مولانا عبدالسلام نیازی-آفتاب علم و عرفان

راشد اشرف

محفلین
MaulviAbdusalamNiazi-Title-01.jpg
 
مدیر کی آخری تدوین:

راشد اشرف

محفلین
چند ماہ پیشتر اکتوبر 2013 میں راقم الحروف نے دلی کی عبقری شخصیت مولانا عبدالسلام نیازی مرحوم و مغفور کا تذکرہ یہاں محفل میں کیا تھا۔

ڈاکٹر معین الدین عقیل، عبدالحئی عابد صاحب، سید منصور شاہ, متین منیری صاحب جیسے احباب نے ہمت افزائی بھی کی اور اہم مواد فراہم کیا یا اس کی نشان دہی کی تھی۔

اللہ تعالی نے اس کام میں ایسی برکت عطاء فرمائی کہ مولانا پر مطلوبہ مواد مختلف جگہوں سے دستیاب ہوتا چلا گیا اور ایک موقع پر اردو اکادمی بہاولپور کے مالک اور معروف تحقیق مجلے "الزبیر" کے مدیر ڈاکٹر شاہد رضوی نے مولانا نیازی پر کتاب کی اشاعت کا عندیہ دیا اور خود بھی مدد (سن ستر کی دہائی میں الزبیر میں شائع ہوئے مزید اہم مضامین کی بازیابی) کے لیے آمادہ ہوگئے۔ دریں اثناء راقم کا رابطہ مولانا ابو الاعلی مودودی (رح) کے فرزند حیدر فاروق مودودی صاحب سے ہوا جنہوں مولانا نیزی کی دو انتہائی نادر تصاویر عنایت کیں جنہیں کتاب میں شامل کیا گیا۔ حیدر فاروق مودودی صاحب نے مولانا نیازی کے ہاتھوں اس وقت بیعت کی تھی جب وہ (حیدر فاروق) کم سن تھے۔

مذکورہ کتاب کا عنواان ہے "مولانا عبدالسلام نیازی-آفتاب علم و عرفان"
یہ عنوان حیدر فاروق مودودی صاحب کا تجویز کردہ ہے۔

دلی کے دوست فرحان بیگ نے مولانا نیازی کے مزار کی تلاش کے بعد اس کی تصاویر ارسال کیں۔ اسلام آباد کے حسن نواز شاہ صاحب نے قدم قدم پر رہنمائی فرمائی۔ دسمبر 2013 میں کتاب اشاعت کے لیے تیار تھی جب حسن صاحب کو پرانی کتابوں کے بازار سے عزیز میاں کی سوانح عمری ملی۔ گھر آکر پڑھنا شروع کیا تو ایسی دلچسپی بنی کہ کتاب ختم کیے بنا نہ رہے سکے تھے۔ ایک جگہ عزیز میاں کے دہلی جانے اور مولانا نیازی کے سامنے اکتساب علم کی غرض سے زانوئے تلمذ تہ کرنے کا ازحد دلچسپ احوال موجود تھا سو یہ قصہ بھی کتاب میں شامل کرلیا گیا۔

ڈاکٹر شاہد سے یہ طے پایا تھا کہ جونہی کتاب اشاعت کے لیے جائے گی، اس بات کو مشتہر کردیا جائے گا۔ سو اب یہ کیفیت ہے کہ پندرہ سے بیس روز میں انشاء اللہ کتاب شائع ہوجائے گی۔

کتاب کا سرورق میرے کرم فرما سید معراج جامی صاحب کا تخلیق کردہ ہے جبکہ فلیپ بھی انہوں نے ہی تحریر کیا ہے۔ سرورق، پس ورق اور فلیپ کے لنکس درج کردیے گئے ہیں۔

کتاب میں شامل فہرست مضامین پیش کی جارہی ہے:

ترتیب
۔مولانا عبدالسلام نیازی۔ گفتارِ ہیبت و جلال انجینئر راشد اشرف
۔ دیباچہ ڈاکٹر شاہد حسن رضوی
۔ وادی جمنا سے وادی ہاکڑہ تک مسعود حسن شہاب
۔ مولانا عبدالسلام نیازی دہلوی مسعود حسن شہاب
۔ دلّی کے ایک پڑھے لکھے شخص رزی جے پوری (ستر کی دہائی میں شائع ہوا
۔ مولوی عبدالسلام نیازی سیّد مقصود زاہدی
۔ دلّی جو ایک شہر تھا مُلا واحدی
۔ یاران نجد مقبول جہانگیر
۔ ادب اور ادیب سیّد مودودی کی نظر میں سفیر اختر
۔ انٹرویو حیدر فاروق مودودی
۔ مولانا عبدالسلام دہلوی شاہد احمد دہلوی
۔ مولانا عبدالسلام جوش ملیح آبادی
۔ مولوی عبدالسلام۔ایک جلالی عالم اخلاق احمد دہلوی
۔ مولانا عبدالسلام نیازی نصراللہ خاں
۔ محفلے دیدم حیرت شملوی
۔ مولانا عبدالسلام نیازی خلیق انجم
۔ مقبوضہ ہندوستان (سفرنامہ) سیّد انیس شاہ جیلانی
مولانا عبدالسلام نیازی شاہد احمد دہلوی
۔ عبدالسلام نیازی دہلوی انور سدید
۔ جائزہ خواجہ محمد احمد صمدانی
۔ پھر وہی بیان اپنا اخلاق احمد دہلوی
۔ دلی کی چند یادگار زمانہ ہستیاں عشرت رحمانی
۔ مولانا عبدالسلام نیازی محمد ذکی الدہلوی
۔ مولوی عبدالسلام نیازی سوانح عزیز میاں
۔ چند مکاتیب شرح ۔وحدت الوجود الشہود
 

تلمیذ

لائبریرین
واہ جناب راشد صاحب۔ اس کتاب پر آنکھیں لگی ہوئی تھیں۔ بڑا شاندار اور وقیع کام کیا ہے آپ نے۔ اس نابغہ عصر (بلکہ آپ نے درست کہا ہے، ’عبقری‘ ) کی حیات پر یہ پہلی کتاب ہوگی۔ براہ کرم اشاعت کے بارے میں ہمیں اپ ڈیٹ کرتے رہیے گا۔
جزاک اللہ!
 

نایاب

لائبریرین
بلا شک یہ تذکرہ " علم و عرفاں " ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتظر ۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت شکریہ بہت دعائیں
 

راشد اشرف

محفلین
تلمیذ نایاب نیرنگ خیال فلک شیر یوسف-2
ایک اطلاع ہے، یہ اشتہار کی شکل میں ہے اور میری تیسری کتاب سے متعلق ہے، یہاں درج کررہا ہوں۔ کتاب کے چند ہی نسخے مجھے ملیں گے مگر کب تک، یہ کہنا مشکل ہے۔ میری خواہش ہے کہ آپ احباب اسے ڈاکٹر شاہد رضوی سے منگوا لیں، اگر کوئی دقت نہ ہو تو۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے راشد اشرف کی تیسری کتاب ”مولانا عبدالسلام نیازی۔آفتاب ِعلم و عرفان“ ،اردو اکیڈمی بہاولپور سے شائع ہوگئی ہے۔
مولانا نیازی دلی کی عبقری شخصیت تھے جن پر مختلف مشاہیر ادب کے لکھے مضامین کو کتاب میں یک جا کیا گیا ہے۔
کتاب کا عنوان مولانا ابوالاعلی ٰ مودودی کے فرزند حیدر فاروق مودودی کا تجویز کردہ ہے۔
اردو اکیڈمی کا پتہ یہ ہے:
۳۳ سی، ماڈل ٹاون اے(A)، بہاولپور ۔ فون: 062 2731934
سیل فون نمبر: 0300 9684150 ، ڈاکٹر شاہد رضوی، مدیر الزبیر (اردو اکیڈمی)
ای میل: editor.alzubair@gmail.com
چار سے پانچ روز بعد مذکورہ کتاب کراچی اردو بازار میں ویلکم بک پورٹ اور فضلی سنز سے بھی حاصل
کی جاسکتی ہے۔
قیمت: 400 روپے
۔
 

تلمیذ

لائبریرین
کتاب کی اشاعت کے بارے میں اطلاع دینے کا بے حد شکریہ ، جناب راشد صاحب۔ جزاک اللہ۔
ابھی ابھی فون پر ڈاکٹر شاہد رضوی صاحب سے کتاب اور رسالہ دونوں ارسال کرنے کی گذارش کر دی ہے۔ منی آرڈر صبح کر دوں گا۔
آپ کی اس نئی تالیف کا مجھے بہت انتظار تھا۔
 
آخری تدوین:

نیرنگ خیال

لائبریرین
تلمیذ نایاب نیرنگ خیال فلک شیر یوسف-2
ایک اطلاع ہے، یہ اشتہار کی شکل میں ہے اور میری تیسری کتاب سے متعلق ہے، یہاں درج کررہا ہوں۔ کتاب کے چند ہی نسخے مجھے ملیں گے مگر کب تک، یہ کہنا مشکل ہے۔ میری خواہش ہے کہ آپ احباب اسے ڈاکٹر شاہد رضوی سے منگوا لیں، اگر کوئی دقت نہ ہو تو۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے راشد اشرف کی تیسری کتاب ”مولانا عبدالسلام نیازی۔آفتاب ِعلم و عرفان“ ،اردو اکیڈمی بہاولپور سے شائع ہوگئی ہے۔
مولانا نیازی دلی کی عبقری شخصیت تھے جن پر مختلف مشاہیر ادب کے لکھے مضامین کو کتاب میں یک جا کیا گیا ہے۔
کتاب کا عنوان مولانا ابوالاعلی ٰ مودودی کے فرزند حیدر فاروق مودودی کا تجویز کردہ ہے۔
اردو اکیڈمی کا پتہ یہ ہے:
۳۳ سی، ماڈل ٹاون اے(A)، بہاولپور ۔ فون: 062 2731934
سیل فون نمبر: 0300 9684150 ، ڈاکٹر شاہد رضوی، مدیر الزبیر (اردو اکیڈمی)
ای میل: editor.alzubair@gmail.com
چار سے پانچ روز بعد مذکورہ کتاب کراچی اردو بازار میں ویلکم بک پورٹ اور فضلی سنز سے بھی حاصل
کی جاسکتی ہے۔
قیمت: 400 روپے
۔
بہت ہی خوب راشد بھائی۔۔۔ بہاولپور تو میرے گھر کی طرح ہے۔ اسی ہفتے ہی جانا ہوگا بہاولپور۔ خود وہاں سے اٹھا لاؤں گا۔ بصورت دیگر آپ کا بتایا طریقہ استعمال کرتا ہوں۔
 

راشد اشرف

محفلین
کتاب کی اشاعت کے بارے میں اطلاع دینے کا بے حد شکریہ ، جناب راشد صاحب۔ جزاک اللہ۔
ابھی ابھی فون پر ڈاکٹر شاہد رضوی صاحب سے کتاب اور رسالہ دونوں ارسال کرنے کی گذارش کر دی ہے۔ منی آرڈر صبح کر دوں گا۔
آپ کی اس نئی تالیف کا مجھے بہت انتظار تھا۔

جزاک اللہ جناب
انشاء اللہ دوران مطالعہ آپ بہت محظوظ ہوں گے
 

راشد اشرف

محفلین
بہت ہی خوب راشد بھائی۔۔۔ بہاولپور تو میرے گھر کی طرح ہے۔ اسی ہفتے ہی جانا ہوگا بہاولپور۔ خود وہاں سے اٹھا لاؤں گا۔ بصورت دیگر آپ کا بتایا طریقہ استعمال کرتا ہوں۔

شکریہ بھائی
آپ کا بہاولپور جانا ہوگا تو اچھا ہی ہوگا کہ ڈاکٹر صاحب سے ملاقات بھی ہوجائے گی۔ آُپ کے علم یقینا ہوگا کہ ڈاکٹر شاہد، سید مسعود حسن شہاب دہلوی کے فرزند ہیں۔
 
آخری تدوین:

نیرنگ خیال

لائبریرین
شکریہ بھائی
آپ کا بہاولپور جانا ہوگا تو اچھا ہی ہوگا کہ ڈاکٹر صاحب سے ملاقات بھی ہوجائے گی۔ آُپ کے علم یقینا ہوگا کہ ڈاکٹر شاہد، سید مسعود حسن شہاب دہلوی کے فرزند ہیں۔
نہیں یہ بات میرے علم میں نہیں تھی۔ بہاولپور جانا ہوا تھا۔ لیکن وہاں قیام بےحد مختصر رہا۔ اب کتاب ویسے ہی منگوانے کا سوچ رہا ہوں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
مولوی عبد السلام نیازی دہلوی اپنے دور کے نابغہ ء روزگار شخصیت تھے۔ صفا چٹ داڑھی مونچھ۔ گھٹا تالو ، موٹی سی گردن ، پہلوانوں سا تن و توش ، کھلتی ہوئی شہاب میدہ رنگت ، کسی انگ انگ سے عالمِ اجل دکھائی نہ پڑتے تھے مگر علم و فضل کا یہ عالم کہ ہر مروجہ علم سے وجود باری تعالی ثابت کرتے تھے۔ دنیا جہاں کے علوم گھوٹ پی رکھے تھے۔ متروک ، غیر متروک زبانوں کے عالمِ بے بدل ، حکمت ، دین ، تصوف ، فقہ ، ریاضی ، ہیئت ، تقویم ، تنویم ، موسیقی ، راگ داری ، نجوم ، علم الانسان ، علم الاجسام ، علم البیان ، معقول و منقول ، علم الانساب ، علوم علوی و سفلی ، عروض و معروض ، ایسا کون سا علم تھا جہاں وہ حرفِ آخر نہ تھے۔

وقت کے بڑے بڑے عالم فاضل ، امراء حاکم وقت حاضری پر لرزہ بر اندام رہتے۔ قطعی کسی کا لحاظ روا نہ رکھتے اور جو من میں آتا ، کر گزرتے۔ جو زبان پہ آتا ، کہہ جاتے تھے۔ ہم عصروں میں ابوالکلام آزاد ، جواہر لعل نہرو ، میر عثمان ، سر سید احمد خان ، ظفر علی خان ، سر مسعود اور بہت سے اکابرین تھے جو شرف باریابی کے متمنی رہتے مگر کسی کو در خور اعتناء نہ گردانتے۔ جن خوش نصیبوں سے التفات فرماتے وہ فیض یاب ہو کر لوٹتے۔ مولوی کرامت علی اور خواجہ حسن نظامی سے خوب بنتی تھی۔ مجلہ ریاست کے ایڈیٹر سردار دیوان سنگھ مفتوں ، بیسویں صدی کے مدیر اعلی خوشتر گرامی سے بھی دانت کاٹی تھی ، گو یہ دونوں حضرات غیر مسلم تھے۔

تیلیوں ، میلیوں اور چھوٹے طبقے کے لوگوں سے خوب کھلتے تھے۔ درویش طبع ، ملنگ آدمی تھے۔ نہ کھانے کی ہوش ، نہ پینے کا لپکا۔ دھوتی بنیان میں سردیاں اور گرمیاں کاٹ دیتے۔ لگی بندھی آمدن ۔ نہ بظاہر روزی کا وسیلہ لیکن کوٹھری میں بوریاں اور تھیلے اپلوں کی طرح نوٹوں سے بھرے رہتے۔ آشفتہ مزاج بھی تھے۔ جھٹ پٹ مرنے مارنے پر اتر آتے۔ دشنام طرازی کے موحد و موخر تھے۔ ایسے ایسے سلسلے ملاتے کہ سماعت کو پسینہ آ جاتا۔

بدقسمتی سے یا خوش نصیبی کہ دہلی کے ایک جید عالم مولانا ابصار بلگرامی کہیں مسئلہ وحدت الوجود پہ ان سے بھڑ گئے۔ وہ بھی تو اپنے طور پہ بہت بڑے عالم تھے۔ ہزاروں معتقد ، شاگرد اور مرید اور ادھر مولانا! بھڑوں کا چھتہ ۔ خدا دے اور بندہ لے۔ اسے آڑے ہاتھوں لیا ، کڑک کر کہنے لگے
دو ٹکے کے مولوی! اگر اپنی میا کا دودھ پیا ہے تو آدھا پہر شام کا میرے نام کر دے اور اپنا ٹیڑھا منہ مت کھولنا۔ پھر تو جو فیصلہ کرے ، مجھے قبول ہوگا۔
ایک شاگرد کو بھگایا ، تھوڑی دیر میں ہی ان کا منظور نظر عثمان اور اور اس کا جوڑی دار رمضان حاضر ہو گئے۔ عثمان عارفانہ کلام گاتا تھا ، رمضان اس کا گتیا تھا۔ عثمان کا گلا تھا کہ سرسوتی کا استھان ، مولوی عبد السلام کی نظر خاص نے اس بالشت بھر کے سانولے سے لونڈے کو بڑا قد آور کر دیا ہوا تھا راگ ودیا کے ساگر سے دو چار قطرے اس کے حلق میں ٹپکا دئیے ہوئے تھے۔ اسی وجہ سے سُر سچائی ، سینچائی دونوں برابر براجمان تھیں۔ بچے اجازت پا کر ، راگ ساز درست کرنے بیٹھے تو مولانا ابصار بلگرامی بھڑک اٹھے۔
مولانا! یہ کیا خرافات ہے، آپ ان لونڈوں کو میرے سامنے بٹھا کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ یہ غیر شرعی اہتمام ہے۔۔۔
مولانا بھڑک اٹھے ، سیخ پا ہو کر فرمانے لگے" آپ خاموش بیٹھے رہیں، یہ رموزِ وحدیت اس آسانی سے آپ کی بدھی میں آنے والے نہیں۔۔۔ میں موسیقی کی راہ سے آپ کو راستہ دکھاتا ہوں ۔ ادھر عثمان کو اشارہ کر دیا
جمال مطلق آمد جلوہ آہنگ، مقید گشت یک رنگی بصد رنگ
عثمان نے امیر خسرو کا دامن تصوف پکڑ لیا تھا۔ کلام کا تصوفانہ رنگ ، راگ کی بندش ، سُر کا رچاو ، وقت کی بات ، شعر کی مختلف انداز میں تکرار ۔ جیسے گرہ پر گرہ کھلتی گئی۔ اک اک کر کے تمام حجاب دور ہوتے چلے گئے۔ مولانا ابصار کو جیسے چپ نے نگل لیا۔ منہ کھولے ، آنکھیں پھاڑے عثمان کو دیکھے چلے جا رہے ہیں۔ تن کا ہوش ، نہ من کی خبر۔ سر ایسی لڑی کہ جھٹ سے علم کا سارا لڑکپن رفوچکر ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد داڑھی سینے سے لگ گئی۔ سر ہلنے لگا ، پھر لب ہلے اور جمال مطلق آمد جلوہ آہنگ ۔ مقید گشت یک رنگی بصد رنگ دہراتے ہوئے احباب کے ساتھ سیڑھیاں اتر گئے۔ پھر جب تک قیام سانس و دم رہا ، یہی دہراتے رہے۔


"شب دیدہ" از محمد یحیی خان سے لیا گیا متن
 
آخری تدوین:

راشد اشرف

محفلین
مولوی عبد السلام نیازی دہلوی اپنے دور کے نابغہ ء روزگار شخصیت تھے۔ صفا چٹ داڑھی مونچھ۔ گھٹا تالو ، موٹی سی گردن ، پہلوانوں سا تن و توش ، کھلتی ہوئی شہاب میدہ رنگت ، کسی انگ انگ سے عالمِ اجل دکھائی نہ پڑتے تھے مگر علم و فضل کا یہ عالم کہ ہر مروجہ علم سے وجود باری تعالی ثابت کرتے تھے۔ دنیا جہاں کے علوم گھوٹ پی رکھے تھے۔ متروک ، غیر متروک زبانوں کے عالمِ بے بدل ، حکمت ، دین ، تصوف ، فقہ ، ریاضی ، ہیئت ، تقویم ، تنویم ، موسیقی ، راگ داری ، نجوم ، علم الانسان ، علم الاجسام ، علم البیان ، معقول و منقول ، علم الانساب ، علوم علوی و سفلی ، عروض و معروض ، ایسا کون سا علم تھا جہاں وہ حرفِ آخر نہ تھے۔ وقت کے بڑے بڑے عالم فاضل ، امراء حاکم وقت حاضری پر لرزہ بر اندام رہتے۔ قطعی کسی کا لحاظ روا نہ رکھتے اور جو من میں آتا ، کر گزرتے۔ جو زبان پہ آتا ، کہہ جاتے تھے۔ ہم عصروں میں ابوالکلام آزاد ، جواہر لعل نہرو ، میر عثمان ، سر سید احمد خان ، ظفر علی خان ، سر مسعود اور بہت سے اکابرین تھے جو شرف باریابی کے متمنی رہتے مگر کسی کو در خور اعتناء نہ گردانتے۔ جن خوش نصیبوں سے التفات فرماتے وہ فیض یاب ہو کر لوٹتے۔ مولوی کرامت علی اور خواجہ حسن نظامی سے خوب بنتی تھی۔ مجلہ ریاست کے ایڈیٹر سردار دیوان سنگھ مفتوں ، بیسویں صدی کے مدیر اعلی خوشتر گرامی سے بھی دانت کاٹی تھی ، گو یہ دونوں حضرات غیر مسلم تھے۔ تیلیوں ، میلیوں اور چھوٹے طبقے کے لوگوں سے خوب کھلتے تھے۔ درویش طبع ، ملنگ آدمی تھے۔ نہ کھانے کی ہوش ، نہ پینے کا لپکا۔ دھوتی بنیان میں سردیاں اور گرمیاں کاٹ دیتے۔ لگی بندھی آمدن ۔ نہ بظاہر روزی کا وسیلہ لیکن کوٹھری میں بوریاں اور تھیلے اپلوں کی طرح نوٹوں سے بھرے رہتے۔ آشفتہ مزاج بھی تھے۔ جھٹ پٹ مرنے مارنے پر اتر آتے۔ دشنام طرازی کے موحد و موخر تھے۔ ایسے ایسے سلسلے ملاتے کہ سماعت کو پسینہ آ جاتا۔ بدقسمتی سے یا خوش نصیبی کہ دہلی کے ایک جید عالم مولانا ابصار بلگرامی کہیں مسئلہ وحدت الوجود پہ ان سے بھڑ گئے۔ وہ بھی تو اپنے طور پہ بہت بڑے عالم تھے۔ ہزاروں معتقد ، شاگرد اور مرید اور ادھر مولانا! بھڑوں کا چھتہ ۔ خدا دے اور بندہ لے۔ اسے آڑے ہاتھوں لیا ، کڑک کر کہنے لگے
دو ٹکے کے مولوی! اگر اپنی میا کا دودھ پیا ہے تو آدھا پہر شام کا میرے نام کر دے اور اپنا ٹیڑھا منہ مت کھولنا۔ پھر تو جو فیصلہ کرے ، مجھے قبول ہوگا۔
ایک شاگرد کو بھگایا ، تھوڑی دیر میں ہی ان کا منظور نظر عثمان اور اور اس کا جوڑی دار رمضان حاضر ہو گئے۔ عثمان عارفانہ کلام گاتا تھا ، رمضان اس کا گتیا تھا۔ عثمان کا گلا تھا کہ سرسوتی کا استھان ، مولوی عبد السلام کی نظر خاص نے اس بالشت بھر کے سانولے سے لونڈے کو بڑا قد آور کر دیا ہوا تھا راگ ودیا کے ساگر سے دو چار قطرے اس کے حلق میں ٹپکا دئیے ہوئے تھے۔ اسی وجہ سے سُر سچائی ، سینچائی دونوں برابر براجمان تھیں۔ بچے اجازت پا کر ، راگ ساز درست کرنے بیٹھے تو مولانا ابصار بلگرامی بھڑک اٹھے۔
مولانا! یہ کیا خرافات ہے، آپ ان لونڈوں کو میرے سامنے بٹھا کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ یہ غیر شرعی اہتمام ہے۔۔۔
مولانا بھڑک اٹھے ، سیخ پا ہو کر فرمانے لگے" آپ خاموش بیٹھے رہیں، یہ رموزِ وحدیت اس آسانی سے آپ کی بدھی میں آنے والے نہیں۔۔۔ میں موسیقی کی راہ سے آپ کو راستہ دکھاتا ہوں ۔ ادھر عثمان کو اشارہ کر دیا
جمال مطلق آمد جلوہ آہنگ، مقید گشت یک رنگی بصد رنگ
عثمان نے امیر خسرو کا دامن تصوف پکڑ لیا تھا۔ کلام کا تصوفانہ رنگ ، راگ کی بندش ، سُر کا رچاو ، وقت کی بات ، شعر کی مختلف انداز میں تکرار ۔ جیسے گرہ پر گرہ کھلتی گئی۔ اک اک کر کے تمام حجاب دور ہوتے چلے گئے۔ مولانا ابصار کو جیسے چپ نے نگل لیا۔ منہ کھولے ، آنکھیں پھاڑے عثمان کو دیکھے چلے جا رہے ہیں۔ تن کا ہوش ، نہ من کی خبر۔ سر ایسی لڑی کہ جھٹ سے علم کا سارا لڑکپن رفوچکر ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد داڑھی سینے سے لگ گئی۔ سر ہلنے لگا ، پھر لب ہلے اور جمال مطلق آمد جلوہ آہنگ ۔ مقید گشت یک رنگی بصد رنگ دہراتے ہوئے احباب کے ساتھ سیڑھیاں اتر گئے۔ پھر جب تک قیام سانس و دم رہا ، یہی دہراتے رہے۔

"شب دیدہ" از محمد یحیی خان سے لیا گیا متن

بہت شکریہ
شب دیدہ" کیا مولانا پر لکھے خاکے کا عنوان ہے ؟ یہ کہاں کس کتاب سے لیا گیا ہے ؟
کیا آپ اسے مجھے اسکین کرکے بھیج سکتے ہیں ؟
ای میل ان باکس میں بھیج رہا ہوں
 

بہت شکریہ
شب دیدہ" کیا مولانا پر لکھے خاکے کا عنوان ہے ؟ یہ کہاں کس کتاب سے لیا گیا ہے ؟
کیا آپ اسے مجھے اسکین کرکے بھیج سکتے ہیں ؟
ای میل ان باکس میں بھیج رہا ہوں
شب دیدہ بابا یحیٰ خان کی کتاب کا نام ہے کا فی ضخیم کتاب ہے انکی دوسری کتابوں 'پیا رنگ کالا' اور ؛کاجل کوٹھا کی طرح'۔۔۔ان میں متفرق مضامین ہیں اور حقیقت کو افسانے کے ساتھ مکس کیا گیا ہے
 

الف نظامی

لائبریرین
بہت شکریہ
شب دیدہ" کیا مولانا پر لکھے خاکے کا عنوان ہے ؟ یہ کہاں کس کتاب سے لیا گیا ہے ؟
کیا آپ اسے مجھے اسکین کرکے بھیج سکتے ہیں ؟
ای میل ان باکس میں بھیج رہا ہوں

راشد اشرف صاحب"شب دیدہ "محمد یحیی خان کی لکھی ہوئی کتاب ہے اس میں دو صفحات پر مولانا عبد السلام نیازی کا تذکرہ ہے جو یونی کوڈ کر دیا ہے۔ مزید تفصیل آپ کو ان باکس کر دی ہے۔
 
Top