مولانا ڈاکٹر منظور مینگل نے 2 ماہ میں پی ایچ ڈی کر لی

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سعادت

تکنیکی معاون
[...]

اعزازی ڈگری ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کو نہیں ملا کرتی :D

درست۔ لیکن بات اعزازی ڈگری اور "کمائی گئی" (earned) ڈگری کے تقابل کی ہو رہی ہے۔ کچھ یونیورسٹیز، مثلاً مِشی گن سٹیٹ یونیورسٹی، کی تجاویز میں شامل ہے کہ اپنے سی-وی میں اعزازی ڈگریوں کا اندراج "اعزازات" کے ذیل میں کریں، "تعلیم" کے ذیل میں نہیں۔ اور کچھ سکالرز تو ایسے بھی گزرے ہیں جو اعزازی ڈگریوں کو "ادبی خیرات (literary almsgiving)" کہا کرتے تھے۔

ذاتی طور پر مجھے اعزازی ڈگریوں کو دیگر ڈگریوں کے برابر سمجھنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن یہ بات ہضم کرنا میرے لیے کچھ مشکل ہے کہ اعزازی ڈگری باقی ڈگریوں سے "برتر" ہوتی ہے۔
 

دوست

محفلین
لو فیر اعزازی ڈگری کی بات سنو۔ ابھی کل ہی ڈاکٹر جہانگیر بدڑ کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کی خبر پڑھی ہے۔ پتہ نہیں یہ بھی کوئی اعزازی ڈگری ہی جاری ہوئی ہے جہانگیر بدڑ کو۔
 
لو جی سید ذیشان جیسے لبرل اور متحمل مزاج شخص پر بھی رافضی ہونے کا فتویٰ لگ گیا ۔۔۔ ۔ ذیشان مبارک ہو

بابا جی جس رویے اور سلسلے کا اکثر آپ پرچار کرتے نظر آ تے ہیں وہ تو سراپا محبت اور عشق کے سلسلے ہیں،
پر جہاں ایک خاص فرقے کی کوئی بات ہو رہی ہو وہاں آپ سارے لبادے اتار پھینکتے ہیں،
اعلیٰ حضرت محبتیں بانٹیئے، محبت بنیئے، در گزر کر دیا کریں، ایسی جگہوں سے نا گزرا کریں جہاں سے اصلیت کا وحشی ریاضت کے لبادے چیر کے باہر آ دھمکنے اور بنائی وضع کو چیر پھاڑنے کو مضطرب دکھنے لگے۔
 

عبد الرحمن

لائبریرین
مولانا منظور احمد مینگل صاحب سے ایک ملاقات کا قصہ
ہم نے تمام تر دفتری کاموں کو جلد از جلد نمٹایا اور پانچ بجتے ہی کھڑے ہوگئے۔ نیچے جاکر گاڑی سنبھالی اور کلفٹن سے شاہ فیصل کالونی تک کا راستہ تقریباً آدھے گھنٹے میں طے کرکے جامعہ فاروقیہ پہنچ کردم لیا۔ گاڑی پارک کرکے اندر جانے والے گیٹ تک پہنچے تو امام مسجد جناب مولانا منظور مینگل صاحب گیٹ پر ہی براجمان تھے ۔ ہم نے سلام کیا اور مصافحہ کرنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو مولانا نے ہاتھ تھام لیا۔ نام پوچھا، ہم نے اپنا نام بتایا۔ کہنے لگے ’’خلیل بھائی! ایک درخواست ہے۔ کیا آپ ہمیں ٹبا ہسپتال تک لے چلیں گے؟‘‘ اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں۔ ہم نے فوراً حامی بھر لی۔ منظور صاحب نے فوراً ایک لڑکے کو آواز دے کر بلایا ، اسے ماسٹر جی تک ہماری غیر حاضری کا سبب بتلانے کا کہہ کربھیج دیا اور ہمارے ساتھ گاڑی کی جانب چل دئیے۔​
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم جامعہ فاروقیہ سے دراساتِ دینیہ کا تین سالہ کورس کررہے تھے۔ ہر روز پانچ بجے آفس سے فارغ ہوکر نکلتے اور جامعہ کی جانب دوڑ لگادیتے۔ اکثرپھاٹک کی جانب سے پہنچتے اور کبھی کبھی شاہ فیصل کالونی کے پل پر سے ہوتے ہوئے جامعہ پہنچتے۔ شوق مہمیز کا کام دے رہا ہوتا تھا، اس لیے راستے کی طولت کا اندازہ نہ ہوتا۔ عصر سے عشاء تک کلاسیں ہواکرتیں ۔ ہم شوق محبت اور لگن سے پڑھتے۔ اساتذہ کا سلوک بھی دیدنی ہوتا۔ وہ ہمیں جامعہ کے مہمان جان کر بہت نرمی اور شفقت کا برتاؤ کرتے۔ عصرکی اکثر نمازیں اور مغرب و عشاء کی تقریباً تمام نمازیں ہم جامعہ ہی میں ادا کرتے تھے۔ جامعہ کی مسجد کے امام صاحب لحنِ داؤدی کے مالک تھے اور ایک وجد کے عالم میں قراٗت فرماتے تو مغرب اور عشاء کی نماز پڑھنے کا مزہ دوبالا ہوجاتا۔​
ایک دن اطلاع آئی کہ شیخ الجامعہ جناب مولانا سلیم اللہ خان صاحب کی طبیعت ناساز ہے اور انہیں ٹبا ہارٹ ہسپتال میں داخل کردیا گیا ہے۔ کئی مرتبہ جی للچایاکہ جائیں کسی بہانے ان کی زیارت کرلیں اور طبیعت کے بارے میں پوچھ آئیں لیکن کوئی تدبیر کارگر ہوتی نظر نہ آتی تھی۔ ابھی اسی شش و پنج میں تھے کہ اطلاع ملی کہ حضرت کی انجیو پلاسٹی ہوبھی چکی ۔ اگلے ہی دِن جامعہ پہنچے تو امام صاحب نے یہ درخواست کردی، جو دراصل ہمارے اپنے دِل کی آواز تھی۔ خوشی خوشی گاڑی کا اگلا دروازہ کھول کر انہیں بِٹھایا اور پہچھے ان کے دو اور ساتھیوں کو بٹھا کر ہم ٹبا ہسپتال کی جانب چل دئیے۔​
راستے میں مولا نا صاحب سے باتیں بھی ہوتی رہیں۔ وہ ہمیں خلیل بھائی ہی کہہ کر مخاطب کررہے تھے۔ تب ہی اُنھوں نے ہمیں اپنے بارے میں بتانا شروع کیا جس میں ان کے مفتی شامزئی شہید صاحب کے ساتھ جامشورو یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے کے حالات بھی شامل تھے۔ ہمیں یاد پڑتا ہے کہ انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ ان کے ساتھ شیخ الجامعہ مولانا سلیم اللہ خان صاحب بھی پی ایچ ڈی کرنے والوں میں شامل تھے۔ وللہ اعلم۔​
انہوں نے جامعہ صدیقیہ گلشنِ معمار کے متعلق بھی بتایا تھا جس کی بہتری کے ان کی کوششیں جاری تھیں۔ الغرض ہمارے لیے یہ سفر ایک یادگار سفر بن گیا۔​
ہسپتال پہنچے تو نیچے ہی ویٹنگ ہال میں مولانا سلیم اللہ خان صاحب کے بڑے صاحبزادے مولانا عادل صاحب ایک صوفے پر براجمان نظر آئے اور ہم سب ادھر ہی دو صوفوں پر گھُس گھُس کر بیٹھ رہے۔ اس دن تقریباً آدھا گھنٹہ انتظار کیا لیکن اوپر جانے کا کوئی راستہ نہ بنا۔ خبر ملی کہ مولانا کے گھر کی خواتین کمرے میں موجود ہیں۔ آدھ گھنٹے بعد ہم سب مولانا عادل سے اجازت لے کر واپسی کے لیے اآٹھ کھڑے ہوئے، اس اطمینان کے ساتھ کہ ماشاء اللہ مولانا سلیم اللہ خان اب تیزی کے ساتھ روبصحت ہیں۔​
ہسپتال سے باہر نکلے تو مولانا نے ہم سے اجازت چاہی اور ٹیکسی کی تلاش کا قصد کیا۔ ہماری غیرت نے گوارا نہ کیا کہ مولانا کو یوں آدھے راستے میں چھوڑ دیں لہٰذا ان سے درخواست کی کہ وہ واپسی کا سفر بھی ہمارے ساتھ ہی طے کرلیں، ہم بخوشی انہیں واپس جامعہ کے دروازے پر اُتاریں گے۔ وہ مان گئے تو واپسی کا سفر شروع ہوا۔ واپسی کے سفر میں بھی ان سے جی بھر کے باتیں کیں اور حظ اُٹھایا۔ ایک ساتھی راستے میں گلشن اقبال میں سڑک کے کنارے اپنے مدرسے کے قریب اُتر گئے اور ہم مولانا کو لے کر شاہ فیصل کالونی پہنچے اور انہیں جامعہ پہنچادیا۔ یوں یہ سفر جو ہماری زندگی کا ایک یادگار سفربن گیا بالآخر اپنے اختتام کو پہنچا جو آج بھی ہمیں یاد آتا ہے تو خوشی سے جھوم جاتے ہیں۔​
آج محفل کے اس مراسلے میں مولانا کے تفصیلی حالاتِ زندگی پڑھے تو یقین جانیے لطف آگیا۔ شکریہ جناب یوسف-2 بھائی۔​
ٹیگ مزمل شیخ بسمل
ماشاءاللہ محترمی! آپ تو حضراتِ اکابرین کے صحبت یافتہ ہیں۔ دلی خوشی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی قبول فرمائے آمین۔
 
مولانا منظور احمد مینگل دامت برکاتہم کی شخصیت بڑی شاندار ہے اتنے ہمہ جہت آدمی میں نے کم ہی دیکھے ہیں۔ چند لائینیں جو اوپر مولانا کے حوالے سے لکھی گئی ہیں وہ تو محض ایک جھلک ہے۔ اوپر پی ایچ ڈی کے حوالے سے ناجانے کیوں ایک غیر حاصل بحث چل نکلی ہے حالانکہ مولانا نے جس یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا ہے اس کا نام بھی موجود ہے ظاہر ہے کہ انہوں نے یونیورسٹی کے قواعد و لوازمات کی تکمیل کے بعد ہی یہ ڈگری حاصل کی ہو گی ۔جس زمانے کی یہ بات ہے میرےخیال میں کورس ورک سمیت دیگر شرائط یونیورسٹی میں موجود نہ تھیں خصوصا کلیہ فنون کے حوالے سے یہ بات کہ رہا ہوں ، اس زماےمیں خالی مولانا ہی نہیں بلکہ جس نے بھی ڈگری لی ہو گی وہ اسی ضابطے کے تحت لی ہو گی ۔ پی ایچ ڈی کے سلسلے میں کورس ورک وغیرہ کی زیادہ پابندی ایچ ای سی کے کوششوں سے بعد ازں شروع ہوئی۔بہر کیف پی ایچ ڈی کا جھگڑا تو ایویں ہی ہے جن علوم کی بات ہورہی ہے مولانا گر پی ایچ ڈی نہ بھی کرتے تو ان علوم میں ان کے رسوخ پر کوئی فرق نہیں پڑنا تھا ۔ اللہ ایسے علما حق کا سایہ ہمارے سروں پر قائم رکھیں۔ خصوصا مولانا نے جن اشرار کا ذکر کیا ہے کہ ان پر وہ قاتلانہ حملے کرا چکے ہیں اللہ ایسے اشرار کو ناکام بنائیں اور حضرت کو اپنی امان میں رکھیں۔آمین
 
جو احباب پی ایچ ڈی کے لمبے چوڑے طریقہء کار پر بحث کررہے ہیں، وہ یہ بھول رہے ہیں کہ مولانا نے پی ایچ ڈی 1992ء میں کی تھی۔ 2002ء میں قائم ہونے والے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے قیام سے قبل یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) کے تحت ملنے والی تحقیقی ڈگریوں کا طریقہء کار بہت مختلف تھا۔ اس دور میں ایم اے کے بعد پی ایچ ڈی کی جاسکتی تھی لیکن آج ایچ ای سی کے قواعد و ضوابط اس بات کی اجازت نہیں دیتے۔ اسی طرح اس دور میں کانفرنس، سیمینار، تحقیقی مضامین، کورس ورک اور پبلک ڈیفنس جیسے جھمیلے بھی نہیں ہوتے تھے۔ یو جی سی کے قواعد و ضوابط اس بات کی اجازت دیتے تھے کہ کوئی بھی شخص ایم اے کے بعد پی ایچ ڈی کے لئے کسی یونیورسٹی میں رجسٹریشن کروا کے اپنا مقالہ متعلقہ شعبے میں جمع کروا دے جس کو جانچ پڑتال یا بالفاظِ دیگر پیئر ریویو کے لئے بھجوادیا جاتا تھا اور مثبت رپورٹ موصول ہونے پر پی ایچ ڈی کی ڈگری دیدی جاتی تھی۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ دنیا کے بہت سے ممالک میں شائع شدہ کتابوں پر بھی پی ایچ ڈی کی ڈگری دی جاتی ہے۔ ان ممالک میں کوئی جامعہ ایک طے شدہ طریقہء کار کے مطابق کسی کتاب کی جانچ پڑتال کے بعد مصنف کو پی ایچ ڈی کی ڈگری دی سکتی ہے۔
بہت درست فرمایا آپ نے بلکہ جامعہ کراچی کے حوالے میں بتاوں کہ غالبا ۲۰۰۷ تک ایم اے کے بعد اسی نہج پر پی ایچ ڈی میں داخلے ملتے رہے ہیں اور ڈگریاں ایوارڈ کی جاتی رہی ہیں۔
 
پی ایچ ڈی کی ڈگری جو کمائی ہوئی ہو ان کے لیے مطلوب میعار مختلف ممالک میں مختلف ہوتاہے۔ امریکہ یا امریکہ سے متاثر ممالک میں یہ کورس ورک اور تحقیقی کام میں تقسیم ہے۔ پہلے مطلوب کورس ورک کے بعد کوالیفائنگ ایگزام ہوتا ہے جس میں اس فیلڈ کے بنیادی کورس شامل ہوتے ہیں جس میں پی ایچ ڈی کی جارہی ہو۔ اس میں کامیابی کے بعد ریسرچ ورک شروع ہوتا ہے جو کسی پی ایچ ڈی استاد کے زیر نگرانی ہوتا ہے۔ اس ریسرچ ورک کی بنیاد یہ ہوتی ہے کہ موضوع نیا ہو اور اس فیلڈ میں مناسب کنٹریبیوٹ کرتا ہو جس میں پی ایچ ڈی کی جارہی ہے۔ اس ریسرچ کے دوران اچھی یونی ورسٹی اور اچھے استاد پابندی لگاتے ہیں کہ طالب علم کانفرسز میں اپنا کام پیش کرے۔ اس کام سے ہونے والے نتائج کو کم از کم دو سے زائد بین الاقوامی جریدوں میں شائع کرے جو کہ شائع ہونے سے پہلے کم از کم تین ہم عصروں کے تنقیدی نظروں سے گزر کر ان کے اپروول کے ساتھ ہوں۔

اس کے بعد اس ریسرچ کو تھیسیس کی صورت میں لکھنا ہوتا ہے جو کہ 4 سے زائد پی ایچ ڈی اساتذہ کے سامنے پیش کرنا پڑتا ہے اور اپنے خیال اور اپنے کام کا دفاع کرنا ہوتا ہے۔ اکثر اوقات اس پریزنڈیشن اور دفاع میں تمام فیکلٹی شامل ہوتی ہے۔

اس تمام کام میں کم ازکم تین سال ، چار سال اور اکثر پانچ اور اس سے زائد سال لگتے ہیں۔

صرف کتاب لکھ دینے سے پی ایچ ڈی کی ڈگری کا کوئی حقدار نہیں ہوتا۔ ورنہ ہر مصنف پی ایچ ڈی ہوتا۔ تحقیقی مقالہ میں کام نیا اور اچھوتا ہونا چاہیے جو کہ متعلقہ فیلڈ میں نالج کو اگے بڑھائے۔ اس کے بعد یہ کتاب کی صورت میں شائع ہوتا ہے۔ کتاب عموما عوام کے لیے شائع ہوتی ہے اور عام فہم ہوتی ہے۔

اعزازی ڈگری کا معاملہ مختلف ہوتا ہے۔ اکثریہ پولیٹیکل موٹییویٹڈ ہوتی ہے۔ اعزازی ڈگری صرف ا عزازی ہوتی ہے ۔

مولانا کے معاملے میں معاملہ کچھ بیچ بیچ کا لگتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ان کا کام پہلے ہی بہت زیادہ ہو جس کی وجہ سے استاد اور ادارے نے پی ایچ ڈی کی ڈگری جاری کی ہو۔ پتہ نہیں ادارہ چارٹرڈ تھا یا نہین۔ مگریہ کام اب ایچ ای سی کے ذریعے بہت حد تک ریگولرائز ہوگیا ہے
 

اوشو

لائبریرین
لاجک اور زاویے تو بہت سے بن سکتے ہیں۔
لیکن
اعزازی ڈگری ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کو نہیں ملا کرتی :D

بالکل درست کہا۔ بڑے جینیس اور ذہین لوگوں کو ملتی ہے جیسا پچھلے دنوں کچھ سیاہ ست دانوں کو عطا کی گئی تھیں۔ جن میں شاید رحمان ملک بھی شامل تھا۔
 

arifkarim

معطل
اس خبر کے مطابق مفتی شامزئی نے اکیس دن میں پی ایچ ڈی کی تھی۔ وہ اصل خبر ہونی چاہیئے نہ کہ دو ماہ والی پی ایچ ڈی؟

ویسے کوئی دوست جو پی ایچ ڈی کے بارے معلومات رکھتے ہوں، ذرا اس کے پراسیس پر تو روشنی ڈالیں کہ کیسے بے شمار افراد 5 سال لگا کر اور چند ایک افراد اکیس دن یا دو ماہ میں پی ایچ ڈی مکمل کر لیتے ہیں؟
آپکو غلط فہمی ہوئی ہے۔ 21 دن میں پی ایچ ڈی کی ڈگری نکلوائی تھی۔ کی نہیں تھی! :laugh:
 

arifkarim

معطل
محمود بھائی! حقیقت لکھی ہے آپ نے۔ واقعی اتنے کم عرصے میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرلینا کوئی ناممکن بات نہیں۔ وہ بھی ایسے حضرات کے لیےجوہمہ وقت امت کی فکر میں ڈوبے رہتے ہیں۔ ایک معمولی سی بات پر خواہ مخواہ اتنا مناظرہ اچھا نہیں۔
مغربی اور مشرقی بین الاقوامی معیار کی یونی ورسٹیز میں پی ایچ ڈی کرتے وقت کئی سال بیت جاتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں پاکستان میں محض چند ماہ یا دنوں میں یہ سب ہو جاتا ہے۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ :atwitsend:
 

ظفری

لائبریرین
یہی پی ایچ ڈی کی سند اگر کسی ”دنیوی مضمون“ میں اگر کسی ”دنیا دار سیکیولر یا بے دین“ فرد نے ”کم سنی“ میں بھی حاصل کی ہوتی تو یہی ”دین اور عالم بیزار“ احباب واہ واہ کر رہے ہوتے۔:eek: ایک اتنے بڑے عالم دین کا اس قلیل عرصے میں پی ایچ ڈی کرنا اُن لوگوں کو کیسے ہضم ہوسکتا ہے۔ واضح رہے کہ دنیا بھر کی بہت سی جامعات مختلف شعبہ جات میں نمایاں علمی کام کرنے والوں کو ”اعزازی پی ایچ ڈی کی سند“ بھی عطا کرتی ہے، جس کے لئے کوئی ”مدت“ درکار نہیں ہوتی۔ :p اور یہ اعزازی پی ایچ ڈی کی سند، معمول کی پی ایچ ڈی کی سند سے کسی طور پر بھی ”کم وقعت“ نہیں ہوتی۔ بلکہ ایک اعتبار سے ”برتر و افضل“ ہوتی ہے کہ ”اعزازی ڈگری“ فرد کا تعاقب کرکے اُسے ”اپنانے“ کی درخواست کرتی ہے، جبکہ ”معمول کی ڈگری“ کا ”تعاقب“ طالب علم (یا طالب ڈگری) خود کرتا ہے اور اس کے حصول کی ”درخواست“ (بصورت انرولمنٹ وغیرہ) کرتا ہے۔ :)

میرا خیال ہے کہ مغرب سے متاثر ہوکر " پی ایچ ڈی" جیسی ڈگریوں کی اصطلاح کسی " دینی تعلیم " یا " دینی مدرسے " سےمنسوب کرنے کے بجائے کسی " مذہبی اصطلاح " میں کوئی ایسا درجہ متعین کرنا چاہیئے ۔ جو دینی تعلیم کی کسی ڈگری کے تقرر کے معیار کی نمائندگی کرتا ہو۔ کیونکہ بہرحال پی ایچ ڈگری کا جو مفہوم اور تصور " کسی دنیا دار سیکیولر یا بے دین معاشرے " میں ہے ( جہاں یہ تحقیق کے معیار پر تخلیق ہوئی - اور تحقیق کی معیاد کم از کم تین سال ہے۔ ) ۔ یہ پی ایچ ڈی وہاں کے قوانین کے مطابق ہر گز نہیں ہے ۔ لہذا " دین دار" لوگ اپنی کوئی مذہبی اصطلاح میں کوئی بھی ڈگری تشخیص کردیں کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے ۔ ہاں اگر کوئی " دین دار " وکٹوریہ روڈ کا نام تبدیل کرکے " غزنوی روڈ " رکھ دے تو اس طرح وکٹوریہ روڈ کی تاریخ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ :)
 

ظفری

لائبریرین
مغربی اور مشرقی بین الاقوامی معیار کی یونی ورسٹیز میں پی ایچ ڈی کرتے وقت کئی سال بیت جاتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں پاکستان میں محض چند ماہ یا دنوں میں یہ سب ہو جاتا ہے۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ :atwitsend:
ارے بھائی ۔۔۔۔۔۔PhD ۔۔۔۔۔ Philosophiae Doctor - Doctor of Philosophy اور Pizza Home delivery میں فرق ہوتا ہے ۔ تضاد کہاں سے پیدا ہوگیا ۔;)
 
میرا خیال ہے کہ مغرب سے متاثر ہوکر " پی ایچ ڈی" جیسی ڈگریوں کی اصطلاح کسی " دینی تعلیم " یا " دینی مدرسے " سےمنسوب کرنے کے بجائے کسی " مذہبی اصطلاح " میں کوئی ایسا درجہ متعین کرنا چاہیئے ۔ جو دینی تعلیم کی کسی ڈگری کے تقرر کے معیار کی نمائندگی کرتا ہو۔ کیونکہ بہرحال پی ایچ ڈگری کا جو مفہوم اور تصور " کسی دنیا دار سیکیولر یا بے دین معاشرے " میں ہے ( جہاں یہ تحقیق کے معیار پر تخلیق ہوئی ) ۔ یہ پی ایچ ڈی وہاں کے قوانین کے مطابق ہر گز نہیں ہے ۔ لہذا " دین دار" لوگ اپنی کوئی مذہبی اصطلاح میں کوئی بھی ڈگری تشخیص کردیں کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے ۔ ہاں اگر کوئی " دین دار " وکٹوریہ روڈ کا نام تبدیل کرکے " غزنوی روڈ " رکھ دے تو اس طرح وکٹوریہ روڈ کی تاریخ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ :)


ظفری بھائی آپ کو شاید غلط فہمی ہورہی ہے۔ کوئی دینی ادارہ یا مدرسہ پی ایچ ڈی کی ڈگری نہیں دیتا۔ نہ اپنی کسی ڈگری کو پی ایچ ڈی کے برابر گردانتے ہوئے وہ اس طالبِ علم کو ڈاکٹر کہتے ہیں۔ یہ پی ایچ ڈی کی ڈگری تو حکومت کی یونیورسٹیاں ہی دیتی ہیں اور دیتی رہی ہیں۔
 

ظفری

لائبریرین
محمد خلیل الرحمٰن بھائی ۔۔۔۔ میں نے تو یوسف-2 صاحب کے اخبار کی ہیڈ لائن کو ہدف بنایا ہے ۔ اسی پر ساری بحث کی ہے ۔ورنہ مولانا صاحب کو نہ میں جانتا ہوں اور نہ ہی میری کسی پوسٹ میں ان کے خلاف کوئی الفاظ موجود ہیں ۔ اور جو کچھ لکھا ہے ۔ ( جسے آپ نے کوٹ کیا ہے ) وہ بھی یوسف صاحب کی بات کے جواب میں ہی ہے ۔
 
محمد خلیل الرحمٰن بھائی ۔۔۔ ۔ میں نے تو یوسف-2 صاحب کے اخبار کی ہیڈ لائن کو ہدف بنایا ہے ۔ اسی پر ساری بحث کی ہے ۔ مولانا صاحب کو نہ میں جانتا ہوں اور نہ ہی میری کسی پوسٹ میں ان کے خلاف کوئی الفاظ موجود ہیں ۔ اور جو کچھ لکھا ہے ۔ ( جسے آپ نے کوٹ کیا ہے ) وہ بھی یوسف صاحب کی بات کے جواب میں ہی ہے ۔

آپ اپنے آرگیومنٹس جاری رکھیے۔ ہم شاید دخل در معقولات کے مرتکب ہوئے۔
 

ظفری

لائبریرین
آپ اپنے آرگیومنٹس جاری رکھیے۔ ہم شاید دخل در معقولات کے مرتکب ہوئے۔
ارے نہیں خلیل بھائی ! ایسی کوئی بات نہیں ۔ میں بھی اتفاق سے اس طرف آگیا تھا ۔ ورنہ سالگرہ کے حوالے سے سارا دھیان وہیں ہے ۔ بس یہ زمرے پسندیدہ ہیں تو کبھی کبھی میں یہاں الجھ جاتا ہوں ۔ ;)
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
میرا خیال ہے یہ بحث کا دھاگہ آپ لوگ الگ شروع کر لیں جس کا عنوان پی ایچ ڈی کی ڈگریوں کی صحت ہونا چاہئے ۔۔۔ ڈاکٹر منظور مینگل کی ڈگری پر شک بھی ہے تو وہ اکیلے نہیں ہیں۔۔۔۔
 
اللہ تعالیٰ آپکو یہ نیا ’’مذہب‘‘ مبارک کرے! کیا خلافت راشدہ کے وقت مولوی موجود تھے؟ :rolleyes:


جی ہاں۔ تمام صحابہ انبیاء کے ورثاء یعنی مولوی ہی تھے۔، پھر تابعین بھی مولوی، پھر تبع تابعین بھی مولوی۔ اب جو بھی ناقل مولوی ہے یا پیدا ہوگا وہ سارے انبیاء کے وارث ہیں۔
معلوم نہیں کہ لوگ مولوی کے نام سے اتنا بھڑک کیوں جاتے ہیں۔ :)
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top