زیرک
محفلین
مولانا فضل الرحمان کی کھری کھری باتیں
مولانا فضل الرحمان سے مجھے سو اختالافات رہے ہیں لیکن حالیہ دنوں میں انہوں نے بہت سی سچی و کھری باتیں بھی کی ہیں۔ ان کے کچھ حالیہ بیانات، آج کی پریس کانفرنس اور آزادی مارچ سے پہلے کی بیانات، اس کے بعد کے پیدا ہونے والے حالات کا موازنہ کریں گے تو آپ بھی یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ مولانا کی باتوں میں سو فی صد نہ سہی لیکن بہت زیادہ سچائیاں ہیں۔ مولانا کا کہنا تھا کہ عمران خان جیسے ایجنٹ اسی لیے بھیجے جاتے ہیں کہ معاملات بگاڑے جائیں۔ پاکستان سی پیک منصوبے کے افتتاح کی سزا بھگت رہا ہے، امریکا اور اس کے حواری کبھی نہیں چاہیں گے کہ پاکستان ان کے مساوی بن جائے بالخصوص سی پیک کا منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچنے سے روکنے کی تمام کوششیں زوروں پر ہیں۔ پاناما کی آڑ لے کر سی پیک پر کام کرنے والے کو بلا وجہ بدنام کیا گیا۔ نیب کی تحریک اس کے پیچھے اصل ایجنڈا ملک میں عدم استحکام پیدا کرنا ہے اور اسی مقصد کے لیے عمران خان کو اقتدار دیا گیا، چور چور کی رٹ لگا کر کب تک سیاست کی جائے گی، آج یہ حال ہے کہ ملک اقتصادی طور پرتاریخ کی بدترین موڑ پر ہے، حکومتی معاشی ماہرین اور معاشی اداروں کے مطابق ملک کی مالی حالت دو سال مزید بھی مستحکم نہیں ہو گی۔ آپ کروڑوں نوکریاں دینے کا دعویٰ کرتے تھے ناں، آپ کے لاکھوں گریجویٹ نوکریوں کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں، کچھ تو ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ آپ کو میرے مدارس اور میرے طلبہ کی بڑی فکر ہے؟ کبھی کسی مولوی کو دیکھا ہے آپ کے دروازے پر نوکری کے لیے لائن میں کھڑا ہو؟ عمران خان کی حکومت حماقتوں کا مجموعہ ہے، ناکام، ناجائز اور نااہل حکومت کی حماقتوں کی وجہ سے آرمی چیف بھی مذاق بن کر رہ گئے ہیں، موجودہ حکومت اور اسمبلی کو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے اختیار نہیں، اس اسمبلی کو آرمی چیف کی توسیع کی قانون سازی کا حق نہیں دے سکتے ورنہ یہ قانون متنازعہ ہو گا، کیونکہ یہ اسمبلی متنازعہ ہے۔ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں تو ملک میں فوری طور پر نئے شفاف عام انتخابات کراتے ہوئے معاملات ان کے حوالے کیے جائیں گے تاکہ ملک بحرانوں سے نکل سکے۔ پرویز مشرف موجودہ وقت میں فوج کے سربراہ نہیں بلکہ ایک سیاسی پارٹی کے سربراہ ہیں، جو خود ہی کہا کرتے تھے کہ اب وہ سویلین ہیں، مگر اب فوج نے کیوں ان کے خلاف فیصلے کو ادارے کے خلاف فیصلہ سمجھ لیا ہے؟ جس طرح دیگر سیاستدانوں کے خلاف عدالتی فیصلوں کا خیر مقدم کیا جاتا ہے اسی طرح پرویز مشرف کے خلاف فیصلے پر بھی بیانات جاری نہیں کرنے چاہئے، ایسے بیانات اداروں میں ٹکراؤ کی صورتحال پیدا کرتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو، یوسف رضا گیلانی اور نوازشریف کے خلاف عدلیہ کا فیصلہ آتا ہے تو یہ فوج کہتی ہے ہم عدلیہ کے ساتھ کھڑے ہیں، ایک سابق جرنیل کے خلاف فیصلہ آیا تو ساری فوج نے اپنی عزت و وقار کا مسئلہ بنا لیا۔ مشرف کے خلاف فیصلہ عدلیہ نے دیا ہے کسی سیاسی جماعت یا پنچایت نے نہیں، پھر بھی ہنگامہ کھڑا کر دیا گیا ہے۔ سیاستدانوں نے پھانسیاں قید اور نااہلیاں بھی قبول کی ہیں ان کے خلاف جب فیصلہ آتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ عدالت نے انصاف کیا ہے اب اپنی باری بھی تو ہر ایک کو قانون کے نیچے ایک ہونا چاہیے۔ خطے کے حالات سنگین ترین ہیں پھونک پھونک کرقدم رکھنا ہو گا۔ علاقائی سیاست کے تناظر میں حکمت عملی کا فقدان ہے، سلمان بن محمد کے جہاز پر بیٹھ کر اقوام متحدہ کے اجلاس میں جاتا ہے اور کہتا ہے میں ایران اور سعودیہ عرب کے درمیان صلح کراؤں گا، صلح کروانے کے لیے غیر جانبدار ہونا لازمی ہوتا ہے تم سعودیہ کے جہاز میں بیٹھ کر اجلاس میں شرکت کر کے غیر جانبدار کیسے ہو سکتے ہو؟ سعودی عرب کو اعتماد میں لیے بغیر او آئی سی کے ہوتے ہوئے، طیب اردگان اور مہاتیر محمد کے ساتھ بیٹھ کر خود سے فیصلہ کرتا ہے کہ ملائشیا میں ہماری ایک اسلامک کانفرس ہونی چاہیے، اسی لیے امریکہ سے واپسی پر سعودیہ عرب نے ناراض ہو کر امریکہ جہاز واپس بلوا کر اتار لیا تھا۔ سعودیہ کی طرف سے کوالالمپور کانفرنس میں شرکت سے جبری روکا جاتا ہے کیونکہ یہ سب او آئی سی کی منشاء کے خلاف منعقد کی جا رہی تھی۔ان کے اقدامات اسلامی اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے مترادف ہیں، کیونکہ اس کانفرنس کے انعقاد کے بعد ترکی اور سعودیہ کے تعلقات خراب ہو گئے ہیں جبکہ یہ چلے تھے ایران اور سعودیہ کی صلح کروانے، یہ جانے اور سمجھے بغیر کہ امریکا کو یہ بات بالکل بھی پسند نہیں ہے۔ فاٹا کے انضمام پر بھی کہا تھا کہ جبری اظہارکا فیصلہ کسی پاکستانی شہری کو قابل قبول نہیں ہو گا، جس طرح پاکستان نے فاٹا کا انضمام کیا اسی طرح ہندوستان نے کشمیر کا انضمام کیا، حالات یہ ہیں کہ آج پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر کا وزیراعظم کہتا پھرتا ہے کہ شاید وہ آزاد کشمیر کا آخری وزیراعظم ہو، کیا آپ کو کشمیر اور کشمیریوں کے معاملے پر حکمرانوں کی مجرمانہ خموشی دکھائی نہیں دیتی۔