کچھ دن پہلے ڈاکٹر اجمل نیازی نے مولانا فضل الرحمان پرایک مزاحیہ کالم لکھا یہ حسب ذیل ہے۔
کامیاب اداکارہ مسرت شاہین نے بڑے دھڑلے سے اعلان کیا ہے کہ میں مولانا فضل الرحمن کے مقابلے میں الیکشن لڑوں گی اور جیت کے دکھاوں گی۔ میرے خیال میں پچھلے چار برسوں کی سیاست میں یہ سب سے بڑا بیان ہے۔ بھارتی میڈیا فیم فنکارہ وینا ملک اگر یہ اعلان کر دیں کہ وہ رحمن ملک کے خلاف الیکشن لڑیں گی تو اور بھی بہت سی بہادر خواتین سیاستدان نکل آئیں گی جو اس سیاسی بغاوت کی نئی تاریخ لکھیں گی۔ شیری رحمن نے بھی رحمن ملک کے خلاف احتجاجاً استعفیٰ دیا تھا کہ وہ میری وزارت میں مداخلت کرتے ہیں۔ وہ امریکہ میں سفیر نہ بنائی جاتی تو وہ یقینا رحمن ملک کے خلاف الیکشن لڑتی اور جیت جاتی۔ کسی آدمی سے پوچھا گیا کہ رحمن ملک اور وینا ملک کے درمیان اصلی ملک کون ہے۔ اس نے کہا کہ وینا ملک کے بارے میں تو مجھے یقین نہیں ہے البتہ رحمن ملک واقعی ملک صاحب ہیں کہ وہ میرے سامنے ملک بنے ہیں۔ مسرت شاہین بڑی زندہ دل اور دلچسپ خاتون ہیں۔ ملکہ¿ ترنم نورجہاں کے بعد جس عورت کی محفل مزیدار ہوتی ہے وہ مسرت شاہین ہیں۔
وہ مردانہ انداز میں زندگی گزارتی ہیں۔ مولانا صاحب کو ڈر اس کی مردانگی سے لگتا ہے۔ وہ ایسی عورتوں کی دیوانگی سے بھی ڈرتے ہیں۔ مولانا تو ان پٹھان مولویوں میں سے ہیں جو عورتوں کو ووٹ دینے کا حق بھی دینے کیلئے تیار نہیں۔ انہیں خطرہ ہے کہ اگر سب عورتوں نے یہ فتویٰ لے لیا کہ وہ کسی عورت امیدوار کو ووٹ ڈال سکتی ہیں تو مسرت کی جیت یقینی ہے۔ مسرت شاہین نے مفتی صاحب سے بھی رابطہ کر لیا ہے۔ یہ چیلنج عمران کیلئے بھی ہے کہ نوجوان لڑکیوں کیلئے ایک منصوبہ مسرت شاہین نے تیار کر لیا ہے۔ مسرت شاہین کی ایک محفل میں مجھے ٹی وی اینکر برادرم ڈاکٹر محمود لے گئے تھے۔ بہت اچھی گپ شپ بلکہ کھپ شپ رہی مگر ڈاکٹر محمود نے مجھے مسرت شاہین کا انٹرویو کرنے سے منع کر دیا۔ اس کی وجہ وہی جانتے ہیں۔ ڈاکٹر محمود دوستوں کا دوست ہے اور وہ دوستوں کے ارادوں اور منصوبوں سے بھی واقف ہوتا ہے کیونکہ وہ بڑا ماہر ہومیوپیتھک ڈاکٹر بھی ہے۔ تب بھی
مسرت شاہین بہت سرگرم اور مستعد تھی۔ وہ ضمنی الیکشن لڑنا چاہتی تھی۔ اس کی شرط صرف یہ تھی کہ وہ کسی مرد کے مقابلے میں الیکشن لڑیں گی اور یہ بھی چاہتی تھی کہ وہ مولانا ہی ہوں۔
مرحوم بھائی اور بہت عظیم فنکار دلدار بھٹی مسرت شاہین کا بہت قائل تھا اور اس کی رنگا رنگ صلاحیتوں سے بڑا متاثر تھا۔ ایک محفل میں جہاں مستقل وزیر اطلاعات شیخ رشید مہمان خصوصی تھا۔ وہاں مسرت شاہین نے خاص طور پر میری سفارش کرائی کہ دلدار بھٹی میرے بارے میں کوئی ایسا جملہ نہ کہہ دے جس سے شرمندگی اٹھانا پڑے کیونکہ میں ایک سیاستدان بھی ہوں اور مولانا فضل الرحمن کو شکست دینا چاہتی ہوں۔ دلدار نے بڑے ادب سے مسرت شاہین کو بلایا۔ اتنا احترام دیکھ کر ہال میں کسی نے تالی بھی نہ بجائی۔ مگر مسرت مطمئن ہوئی کہ بچت ہو گئی۔ جب وہ ایوارڈ لے کر جانے لگی تو دلدار بھٹی نے کہا یہ تھی مشہور اداکارہ اور سیاستدان مسرت شاہین جو آتے ہوئے اچھی لگ رہی تھی اور جاتے ہوئے تو اور بھی اچھی لگ رہی تھی۔ سارا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔
مولانا فضل الرحمن واقعی مسرت شاہین سے ڈرتے ہیں۔ ایک تو وہ اسلئے پریشان ہیں کہ اب عورتوں نے بھی اپنا نام شاہین رکھنا شروع کر دیا ہے اور یہ علامہ اقبال کی توہین ہے۔ مسرت شاہین کے اعلان کے بعد انہوں نے کہا کہ سیاست میں سے شائستگی ختم ہو چکی ہے۔ عوام کے منتخب نمائندوں کو چور اور ڈاکو کہا جاتا ہے۔ مولانا یہ تو دیکھیں کہ یہ کون کہتا ہے وہی لوگ جن کی چوری ہوتی ہے۔ جن کے گھروں میں ڈاکہ پڑتا ہے۔ ان کیلئے تحریک انصاف کے چیئرمین اور محبوب سیاستدان عمران خان نے کہا کہ نوازشریف نظام اور مولانا فضل الرحمن اسلام کا نعرہ لگا کر صدر زرداری کو سپورٹ کرتے رہے۔ بیسویں ترمیم پر پھر ”مُک مُکا“ ہو رہا ہے۔ یہ ”مُک مُکا“ مولانا نے اور نوازشریف نے اٹھارویں ترمیم پر بھی کیا تھا۔ کرپشن کے سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔ میمو گیٹ پر بڑی سازش ہوئی ہے۔ نوازشریف کالا کوٹ پہن کر وکیل بن کر سپریم کورٹ گئے پھر نجانے کہاں چلے گئے۔ اب امریکہ کے ساتھ صلح صفائی ہو رہی ہے مگر ملک کا صفایا ہو رہا ہے۔
فضل الرحمن نے اسلام بیچ کر جتنا مال بنایا ہے کسی اور نے نہیں بنایا۔ یہ باتیں پہلے عمران نے مولانا کے بارے میں نہیں کہی تھیں۔ یقیناً مسرت شاہین کے اعلان انتخاب کے بعد یہ موقع عمران کو ملا ہے۔ جس طرح جاوید ہاشمی کے آنے کے بعد عمران کی جان میں جان آئی تھی۔ مسرت شاہین کے اس اعلان کے بعد کہ وہ تحریک انصاف میں تحریک مساوات ضم کرنا چاہتی ہے۔ ایک بڑا سنہری موقع ہے۔ یہ اصغر خان کی تحریک استقلال سے بڑا سیاسی واقعہ ہو گا۔ ماں کا انصاف تو یہ ہے کہ جس بچے کے پاس زیادہ ہے۔ اس سے لے لیا جائے اور اسے دے دیا جائے جس کے پاس کم ہے۔ ہمارے ہاں تو الٹا ہو رہا ہے۔ یہاں ان کو دیا جا رہا ہے جن کے پاس بہت زیادہ ہے اور ان سے چھینا جا رہا ہے جن کے پاس کچھ نہیں ہے۔ یاد رہے کہ میں نے مسرت شاہین کو خاں نہیں کہا۔ ایک بات بڑے پتے کی مسرت نے کہی ہے جو عمران سے زیادہ ہارون الرشید کے غور کرنے کی ہے کہ جب تک ملک میں مسادات نہیں ہو گی انصاف نہیں ہو گا۔ عمران انصاف لانا چاہتے ہیں تو مساوات لانا ہو گی اور اس کیلئے تحریک مساوات کی چیئرمین مسرت شاہین کو خوش آمدید کہنا ہو گا۔
اس حوالے سے میری گزارش حفیظ اللہ خان سے بھی ہے کہ وہ جاوید ہاشمی کی طرح مسرت شاہین کیلئے بھی کوشش کریں۔ مسرت نے کہا کہ وہ سو فیصد سیاست کے راز نہیں سیکھ سکیں۔ ننانوے فیصد تو سیکھ چکی ہیں اور ان کا پتہ مولانا فضل الرحمن اور عبدالغفور حیدری کو چل گیا ہے۔ مسرت نے کہا کہ عمران سے میرا الائنس ہو سکتا ہے ورنہ ان کے خلاف بھی مجھے الیکشن لڑنا پڑے گا۔ یہ دھمکی نہیں بلکہ دھماکہ ہے۔ برادرم ہارون الرشید نے چونکہ داڑھی رکھی ہوئی ہے اسلئے انہیں خاص طور پر احتیاط کرنا چاہئے۔
مولانا آج کل بڑے چلے کر رہے ہیں اور اس حرکت کو آج کل عمران کا مقابلہ سمجھا جاتا ہے۔ مولانا کے حواری کہہ رہے ہیں کہ کراچی میں ہمارا جلسہ عمران کے جلسے سے بڑا تھا۔
اگر مسرت شاہین ڈیرہ اسماعیل خاں میں جلسہ کرنے کا اعلان کریں اور عمران خان اس کی صرف تائید کر دیں تو اس کے مقابلے میں مولانا جلسہ نہیں کر سکیں گے بلکہ کریں گے بھی نہیں۔
آخر میں ایک بات یاد آئی جو پنجاب یونیورسٹی کے دانشور بہادر وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران کے اعزاز میں ایک استقبالیہ اکرم چودھری نے دیا تھا۔ ناصر اقبال خاں نے اس کیلئے بہت تعاون کیا۔ وہاں مذہبی پروگرام کے اینکر رفیق احمد بھی تھے۔
مسرت شاہین اور مولانا کا ذکر ہوا تو اوریا مقبول جان نے ایک واقعہ سنایا جو خود انہوں نے مجاہد ملت مولانا عبدالستار خان نیازی سے سنا ہے۔ مولانا نیازی مفتی محمود سے ملنے گئے۔ ایک نوجوان بار بار کمرے میں داخل ہوتا اور مفتی صاحب اسے بھگا دیتے۔ مولانا نیازی نے پوچھ لیا کہ مفتی صاحب یہ نوجوان کون ہے۔ انہوں نے فرمایا یہ میرا بیٹا فضل الرحمن ہے اور یہ پیسے لے کر میرے خلاف مخبری کرتا ہے۔
حوالہ
روزنامہ نوائے وقت