شطرنج میں کپتان نہیں ہوتا
15/11/2019 شازار جیلانی
شطرنج شاہی کھیل ہے۔ کیونکہ اس میں بادشاہ، ملکہ، وزیر، فیل اور پیادے ہوتے ہیں۔ اس کو کھیلنے والے ابتدائی کھلاڑی بھی بادشاہ ہوتے تھے۔ شطرنج کا اصل بادشاہ کھیل کے میدان میں کھڑا بادشاہ نہیں، بلکہ اصل بادشاہ وہ کھلاڑی ہوتا ہے، جو شطرنج کے بادشاہ کو اپنی مرضی کے مطابق ایک مہرے کے طور پر اگے پیچھے چلاتا اور استعمال کرتا ہے۔ شطرنج کا بادشاہ پلاسٹک کا بنا ہو، سنگ مرمر کا، ہاتھی دانت کا، کسی دھات کا یا اپنے زعم میں کسی کی ضرورت کا، کبھی اپنے آپ کو حقیقی بادشاہ نہیں سمجھتا بلکہ کھلاڑی کے اشارے کا منتظر ہوتا ہے۔ کیونکہ ہار جیت کی ذمہ داری شطرنج کے بادشاہ کی نہیں ہوتی تو اختیار کیسے اس کا ہو سکتا ہے۔ ہاں جب تک کھلاڑی کی مرضی ہوتی ہے۔ شطرنج کا بادشاہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھتا ہے۔ اس کے آگے پیادے دائیں بائیں وزیر اور ملکہ اور جلو میں فیل اور برج ہوتے ہیں۔
شطرنج قدیم کھیل ہے راج نیتی میں تبدیلیاں ائیں، بادشاہوں کی جگہ صدر اور وزیراعظم آئے، تو بادشاہ گردوں نے شطرنج کے شاہی کھیل کو مزید پیچیدہ شکل دے کر وار گیمز میں تبدیل کردیا۔ وار گیمز صفحہ ہستی سے مٹی ہوئی ریاست پروشیا سے شروع ہوئی۔ گراف ہلمت وون مولٹک کو جدید فرضی وار گیمز کا باوا آدم کہا جاتا ہے۔ اگر چہ وہ خود وارگیم کریگ سپییل کا موجد نہیں تھا۔ جب وہ پروشئین آرمی میں نوجوان افسر تھا تو اس کھیل سے کافی متاثر ہوا تھا۔ اس لیے جب وہ چیف آف سٹاف بنتے ہی اس نے پروشئین آرمی کے لئے اس کھیل کو ٹریننگ کا حصہ بنایا۔ 1811 میں پروشئین آرمی کی فرانس کے خلاف فتح کو اس وار گیمز کی بدولت بتایا جاتا ہے۔ اس کے بعد یہ جنگی کھیل پروشئین آرمی کے ہر رجمنٹ میں کھیلنے کے لئے تقسیم کیا گیا۔
دنیا بھر میں ہر قابل ذکر فوجی قوت تب سے سیمولیٹڈ وار گیمز یعنی فرضی جنگی کھیل منعقد کراتی رہی ہیں۔ جو اکثر تو کمپیوٹر پر کھیلی جاتی ہے۔ لیکن حقیقی جنگی ماحول کے درمیان مسائل، مواقع، مشکلات، مختلف اور ناقابلِ تصور صورت حال، فوجی فارمیشنز اور فوجی قوتوں کے درمیان تال میل اور تعاون کا صحیح اندازہ لگانے اور برآمدہ نتائج کا تجزیہ کرنے کی خاطر برسر زمین بھی یہ کھیل برپاکیے جاتے ہیں۔ جنرل اسلم بیگ نے بڑے پیمانے پر ملک میں برسر زمین جنگی کھیلوں کا انعقاد کیا تھا۔
کارل وون کلازوٹس کا مشہور زمانہ قول ہے۔ کہ جنگ محض دوسرے ذرائع سے سیاست کا تسلسل ہے۔ اس لئے ملٹری منصوبہ ساز ملٹری اہداف کے ساتھ ساتھ سیاسی اہداف کو بھی اپنی منصوبہ بندی میں مدنظر رکھتے ہیں۔ پہلے فرضی وار گیمز، جس کا مقصد ملٹری اہداف کے ساتھ ساتھ سیاسی اہداف بھی تھے، جرمنی نے 1939 میں شروعکیے ۔ جب اس نے پولینڈ پر حملہ کرنے کے لئے فرضی ایکسرسائزکیے ۔ لیکن یہ امریکہ تھا جس نے 1954 میں فرضی وار گیمز کو جدید طرز پر ایک ملٹری فن کی شکل دے دی۔ جن میں سیاسی اور عسکری اہداف کو یکساں اہمیت دی گئی۔
عسکری وار گیمز میں فوج دو ٹیموں میں تقسیم کردی جاتی ہے۔ جن کو مغرب میں عموماً بلیو اور ریڈ آرمی (روسی) کے نام دیے جاتے ہیں۔ پاکستان نے جنرل اسلم بیگ کے دور میں جو وار گیمز منعقدکیے تھے۔ اس میں فوج کو بلیو لینڈ اور فاکس لینڈ کے نام دیے گئے تھے۔ بلیو لینڈ کی فوج اپنی اور فاکس لینڈ کی فوج دشمن کی تھی۔ وار گیمز میں مطلوبہ اہداف کا حصول، اپنی صلاحیتوں اور تیاریوں کا جائزہ، کمی بیشیوں کا اندازہ، غلطیوں اور کوتاہیوں کا ازالہ اور سد باب، حقیقی حالات میں سامنے آنے والی مشکلات اور ان کا بروقت علاج، بری، بحری اور ہوائی افواج کے درمیان تال میل اور تعاون کو پرکھا جاتا ہے۔ موصولہ نتائج، ناکامیاں اور کوتاہیاں نیز اپنے وسائل، ان کی موجودگی اور بھرپور استعمال پر مدتوں بحث ومباحثہ اور غور وفکر ہوتا رہتا ہے۔
کوئی بھی جنگ محض تباہی کے مظاہرے کے لئے نہیں لڑی جاتی۔ اس کے نتائج میں سیاسی اور معاشی اہداف کا حصول بھی شامل ہوتا ہے۔ پاکستان میں سیاست سے فوجی دلچسپی کا اندازہ وقفے وقفے سے لگنے والی مارشلاؤں سے عیاں ہے۔ پالیسی ساز اداروں میں ہاکس اینڈ ڈووز یعنی جارحانہ حکمت عملی والے اور مصالحانہ طرز عمل والے ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔ اپنی اپنی جگہ جن کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ مولانا صاحب کے آزادی مارچ کے ابتدائی مرحلے میں، مولانا صاحب کے ساتھ سخت رویہ، انتباہی سوال وجواب اور وضاحت اگر جارحانہ حکمت عملی کا نمونہ تھا تو کور کمانڈرز کانفرنس کے بعد مولانا کو محب وطن کہنا اور ان کی سرگرمیوں کو قانون کے دائرے میں سیاسی آزادیوں سے تعبیر کرنا مصالحانہ طرز عمل کی مثال تھی۔
مولانا صاحب روایتی مذہبی حلقوں کے نمائندے ہیں۔ تو عمران خان جدیدیت کے نقیب مانے جاتے ہیں۔ عمران خان مقتدرہ کی سنگت میں سرتال ملانے میں آسانی محسوس کرتے ہیں۔ تو مقتدرہ مولانا کی ہمہ جہت صلاحیتوں کی معترف ہے۔ پالیسی سازوں نے مولانا صاحب اور عمران خان کے ذریعے وار گیم لڑی ہے۔ دونوں کو کھلے میدان میں اپنی اپنی صلاحیتوں کے اظہار کی اجازت دی ہے۔ نواز شریف کی پروٹوکول اور اختیارات کے حصول کی کوشش کو مقتدر حلقوں نے کبھی پذیرائی نہیں بخشی۔
جبکہ شہباز شریف کی مصالحانہ طرز عمل کے مداح بہت ہیں۔ مولانا نے دباؤ بڑھا کر نوازشریف کے لئے بیرون ملک علاج، اور نوازشریف کی غیر موجودگی میں شہباز شریف کو اہمیت اور آزادانہ فیصلوں کا اختیار دلا دیا۔ شہباز شریف کی اہمیت کا اندازہ چوہدری پرویز الٰہی کی پریس کانفرنس میں دیے گئے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے۔ جس میں اس نے مولانا صاحب کو حزبِ اختلاف کا واحد لیڈر قرار دے کر آنے والے دنوں میں شہباز شریف کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔
حکومت آپنے بے تکے انکاری بیانات اور وار گیمز کے نتیجے میں پیدا ہونے والے صورت حال کی وجہ سے بری طرح پھنسی ہوئی ہے۔ نوازشریف کی بیماری اور اصولی موقف ان کی ہمدردی اور رتبے کو بڑھاتی ہے، تو حکومت انہیں باہر بھیجنے کا سوچتی ہے۔ لیکن نوازشریف کی باہر جانے کی صورت میں، ممکن ہے شہباز شریف پنجاب کا مالک بنا دیا جائے، اور اگر ایسا ہوجائے جس کے بہت چانسز ہیں، تو حکومت کی عمل داری اسلام آباد سے کہاں تک رہ جائے گی، یہ سوچ کر پھر انہیں مختلف حیلوں بہانوں سے روکنے کی تگ ودو کرتی ہے۔
قومی اسمبلی میں خواجہ آصف کی تقریر حکومت کی حیرانی اور بے بضاعتی کے لئے کافی ہے۔ جس میں انہوں نے حکومت کی بے خبری کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا تھا کہ جو کچھ ہونے جا رہا ہے۔ آپ کو اس کا پتہ نہیں۔ کیونکہ ایسے معاملات سے سب سے زیادہ ہے خبر حکومت ہوتی ہے۔ مولانا کا روایتی علاقہ گزشتہ الیکشن میں پی ٹی آئی کو دیا گیا تھا۔ وہ مولانا کو واپس مل جائے گا۔ مقتدرہ کی طرف سے حب الوطنی کا سرٹیفیکیٹ پہلے سے مل گیا ہے۔ مسخرانہ اور بازاری ناموں پر پابندی لگوا چکا ہے۔
حکومت اور فوج ایک پیج پر ہونے کی بجائے فوج سیاست اور کسی کی جانبداری سے برأت کا اعلان کرچکی ہے۔ نہیں چھوڑوں گا کی رٹ ختم ہو چکی ہے۔ پنجاب میں حکومتی ساجھے چوہدری برادران مولانا صاحب کے ہاں کھانا کھانے اور پنجاب میں اپنا حصہ پکا کرنے آتے ہیں۔ عدالتیں بڑبولے وزرا کو رسی ڈالنے پر تیار ہیں۔ مولانا وار گیمز ہارے نہیں، جیت گئے ہیں۔ نہیں دوں گا، کی حکومتی قوالی ختم ہو چکی ہے۔ کچھ لوگ بے خبر ہیں اور کچھ وار گیمز کے نتائج اور فوائد پر غور وفکر میں مصروف ہیں۔ مولانا صاحب جانتے ہیں۔ کہ شطرنج شاہی کھیل ہے۔ جس میں بادشاہ آخری وقت تک، ملکہ، وزیر، ہاتھیوں اور پیادوں کے جلو میں خود کو محفوظ سمجھتا ہے۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ شطرنج میں کپتان نہیں ہوتا۔