یہ تو نوشتہ دیوار تھا۔ جب عمران خان بھرپور عوامی قوت کے باوجود نواز شریف حکومت کا بال بیکا نہیں کر سکے تھے تو مولانا جن کو صرف اپنے مدرسوں کی حمایت حاصل ہے وہ کیا کر لیتے؟ رہی سہی کسر ترجمان فوج کے یکے بعد دیگر حکومت حمایتی بیانات نے پوری کر دیآج دھرنا کافی حد تک سُکڑ گیا ہے۔ حکومتی نمائندے کسی حد تک طمانیت کا اظہار کر سکتے ہیں۔
رات ابھی باقی ہے، بات ابھی باقی ہے! بہت کچھ ممکن ہے!یہ تو نوشتہ دیوار تھا۔ جب عمران خان بھرپور عوامی قوت کے باوجود نواز شریف حکومت کا بال بیکا نہیں کر سکے تھے تو مولانا جن کو صرف اپنے مدرسوں کی حمایت حاصل ہے وہ کیا کر لیتے؟ رہی سہی کسر ترجمان فوج کے یکے بعد دیگر حکومت حمایتی بیانات نے پوری کر دی
سب کچھ ختم ہو گیا۔ حکومت اور فوج ابھی بھی ایک پیج پر ہےرات ابھی باقی ہے، بات ابھی باقی ہے! بہت کچھ ممکن ہے!
شاہ اویس نورانی سیکرٹری جنرل جمعیت علمائے اسلام ہرگز نہ ہیں اور اس ٹویٹ میں سے این آر او زور زبردستی کشید کیا گیا معلوم ہوتا ہے۔مبارک ہو۔ سیکرٹری جنرل جمعیت علما اسلام نے عمران خان سے این آر او مانگ لیا۔ کوئی این آر او نہیں ملے گا۔ جتنے مرضی دیر دھرنا کر لیں
متفق۔ وہ جمعیت علما پاکستان کے سیکریٹری جنرل ہیںشاہ اویس نورانی سیکرٹری جنرل جمعیت علمائے اسلام ہرگز نہ ہیں
عوام اور فوج ساتھ ہے۔مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ جب آپ اپوزیشن میں تھے تو تنہا تھے اور آج حکومت میں بھی کوئی ساتھ نہیں
اتنا ضرور ہو گیا ہے کہ اب داخلی و خارجی محاذ پر اگر موجودہ حکومت کچھ 'پیش رفت' دکھانا بھی چاہتی تھی، تو اس کے لیے راہیں مسدود ہو سکتی ہیں۔ اس دھرنے کے باعث دائیں بازو کی جماعتوں کا بیانیہ کھل کر سامنے آ گیا ہے۔ مثال کے طور پر اگر مقتدر قوتیں عالمی دباؤ پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی راہ ہموار کرنا بھی چاہتی تھیں، تو اب شاید یہ نہ ہو پائے گا۔ اسی طرح، ہندوستان سے جب بھی تعلقات بہتر ہوں گے، تو ایک خاص طبقہ اس کی کھل کر مزاحمت کرے گا۔ بعینہ جب مدرسوں میں اصلاحات کی بات ہو گی، تو اس حوالے سے بھی احتجاج کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔ یعنی کہ، سیاپا ہی سیاپا ہے اور وطن عزیز میں، روایتی سیاست کا ہی چلن رہے گا۔ہمیں اشتعال مت دلاؤ ورنہ 24 گھنٹے میں شکست دے دیں گے، مولانا فضل الرحمان
ویب ڈیسک منگل 5 نومبر 2019
موجودہ حکومت نے کشمیر کو بیچا اور آنسو بھی بہا رہی ہے، فضل الرحمان، فوٹو: فائل
اسلام آباد: مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ احتساب کے نام پر انتقام کا ڈرامہ اب مزید نہیں چلے گا، ہمیں اشتعال نہ دلایا جائے ورنہ 24 گھنٹے میں شکست دے دیں گے۔
آزادی مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ آج آزادی مارچ کے ڈی چوک جانے پر اعتراض کیا جارہا ہے، 2014ء میں ڈی چوک پر 126 دن کے دھرنے پر اعتراض کیوں نہیں کیا گیا؟ 126 دن دھرنے کی تصویر دنیا کے لیے دلکش تھی لیکن اس کی بدبو آج بھی محسوس کی جاتی ہے، جب کہ آزادی مارچ نےعوام کی مایوسی کو امید میں بدل دیا ہے مارچ سے اسرائیل اور اس کے ہمنوا پریشان ہیں۔
سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ ہم دھاندلی کے انتخابات کو نہیں مانتے، الیکشن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق 95 فیصد پولنگ اسٹیشنز پر بغیر دستخط کے نتائج دئیے گئے، جب الیکشن کمیشن خود کہہ رہا ہے تو ہم سے نتائج زبردستی کیوں منوائے جارہے ہیں، دوسروں کو چور کہنا اور میڈیا پر رسوا کرنا آسان ہوتا ہے لیکن حقائق چھپائے نہیں جاسکتے، ہم نے لاک ڈاوٴن نہیں کیا، حکومت نے کنٹینر رکھ کر خود لاک ڈاوٴن کردیا، ہم لوگ خطرناک نہیں بلکہ خطرہ راستہ روکنے والے ہیں، ہمیں اشتعال مت دلاوٴ، اگر اشتعال دلاوٴ گے تو شکست دے دیں گے۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ جب آپ اپوزیشن میں تھے تو تنہا تھے اور آج حکومت میں بھی کوئی ساتھ نہیں، آج ہم داخلی محاذ پر غیرمستحکم اور خارجہ محاذ پر بھی تنہائی کا شکار ہیں، افغانستان، ایران سمیت خطے کے ممالک آپ سے ناراض ہیں، موجودہ حکومت نے سی پیک کے تحت کی گئی چینی سرمایہ کاری کو بھی غارت کیا، چین بھی آپ پراعتماد کرنےکو تیار نہیں اور پاکستان میں مزید سرمایہ کاری نہیں کرناچاہتا۔
سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ حکومت کی ناکام پالیسیوں کے باعث آج لاکھوں لوگ بے روزگار ہو گئے، آج بھی بجلی 2 روپے مہنگی کردی گئی، گیس اور پٹرول کی قیمتیں بھی آسمانوں پر پہنچ گئیں، یومیہ بنیاد پر قرضوں میں اضافہ ہورہا ہے، بلوچستان وسائل سے مالامال ہے لیکن وہاں کے لوگوں کو اس پر اختیار نہیں، تھر میں کوئلے کے وسیع ذخائر ہیں لیکن تھری بھوک سے مر رہے ہیں، زراعت کا دارومدار پنجاب کی سرزمین پر ہے لیکن آج دریاؤں پر بھارت نے قبضہ کر رکھا ہے۔
فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے کشمیر کو بیچا اور آنسو بھی بہا رہی ہے، ملک کے اندر اپنے دشمن بننے سے کشمیر کاز پیچھے چلا گیا، جب تک کشمیر کمیٹی میرے ہاتھ میں تھی کوئی مائی کا لعل کچھ نہیں بگاڑ سکا، آج پاکستان میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں ہورہی ہیں کب تک حقائق چھپاوَ گے؟ جس چیز کو آپ احتساب کہتے ہیں اس سے ہر شخص خوف محسوس کررہا ہے، نیب احتساب کی وجہ سے کوئی بیورو کریٹ فائلوں پر دستخط کرنے کے لیے تیار نہیں، لیکن اب انتقام کے نام پر احتساب کا ڈرامہ مزید نہیں چلےگا۔
متفق۔ پاکستان وہ کھٹارا گاڑی ہے جس کا ایک دروازہ ٹھیک کرنے کے بعد بند کریں تو دوسرا اپنے آپ کھل جاتا ہےیعنی کہ، سیاپا ہی سیاپا ہے اور وطن عزیز میں، روایتی سیاست کا ہی چلن رہے گا۔
پاکستان کو درپیش یہ تمام اہم مسائل روایتی جمہوریت "افہام و تفہیم، مک مکا، نورا کشتی" وغیرہ سے حل نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ عملی طور پر ملک میں جمہوریت نہیں ہے۔ زیر اقتدار سیاسی قیادت بیشک دو تہائی اکثریت لے کر آئی ہو۔ الیکشن وعدوں کے مطابق اپنا سیاسی ایجنڈا نافذ کرتے وقت عملی قوت ہمیشہ مسترد شدہ اپوزیشن جماعتوں کے پاس نظر آتی ہے۔ اور یوں روایتی جمہوریت، افہام و تفہیم، مک مکا کے بعد ضروری اصلاحات، ریفارمز دوبارہ سرد خانے میں دھکیل دئے جاتے ہیں۔اس دھرنے کے باعث دائیں بازو کی جماعتوں کا بیانیہ کھل کر سامنے آ گیا ہے۔ مثال کے طور پر اگر مقتدر قوتیں عالمی دباؤ پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی راہ ہموار کرنا بھی چاہتی تھیں، تو اب شاید یہ نہ ہو پائے گا۔ اسی طرح، ہندوستان سے جب بھی تعلقات بہتر ہوں گے، تو ایک خاص طبقہ اس کی کھل کر مزاحمت کرے گا۔ بعینہ جب مدرسوں میں اصلاحات کی بات ہو گی، تو اس حوالے سے بھی احتجاج کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔
ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو اب فوری طور پر نکال باہر نہیں کیا جا سکتا ہے وگرنہ زیادہ تر معاملات تو فوج کو سیاسی معاملات سے الگ رکھ کر بآسانی حل ہو سکتے تھے۔ یہاں جو کچھ ہوتا ہے، اکثر و بیشتر ان کے اشارے پر ہی ہوتا ہے تاہم جب ان کو کُلی اختیار مل جائے تو یہ مدد کے لیے شجاعت و پرویز الٰہی جیسوں کا سہارا ڈھونڈ کر ملک کو مزید کمزور کر دیتے ہیں۔ اب جو کھچڑی بن گئی ہے، یہ ملک اس میں سے شاید دس پندرہ سال باہر نہیں نکل سکتا۔ پارلیمان بہت بڑا فورم ہے تاہم اس میں جو نمائندگان آتے ہیں، اُن کا حال ہمارے سامنے ہے۔ انتخابی اصلاحات درست نیت سے ہوں تو یہ بھی فی الوقت بہت بڑا معرکہ ہو گا۔ یہاں کوئی بڑا فلٹر (صادق و امین سے ہٹ کر) لگانا ہو گا۔ جو نمائندہ سامنے آئے، اُسے کم از کم آئین و قانون کی شد بد تو ہو۔اگر ملک کی بے سمتی کو درست کرنا ہے تو اسے جمہوریت سے نہیں ڈنڈے سے ٹھیک کریں۔ جمہوریت میں آپ وہ مشکل فیصلے نہیں لے سکتے جو تمام اسٹیک ہولڈرز کو قابل قبول ہوں۔