جاسم محمد

محفلین
مولانا کی اس دھرنے سے پہلے جو پوزیشن تھی، اب اُس سے بہتر ہی ہے۔ تاہم، دھرنے کا نتیجہ متوقع تھا؛ اس پر حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ یہ معاملہ ویسے ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ اس دھرنے کے باعث موجودہ چیف آف آرمی اسٹاف کی شخصیت کو مزید متنازع بنا دیا گیا ہے۔ یعنی کہ، مستقبل میں، جو کچھ ہو گا، یا جو کچھ کرنے کی کوشش کی جائے گی، مولانا اس پر نظر رکھیں گے اور دوسری جانب، مولانا پر وہ بھی کڑی نظر رکھیں گے، کہ جن کا اصل کام ہی کڑی نگرانی رکھنا ہے۔ :)
دھرنوں کے خلاف درخواست پر مولانا فضل الرحمان و دیگر کو نوٹس جاری
208355_7880208_updates.jpg

درخواست گزار نے مؤقف اپنایا تھا کہ سڑکیں بند کرنا شہریوں کی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے— فوٹو: فائل

پشاور ہائیکورٹ نے جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی ۔ ف) کی جانب سےشاہراہیں بند کرنے کے خلاف درخواست پر مولانا فضل الرحمان اور دیگر کو نوٹس جاری کردیا۔

جے یو آئی جے یو آئی (ف) کی جانب سے دیے جانے والے دھرنےکیخلاف دائر درخواست پر پشاور ہائیکورٹ میں سماعت جسٹس اکرام اللہ اور جسٹس وقار احمد نے کی۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ سڑکیں بند کرنا شہریوں کی بنیادی وآئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے اس لیے جے یو آئی ف کو سڑکیں بند کرنے سے روکا جائے۔

سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیے کہ جے یو آئی نےعدالت میں پرامن رہنےکی یقین دہانی کرائی تھی اس پرقائم رہے۔

عدالت نے سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمان اور دیگر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے آئندہ سماعت پر جواب طلب کرلیا۔

دھرنے کیوں دیے جارہے ہیں؟

خیال رہے کہ مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں جمعیت علمائے اسلام (ف) اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کا آزادی مارچ 27 اکتوبر سے شروع ہوا اور ملک بھر سے قافلے 31 اکتوبر کی شب اسلام آباد میں داخل ہوئے تھے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں نے آزادی مارچ کی حمایت کی تاہم ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے دھرنے کی مخالفت کی تھی۔

اسلام آباد کے ایچ 9 گراؤنڈ میں آزادی مارچ کے شرکاء نے 14 روز قیام کیا، اس دوران روز سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمان شرکاء سے خطاب کرتے رہے۔

یکم نومبر کو اپنے خطاب میں مولانا نے وزیراعظم عمران خان کو مستعفی ہونے کیلئے 48 گھنٹوں کی مہلت دی تاہم یہ مہلت ختم ہوگئی اور وزیراعظم مستعفی نہیں ہوئے۔

13 نومبر کو مولانا فضل الرحمان نے اسلام آباد میں دھرنا ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ملک بھر میں دھرنے شروع کرنے کا اعلان کردیا۔

جے یو آئی نے وزیراعظم عمران خان کے استعفے اور نئے انتخابات سمیت متعدد مطالبات کررکھے ہیں تاہم حکومت اور اپوزیشن کے درمیان وزیراعظم کے استعفے اور قبل از وقت انتخابات کے مطالبے پر ڈیڈ لاک ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
حکومت کی جڑیں کٹ گئیں اب ایک جھٹکے سے ختم ہوجائیگی، فضل الرحمان
ویب ڈیسک ایک گھنٹہ پہلے
1882574-fazalx-1573833440-929-640x480.jpg

پاکستان کو افغانستان، عراق اور لیبیا نہیں بنانا چاہتے بلکہ عوامی قوت سے حکومت کو چلتا کریں گے، سربراہ جے یو آئی (ف) فوٹو: فائل


پشاور: مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ اسلام آباد مارچ سے حکومت کی جڑیں کٹ گئیں اب حکومت ایک جھٹکے سے ختم ہوجائے گی۔

نوشہرہ میں احتجاجی مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ہم نے ملک بھرمیں ملین مارچ کرکے کروڑوں لوگوں سے رابطہ کیا، اسلام آباد میں آزادی مارچ شروع کیا جو دو ہفتے جاری رہا، مارچ سے حکومت کی جڑیں کٹ گئیں اور اب حکومت ایک جھٹکے سے ختم ہوجائے گی۔

مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان میں یہودی راج نہیں مانتے اسلامی تشخص برقرار رکھیں گے، ملک تباہی کی طرف جارہا ہے اسے ہم بچائیں گے، ٹماٹر چار سو روپے کلو ہیں اور ہمارے وزیرخزانہ کو معلوم ہی نہیں۔

سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ دھرنوں کا سلسلہ جاری ہے اور ہم نے ثابت کردیا کہ ہم پورا ملک بند کر سکتے ہیں، اب چند دنوں کے بعد شہروں کے اندر بھی احتجاج شروع کردیا جائے گا، عوام کو سڑکوں کی بندش سے تکلیف ضرور ہے لیکن یہ تکلیف ناجائز حکومت کے خاتمے کے لیے ہے، ہم پاکستان کو افغانستان، عراق اور لیبیا نہیں بنانا چاہتے بلکہ عوامی قوت سے حکومت کو چلتا کریں گے۔
 

فرقان احمد

محفلین
اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت پہلے بھی مضبوط نہیں تھی اور دھرنے کے خاتمے کے بعد بھی یہی صورت حال ہے۔ اس کی وجہ معاشی ابتری ہے جس میں موجودہ حکومت کا قصور کم ہے، تاہم، اسے کُلی طور پر، بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ دھرنا ختم ہو گیا، تاہم، مہنگائی کی لہر کے باعث رد عمل نئی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ اب جب کہ حکومت کو سانس لینے کا مختصر سا وقت ہاتھ آیا ہے تو بہتر ہے کہ حکومت اپنی تمام تر توجہ معیشت پر لگائے، نہ کہ بے کار جگت بازی میں اپنا وقت صرف کرے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت پہلے بھی مضبوط نہیں تھی اور دھرنے کے خاتمے کے بعد بھی یہی صورت حال ہے۔ اس کی وجہ معاشی ابتری ہے جس میں موجودہ حکومت کا قصور کم ہے، تاہم، اسے کُلی طور پر، بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ دھرنا ختم ہو گیا، تاہم، مہنگائی کی لہر کے باعث رد عمل نئی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ اب جب کہ حکومت کو سانس لینے کا مختصر سا وقت ہاتھ آیا ہے تو بہتر ہے کہ حکومت اپنی تمام تر توجہ معیشت پر لگائے، نہ کہ بے کار جگت بازی میں اپنا وقت صرف کرے۔
اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ کمزور معیشت کا کمزور حکومت سے کیا تعلق ہے؟ ایوب دور میں معیشت شدید مضبوط تھی۔ پاکستان نے بغیرمقروض ہوئے اسلام آباد، تربیلا، منگلا بنایا۔ صنعتی انقلاب اپنے عروج پر تھا۔ چین ، جاپان ، کوریا سے کمپنیاں پاکستانی مشینری اور مصنوعات خریدنے آرہے تھے۔ اس کے باوجود جمہوریوں نے ایوب کتا ہائے ہائے کہہ کر اسکی حکومت کو فارغ کر دیا گیا۔
 

فرقان احمد

محفلین
اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ کمزور معیشت کا کمزور حکومت سے کیا تعلق ہے؟ ایوب دور میں معیشت شدید مضبوط تھی۔ پاکستان نے بغیرمقروض ہوئے اسلام آباد، تربیلا، منگلا بنایا۔ صنعتی انقلاب اپنے عروج پر تھا۔ چین ، جاپان ، کوریا سے کمپنیاں پاکستانی مشینری اور مصنوعات خریدنے آرہے تھے۔ اس کے باوجود جمہوریوں نے ایوب کتا ہائے ہائے کہہ کر اسکی حکومت کو فارغ کر دیا گیا۔
عوام ایک چہرہ دیکھ کر اُکتا جاتے ہیں۔ کب تک ایوب خان کو دیکھتے رہتے! :) ارے بھئی، سدا کس کی مقبولیت قائم رہتی ہے! ویسے، معیشت کمزور ہو تو حکومت کیسے مضبوط ہو سکتی ہے، آپ یہ سمجھا دیجیے، بالخصوص پاکستان جیسے ملک میں، جہاں جمہوری اقدار آپ کے سامنے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
ارے بھئی، سدا کس کی مقبولیت قائم رہتی ہے!
ملائیشیا کے حالیہ وزیر اعظم مہاتیر محمد 1981 سے 2003 تک مسلسل وزیر اعظم رہے۔ اس دوران ملائیشیا کی معیشت کرپشن سے پاک دن دگنی رات چگنی ترقی کرتی رہی۔2003 میں سیاست سے ریٹائرمنٹ کے بعد مہاتیر کو پچھلے سال 93 سال کی عمرمیں دوبارہ سیاست میں اترنا پڑا جب انہوں نے نئی پارٹی سے الیکشن لڑکر اپنی ہی سابقہ پارٹی کو اینٹی کرپشن الیکشن کمپین پر شکست دی۔ اور یوں سابقہ پارٹی کے 61 سالہ مسلسل اقتدار کا خاتمہ کر دیا۔
 

جاسم محمد

محفلین
ویسے، معیشت کمزور ہو تو حکومت کیسے مضبوط ہو سکتی ہے
1949 سے 1978 تک چین کی معیشت بھارت سے بہتر نہیں تھی۔ زیر اقتدار چینی کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ ماؤز تنگ کی غلط معاشی پالیسیوں کے باعث کروڑوں چینی لقمہ اجل بن گئے۔ البتہ 1976 میں ماؤ کی وفات کے بعد پارٹی کے نئے سربراہ ڈینگ شاؤپنگ نے معاشی اصلاحات کی جس کے بعد آج چینی معیشت دنیا کی دوسری بڑی اور کچھ سال بعد سب سے بڑی معیشت ہوگی۔ یعنی مسلسل ایک زیر اقتدار پارٹی، وہی چہرےلیکن صرف ملک کی معاشی سمت بدلنے پر جو ترقی کا سفر شروع ہوا وہ آج تک رُکا نہیں۔
اس کے برعکس بھارت ہے جہاں اس دوران کتنی جمہوری حکومتیں بدلیں اور ملک کے معاشی حالات کسی تعارف کے محتاج نہیں۔
1200px-GDP_per_capita_of_China_and_India.svg.png
 

جاسم محمد

محفلین
وزیراعظم کے استعفیٰ کے بنا گھر واپس آنے کی ہمت کیسے ہوئی، جے یو آئی ف کے رہنما کی اہلیہ نے اپنے شوہر کی پٹائی کر ڈالی
رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے مولوی فضل الدین نے پولیس سے اس کی اہلیہ کیخلاف قانونی کاروائی کرنے کی اپیل کر دی
1530281096_admin.jpg._1
محمد علی جمعہ 15 نومبر 2019 22:53

pic_23307_1573840626.jpg._3


رحیم یار خان (اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔15 نومبر2019ء) وزیراعظم کے استعفیٰ کے بنا گھر واپس آنے کی ہمت کیسے ہوئی، جے یو آئی ف کے رہنما کی اہلیہ نے اپنے شوہر کی پٹائی کر ڈالی، رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے مولوی فضل الدین نے پولیس سے اس کی اہلیہ کیخلاف قانونی کاروائی کرنے کی اپیل کر دی۔ تفصیلات کے مطابق رحیم یار خان میں ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا ہے۔ جے یو آئی ف سے تعلق رکھنے والے ایک مقامی رہنما مولوی فضل الدین اپنی اہلیہ کیخلاف شکایت درج کروانے کیلئے پولیس کے پاس جا پہنچا۔ مولوی فضل الدین نے پولیس کو درج کروائی گئی شکایت میں موقف اختیار کیا ہے کہ اس کی اہلیہ نے اسے مولانا فضل الرحمان کے دھرنے سے واپس آنے پر تشدد کا نشانہ بنایا۔ مولوی فضل الدین کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کے دھرنے میں شرکت کرنے کے بعد گھر پہنچنے پر اس کی اہلیہ نے اسے تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ایک تو تم اتنے دنوں تک گھروں سے باہر رہے اور پھر وزیراعظم کو استعفیٰ بھی لے کر نہیں آئے۔

جب وزیراعظم کا استعفیٰ لے ہی نہیں سکتے تھے تو پھر گھر سے اتنے دن باہر کیوں رہے اور دھرنے میں شرکت کیوں کی۔ مولوی فضل الدین نے پولیس سے درخواست کی ہے کہ اس کی اہلیہ کیخلاف قانون کے مطابق ایکشن لیا جائے۔ واضح رہے کہ نجی ٹی وی چینلز کے پروگرامز میں کئی جے یو آئی رہنماوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی بیویوں نے انہیں ہدایت کر رکھی ہے کہ وہ وزیراعظم کا استعفیٰ لے بغیر گھروں کو واپس نہ آئیں۔ اب لوگ سوال کر رہے ہیں کہ آپ وزیراعظم کا استعفیٰ تو لے نہیں سکے، تو اب اپنی بیویوں کو کیا منہ دکھائیں گے؟
 

فرقان احمد

محفلین
ملائیشیا کے حالیہ وزیر اعظم مہاتیر محمد 1981 سے 2003 تک مسلسل وزیر اعظم رہے۔ اس دوران ملائیشیا کی معیشت کرپشن سے پاک دن دگنی رات چگنی ترقی کرتی رہی۔2003 میں سیاست سے ریٹائرمنٹ کے بعد مہاتیر کو پچھلے سال 93 سال کی عمرمیں دوبارہ سیاست میں اترنا پڑا جب انہوں نے نئی پارٹی سے الیکشن لڑکر اپنی ہی سابقہ پارٹی کو اینٹی کرپشن الیکشن کمپین پر شکست دی۔ اور یوں سابقہ پارٹی کے 61 سالہ مسلسل اقتدار کا خاتمہ کر دیا۔
ہر عروج کو زوال ہے۔ مہاتیر محمد سے عوام اکتا بھی گئے تھے۔ پھر جب وہ منظر نامے سے ہٹے تو عوام سے اُن کی محبت جاگنے لگی۔ کمزور معیشت شاید اس کا ایک سبب ہو گا۔ اب بھی عوام اکتا سکتے ہیں۔ انتظار فرمائیے!
 

فرقان احمد

محفلین
1949 سے 1978 تک چین کی معیشت بھارت سے بہتر نہیں تھی۔ زیر اقتدار چینی کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ ماؤز تنگ کی غلط معاشی پالیسیوں کے باعث کروڑوں چینی لقمہ اجل بن گئے۔ البتہ 1976 میں ماؤ کی وفات کے بعد پارٹی کے نئے سربراہ ڈینگ شاؤپنگ نے معاشی اصلاحات کی جس کے بعد آج چینی معیشت دنیا کی دوسری بڑی اور کچھ سال بعد سب سے بڑی معیشت ہوگی۔ یعنی مسلسل ایک زیر اقتدار پارٹی، وہی چہرےلیکن صرف ملک کی معاشی سمت بدلنے پر جو ترقی کا سفر شروع ہوا وہ آج تک رُکا نہیں۔
اس کے برعکس بھارت ہے جہاں اس دوران کتنی جمہوری حکومتیں بدلیں اور ملک کے معاشی حالات کسی تعارف کے محتاج نہیں۔
1200px-GDP_per_capita_of_China_and_India.svg.png
استثنائی مثالیں تو آپ کو مل جاتی ہیں تاہم اس حقیقت سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا ہے کہ کمزور معیشت کے اثرات حکومت پر پڑتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
استثنائی مثالیں تو آپ کو مل جاتی ہیں تاہم اس حقیقت سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا ہے کہ کمزور معیشت کے اثرات حکومت پر پڑتے ہیں۔
عدل و انصاف، تعلیم، صحت کی طرح ملک کی معیشت بھی کوئی ایسی شے نہیں جو رات و رات اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکے یا یکدم دھڑام سے گر جائے۔ جس طرح اس ملک کے دیگر نظاموں کو پچھلے تیس چالیس سالوں میں منظم انداز سے تباہ کیاگیا۔ اس کے اژالہ کیلئے بھی کم از کم اتنا وقت ہی چاہئے۔
عدل و انصاف کا حال تو آپ آجکل دیکھ ہی رہے ہیں۔ اپنی من پسند سیاسی شخصیات کو ریلیف دینے کیلئے ججووں نے ملک کی عدالتیں چوبیس گھنٹے کھلی رکھی ہوئی ہیں۔ جبکہ غربا، لاچار اور عام لوگوں کی شنوائی وہاں سالوں میں نہیں ہو پاتی۔
اشرافیہ کیلئے تعلیمی ادرے، ہسپتال، ہاؤسنگ سوسائٹی تک نجی موجود ہیں۔ جبکہ عوام کی اکثریت سرکاری سکولوں، ہسپتالوں اور کچے مکانات میں دھکے کھا رہی ہے۔
جب یہ تمام پرانے مسائل تحریک انصاف حکومت کے دور میں پیدا نہیں ہوئے تو خراب معیشت کی ذمہ داری موجودہ حکومت پر کیسے آتی ہے؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ قومی بجٹ کا 42 فیصد پرانی حکومتوں کے لئے گئے قرضوں کی واپسی میں جا رہا ہے۔ حکومت کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ ایسے میں حکومت زیادہ سے زیادہ عوام کو کیا ریلیف دے سکتی ہے۔
دوسرا یہ کہ بالفرض مہنگائی کی وجہ سے حکومت گرجائے تو آنے والی حکومت کیا تیل اور گیس کے کنویں دریافت کر کے ملک کے معاشی مسائل حل کرے گی؟ وہ بھی آکر یہی کچھ ہی کریں گے ۔ پھر قوم ان کو "ذمہ دار" سمجھ کر گھر بھیج دے گی اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ کنویں سے گندا پانی بار بار نکالنے کی بجائے اس میں مرا ہوا کتا ایک ہی بار نکال لیں تو زیادہ بہتر رہے گا۔ :)
Pakistan's debt policy has brought us to the brink. Another five years of the same is unsustainable - DAWN.COM
Rotten tomatoes - Newspaper - DAWN.COM
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
شطرنج میں کپتان نہیں ہوتا
15/11/2019 شازار جیلانی


شطرنج شاہی کھیل ہے۔ کیونکہ اس میں بادشاہ، ملکہ، وزیر، فیل اور پیادے ہوتے ہیں۔ اس کو کھیلنے والے ابتدائی کھلاڑی بھی بادشاہ ہوتے تھے۔ شطرنج کا اصل بادشاہ کھیل کے میدان میں کھڑا بادشاہ نہیں، بلکہ اصل بادشاہ وہ کھلاڑی ہوتا ہے، جو شطرنج کے بادشاہ کو اپنی مرضی کے مطابق ایک مہرے کے طور پر اگے پیچھے چلاتا اور استعمال کرتا ہے۔ شطرنج کا بادشاہ پلاسٹک کا بنا ہو، سنگ مرمر کا، ہاتھی دانت کا، کسی دھات کا یا اپنے زعم میں کسی کی ضرورت کا، کبھی اپنے آپ کو حقیقی بادشاہ نہیں سمجھتا بلکہ کھلاڑی کے اشارے کا منتظر ہوتا ہے۔ کیونکہ ہار جیت کی ذمہ داری شطرنج کے بادشاہ کی نہیں ہوتی تو اختیار کیسے اس کا ہو سکتا ہے۔ ہاں جب تک کھلاڑی کی مرضی ہوتی ہے۔ شطرنج کا بادشاہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھتا ہے۔ اس کے آگے پیادے دائیں بائیں وزیر اور ملکہ اور جلو میں فیل اور برج ہوتے ہیں۔

شطرنج قدیم کھیل ہے راج نیتی میں تبدیلیاں ائیں، بادشاہوں کی جگہ صدر اور وزیراعظم آئے، تو بادشاہ گردوں نے شطرنج کے شاہی کھیل کو مزید پیچیدہ شکل دے کر وار گیمز میں تبدیل کردیا۔ وار گیمز صفحہ ہستی سے مٹی ہوئی ریاست پروشیا سے شروع ہوئی۔ گراف ہلمت وون مولٹک کو جدید فرضی وار گیمز کا باوا آدم کہا جاتا ہے۔ اگر چہ وہ خود وارگیم کریگ سپییل کا موجد نہیں تھا۔ جب وہ پروشئین آرمی میں نوجوان افسر تھا تو اس کھیل سے کافی متاثر ہوا تھا۔ اس لیے جب وہ چیف آف سٹاف بنتے ہی اس نے پروشئین آرمی کے لئے اس کھیل کو ٹریننگ کا حصہ بنایا۔ 1811 میں پروشئین آرمی کی فرانس کے خلاف فتح کو اس وار گیمز کی بدولت بتایا جاتا ہے۔ اس کے بعد یہ جنگی کھیل پروشئین آرمی کے ہر رجمنٹ میں کھیلنے کے لئے تقسیم کیا گیا۔

دنیا بھر میں ہر قابل ذکر فوجی قوت تب سے سیمولیٹڈ وار گیمز یعنی فرضی جنگی کھیل منعقد کراتی رہی ہیں۔ جو اکثر تو کمپیوٹر پر کھیلی جاتی ہے۔ لیکن حقیقی جنگی ماحول کے درمیان مسائل، مواقع، مشکلات، مختلف اور ناقابلِ تصور صورت حال، فوجی فارمیشنز اور فوجی قوتوں کے درمیان تال میل اور تعاون کا صحیح اندازہ لگانے اور برآمدہ نتائج کا تجزیہ کرنے کی خاطر برسر زمین بھی یہ کھیل برپاکیے جاتے ہیں۔ جنرل اسلم بیگ نے بڑے پیمانے پر ملک میں برسر زمین جنگی کھیلوں کا انعقاد کیا تھا۔

کارل وون کلازوٹس کا مشہور زمانہ قول ہے۔ کہ جنگ محض دوسرے ذرائع سے سیاست کا تسلسل ہے۔ اس لئے ملٹری منصوبہ ساز ملٹری اہداف کے ساتھ ساتھ سیاسی اہداف کو بھی اپنی منصوبہ بندی میں مدنظر رکھتے ہیں۔ پہلے فرضی وار گیمز، جس کا مقصد ملٹری اہداف کے ساتھ ساتھ سیاسی اہداف بھی تھے، جرمنی نے 1939 میں شروعکیے ۔ جب اس نے پولینڈ پر حملہ کرنے کے لئے فرضی ایکسرسائزکیے ۔ لیکن یہ امریکہ تھا جس نے 1954 میں فرضی وار گیمز کو جدید طرز پر ایک ملٹری فن کی شکل دے دی۔ جن میں سیاسی اور عسکری اہداف کو یکساں اہمیت دی گئی۔

عسکری وار گیمز میں فوج دو ٹیموں میں تقسیم کردی جاتی ہے۔ جن کو مغرب میں عموماً بلیو اور ریڈ آرمی (روسی) کے نام دیے جاتے ہیں۔ پاکستان نے جنرل اسلم بیگ کے دور میں جو وار گیمز منعقدکیے تھے۔ اس میں فوج کو بلیو لینڈ اور فاکس لینڈ کے نام دیے گئے تھے۔ بلیو لینڈ کی فوج اپنی اور فاکس لینڈ کی فوج دشمن کی تھی۔ وار گیمز میں مطلوبہ اہداف کا حصول، اپنی صلاحیتوں اور تیاریوں کا جائزہ، کمی بیشیوں کا اندازہ، غلطیوں اور کوتاہیوں کا ازالہ اور سد باب، حقیقی حالات میں سامنے آنے والی مشکلات اور ان کا بروقت علاج، بری، بحری اور ہوائی افواج کے درمیان تال میل اور تعاون کو پرکھا جاتا ہے۔ موصولہ نتائج، ناکامیاں اور کوتاہیاں نیز اپنے وسائل، ان کی موجودگی اور بھرپور استعمال پر مدتوں بحث ومباحثہ اور غور وفکر ہوتا رہتا ہے۔

کوئی بھی جنگ محض تباہی کے مظاہرے کے لئے نہیں لڑی جاتی۔ اس کے نتائج میں سیاسی اور معاشی اہداف کا حصول بھی شامل ہوتا ہے۔ پاکستان میں سیاست سے فوجی دلچسپی کا اندازہ وقفے وقفے سے لگنے والی مارشلاؤں سے عیاں ہے۔ پالیسی ساز اداروں میں ہاکس اینڈ ڈووز یعنی جارحانہ حکمت عملی والے اور مصالحانہ طرز عمل والے ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔ اپنی اپنی جگہ جن کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ مولانا صاحب کے آزادی مارچ کے ابتدائی مرحلے میں، مولانا صاحب کے ساتھ سخت رویہ، انتباہی سوال وجواب اور وضاحت اگر جارحانہ حکمت عملی کا نمونہ تھا تو کور کمانڈرز کانفرنس کے بعد مولانا کو محب وطن کہنا اور ان کی سرگرمیوں کو قانون کے دائرے میں سیاسی آزادیوں سے تعبیر کرنا مصالحانہ طرز عمل کی مثال تھی۔

مولانا صاحب روایتی مذہبی حلقوں کے نمائندے ہیں۔ تو عمران خان جدیدیت کے نقیب مانے جاتے ہیں۔ عمران خان مقتدرہ کی سنگت میں سرتال ملانے میں آسانی محسوس کرتے ہیں۔ تو مقتدرہ مولانا کی ہمہ جہت صلاحیتوں کی معترف ہے۔ پالیسی سازوں نے مولانا صاحب اور عمران خان کے ذریعے وار گیم لڑی ہے۔ دونوں کو کھلے میدان میں اپنی اپنی صلاحیتوں کے اظہار کی اجازت دی ہے۔ نواز شریف کی پروٹوکول اور اختیارات کے حصول کی کوشش کو مقتدر حلقوں نے کبھی پذیرائی نہیں بخشی۔

جبکہ شہباز شریف کی مصالحانہ طرز عمل کے مداح بہت ہیں۔ مولانا نے دباؤ بڑھا کر نوازشریف کے لئے بیرون ملک علاج، اور نوازشریف کی غیر موجودگی میں شہباز شریف کو اہمیت اور آزادانہ فیصلوں کا اختیار دلا دیا۔ شہباز شریف کی اہمیت کا اندازہ چوہدری پرویز الٰہی کی پریس کانفرنس میں دیے گئے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے۔ جس میں اس نے مولانا صاحب کو حزبِ اختلاف کا واحد لیڈر قرار دے کر آنے والے دنوں میں شہباز شریف کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔

حکومت آپنے بے تکے انکاری بیانات اور وار گیمز کے نتیجے میں پیدا ہونے والے صورت حال کی وجہ سے بری طرح پھنسی ہوئی ہے۔ نوازشریف کی بیماری اور اصولی موقف ان کی ہمدردی اور رتبے کو بڑھاتی ہے، تو حکومت انہیں باہر بھیجنے کا سوچتی ہے۔ لیکن نوازشریف کی باہر جانے کی صورت میں، ممکن ہے شہباز شریف پنجاب کا مالک بنا دیا جائے، اور اگر ایسا ہوجائے جس کے بہت چانسز ہیں، تو حکومت کی عمل داری اسلام آباد سے کہاں تک رہ جائے گی، یہ سوچ کر پھر انہیں مختلف حیلوں بہانوں سے روکنے کی تگ ودو کرتی ہے۔

قومی اسمبلی میں خواجہ آصف کی تقریر حکومت کی حیرانی اور بے بضاعتی کے لئے کافی ہے۔ جس میں انہوں نے حکومت کی بے خبری کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا تھا کہ جو کچھ ہونے جا رہا ہے۔ آپ کو اس کا پتہ نہیں۔ کیونکہ ایسے معاملات سے سب سے زیادہ ہے خبر حکومت ہوتی ہے۔ مولانا کا روایتی علاقہ گزشتہ الیکشن میں پی ٹی آئی کو دیا گیا تھا۔ وہ مولانا کو واپس مل جائے گا۔ مقتدرہ کی طرف سے حب الوطنی کا سرٹیفیکیٹ پہلے سے مل گیا ہے۔ مسخرانہ اور بازاری ناموں پر پابندی لگوا چکا ہے۔

حکومت اور فوج ایک پیج پر ہونے کی بجائے فوج سیاست اور کسی کی جانبداری سے برأت کا اعلان کرچکی ہے۔ نہیں چھوڑوں گا کی رٹ ختم ہو چکی ہے۔ پنجاب میں حکومتی ساجھے چوہدری برادران مولانا صاحب کے ہاں کھانا کھانے اور پنجاب میں اپنا حصہ پکا کرنے آتے ہیں۔ عدالتیں بڑبولے وزرا کو رسی ڈالنے پر تیار ہیں۔ مولانا وار گیمز ہارے نہیں، جیت گئے ہیں۔ نہیں دوں گا، کی حکومتی قوالی ختم ہو چکی ہے۔ کچھ لوگ بے خبر ہیں اور کچھ وار گیمز کے نتائج اور فوائد پر غور وفکر میں مصروف ہیں۔ مولانا صاحب جانتے ہیں۔ کہ شطرنج شاہی کھیل ہے۔ جس میں بادشاہ آخری وقت تک، ملکہ، وزیر، ہاتھیوں اور پیادوں کے جلو میں خود کو محفوظ سمجھتا ہے۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ شطرنج میں کپتان نہیں ہوتا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت پہلے بھی مضبوط نہیں تھی اور دھرنے کے خاتمے کے بعد بھی یہی صورت حال ہے۔ اس کی وجہ معاشی ابتری ہے جس میں موجودہ حکومت کا قصور کم ہے، تاہم، اسے کُلی طور پر، بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ دھرنا ختم ہو گیا، تاہم، مہنگائی کی لہر کے باعث رد عمل نئی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ اب جب کہ حکومت کو سانس لینے کا مختصر سا وقت ہاتھ آیا ہے تو بہتر ہے کہ حکومت اپنی تمام تر توجہ معیشت پر لگائے، نہ کہ بے کار جگت بازی میں اپنا وقت صرف کرے۔
یہ لوگ اتنے سمجھدار ہوتے تو حکومت میں ہوتے؟! :)
 

محمد وارث

لائبریرین
اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ کمزور معیشت کا کمزور حکومت سے کیا تعلق ہے؟ ایوب دور میں معیشت شدید مضبوط تھی۔ پاکستان نے بغیرمقروض ہوئے اسلام آباد، تربیلا، منگلا بنایا۔ صنعتی انقلاب اپنے عروج پر تھا۔ چین ، جاپان ، کوریا سے کمپنیاں پاکستانی مشینری اور مصنوعات خریدنے آرہے تھے۔ اس کے باوجود جمہوریوں نے ایوب کتا ہائے ہائے کہہ کر اسکی حکومت کو فارغ کر دیا گیا۔

چین، جاپان، کوریا نے پاکستان سے 60ء کی دہائی میں کونسی مشینری خریدی؟ خدا کا خوف کریں صاحب۔ یہ بس ایک پروپیگنڈا ہی ہے۔ اصل بات صرف اتنی سی ہے کہ کوریا والے اپنے پانچ سالہ منصوبوں کے لیے دنیا کے کچھ ماڈلز کا مطالعہ کر رہے تھے، ان میں پاکستانی پانچ سالہ منصوبے بھی شامل تھے۔ انہوں نے کہہ دیا کہ ہمیں اپنی ضروریات کے لیے پاکستانی منصوبہ بہتر لگا، بس اتنی سی بات ہے جس کا اس قدر افسانہ بنایا جاتا ہے۔

باقی رہا منگلا تربیلا اور مقروض نہ ہونا تو حقائق کو مت جھٹلائیں۔ پاکستان تو پچاس کی دہائی کے وسط ہی میں مقروض ہونا شروع ہو گیا تھا جب سیٹو اور سینٹو کا رکن بنا۔ سندھ طاس معاہدہ ورلڈ بینک نے کروایا تھا اور ڈیموں اور نہروں کے لیے رقم بھی دی تھی۔ اس مد میں گرانٹ اور قرضے امریکہ، برطانیہ، مغربی جرمنی، آسٹریلیا، کینیڈا اور دیگر ممالک نے دیئے تھے، اور تو اور نہرو کے بھارت نے بھی پاکستان کو رقم دی تھی۔
 
Top