمران خان نےکہاتھا کہ مودی کامیاب ہو،عمران خان نے کہا تھا مودی کامیاب ہوا تو کشمیر کا مسئلہ حل ہوجائیگا۔
یہ کشمیر فروش ہیں، 5 فروری کو کشمیریوں سے یکجہتی کا دن منائیں گے، پی ڈی ایم کی سربراہی میں ملک بھر میں کشمیریوں سےیکجہتی کیلئے مظاہرہ کرینگے۔
فضل الرحمان نے کہا کہ فارن فنڈنگ کیس کو الیکشن کمیشن مسلسل ملتوی کررہا ہے، یہ دنیا بھر سے آئے فنڈ کی خوردبرد کا کیس ہے، فارن فنڈنگ میں سب سے زیادہ پیسا اسرائیل سے آیا ہے۔
پی ڈی ایم سربراہ نے کہا کہ ناجائزاورغیرجمہوری حکومت نےمعیشت تباہ کردی ہے،ملک میں سی پیک کا وہی حال ہےجو پشاور میں بی آر ٹی کاہے،افغانستان اور ایران کی معیشت اوپر جارہی ہے، پاکستان کی معیشت ڈوب رہی ہے، یہ ملک عوام کا ہے اور عوام کا راج ہوگا۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہمارا موقف اصول پر ہے، ہم نےاصول کی بات کی ہے، پارٹیاں بیٹھتی ہیں ،مختلف زاویوں سے گفتگو کرتےہیں، ہمارا موقف ایک ہے یہ دھاندلی کی حکومت ہے اسے جانا ہوگا، کبھی ہم کارڈ دکھائیں گے،کبھی چھپائیں گے،تم جلتےرہو گے۔
انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم میں سیاسی بالغ لوگ ہیں،تم بیساکھی پر چلنے والے ہو، تمہیں چلنا بھی نہیں آیا، ان لوگوں نے تبدیلی کو مذاق بنا دیا ہے، حکومت کرنی نہیں آتی،بیان دیا کہ مجھے حکومت چلانی نہیں آتی،مجھے وقت چاہیے۔
مولانافضل الرحمان کا کہنا تھا کہ عمران خان کےخلاف تحریک جہاد ہے،پیچھے ہٹنا گناہ کبیرہ ہے،فارن فنڈنگ کیس پر19جنوری کوالیکشن کمیشن کے سامنے مظاہرہ کریں گے،اس وقت تک لڑیں گےجب تک حکومت کوسمندر میں غرق نہ کردیں،آئین و قانون کےتحت لڑیں گے،جب تک حکومت ختم نہیں ہوجاتی۔
 

سیما علی

لائبریرین
اس واضح مذہبی بیان کے بعد بھی ملک بھر کے دیسی لبرلز بغض عمران میں مولانا فضل کے ساتھ کھڑے ہیں۔
عمران خان کےخلاف تحریک جہاد ہے،پیچھے ہٹنا گناہ کبیرہ ہے۔اس وقت تک لڑیں گےجب تک حکومت کوسمندر میں غرق نہ کردیں۔ مولانا فضل الرحمان
اپوزیشن فوج کے خلاف بیانات بھی دے رہی ہےاور اسے سیاست میںمداخلت کا بھی کہہ رہی ہے، مراد سعید حکومت کرنی نہیں آتی ،تم بیساکھی پر چلنے والے ہو، تمہیں چلنا بھی نہیں آیا۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پی ڈی ایم میں سیاسی بالغ لوگ ہیںکبھی ہم کارڈ دکھائیں گے،کبھی چھپائیں گے،تم جلتےرہو گے،ہمارا موقف ایک ہے یہ دھاندلی کی حکومت ہے اسے جانا ہوگاپارٹیاں بیٹھتی ہیں ،مختلف زاویوں سے گفتگو کرتےہیںہمارا موقف اصول پر ہے، ہم نےاصول کی بات کی ہےیہ ملک عوام کا ہے اور عوام کا راج ہوگا،پاکستان کی معیشت ڈوب رہی ہے، افغانستان اور ایران کی معیشت اوپر جارہی ۔ انکا کہنا تھا کہ ملک میں سی پیک کا وہی حال ہےجو پشاور میں بی آر ٹی کاہے،ناکام پالیسی کے نتیجےمیں کشمیریوں کومودی کےظلم و ستم پرچھوڑ دیاہےکشمیر کو 3 حصوں میں تقسیم کرنےکافارمولا عمران خان نےپیش کیاتھافارن فنڈنگ میں سب سے زیادہ پیسا اسرائیل سے آیا ہےیہ دنیا بھر سے آئے فنڈ کی خوردبرد کا کیس ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فارن فنڈنگ کیس کو الیکشن کمیشن مسلسل ملتوی کررہا ہےعمران خان نے کہا تھا مودی کامیاب ہوا تو کشمیر کا مسئلہ حل ہوجائیگا،بھارت میں کشمیر کےقبضہ کیلئےعمران خان نےکہاتھا کہ مودی کامیاب ہو۔ انکا یہ بھی کہنا تھا کہ پی ڈی ایم کی سربراہی میں ملک بھر میں کشمیریوں سےیکجہتی کیلئے مظاہرہ کرینگےناجائزاورغیرجمہوری حکومت نےمعیشت تباہ کردی ہے،مولانافضل الرحمان۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران خان کےخلاف تحریک جہاد ہے،پیچھے ہٹنا گناہ کبیرہ ہے۔اس وقت تک لڑیں گےجب تک حکومت کوسمندر میں غرق نہ کردیں۔ مولانا فضل الرحمان
اب تو بات ہی ختم گناہ کبیرہ جو کہہ دیا۔۔۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

dxbgraphics

محفلین
اس واضح مذہبی بیان کے بعد بھی ملک بھر کے دیسی لبرلز بغض عمران میں مولانا فضل ۔۔۔ کے ساتھ کھڑے ہیں۔

میرے خیال میں ایک لیڈر کو نیم کالنگ کیساتھ لکھنا محفل کی پالیسی کے خلاف ہے ویسے ہی جیسے میں نے کچھ مراسلوں میں قادیانیوں کو ملعون لکھا تھا جس پر مجھے محفل کی پالیسیوں کو مدنظر رکھ کر اپنے مراسلوں میں ملعون لفظ کو لکھنا ترک کرنا پڑا۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

ثمین زارا

محفلین
مولانافضل الرحمان نے حکومت کیخلاف تحریک کو جہاد قرار دیدیا
mm-news-logo-e1578476324389-24x24.png
ویب ڈیسک
8 hours ago
fazal-ur-rehman.jpg


بہاولپور: امیر جمعیت علماء اسلام اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ پی ڈی ایم میں سیاسی بالغ لوگ ہیں،آئین و قانون کےتحت لڑیں گے،جب تک حکومت ختم نہیں ہوجاتی،عمران خان کےخلاف تحریک جہاد ہے،پیچھے ہٹنا گناہ کبیرہ ہے۔
فضل الرحمان نے بہاولپور میں ریلی کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پی ڈی ایم کی عظیم الشان ریلی میں ہرطرف سےلوگوں نےشرکت کی، ریلی کے شرکاء نے حکومت پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔
پی ڈی ایم آزاد جمہوری ہواؤں کی جدوجہد کررہی ہے،اس عظیم مقصد کیلئے یہ قومی تحریک ہے، پی ڈی ایم کی تحریک جمہوری تحریک ہے،پی ڈی ایم کےاجلاس کےوقت یہ اتحاد ٹوٹنے کاانتظارکررہے تھے،عوام کے نمائندے وہی ہیں جو پی ڈی ایم پلیٹ فارم پر جمع ہیں۔۔
انہوں نے کہا کہ کشمیر کو 3 حصوں میں تقسیم کرنےکافارمولا عمران خان نےپیش کیاتھا،ناکام پالیسی کے نتیجےمیں کشمیریوں کومودی کےظلم و ستم پرچھوڑ دیاہے،بھارت میں کشمیر کےقبضہ کیلئےعمران خان نےکہاتھا کہ مودی کامیاب ہو،عمران خان نے کہا تھا مودی کامیاب ہوا تو کشمیر کا مسئلہ حل ہوجائیگا۔
یہ کشمیر فروش ہیں، 5 فروری کو کشمیریوں سے یکجہتی کا دن منائیں گے، پی ڈی ایم کی سربراہی میں ملک بھر میں کشمیریوں سےیکجہتی کیلئے مظاہرہ کرینگے۔
فضل الرحمان نے کہا کہ فارن فنڈنگ کیس کو الیکشن کمیشن مسلسل ملتوی کررہا ہے، یہ دنیا بھر سے آئے فنڈ کی خوردبرد کا کیس ہے، فارن فنڈنگ میں سب سے زیادہ پیسا اسرائیل سے آیا ہے۔
پی ڈی ایم سربراہ نے کہا کہ ناجائزاورغیرجمہوری حکومت نےمعیشت تباہ کردی ہے،ملک میں سی پیک کا وہی حال ہےجو پشاور میں بی آر ٹی کاہے،افغانستان اور ایران کی معیشت اوپر جارہی ہے، پاکستان کی معیشت ڈوب رہی ہے، یہ ملک عوام کا ہے اور عوام کا راج ہوگا۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہمارا موقف اصول پر ہے، ہم نےاصول کی بات کی ہے، پارٹیاں بیٹھتی ہیں ،مختلف زاویوں سے گفتگو کرتےہیں، ہمارا موقف ایک ہے یہ دھاندلی کی حکومت ہے اسے جانا ہوگا، کبھی ہم کارڈ دکھائیں گے،کبھی چھپائیں گے،تم جلتےرہو گے۔
انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم میں سیاسی بالغ لوگ ہیں،تم بیساکھی پر چلنے والے ہو، تمہیں چلنا بھی نہیں آیا، ان لوگوں نے تبدیلی کو مذاق بنا دیا ہے، حکومت کرنی نہیں آتی،بیان دیا کہ مجھے حکومت چلانی نہیں آتی،مجھے وقت چاہیے۔
مولانافضل الرحمان کا کہنا تھا کہ عمران خان کےخلاف تحریک جہاد ہے،پیچھے ہٹنا گناہ کبیرہ ہے،فارن فنڈنگ کیس پر19جنوری کوالیکشن کمیشن کے سامنے مظاہرہ کریں گے،اس وقت تک لڑیں گےجب تک حکومت کوسمندر میں غرق نہ کردیں،آئین و قانون کےتحت لڑیں گے،جب تک حکومت ختم نہیں ہوجاتی۔

ہند میں حکمتِ دیں کوئی کہاں سے سیکھے
نہ کہیں لذّتِ کردار، نہ افکارِ عمیق
حلقۂ شوق میں وہ جُرأتِ اندیشہ کہاں
آہ محکومی و تقلید و زوالِ تحقیق!
خود بدلتے نہیں، قُرآں کو بدل دیتے ہیں
ہُوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق!
ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب
کہ سِکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق!
 
میرے خیال میں ایک لیڈر کو نیم کالنگ کیساتھ لکھنا محفل کی پالیسی کے خلاف ہے ویسے ہی جیسے میں نے کچھ مراسلوں میں قادیانیوں کو ملعون لکھا تھا جس پر مجھے محفل کی پالیسیوں کو مدنظر رکھ کر اپنے مراسلوں میں ملعون لفظ کو لکھنا ترک کرنا پڑا۔
درست! امید ہے فاضل تبصرہ نگار مستقل میں احتیاط برتیں گے۔ ویسے بھی جواب میں وہ اپنے لیڈر کے کردہ و ناکردہ گناہوں کو ان کے نام کے ساتھ برداشت نہ کرپائیں گے۔
 

شمشاد

لائبریرین
ایک رکن تو عمران یا نیازی کے ساتھ اکثر بھنگی کا لفظ استعمال کرتا ہے۔
بارہا اس بات کو انتظامیہ کے نوٹس میں لایا گیا، اس کے خلاف تو کوئی ایکشن نظر نہیں آیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
مولانا کا بس نہیں چلا رہا کہ کیسے کسی سیٹ پر قابض ہو جائیں اور سرکاری مراعات حاصل کر لسی کی چاٹیاں خالی کریں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ایک رکن تو عمران یا نیازی کے ساتھ اکثر بھنگی کا لفظ استعمال کرتا ہے۔
بارہا اس بات کو انتظامیہ کے نوٹس میں لایا گیا، اس کے خلاف تو کوئی ایکشن نظر نہیں آیا۔
اس پر مزے کی بات یہ شمشاد صاحب کہ ایک ناظم صاحب نے خود ہر جگہ "یوتھ"، "یوتھیوں" کی رٹ لگائی ہوتی ہے۔ ایک جیسے اصول بنا کر سب سے اس پر عمل کروانا چاہیئے اور پہلے خود بھی کرنا چاہیئے۔ :)
 

dxbgraphics

محفلین
مولانا کا بس نہیں چلا رہا کہ کیسے کسی سیٹ پر قابض ہو جائیں اور سرکاری مراعات حاصل کر لسی کی چاٹیاں خالی کریں۔

شمشاد بھائی اسلامی قانون سازی کے حوالے سے جے یو آئی کا کردار سینٹ اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں دیکھا جائے تو دیگر پارٹیوں کی نسبت تسلی بخش ہے۔
 

ثمین زارا

محفلین
ایک رکن تو عمران یا نیازی کے ساتھ اکثر بھنگی کا لفظ استعمال کرتا ہے۔
بارہا اس بات کو انتظامیہ کے نوٹس میں لایا گیا، اس کے خلاف تو کوئی ایکشن نظر نہیں آیا۔
مجھے امید ہے کہ مدیر صاحب عمران خان کی طرح مولانا کی بھی عزت افزائی کرتے ہوئے آپ سے متفق ہوں گے ۔
 

ثمین زارا

محفلین
شمشاد بھائی اسلامی قانون سازی کے حوالے سے جے یو آئی کا کردار سینٹ اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں دیکھا جائے تو دیگر پارٹیوں کی نسبت تسلی بخش ہے۔
تسلی بخش ؟؟صرف قانون سازی سے کام نہیں چلے گا پہلے مولانا اس پر عمل بھی کریں ۔ ایسے عالم بے عمل بننے کا کیا فائدہ ۔ قانون سازی صرف ووٹس بٹورنے کے لیے کی جاتی ہے تاکہ آپ جیسی عوام واہ واہ کریں ۔
 
اس پر مزے کی بات یہ شمشاد صاحب کہ ایک ناظم صاحب نے خود ہر جگہ "یوتھ"، "یوتھیوں" کی رٹ لگائی ہوتی ہے۔ ایک جیسے اصول بنا کر سب سے اس پر عمل کروانا چاہیئے اور پہلے خود بھی کرنا چاہیئے۔ :)
درست فرماتے ہیں آپ۔ آئیندہ خیال رکھیں گے۔
 
ایک رکن تو عمران یا نیازی کے ساتھ اکثر بھنگی کا لفظ استعمال کرتا ہے۔
بارہا اس بات کو انتظامیہ کے نوٹس میں لایا گیا، اس کے خلاف تو کوئی ایکشن نظر نہیں آیا۔
بارہا سے مراد آپ کی ایک مرتبہ ہے جس پر ایکشن لیا گیا۔ پچھلے مراسلوں میں ابھی عمران خان، مولانا فضل الرحمان اور شاید قادیانیوں سے متعلق بھی ایسے قابل اعتراض الفاظ موجود ہوں گے جنہیں رپورٹ کرنے پر ہٹادیا جائے گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
خلیل بھائی ایک بار نہیں، میں نے کچھ نہیں تو تین دفعہ تو مراسلے رپورٹ کیے ہیں۔
اور صاحب مراسلہ کو بھی دو یا تین بار بڑی ہی نرمی سے سمجھایا ہے کہ لفظ "بھنگی" کے بغیر بھی مراسلہ لکھا جا سکتا ہے۔ نیز یہ کہ الفاظ شخصیت کا آئینہ ہوتے ہیں۔
 

dxbgraphics

محفلین
تسلی بخش ؟؟صرف قانون سازی سے کام نہیں چلے گا پہلے مولانا اس پر عمل بھی کریں ۔ ایسے عالم بے عمل بننے کا کیا فائدہ ۔ قانون سازی صرف ووٹس بٹورنے کے لیے کی جاتی ہے تاکہ آپ جیسی عوام واہ واہ کریں ۔

آپ سے سوال ہے کہ اگر کوئی گستاخ رسول کی سزائے موت کو ختم کرنے کے حق میں ووٹ دے ، صحابہ کرام ؓ کے بارے میں ایسی بات کرے جس سے امت مسلمہ کو تکلیف پہنچے، حتیٰ کہ نبی کریم ﷺ کے بارے میں بھی زبان درازی کرے ان کے لئے آپ کا کیا تاثر ہوگا۔ نیز گستاخ رسول کی سزائے موت کو ختم کرنے کے لئے ووٹنگ کرنے والوں کو آپ کیا سمجھتی ہیں۔ اور اس کی مخالفت کرنے والوں کے بارے میں کیا کہتی ہیں آپ۔ نیز اگر کوئی گستاخ رسول کی سزائے موت کو ختم کرنے کے خلاف کھڑا ہوجاتا ہے تو کیا وہ ووٹ بٹورنے کے لئے کرتا ہے کیسے؟؟
نیز جیسا کہ آپ نے کہا کہ قانون سازی کے بعد مولانا فضل الرحمٰن اس پر عمل کرنا ہوگا۔ اس عمل کا کیا طریقہ کار ہوگا۔ ؟؟کیسے عمل کریں گے؟

فروری 2018 میں گستاخ رسول کی سزائے موت کے لئے سینٹ میں سینیٹر نسرین جلیل کی سربراہی میں قائمہ کمیٹی بنی اور اس کمیٹی میں کئی بڑی پارٹیوں نے گستاخ رسول کی سزائے موت کو ختم کرنے کے حق میں ووٹ کیا۔ لیکن جے یو آئی کے مفتی عبدالستار نے نہ صرف اس کو مسترد کیا بلکہ میڈیا ، عوام و دیگر چینل کے ذریعے خطرناک نتائج سے خبردار بھی کیا اور جان پر کھیل کر بھی اس قانون سازی کے خلاف سنگین نتائج سے بھی سینٹ کو آگاہ کیا۔ تو جس کی وجہ سے صرف ایک مفتی کے مسترد کرنے پر بھی اس قائمہ کمیٹی کی ہمت نہیں ہوئی کہ اس کو قانون کا حصہ بناتے۔ تو کیا آپ کے خیال میں یہ (بل مستردکروانا) عملی اقدام نہیں تھا۔ اگر نہیں تھا تو عملی شکل کیا تھی ؟؟ اور کیا عملی کیا جاسکتا تھا؟

شراب نوشی کے خلاف صرف ایم ایم اے کے 14 ممبرز نے حمایت کی جبکہ ریاست مدینہ نے کہا کہ پینے والا ویسے بھی پی لیتا ہے تو عملی طور پر کیا ایم ایم اے کو عملاً شراب نوشی کے اڈوں پر مدارس کے علماء اور طلباء کا حملہ کرواناچاہیئےتھا؟ یا آپ کے خیال میں عملی طور پر شراب نوشی کے خلاف بل پاس کروانے کے لئے کیا اقدامات کئےجاسکتے تھے؟
 

dxbgraphics

محفلین

جو ملک لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر بنا۔ جس کے 1956 کے قرار داد مقاصد میں حاکمیت کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور قانون سازی قرآن و سنت کی روشنی میں درج ہو وہاں مذہبی کارڈ کا نہیں بلکہ بھرپور مذہبی استحقاق کا استعمال ان کا حق ہے۔ ریاست مدینہ مذہبی کارڈ نہیں تھا؟ ریاست مدینہ میں شراب نوشی کے خلاف بل مسترد کرنا 1956 کے قرارداد مقاصد سے غداری نہیں؟ قرآن و سنت کے منافی نہیں؟
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
بلاگ
03 جنوری ، 2021
امتیاز عالم
مولانا تیرا شکریہ!
239633_6928008_updates.jpg

فائل:فوٹو

آصف علی زرداری کیسی ہی شطرنج کی گیم جمائیں، مولانا فضل الرحمٰن ہیں کہ پی ڈی ایم کی مزاحمتی امنگ کا بھرم برقرار رکھے ہوئے ہیں، اُن کے لئے کھونے کو کچھ نہیں تو پیپلز پارٹی اور نون لیگیوں کے لئے کھونے کو اب بھی بہت کچھ ہے۔ دونوں پارٹیاں ضمنی انتخابات ہوں یا سینیٹ کے الیکشن، بائیکاٹ کرنا افورڈ نہیں کرسکتیں، اس بار تو سنا ہے آصف علی زرداری او ر نوازشریف ایک ہی سُرمیں بات کررہے تھے، ضمنی و سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے کی لیکن مولانا کی ہمت اُن کے لئے بڑی نعمت ثابت ہو رہی ہے۔ کوئی ڈرتا ہے تو اُن سے یا پھر اِس بیانیے سے جو دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح چبھا جاتا ہے۔

گو کہ سالِ نو کے آغاز پہ پی ڈی ایم کے ٹھس ہوتے اعلانات سے اس کی تحریک پہ وقتی اوس پڑنی ہی تھی، مولانا کے ایک ہی فقرے نے ٹمی کو سلگائے رکھا ہے۔ لانگ مارچ کی منزل اسلام آباد ہوگی یا راولپنڈی کا غیرمعین عندیہ دے کر اُنہوں نے پاور کے دونوں مراکز میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔

سننے میں آیا ہے کہ ’’اگلوں‘‘ نے کانوں کو انگلیاں لگاتے ہوئے سیاست سے دور رہنے کی یقین دہانی کرائی تھی جس کا احترام کرتے ہوئے مولانا نے رعایت یہ دی کہ کس گیٹ پہ جائیں گے۔ اگلے گیٹ پہ تصادم کا اشارہ اور پچھلے گیٹ سے مصالحت کا عندیہ۔ یہ سیاستدان بڑے ہی کایاں لوگ ہیں۔ عمران خان نے کوئی غلط نہیں کہا کہ دایاں ہاتھ دکھا کر بایاں ہاتھ چلاتے ہیں کہ بیچارہ باؤلر تو ایک ہی ہاتھ سے بال کراتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ بال ٹمپر بھی کر لیتا ہے۔ اور وزیراعظم کی بال تو ہے ہی ٹمپرڈ۔

وہ ٹھیک کہتے ہیں کہ ان کے بس میں ہوتا تو وہ ان سب کو جیلوں میں بند کردیتے، جب یہ بھی بس میں نہ ہو تو کوئی فاشسٹ بننا بھی چاہے تو بنے کیسے۔ ہائے حسرت ہی رہ گئی۔ البتہ کٹھ پتلی ہونے سے انکار کریں بھی تو کیسے کہ سب کچھ دیا تو انہی کا ہے۔ اب ڈریہ ہے کہ جن پتوں پہ تکیہ تھا، وہی ہوا دینا نہ شروع کردیں۔ آخر کوئی کیوں اور کب تک اک گناہ کا خمیازہ صبح شام کی نااہلیوں کے باعث تواتر سے بھگتتا رہے۔ سجیلے جوان تو آنکھوں کا تارہ ہیں اور آنکھوں میں شہتیر آجائیں تو دِکھے گا کیا۔

ہمارے مولانا بھی عجب مخمصے میں پھنسے ہیں، ان کے دونوں بڑے اتحادیوں کا ایک ایک بازو بندھا ہے اور نوابزادہ نصراللہ خان کی سب کو ساتھ لے کر چلنے کی روایت کے اسیربن کے رہ گئے ہیں۔ اکیلا چنا بھاڑ جھونک سکتا ہوتا تو مولانا اپنے پچھلے دھرنے میں لنکا ڈھا چکے ہوتے۔ لہٰذا طوہاً و کرہاً اتحادیوں کو تو ساتھ لینا ہی پڑے گا۔ مولانا کی خوش قسمتی ہے کہ پچھلے گیٹ سے جانے والے مسلم لیگ ن والے تو دونوں بڑے عمران خان نے کمال ہوشیاری سے جیل میں ڈال دیے ہیں اور ان کے ساتھ نوازشریف کی فرماں بردار بیٹی مردانہ وار کھڑی ہے۔ ایسے میں بلاول بھٹو اپنی جمہوریت پسندی کے استدلال سے کیسے پیچھے ہٹ سکتے ہیں۔

دونوں طرح کے کھیل اپوزیشن کی صفوں میں چلتے رہیں گے اور دو طرح کے کھیل اب اسلام آباد اور راولپنڈی کی فضاؤں میں بھی شروع ہوا چاہتے ہیں۔ آخر کوئی کب تک کسی کی نالائقیوں کا دوش لیتا رہے گا، بس اک کندھا اچکنے کی بات ہے یا پھر عمران خان کا ایک غلط قدم ان کی حکومت کو لے بیٹھ سکتا ہے۔ دیکھئے پھر کون کون سے گھوڑے میدان میں اترتے ہیں، لگتا ہے کہ ٹریک ٹو بس ایک ٹرائل غبارہ تھا۔ بھلا ایسے خفیہ سفارت کاری ہوتی ہے؟ یا پھر ایک وارننگ شاٹ تھا۔ اصلی ہاتھ تو بڑوں کی لڑائی میں پھنسے بیچارے خواجہ آصف کے ساتھ ہوا یا پھر پرائم منسٹر ان ویٹنگ شہباز شریف کے ساتھ جو بقول عمران خان اپنے لیپ ٹاپ پر حکومت میں آنے کے آپشنز بناتے بگاڑتے رہ گئے۔

سیاست کی ان پیچ دار گتھیوں سے قطع نظر جو بات پوچھنے کی ہے کہ آخر ایک حکومت کو گرا کر دوسری حکومت لانے کے اس لایعنی کھیل سے نہ آئینی ڈھانچے کے مطابق، سیاسی ڈھانچے کی تشکیلِ نو ہو سکتی ہے اور نہ عوام کی زندگی میں کوئی معنی خیز تبدیلی رونما ہو سکتی ہے۔ ہم کب سے اس بےنتیجہ دبے ثمر کھیل میں زندگیاں گلا بیٹھے ہیں۔ ملک سنبھلا، نہ حکومت سیدھی ہو پائی اور نہ معیشت لوگوں اور مملکت کی ضرورتوں کو پوری کرنے کے قابل ہو سکی۔ کل میاں نواز شریف کہتے کہتے پھر سے جلا وطن ہو گئے کہ مجھے کیوں نکالا تو آنے والے کل میں شاید عمران خان بھی یہ کہتے پائے جائیں گے کہ انہیں این آر او نہ دینے پہ کیوں نکالا گیا۔ جو کچھ مولانا فضل الرحمٰن فرما رہے ہیں کہ اصل مسئلہ نظام کی خرابی کی جڑ کو نکالنے کا ہے۔ یہ کام تو ایک انقلابی ریاستی کا یاپلٹ سے کم نہیں، لیکن اس کے لئے درکار توانائی پی ڈی ایم کے تلوں کے تیل میں نہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ مملکتی، ریاستی، معاشی اور سماجیاتی بحران اور عالمی حالات کے دباؤمیں اب مملکت خداداد کے پاس پرانے نو آبادیاتی شکنجے سے نکلنے کے سوا چارہ باقی نہیں بچا۔

اگر کسی کو سمجھ نہیں تو یہ سمجھانا کسی کو مشکل بھی نہیں بشرطیکہ کوئی سمجھنے کو تیار ہو۔ مارشل لا لگاکے وہ دیکھ چکے۔ سویلین وقفے ادھورے کے ادھورے رہ گئے اور اب کٹھ پتلی نظام بھی بےآبرو ہو چکا۔ تو نیشنل ڈائیلاگ کی بات تو ایجنڈے پہ آنی ہے لیکن سوال ہے کہ کس ایجنڈے پہ؟ بہتر ہوگا کہ پی ڈی ایم آئینی، ریاستی، معاشی اور اداراتی کایا پلٹ کا اکیسویں صدی کی تیسری دہائی کا کوئی متبادل پروگرام پیش کرے اور ایک آزادانہ انتخابات کے ذریعہ ایک قومی مصالحتی حکومت دس برس کے ایجنڈے کے ساتھ بھرپور عوامی تائید سے ملک کی باگ ڈور سنبھالے تاکہ عبورِ دوئم ایک قومی جمہوری، وفاقی اور پائیدار معاشی بنیاد مستحکم کر سکے۔ روز روز کی مارا ماری سے بہتر ہے کہ ملک کو سماجی، عوامی اور معاشی ترقی کی راہ پہ ڈالا جا سکے۔ مولانا نے مسئلے کی نبض پہ تو ہاتھ رکھا ہے لیکن ان کے پاس کوئی متبادل ایجنڈا نہیں ہے۔ وہ ایجنڈا تمام جمہوری جماعتوں، سول سوسائٹی اور عوامی تنظیموں کے اشتراک سے تشکیل پا سکتا ہے۔

یہ کہنا کافی نہیں کہ اصل مسئلہ عمران حکومت نہیں، اصل کام یہ ہے کہ پھر کیا کرنا ہے؟ مولانا تیرا شکریہ کہنے کو دل چاہتا ہے لیکن کرک میں ایک بےآباد مندر کو مولانا کے رفقا کی جانب سے ڈھائے جانے کے بعد ہمت نہیں پڑرہی۔ بھلا ان کے مقتدیوں کو کون سمجھائے کہ اس کا بھارت کے بےزبان مسلمانوں پہ کیا اثر پڑے گا اور کس طرح ہندو توا والے انتہا پسند اسے مسلم کشی کے لئے استعمال کریں گے؟ پھر بھی، مولانا تیرا شکریہ!
 
Top