آورکزئی
محفلین
زیادہ ہیں۔ 20 سے 50 ہزار تک ہیں۔
ہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔ جی جی شکریہ۔۔۔۔۔۔۔ پیور یوتھی سول
زیادہ ہیں۔ 20 سے 50 ہزار تک ہیں۔
چلیں آپ بندے رہنے دیں۔ خالی مولانا کی شعلہ بیانیاں انجوائے کریںہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔ جی جی شکریہ۔۔۔۔۔۔۔ پیور یوتھی سول
عوام نے مولانا کو دو حلقوں سے مسترد کیا ہے۔ اب تو اس کی جان چھوڑ دیںعوام جو فیصلہ کریں گے ہمیں اس پر اعتراض نہیں ہوگا۔
پیور یوتھی سول
عوام نے مولانا کو دو حلقوں سے مسترد کیا ہے۔ اب تو اس کی جان چھوڑ دیں
معلوم نہیں کس نے مسترد کیا۔ البتہ جس نے بھی کیا ہے ، بہترین کام کیا ہےعوام نے مسترد کیا ؟؟؟ یا اپکے غفورے اور باجوے نے ؟
دھرنے والے 4 سال تک بیٹھے رہیں، فیصل جاوید
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما و سینیٹر فیصل جاوید کا کہنا ہے کہ اپوزیشن والے کہتے ہیں کہ جب تک عمران خان نہیں جائیں گے تو بیٹھے رہیں گے، ان سے کہتا ہوں کہ آپ لوگ 4 سال تک بیٹھے رہیں۔
ایک بیان میں فیصل جاوید کا کہنا تھا کہ مفاد پرست ٹولہ ایک طرف ہے عمران خان اور عوام ایک طرف ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ سارے اپنی کرپشن بچانے کے لیے اور این آر او لینے کے لیے نکلے ہوئے ہیں۔
فیصل جاوید نے کہا کہ انہیں نہ ہی وزیراعظم کا استعفا ملے گا اور نہ ہی این آر او ملے گا۔
دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما جہانگیر ترین کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے استعفے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اور نہ ہی اس پر کوئی بات ہوسکتی ہے۔
جہانگیرترین نے کہا کہ اپوزیشن کی استعفے سے متعلق ہم بات سننے کو تیار نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ احتجاج انکا حق ہے ہم نے اپوزیشن کو ان کی مرضی کا گراؤنڈ دیا ہے۔
رہنما پاکستان تحریک انصاف نے کہا کہ ہم نے آزادی مارچ کو کہیں نہیں روکا بلکہ انہیں سہولتیں دی ہیں۔
جہانگیر ترین نے کہا کہ ہم نے اپنا معاہدہ پورا کرلیا ہے، اب مولانا فضل الرحمٰن اپنا معاہدہ پورا کریں۔
انہوں نے کہا کہ جوش خطابت میں باتیں آسان ہوتی ہیں اگر تحریری معاہدے پر بھی عمل کریں گے تو بہتر رہے گا۔
ڈیل ہو نہیں رہی، ڈیل ہو گئی ہے!!!مریم نواز شریف کو ضمانت مل گئی اور فضل الرحمٰن صاحب کی آج کی اے پی سی میں نون لیگ کا کوئی لیڈر شریک نہیں ہوا!
ان "لبرل مولویوں" کی منطق بھی عجب تضادات سے بھری ہوئی منطق ہے اور اپنی ناک اونچی رکھنے کے لیے کچھ بھی کہنے کو تیار ہو جاتے ہیں:ڈی چوک"
::::::::::::::::
میں شاید دو چار سال قبل بھی ایک پوسٹ میں پوری صراحت کے ساتھ مثالوں سے سمجھا چکا ہوں کہ سیاست اتنی سادہ نہیں ہوتی جتنی یہ اخبارات یا نیوز چینلز میں نظر آتی ہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے پوری کامیابی کے ساتھ اپنا ایمج لبرل اور اینٹی اسٹیبلیشمنٹ کا بنا رکھا تھا لیکن عملا وہ اس کے بالکل برعکس تھیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال افغان طالبان ہیں۔ یہ محترمہ کے حکم پر منظم کئے گئے ورنہ اس وقت کا آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی ان کے حق میں نہ تھے۔ اب آپ کہیں گے کہ کیا وزیر اعظم کے پاس اتنا اختیار ہوتا ہے کہ آرمی چیف یا ڈی آئی ایس آئی کی رائے سے ہٹ کر قدم اٹھا لے ؟ تو جی ہاں ہوتا ہے۔ کیا محترمہ نے جنرل حمید گل سے مشہور زمانہ ناکام "جلال آباد آپریشن" نہیں کروایا تھا ؟ جنرل گل مسلسل محترمہ کو اپنے حکم پر نظر ثانی کا مشورہ دیتے رہے۔ لیکن جب محترمہ نہ مانیں تو آپریشن کردیا گیا جو ناکام ہو کر جنرل گل کے ہی کھاتے میں چلا گیا۔
اسی طرح ایک اور معاملہ یہ دیکھ لیجئے کہ محترمہ کے دور میں توہین رسالت قانون کے خلاف امریکہ کا دباؤ آیا کہ اسے ختم کیجئے، تو محترمہ نے وزیر قانون اقبال حیدر کو تو اس قانون اور اس کے حمایتیوں کے خلاف سخت زبان استعمال کرنے اشارہ دیدیا تاکہ امریکہ کو تسلی رہے کہ محترمہ ان کا مطالبہ سنجیدگی سے لے رہی ہیں۔ جبکہ دوسری طرف اپنے قابل اعتماد دوست مولانا فضل الرحمن کے ذریعے اس مسئلے پر اپنے ہی خلاف مظاہرے کروا دئے۔ جس کے دوران اسلام اباد والے مظاہرے میں پولیس نے گولی بھی چلا دی۔ در پردہ کیا ہوا تھا اور کیسے ہوا تھا، اسے چھوڑ دیجئے بس اتنا سمجھ لیجئے کہ اس کے فورا بعد محترمہ امریکی سفیر کو یہ کہنے کی پوزیشن میں آگئیں کہ مولوی اس قانون کے لئے جان دینے پر تلے بیٹھے ہیں۔ اب اگلے پانچ دس سال تو اس قانون کو آپ بھول ہی جائیں۔
اب آجائیے کل رات والی تقریر کی جانب. اس تقریر میں مولانا نے یہ واضح کیا ہے کہ ان کا ڈی چوک جانے کا کوئی پروگرام نہیں تو جو بیچارے ایک زبردست "انٹرٹینمنٹ" کی امید لگائے بیٹھے تھے ان کی آرزوئیں تو ہوگئیں قتل۔ اپنی ان مقتولہ آرزوؤں کا انتقام اب وہ مختلف سیاسی جماعتوں پر غصے یا طنز کی صورت لے رہے ہیں۔ بات سیدھی سی ہے کہ اگر آپ واقعی یہ توقع کرکے بیٹھے تھے کہ مولانا فضل الرحمن ڈی چوک جائیں گے تو اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ آپ سیاسی شعور ہی نہیں رکھتے۔ اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ جمہوری نظام میں پارلیمنٹ کی حیثیت اس نظام کے گھر کی ہے۔ جمہوریت پارلیمنٹ میں ہی جنم لیتی ہے، پارلیمنٹ میں ہی رہتی ہے اور پارلیمنٹ سے ہی ملک کے طول عرض میں اپنے ثمرات منتقل کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر جمہوری شخص پارلیمنٹ کے احترام پر عقیدے کی حد تک یقین رکھتا ہے۔ اس کے بالمقابل غیر جمہوری یعنی آمرانہ نظام ہے۔ جس کا مکان ہمارے ہاں راولپنڈی میں واقع ہے اور یہ مکان جی ایچ کیو کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس مکان کے سیاسی عزائم والے مکین پارلیمنٹ سے بے پناہ نفرت کرتے ہیں۔ سو یہ کبھی اس ادارے پر کتے چھوڑ دیتے ہیں اور کبھی اس میں اپنی کٹھ پتلیاں سجا دیتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے بھارت میں ہندو مسجدوں میں سور وغیرہ چھوڑ دیتے ہیں. یہ ہر وہ قدم اٹھاتے ہیں جس سے اس ادارے کی توہین یا تذلیل ہو۔ سو آپ یہ سوچ بھی کیسے سکتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن ڈی چوک جانے کا ارادہ رکھتے تھے ؟ کیا وہ اپنے ہی گھر پر چڑھائی کریں گے ؟ فضل الرحمن کیا پیپلز پارٹی، نون لیگ، اے این پی سمیت جتنی بھی مین سٹریم جماعتیں ہیں ان میں سے کوئی بھی، کبھی بھی ڈی چوک نہیں جائے گا۔ یہ پارلیمٹ پر چڑھائی کرکے سرے سے جمہوری ورکر نہیں رہ سکتے تو کل اسی پارلیمنٹ کی ممبر شپ کے لئے ووٹ کس منہ سے مانگیں گے ؟ ہر بندہ عمران خان کی طرح بے شرم اور بے غیرت تو نہیں ہوتا. ڈی چوک صرف وہی جاسکتے ہیں جو طاہر القادری یا عمران خان کی طرح کٹھ پتلیاں ہوں۔ چلئے آپ سے ایک سادہ سا سوال پوچھتا ہوں۔ کیا آپ نے پچھلے دس پندرہ دن کے دوران ہونے والی میری کسی پوسٹ میں اس سے قبل ڈی چوک کا ذکر تک سنا ہے ؟ میری پوسٹوں میں اس ذکر کی نوبت اسی لئے نہیں آئی کہ بطور سیاسی تجزیہ کار میں ان سے یہ توقع ہی نہیں کرتا کہ وہ ڈی چوک جائیں گے۔ ان کا لانگ مارچ بدستور موجود ہے۔ اور یہ ہم سب نے دیکھنا ہے کہ وہ لے کر کیا جاتے ہیں۔ اس تازہ صورتحال میں فوج سرعام یہ کیسے کہہ سکتی ہے کہ غلطی ہوگئی. غلطی کا احساس انہیں ہے۔ اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ موجودہ حکومت کی کار کردگی سے جی ایچ کیو میں اطمینان کی کیفیت ہے تو آپ غلط سوچ رہے ہیں۔ جرنیل رات چار چار گولیاں لے کر سونے کی کوشش کرتے ہوں گے کیونکہ یہ وہ بھی جانتے ہیں کہ فی الحقیقت عمران نہیں وہ ناکام ہوئے ہیں۔ اور وہ مولانا کے لانگ مارچ سے قبل ہی دونوں بڑی جماعتوں پر واضح کرچکے تھے کہ دسمبر تک صبر کیجئے۔ اور دونوں جماعتیں اس پر ایگری بھی کرچکی ہیں۔ مولانا کو دونوں جماعتوں نے مارچ سے منع کیا تھا کہ آپ ایک طے شدہ معاملہ بگاڑ دیں گے۔ مگر وہ پھر بھی آئے ہیں. اچھا کیا ہے کہ آئے ہیں۔ جنہیں وہ عوامی طاقت دکھانا چاہتے تھے، انہوں نے دیکھ بھی لی اور سمجھ بھی لی۔ اب آگے کے معاملات اسی عوامی طاقت کے زیر اثر آگے بڑھیں گے۔ بیچ میں نکے اور ابے دونوں کو چلتا کرنے کی ایک تجویز آئی۔ مگر مریم نواز نے سعودی سفیر کی توہین کرکے اس سے ضائع کردیا۔ سفیر کی توہین وہ ریاست بھی نہیں کرسکتی جہاں وہ تعینات ہوتا ہے۔ یہاں تو بہت نچلے لیول پر یہ واقعہ ہوگیا ہے۔ اس کے نتائج مریم کے کیریئر پر تو پڑیں گے۔ دیکھتے ہیں کیا پڑتے ہیں !
(رعایت اللہ فاروقی)
اپوزیشن مولانا کو آگے کر کے پتلی گلی سے اسٹیبلیشیہ کے ساتھ ڈیل کر کے نکل گئیدھرنے کے تین ممکنہ نتائج:
1۔ خان صاحب مستعفی ہوں گے۔ جنرل باجوہ مستعفی ہوں گے۔
2۔ خان صاحب مستعفی نہ ہوں گے۔ جنرل باجوہ استعفیٰ دیں گے یا ایکسٹینشن نہ لیں گے۔
3۔ خان صاحب استعفیٰ نہ دیں گے۔ جنرل باجوہ مستعفی نہ ہوں گے۔
اگر کوئی استعفیٰ نہ مل سکا تو مولانا صاحب سچ مچ ہار جائیں گے۔ اصل امتحان مولانا صاحب کا ہی ہے۔ مولانا صاحب کو اصل اشارہ تو وہی جرنیل کریں گے، کہ غالباً جن کے کہنے پر، وہ یہاں تشریف لائے ہیں۔ تاہم، دونوں پارٹیوں کی سیاست زندہ رہے گی، اگر وہ دھرنے میں شریک نہیں ہوتے ہیں۔ خان صاحب کے بچ نکلنے کا امکان زیادہ ہے، تاہم، معاشی چیلنجز ان کے لیے مستقبل میں مسائل کا باعث بنے رہیں گے، بالخصوص، اگر ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے اپنا رُخ اپوزیشن کی طرف پھیر لیا۔ اس صورت میں، اگلے تین سے چھ ماہ میں ان ہاؤس تبدیلی کا امکان ہے۔
1- لبرل مولویان "لبرل مولویوں" کی منطق بھی عجب تضادات سے بھری ہوئی منطق ہے اور اپنی ناک اونچی رکھنے کے لیے کچھ بھی کہنے کو تیار ہو جاتے ہیں:
مثال کے طور پر کبھی یہ فرماتے ہیں کہ پاکستان میں آرمی چیف اور آئی ایس آئی اصل طاقت کے محور ہیں، ہر 'سلیکشن' یہی کرتے ہیں ان کی مرضی کے بغیر پاکستان میں پرندہ بھی پر نہیں مارتا۔ انہوں نے 1988ء کے الیکشن کے بعد بے نظیر کو سمجھوتوں پر مجبور کیا، بے نظیر کو ادھورا اقتدار دیا، بے نظیر سےزبردستی صدر کا عہدہ اور حکومت کی اہم عہدے وزاتیں اسٹیبلشمنٹ کے نمائندوں کو دلوائیں، بے نظیر کو سیکورٹی رسک قرار دیا، بے نظیر کو کبھی کہوٹہ لیبارٹری نہ جانے دیا وغیرہ وغیرہ۔
اور کبھی فرماتے ہیں کہ بے نظیر 1988ء میں اقتدار میں آنے کے بعد چند مہینوں ہی میں اتنی طاقتور تھی کہ زبردستی آئی ایس آئی چیف سے اس کی مخالفت اور مرضی کے بغیر جلال آباد آپریشن کروا دیا۔
اللہ اکبر۔ پتا نہیں انہوں نے جان کس کو دینی ہے!
یہ بات ایسی ہی ہے کہ وہ مولوی بھی ہے اور لبرل بھی ۔ یعنی گرگٹ کی طرح ۔
فاروقی صاحب جس تیقن سے تفصیلات بتا رہے ہیں اور اس پراپنا مقدمہ کھڑا کر رہے ہیں اس سے تو لگتا ہے وہ آئی ایس آئی کے اس جلال آباد آپریشن کو نہ صرف شرح و بسیط کے ساتھ جانتے ہیں بلکہ ہر فیصلے میں شاید وہ خود بھی شامل تھے۔2-بے نظیر مجبور تھی یا قدرت رکھتی تھی
انٹیلی جنس آپریشنز سے متعلقہ معاملات میں کبھی درست بات نہیں بتائی جاتی یعنی سجی دکھا کر کھبی مارنا ، کچھ باتیں بیرونی ممالک کو ایک خاص تاثر دینے کے لیے کی جاتی ہے۔
جنرل مشرف کی امریکیوں سے ڈبل گیم یا جنرل حمید گل کی امریکیوں سے ڈبل گیم اسی کی غماز ہے۔ جس طرح بیرونی ممالک اپنے مفادات کو اولیت دیتے ہیں بعینہ پاکستان بھی مفادات کی گیم کھیلتا ہے۔
یہ استعفے لینے آئے ہیں یا دینے ؟استعفے میرے پاس پڑے ہیں