فرقان احمد

محفلین
آرمی چیف سے فضل الرحمٰن کی ملاقات کا انکشاف
692810_8047917_10_akhbar.jpg


اسلام آباد (صالح ظافر) جے یو آئی (ف) کے رہنما مولانا فضل الرحمٰن نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی اور آزادی مارچ کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔ اس بات کا انکشاف بدھ کو نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں اینکر کی جانب سے کیا گیا۔

مذکورہ اینکر اُن صحافیوں میں شامل تھے جنہوں نے دیگر صحافیوں کے ہمراہ وزیراعظم سے ملاقات کی تھی۔ مذکورہ اینکر کے مطابق، مولانا فضل الرحمٰن اور آرمی چیف کی ملاقات چند روز قبل ہوئی تھی جب انہوں نے آزادی مارچ کا اعلان کیا تھا۔ پروگرام کے شریک میزبان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف نے مولانا کو یقین دہانی کرائی کہ وہ جمہوریت اور آئین کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہم وہی کر رہے ہیں جو آئین ہم سے مطالبہ کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن کو آرمی چیف نے یاد دہانی کرائی کہ وہ ایک ذمہ دار سیاسی رہنما ہیں اور انہیں خطے کی صورتحال کا اندازہ ہونا چاہئے کہ یہ کتنی پریشان کن ہے۔

کشمیر کے حالات کی وجہ سے بارڈر پر صورتحال کشیدہ ہے۔ آرمی چیف نے ایران سعودی عرب تعلقات کا بھی حوالہ دیا اور مولانا سے کہا کہ یہ دھرنے کیلئے درست وقت نہیں کیونکہ ملکی معیشت کو دن رات محنت سے درست سمت کی طرف لیجایا گیا ہے۔ پروگرام کے شریک میزبان کے مطابق، آرمی چیف نے واضح کیا کہ وہ اس وقت کسی بھی طرح کے عدم استحکام کی اجازت نہیں دیں گے۔ آرمی چیف نے مائنس عمران کے امکانات کو بھی مسترد کر دیا کیونکہ وہی آئینی وزیراعظم ہیں۔

انہوں نے مولانا کو بتایا کہ آپ اور نہ ہی میں انہیں مائنس کر سکتے ہیں۔ شریک میزبان کے مطابق، آرمی چیف نے یہ بھی واضح کیا کہ اگر مولانا نے احتجاج پر اصرار کیا تو کچھ اور لوگ مائنس ہو سکتے ہیں۔

استحکام کیلئے اگر جانی نقصان ہوا اور آئین اس کی اجازت بھی دیتا ہے تو ایسے کسی بھی اقدام سے نہیں ہچکچائیں گے۔آرمی چیف کے ساتھ اس ملاقات کے حوالے سے موقف معلوم کرنے کیلئے مولانا دستیاب نہیں تھے۔

پروگرام کے شریک میزبان نے مزید دعویٰ کیا کہ مولانا نے ایک روز قبل مارچ کیلئے آشیرباد کے حصول کیلئےکسی شخص کو فون کال کی تھی اور ساتھ ہی یہ یقین دہانی کرائی کہ وہ دھرنا نہیں دیں گے اور کوئی عوامی اجتماع نہیں ہوگا، لیکن انہیں صرف مارچ کیلئے اجازت دی جائے۔ شریک میزبان کا کہنا تھا کہ مولانا کو ایسا کرنے سے سختی سے منع کر دیا گیا۔

شریک میزبان نے اس شخص کا نام نہیں بتایا جسے مولانا نے فون کال کی تھی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ مولانا کے حوصلے پست ہو رہے ہیں کیونکہ حکومت نے گزشتہ چار سے پانچ روز کے دوران اپنے آپشنز دانشمندی سے استعمال کیے ہیں۔
صالح ظافر کی اس خبر کے بعد اگر آئی ایس پی آر وضاحت کرے گا تو مولانا فضل الرحمٰن کی مراد بر آئے گی کہ وہ فوج کو سیاست میں ملوث کروانا چاہیں گے تاکہ معاملات کھلیں۔ یہ جو ہماری پاک فوج کے نادان دوست ٹائپ صحافی ہیں، یہ ان کے لیے مشکلات کا باعث بنتے جا رہے ہیں۔ چوہدری غلام حسین اور جناب صابر شاکر کو صالح ظافر صاحب نے ایک نئی مصیبت میں ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
وزیراعظم کے استعفے سے پیچھے نہیں ہٹا جائے گا، فضل الرحمان
ویب ڈیسک ایک گھنٹہ پہلے
1855790-fazalurrehmanx-1572010770-149-640x480.jpg

وزیراعظم کے استعفیٰ سے پیچھے نہیں ہٹا جائے گا، سربراہ جے یو آئی (ف)، فوٹو: فائل

لاڑکانہ: جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ حکومت ہمارے رہنماؤں اور کارکنان کی گرفتاری کے ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے۔

لاڑکانہ میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ حکومت ہمارے رہنماؤں اور کارکنان کی گرفتاری کے ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے، ٹرانسپورٹرز اور پٹرول پمپ والوں کو گاڑی اور پٹرول دینے سے روکا جارہا ہے، دوسری جانب انصار الاسلام پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے جب کہ انصارالاسلام حکومتی اجازت سے صرف جلسے اور انتظامات کو سنبھالتی ہے، ایک طرف پابندی لگائی جارہی ہے اور دوسری طرف کہا جارہا ہے کہ آپ غیرمحفوظ ہیں۔

مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ یہ اسمبلی جعلی ہے، اتنی دھاندلی اور اتنی نااہل حکومت آج تک نہیں دیکھی، عالمی رپورٹ کے مطابق اس حکومت میں کرپشن میں اضافہ ہوا، میں نے رہبر کمیٹی کو ہدایت دے دی ہے کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کو طول نہ دیا جائے اس سے مارچ متاثر ہو سکتا ہے، حکومت کے سامنے چارٹر آف ڈیمانڈ واضح کر دیا جائے اور بتایا جائے کہ وزیراعظم کے استعفیٰ سے پیچھے نہیں ہٹا جائے گا۔

سربراہ جے یو آئی نے مزید کہا کہ نواز شریف نے قربانی دی ہے اگر ان کی حالت زیادہ دن اسی طرح رہتی توان کا جنازہ نکلتا۔
 

فرقان احمد

محفلین
اس وقت ہماری جو معاشی حالت ہے، ہم اس مارچ یا دھرنے کے متحمل نہیں ہیں ۔ ویسےیہ دھرنا یا مارچ تو خالصتاََ عمران خان صاحب کی بے جا للکار کے باعث منعقد کیا جا رہا ہے۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ کم از کم ہم اپنی زبانوں پر ہی قابو رکھ لیتے۔ احتسابی اداروں کو اپنا کام کرنے دیتے۔ بہتر یہی ہے کہ حتسابی عمل بلا امتیاز ہو تاکہ اپوزیشن کو شکوہ شکایت کا موقع ہاتھ نہ آئے۔ بدقسمتی سے، حکومتی صفوں میں بھی کرپٹ افراد موجود ہیں اور یہی وجہ ہے کہ معمولی ذہانت رکھنے والا فرد بھی موجودہ احتسابی نظام کو انتقام تصور کرتا ہے۔ اسی سبب اب تک اپوزیشن کا منجن بِک رہا ہے اور ایک سال گزرنے کے باوجود اپوزیشن جماعتیں مضبوط قوت کے طور پر موجود ہیں اور اب وہ مزید زور پکڑیں گی۔ موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیاں درست سمت میں ہیں، یا ہوں گی، تاہم، معاشی استحکام کیسے آئے گا اگر اس حد تک سیاسی بے یقینی ہو گی۔ ہمارے خیال میں، اس میں زیادہ تر قصور محترم عمران خان کا اپنا ہے۔ کوئی تھکے سے تھکا سیاست دان بھی یہ قبول نہیں کر سکتا ہے کہ اسے سزا بھی دی جائے اور دس جگتیں بھی لگائی جائیں۔ وزیراعظم کا عہدہ ایسی جگتوں کے باعث بے توقیر ہو چلا ہے۔ شائستگی، رواداری، رکھ رکھاؤ قصہء پارینہ ہوئے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ہمارے خیال میں، اس میں زیادہ تر قصور محترم عمران خان کا اپنا ہے۔ کوئی تھکے سے تھکا سیاست دان بھی یہ قبول نہیں کر سکتا ہے کہ اسے سزا بھی دی جائے اور دس جگتیں بھی لگائی جائیں۔ وزیراعظم کا عہدہ ایسی جگتوں کے باعث بے توقیر ہو چلا ہے۔ شائستگی، رواداری، رکھ رکھاؤ قصہء پارینہ ہوئے۔
خیر یہ دلیل قابل قبول نہیں۔ نواز شریف نے اپنے دور حکومت میں عمران خان سمیت پوری اپوزیشن کو اپنے ساتھ بٹھا کر اقتدار کے مزے لوٹے تھے۔ اس کے باوجود ان کے خلاف بار بار دھرنے ہوئے۔ اگر صرف شائستگی، رواداری اور رکھ رکھاؤ کے ساتھ اپوزیشن کو رام کیا جا سکتا تو عمران خان یہ کام وزیر اعظم بننے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں کر سکتے تھے۔
 

جاسم محمد

محفلین
آزادی مارچ؛ اپوزیشن کا رویہ ہٹ دھرمی پر مبنی ہے، وزیر اعظم
2 گھنٹے پہلے
1856184-imrankhanreturnpakistan-1572035153-722-640x480.jpg

عدالتی فیصلوں کی روشنی میں مارچ کو ڈی چوک تک آنے کی اجازت نہیں دے سکتے، عمران خان (فوٹو: فائل)


وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اپوزیشن کا رویہ غیر جمہوری اور ہٹ دھرمی پر مبنی ہے عدالتی فیصلے کی روشنی میں آزادی مارچ کو ڈی چوک تک آنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق حکومت کی مذاکراتی کمیٹی اور اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے درمیان آزادی مارچ کے حوالے سے مذاکرات ہورہے ہیں۔ اس حوالے سے پرویز خٹک نے وزیر اعظم کو اپوزیشن سے مذاکرات کے معاملے سے آگاہ کیا۔

ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نے کہا ہے کہ پرامن احتجاج کے حق کو تسلیم کرتے ہیں لیکن عدالتی فیصلوں کی روشنی میں مارچ کو ڈی چوک تک آنے کی اجازت نہیں دے سکتے اور عدالتی فیصلوں سے انحراف نہیں کرسکتے، ہم نے بات چیت کے ذریعے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اپوزیشن کا رویہ غیر جمہوری اور ہٹ دھرمی پر مبنی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
دھرنے کے اثرات۔ سیالکوٹ سے ہر طرح کی ایکسپورٹ امپورٹ کارگو کی ترسیل رک گئی ہے، جو کنٹینرز راستے میں تھے وہ بھی روک دیئے گئے ہیں۔

ذاتی طور پر میری نوکری کے لیے ایک شدید چیلنج، دیکھیے جو اللہ کو منظور۔

Fullscreen-capture-26-10-2019-103010-AM.jpg
 

جاسم محمد

محفلین
آزادی مارچ؛ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کامیاب
ویب ڈیسک 3 گھنٹے پہلے
1857360-rehberaurhukumaticommittee-1572111320-778-640x480.jpg

رہبر کمیٹی نے یقین دلایا ہے کہ وہ ریڈ زون یا ڈی چوک نہیں جائیں گے جلسہ یا دھرنا ایچ نائن اتوار بازار کے ساتھ ملحقہ گراؤنڈ میں ہوگا، پرویز خٹک (فوٹو: فائل)

اسلام آباد: حکومت اور اپوزیشن کے درمیان آزادی مارچ پر مذاکرات کامیاب ہوگئے، آزادی مارچ ڈی چوک میں داخل نہیں ہوگا جب کہ حکومت جلسے یا دھرنے کی راہ میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ڈالے گی۔

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حکومتی مذاکرات کمیٹی کے رکن پرویز خٹک نے کہا کہ آزادی مارچ کے معاملے پر اپوزیشن کی رہبر کمیٹی سے اچھے ماحول میں مذاکرات ہوئے اور تحریری طور پر معاہدہ طے پاگیا ہے جس کے تحت حکومت احتجاج کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گی، کھانے پینے کی اشیا اور دیگر سامان نہیں روکا جائے گا، سڑکیں بند نہیں کی جائیں گی، جے یو آئی آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر اپنا پرامن احتجاج ریکارڈ کرائے گی۔

پرویز خٹک نے کہا کہ اکرم درانی نے یقین دلایا ہے کہ وہ ریڈ زون یا ڈی چوک نہیں جائیں گے جلسہ یا دھرنا ایچ نائن اتوار بازار کے ساتھ ملحقہ گراؤنڈ میں ہوگا جو کہ پرامن ہوگا، یہ جگہ 20 سے 30 ایکڑ پر محیط اور کافی کشادہ ہے، تحریری معاہدہ ہوگیا ہے صرف دستخط ہونا باقی ہیں، اپوزیشن نے یقین دہائی کرائی ہے کہ احتجاج کے دوران سڑکیں بند نہیں ہوں گی، کاروبار، دفاتر اور اسکول کھلے رہیں گے باقی اپوزیشن کی مرضی وہ وہاں جب تک بیٹھیں۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ہمارا ڈیڈ لاک جلسے کے مقام کا تھا اب معاہدہ ہوگیا ہے تو چھوٹی چھوٹی باتیں خود بخود ختم ہوگئی ہیں، یہ معاہدہ ہمارے ساتھ ہوا ہے تاہم تحریری طور پر انتظامیہ سے ہے، ہماری اپوزیشن سے کوئی ڈیل نہیں ہورہی، ہم جمہوری لوگ ہیں اور ہر کسی کو احتجاج کا حق حاصل ہے بس ہم چاہتے ہیں کہ احتجاج آئینی دائرے میں ہو، ہمیں یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ کسی کو نقصان نہیں پہنچے گا تو یہ معاہدہ ہوگیا۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت ریڈ زون پر جلسے کی اجازت دینے پر راضی نہیں تھی اور اسی پر ڈیڈ لاک تھا، اپوزیشن کی رہبر کمیٹی باہر جلسہ کرنے پر راضی ہوگئی کہ وہ ڈی چوک نہیں جائے گی تو ڈیڈ لاک ختم ہوگیا، اب وہ گراؤنڈ میں جلسہ کریں یا دھرنا دیں یہ ان کی مرضی پر منحصر ہے، رہبر کمیٹی اپنے معاہدے پر عمل شروع کردے تو راستوں سے کنٹینر ہٹانے کا کام شروع کردیا جائے گا۔

پرویز خٹک نے مزید کہا کہ اپوزیشن نے دھرنا ختم یا موخر کرنے کے معاملے پر وزیر اعظم کے استعفی کا کوئی مطالبہ نہیں کیا۔
2l8QTsc.jpg
 

رانا

محفلین
دھرنے کے اثرات۔ سیالکوٹ سے ہر طرح کی ایکسپورٹ امپورٹ کارگو کی ترسیل رک گئی ہے، جو کنٹینرز راستے میں تھے وہ بھی روک دیئے گئے ہیں۔
ذاتی طور پر میری نوکری کے لیے ایک شدید چیلنج، دیکھیے جو اللہ کو منظور۔
اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اس وقت ہماری جو معاشی حالت ہے، ہم اس مارچ یا دھرنے کے متحمل نہیں ہیں ۔ ویسےیہ دھرنا یا مارچ تو خالصتاََ عمران خان صاحب کی بے جا للکار کے باعث منعقد کیا جا رہا ہے۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ کم از کم ہم اپنی زبانوں پر ہی قابو رکھ لیتے۔ احتسابی اداروں کو اپنا کام کرنے دیتے۔ بہتر یہی ہے کہ حتسابی عمل بلا امتیاز ہو تاکہ اپوزیشن کو شکوہ شکایت کا موقع ہاتھ نہ آئے۔ بدقسمتی سے، حکومتی صفوں میں بھی کرپٹ افراد موجود ہیں اور یہی وجہ ہے کہ معمولی ذہانت رکھنے والا فرد بھی موجودہ احتسابی نظام کو انتقام تصور کرتا ہے۔ اسی سبب اب تک اپوزیشن کا منجن بِک رہا ہے اور ایک سال گزرنے کے باوجود اپوزیشن جماعتیں مضبوط قوت کے طور پر موجود ہیں اور اب وہ مزید زور پکڑیں گی۔ موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیاں درست سمت میں ہیں، یا ہوں گی، تاہم، معاشی استحکام کیسے آئے گا اگر اس حد تک سیاسی بے یقینی ہو گی۔ ہمارے خیال میں، اس میں زیادہ تر قصور محترم عمران خان کا اپنا ہے۔ کوئی تھکے سے تھکا سیاست دان بھی یہ قبول نہیں کر سکتا ہے کہ اسے سزا بھی دی جائے اور دس جگتیں بھی لگائی جائیں۔ وزیراعظم کا عہدہ ایسی جگتوں کے باعث بے توقیر ہو چلا ہے۔ شائستگی، رواداری، رکھ رکھاؤ قصہء پارینہ ہوئے۔
تمام اپوزیشن جماعتیں ایک پیج پر جبکہ فوج اور تحریک انصاف دوسرے پیج پر۔ دیکھتے ہیں کونسا پیج سرخرو ہوتا ہے :)
74329025-2601807586553847-5555675819558305792-n.jpg
 

جاسم محمد

محفلین
مولانا فضل الرحمان کی زیر قیادت اسلام آباد کی جانب آزادی مارچ کا آغاز
ویب ڈیسک اتوار 27 اکتوبر 2019
1857278-JUIFrallyphotoexpress-1572100245-205-640x480.JPG

ہمارا قیام اداروں کے احترام کے تحت ہوگا، مولانا فضل الرحمان فوٹو: فائل

کراچی: جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی زیر قیادت اسلام آباد کی جانب آزادی مارچ کا باقاعدہ آغاز ہوگیا۔

جے یو آئی کے آزادی مارچ کارواں کا آغاز کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ سے ہوا ۔ مارچ کی سربراہی مولانا فضل الرحمان کررہے ہیں، جب کہ مارچ کی نگرانی صوبائی سیکریٹری جنرل مولانا راشد محمود سومرو کررہے ہیں۔ مارچ میں جے یو آئی (ف)کے رہنماؤں اور کارکنوں کے علاوہ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور دیگر جماعتوں کے مقامی قائدین اور کارکن بھی شریک ہیں۔

انتظامی معاملات اور شیڈول

مارچ میں شامل ہونے والے کارکنان کو علاقائی اور ضلعی سطح پر تقسیم کیا گیا ہے تاکہ مارچ میں شامل کارکنوں کو کھانے، پینے اور دیگر سہولتوں کی فراہمی بہتر انداز میں ہوسکے۔ شیڈول کے مطابق مارچ کے شرکا ایم نائن موٹر وے سے حیدر آباد پہنچیں گے۔ جہاں سے مارچ کے شرکا سکرنڈ، نواب شاہ ، قاضی احمد، مورو، دولت پور، نوشہرو فیروز، کنڈیارو، ہالانی، رانی پور، گمبٹ، خیر پور اور روہڑی سے ہوتے ہوئے رات گئے سکھر پہنچیں گے۔

اتوار کی رات مارچ کے شرکا سکھر میں ہی قیام کریں گے پیر کی صبح روہڑی میں بلوچستان سے آنے والے قافلے بھی مارچ میں شامل ہوجائیں گے، 28 اکتوبر کی صبح 11 بجے مارچ کا رخ پنجاب کی جانب ہوگا جو اوباڑو سے پنجاب میں داخل ہوگا۔

’عمران خان کواستعفیٰ دینا ہوگا‘

آزادی مارچ کے آغاز پر کارکنوں سے خطاب کے دوران مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ہم نے پوری قوم اور کشمیریوں سے وعدہ کیا تھا کہ 27 اکتوبر کو یوم یکجہتی منائیں گے، ہم ہر مشکل گھڑی میں کشمیریوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں، اس یکجہتی سے بھارتی حکومت کو بھی پیغام مل رہا ہے۔ کراچی کے لوگوں نے ثابت کردیا کہ جب پورا ملک اکٹھا ہوگا تو کیا ہوگا، عمران خان کو استعفیٰ دینا ہوگا، ہم سے این آر او لینے آپ کی ٹیم آئے گی، اسلام آباد میں ہمارا قیام اداروں کے احترام کے تحت ہوگا۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہمیں اس ملک کی سیاست کا تجربہ ہے، ہم ملک کے آئین اور جمہوریت کے ذمہ دار رہے ہیں، ہم 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات اور اس کے نتیجے قائم ہونے والی حکومت کو تسلیم نہیں کرتے، ہم نے اپنے سفر کا آغاز باب اسلام سے کیاہے، جب یہ قافلہ اسلام آباد میں دم لے گا تو اسلام کا نام بلند ہوگا، حافظ حمد اللہ کی شہریت کے فیصلے کے بعد انھوں نے مفتی کفایت اللہ کو بھی گرفتار کرلیا، حکومت کے اوچھے ہتھکنڈے ان کے اپنے گلے پڑیں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
’بی بی آپ آزادی مارچ میں کیا کر رہی ہیں؟‘
کراچی سے شروع ہونے والے آزادی مارچ میں موجود واحد خاتون رپورٹر سے کیسا برتاؤ کیا گیا، مارچ کے شرکا کتنے تھے اور ان کے لیے انتظامات کیسے تھے؟

رمیشہ علی
نامہ نگار، کراچی RamishaPAK@
اتوار 27 اکتوبر 2019 19:45

49541-1568282057.jpg



مارچ کی روانگی کے لیے صبح گیارہ بجے کا وقت مقرر ہونے کے باوجود دوپہر دو بجے کے قریب قافلہ روانہ ہوا(اے ایف پی)

عمران خان کی حکومت کے خلاف جمیعت علمائے اسلام ۔ ف کے آزادی مارچ کا آغاز اتوار کو کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ سے ہو گیا۔

روانگی کے لیے صبح گیارہ بجے کا وقت مقرر ہونے کے باوجود دوپہر دو بجے کے قریب قافلہ روانہ ہوا۔ جلسے میں دور دور تک کسی خاتون کا نام و نشان نہیں تھا اور مجھے رپورٹنگ کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی کیوں کہ میں ایک عورت ہوں۔

غالباً اس مارچ میں خواتین کو شرکت کرنے کی اجازت نہیں کیوں کہ میں مرکزی سٹیج سے ایک میل کے فاصلے پر گاڑی میں موجود تھی اور میں نے جتنی بار بھی گاڑی سے اتر کرمارچ کی رپورٹنگ کرنے کی کوشش کی، مجھے جلسے کے شرکا میں سے کوئی نہ کوئی واپس گاڑی کی طرف بھیج رہا تھا۔

وزارت داخلہ نے جے یو آئی ۔ف کی رضا کار فورس ’انصار السلام‘ پر پابندی عائد کی ہے لیکن یہاں ایک خاکی وردی والے رضاکار نے انتہائی بد تمیزی سے مجھے کہا کہ میری موجودگی سے مارچ کا ماحول خراب ہورہا ہے۔

شاید کچھ قارئین یہ سوچیں گے کہ میرا لباس مناسب نہیں تھا، لیکن میں واضح کر دوں کہ سر سے پاؤں تک میرا جسم ڈھکا ہوا تھا اور سر پر دوپٹہ بھی موجود تھا۔

ایک موقعے پر میں نے گاڑی سے باہر آکر کیمرا سیٹ کرنے کی کوشش کی تو سفید لباس میں ملبوس ادھیڑ عمر آدمی نے انتہائی اونچی آواز میں کہا ’آپ یہاں پر کیا تماشا لگا رہی ہیں، یہ آزادی مارچ ہے یہاں عورتیں رپورٹنگ نہیں کرتیں۔‘

اسی طرح ایک اور شخص نے مجھے گاڑی میں واپس بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’تم عورت ہو تمہیں شرم نہیں آتی، یہاں بے حیائی مت پھیلاؤ۔‘ آخراپنا کام کرنے میں یہ کون سی بے حیائی ہے؟ مجھے سمجھ نہیں آیا۔

ان تمام مشکلات کے باوجود میں نے اپنا کام مکمل کیا، لیکن آخر یہ کس قسم کا آزادی مارچ ہے، جہاں ایک عورت کو عزت سے کام کرنے کی آزادی تک نہیں۔ میرے کچھ نہ کہنے اور کرنے کا باجود خود بخود ’آزادی مارچ ‘کا ماحول کیسے خراب ہورہا تھا؟

مارچ کا غیر متاثر کن آغاز

آج مارچ کی تیاریوں کے آغاز سے لے کرسکھرکی جانب روانگی تک کراچی کو پورے ملک سے جوڑنے والی انتہائی اہم ترین ایم نائن شاہراہ تقریباً پانچ گھنٹے تک دونوں اطراف سے مکمل طور پر بند تھی۔

مارچ میں مسلم لیگ ن، اے این پی، پاکستان پیپلزپارٹی اور جمیعت علمائے اسلام ف کے سیاست دان اور کارکنان موجود تھے۔

اے این پی کی نمائندگی شاہی سید جبکہ ن لیگ کی نمائندگی سابق گورنر سندھ محمد زبیر کررہے تھے۔ کہا جارہا تھا کہ سکھر سے بلاول بھٹو زرداری بھی مارچ میں شامل ہوں گے۔

کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ کے رہنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ الآصف سکوائر کے سامنے موجود پیدل چلنے والوں کے لیے مخصوص پُل کی کیا اہمیت ہے، کیوں کہ نیشل ہائی وے کی طرف جانے اور وہاں سے آنے والی سڑک کے درمیان کافی اونچی دیوار ہے۔ اس وجہ سے سب سےزیادہ رش اس پُل پر تھا، جس سے نہ صرف جلسے کے شرکا گزرنے کی کوشش کر رہے تھے بلکہ کراچی سے دیگر شہروں کی طرف روانہ ہونے والے مسافر اپنا سامان جلسے کے شرکا سے بچانے کے لیے پل پر رکھ کر کئی گھنٹوں سے بیٹھے تھے۔

مولانا فضل الرحمان نےجلوس سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ابتدا سے ہی چار لاکھ افراد آزادی مارچ کے ہمراہ سکھر کی جانب بڑھ رہے ہیں لیکن ان کا اندازہ غلط تھا، میرے اندازے کے مطابق مارچ کے لیے چند ہزار افراد شریک تھے اور اس کی بھی آدھی تعداد سکھر کے لیے روانہ ہوئی۔

آج کراچی سے روانہ ہونے ہونے والا مارچ نیشنل ہائی وے پر نواب شاہ، نوشہرو فیروز اور خیرپور سے ہوتے ہوئے رات دیر گئے سکھر پہنچے گا، جہاں قیام کے بعد پیر کو یہ قافلہ پنو عاقل اور گھوٹکی سے ہوتا ہوا کموں شہید اور وہاں سے پنجاب کی حدود میں داخل ہوگا ۔
 

فرقان احمد

محفلین
تعداد پچاس ہزار بھی ہوئی تو بہت ہے۔ معاملہ نفری کا نہیں، امپیکٹ کا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں اب بھی زندہ ہیں یا کم از کم سانس لے رہی ہیں۔ دراصل، سارا معاملہ مومینٹم کا ہے۔ اب حکومت پہلے سی مضبوط نہیں رہی اور ایک سال کے مقابلے میں اپوزیشن میں اب زیادہ دَم خَم ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو اب اپوزیشن سے بھی بنا کر رکھنا پڑے گی۔ حکومت کا ہنی مون پیریڈ کب کا ختم ہو گیا۔ اب جو ملے گا، اپوزیشن کو ملے گا۔ حکومت نے ہمیشہ اپوزیشن کو کچھ نہ کچھ دینا ہی ہوتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
انسانوں کا سیلاب ایوانوں کے کچرے کو اپنے ساتھ بہا کرلے جائے گا، فضل الرحمان
ویب ڈیسک پير 28 اکتوبر 2019
1858988-fazalurrehmanx-1572253488-951-640x480.jpg

جبر کی بنیاد پر عوام پر حکومت نہیں کی جا سکتی، فضل الرحمان: فوٹو: فائل

سکھر: جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ انسانوں کا سیلاب ایوانوں کے کچرے کواپنے ساتھ بہا کرلے جائے گا۔

سکھر میں آزادی مارچ کے دوسرے مرحلے پر ملتان روانگی سے قبل اپنے خطاب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ سب جانتے ہیں حکمرانوں نے کشمیر کا سودا کرلیا ہے، انہوں نے کشمیرکا مسئلہ گمبھیرکردیا ہے۔ یہ پاکستان کی نمائندہ حکومت نہیں ہے، جبر کی بنیاد پر عوام پر حکومت نہیں کی جا سکتی، تمام سیاسی جماعتیں ملک پر جبر محسوس کر رہی ہیں، ملک کی معیشت تباہ ہو چکی ہے اور یہ ملک کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔ حکمران ملک کی کشتی کوڈبورہے ہیں جسے عوام کو بچانا ہے۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پاکستان کے وجود اور آئین کو خطرہ ہے، آئین پاکستان کو دیباچہ اور بچوں کا کھیل بنا دیا گیا ہے، ہم آئین ،جمہوریت اور اسلام کےلیے نکلے ہیں، ہم ملک میں جمہوریت کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں، ہم پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں، سیاسی جنگ کا طبل جنگ بج چکا ہے، ہمیں سیاسی جنگ لڑنی ہے، عوام اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کریں گے تاکہ قوم کو ظالموں سے نجات مل سکے ،آج انسانوں کا سیلاب اسلام آباد کی طرف جا رہا ہے، یہ طوفان ایوانوں کے کچرے کو اپنے ساتھ بہا کر لے جائے گا۔
 
Top