ربیع م
محفلین
مولانا مودودی خادمِ اسلام یا انتہا پسند؟
وسعت اللہ خان بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
’وہ معروف مذہبی سکالر اور مبلغِ اسلام تھے۔ان کا شمار بیسویں صدی کے صفِ اول کے موثر اسلامی فلسفیوں میں ہوتا ہے۔ان کی زندگی اور نظریات کو دنیا بھر میں مسلمان اور غیر مسلم محققین نے اپنی تحقیق کا موضوع بنایا ۔وہ ایک وسیع العلم شخصیت تھے جن کی تحریروں نے عالمِ اسلام میں اسلامی اقدار اور روحِ اسلام کو اجاگر کیا۔ انھیں کنگ فیصل ایوارڈ اسلامی صحافت کے فروغ اور برصغیر میں اسلامی نظریات کے احیا کے اعتراف میں عطا کیا گیا۔‘
مولانا مودودی کے بعد خدمت ِ اسلام کے شعبے میں کنگ فیصل ایوارڈ شاہ خالد اور پھر شاہ فہد بن عبدالعزیز کو بھی دیا گیا اور یہی ایوارڈ مولانا مودودی کو ملنے کے گیارہ برس بعد (1990) ان کے شاگرد پروفیسر خورشید احمد کو بھی عطا ہوا۔
اور پھر دو دسمبر 2015 کو سعودی اخبار عرب نیوز میں یہ خبر شائع ہوئی کہ سعودی وزارتِ تعلیم نے اخوان المسلمون کے بانی حسن البنا، سئید محمد قطب، قطر کے عالم یوسف القرادوی اور مولانا مودودی کی تصنیفات سمیت 80 کتابوں پر پابندی عائد کردی ہے۔
تمام سعودی سکولوں، لائبریریوں اور ریسورس سینٹرز کو حکم دیا گیا ہے کہ دو ہفتے کے اندر ان مصنفین کی کتابیں وزراتِ تعلیم میں جمع کرا دیں ورنہ تادیبی کاروائی ہوگی۔ نیز خبردار کیا گیا کہ آئندہ کوئی سکول، لائبریری اور ریسورس سینٹر سوائے وزارتِ تعلیم کسی اور سے کتابوں کا عطیہ یا تحائف قبول نہ کرے۔
گو ان تصنیفات کو ممنوع قرار دینے کی سرکاری وجہ تو نہیں بتائی گئی البتہ وزارتِ تعلیم کے اندرونی ذرائع کے مطابق یہ فیصلہ سعودی عرب میں دہشت گردی اور انتہا پسندی ابھارنے والے لٹریچر کے خلاف مہم کا حصہ ہے۔
مولانا مودودی کی جن 20 کتابوں اور کتابچوں کو ممنوع قرار دیا گیا ان میں پردہ، اسلام اور جاہلیت، تفسیر سورہِ نور، شہادتِ حق، اسلامی دستور کی تدوین، اسلامی نظامِ زندگی اور اس کے بنیادی تصورات، مبادیِ اسلام، معاشیاتِ اسلام، قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں اور قرآن فہمی کے بنیادی اصول نامی کتابیں بھی شامل ہے۔
جولائی 2010 میں بنگلہ دیش میں مولانا ابو اعلیٰ مودودی کی تمام کتابیں ملکی مساجد کی لائبریریوں سے ہٹا دی گئیں
چلیے بنگلہ دیش کی عوامی لیگی حکومت کے بارے میں تو طے ہے کہ اس نے ہمیشہ جماعتِ اسلامی اور اس کے بانی کو نظریاتی دشمن سمجھا اور ان سے اسی طرح نپٹا بھی۔ لیکن سعودی عرب تو ایسا نہ تھا۔
جس زمانے میں جمال ناصر کی عرب قوم پرستی ہر جانب چھا رہی تھی اس دور میں سعودی اسٹیبشلمنٹ اخوان المسلمون سے ہمدردی رکھتی تھی۔ جب افغانستان میں روسی فوج اتری تو سعودی عرب، پاکستانی اسٹیبشلمنٹ اور جماعتِ اسلامی یک جان دو قالب تھے۔
مگر یہ دن بھی آ گیا کہ سعودی عرب نے گذشتہ برس ( مارچ 2014 ) اخوان کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا اور اب اخوانی مصنفین کے ساتھ ساتھ مولانا مودودی کی تصانیف بھی سعودی مملکت کے لیے نظریاتی خطرہ ٹھہریں۔ لیکن حسن البنا، سئید قطب اور یوسف القرداوی کے برعکس مولانا کو تو اعلیٰ ترین علمی ایوارڈ عطا ہوا تھا۔ تو پھر یہ کیا ہوا کہ
فرشتوں سے بھی اچھا میں برا ہونے سے پہلے تھا
وہ مجھ سے انتہائی خوش خفا ہونے سے پہلے تھا۔
دیکھنے کی بات یہ ہوگی کہ جس غیر معمولی اسلامی سکالر کو غیر معمولی خدمتِ اسلام پر 36 برس پہلے کنگ فیصل ایوارڈ ملا ۔اسی سکالر کی وہی تحریریں ممنوع ہونے کے بعد کنگ فیصل ایوارڈ بھی واپس لیا جاتا ہے کہ نہیں۔
یا تو وہ کور چشم فیصلہ تھا یا پھر تازہ فیصلہ غلط ہے۔ مگر وہ بادشاہ ہی کیا جس کا کوئی فیصلہ کبھی غلط ہو ۔اسی لیے تو سیانے کہتے ہیں کہ بادشاہ کی اگاڑی سے بھی بچو اور پچھاڑی سے بھی۔
اس کی نگاہ بدلنے سے پہلے کی بات ہے
میں آسمان پر تھا ، ستارہ زمین پر ۔