مولانا منظور احمد مینگل صاحب سے ایک ملاقات کا قصہ
ہم نے تمام تر دفتری کاموں کو جلد از جلد نمٹایا اور پانچ بجتے ہی کھڑے ہوگئے۔ نیچے جاکر گاڑی سنبھالی اور کلفٹن سے شاہ فیصل کالونی تک کا راستہ تقریباً آدھے گھنٹے میں طے کرکے جامعہ فاروقیہ پہنچ کردم لیا۔ گاڑی پارک کرکے اندر جانے والے گیٹ تک پہنچے تو امام مسجد جناب مولانا منظور مینگل صاحب گیٹ پر ہی براجمان تھے ۔ ہم نے سلام کیا اور مصافحہ کرنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو مولانا نے ہاتھ تھام لیا۔ نام پوچھا، ہم نے اپنا نام بتایا۔ کہنے لگے ’’خلیل بھائی! ایک درخواست ہے۔ کیا آپ ہمیں ٹبا ہسپتال تک لے چلیں گے؟‘‘ اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں۔ ہم نے فوراً حامی بھر لی۔ منظور صاحب نے فوراً ایک لڑکے کو آواز دے کر بلایا ، اسے ماسٹر جی تک ہماری غیر حاضری کا سبب بتلانے کا کہہ کربھیج دیا اور ہمارے ساتھ گاڑی کی جانب چل دئیے۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم جامعہ فاروقیہ سے دراساتِ دینیہ کا تین سالہ کورس کررہے تھے۔ ہر روز پانچ بجے آفس سے فارغ ہوکر نکلتے اور جامعہ کی جانب دوڑ لگادیتے۔ اکثرپھاٹک کی جانب سے پہنچتے اور کبھی کبھی شاہ فیصل کالونی کے پل پر سے ہوتے ہوئے جامعہ پہنچتے۔ شوق مہمیز کا کام دے رہا ہوتا تھا، اس لیے راستے کی طولت کا اندازہ نہ ہوتا۔ عصر سے عشاء تک کلاسیں ہواکرتیں ۔ ہم شوق محبت اور لگن سے پڑھتے۔ اساتذہ کا سلوک بھی دیدنی ہوتا۔ وہ ہمیں جامعہ کے مہمان جان کر بہت نرمی اور شفقت کا برتاؤ کرتے۔ عصرکی اکثر نمازیں اور مغرب و عشاء کی تقریباً تمام نمازیں ہم جامعہ ہی میں ادا کرتے تھے۔ جامعہ کی مسجد کے امام صاحب لحنِ داؤدی کے مالک تھے اور ایک وجد کے عالم میں قراٗت فرماتے تو مغرب اور عشاء کی نماز پڑھنے کا مزہ دوبالا ہوجاتا۔
ایک دن اطلاع آئی کہ شیخ الجامعہ جناب مولانا سلیم اللہ خان صاحب کی طبیعت ناساز ہے اور انہیں ٹبا ہارٹ ہسپتال میں داخل کردیا گیا ہے۔ کئی مرتبہ جی للچایاکہ جائیں کسی بہانے ان کی زیارت کرلیں اور طبیعت کے بارے میں پوچھ آئیں لیکن کوئی تدبیر کارگر ہوتی نظر نہ آتی تھی۔ ابھی اسی شش و پنج میں تھے کہ اطلاع ملی کہ حضرت کی انجیو پلاسٹی ہوبھی چکی ۔ اگلے ہی دِن جامعہ پہنچے تو امام صاحب نے یہ درخواست کردی، جو دراصل ہمارے اپنے دِل کی آواز تھی۔ خوشی خوشی گاڑی کا اگلا دروازہ کھول کر انہیں بِٹھایا اور پہچھے ان کے دو اور ساتھیوں کو بٹھا کر ہم ٹبا ہسپتال کی جانب چل دئیے۔
راستے میں مولا نا صاحب سے باتیں بھی ہوتی رہیں۔ وہ ہمیں خلیل بھائی ہی کہہ کر مخاطب کررہے تھے۔ تب ہی اُنھوں نے ہمیں اپنے بارے میں بتانا شروع کیا جس میں ان کے مفتی شامزئی شہید صاحب کے ساتھ جامشورو یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے کے حالات بھی شامل تھے۔ ہمیں یاد پڑتا ہے کہ انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ ان کے ساتھ شیخ الجامعہ مولانا سلیم اللہ خان صاحب بھی پی ایچ ڈی کرنے والوں میں شامل تھے۔ وللہ اعلم۔
انہوں نے جامعہ صدیقیہ گلشنِ معمار کے متعلق بھی بتایا تھا جس کی بہتری کے ان کی کوششیں جاری تھیں۔ الغرض ہمارے لیے یہ سفر ایک یادگار سفر بن گیا۔
ہسپتال پہنچے تو نیچے ہی ویٹنگ ہال میں مولانا سلیم اللہ خان صاحب کے بڑے صاحبزادے مولانا عادل صاحب ایک صوفے پر براجمان نظر آئے اور ہم سب ادھر ہی دو صوفوں پر گھُس گھُس کر بیٹھ رہے۔ اس دن تقریباً آدھا گھنٹہ انتظار کیا لیکن اوپر جانے کا کوئی راستہ نہ بنا۔ خبر ملی کہ مولانا کے گھر کی خواتین کمرے میں موجود ہیں۔ آدھ گھنٹے بعد ہم سب مولانا عادل سے اجازت لے کر واپسی کے لیے اآٹھ کھڑے ہوئے، اس اطمینان کے ساتھ کہ ماشاء اللہ مولانا سلیم اللہ خان اب تیزی کے ساتھ روبصحت ہیں۔
ہسپتال سے باہر نکلے تو مولانا نے ہم سے اجازت چاہی اور ٹیکسی کی تلاش کا قصد کیا۔ ہماری غیرت نے گوارا نہ کیا کہ مولانا کو یوں آدھے راستے میں چھوڑ دیں لہٰذا ان سے درخواست کی کہ وہ واپسی کا سفر بھی ہمارے ساتھ ہی طے کرلیں، ہم بخوشی انہیں واپس جامعہ کے دروازے پر اُتاریں گے۔ وہ مان گئے تو واپسی کا سفر شروع ہوا۔ واپسی کے سفر میں بھی ان سے جی بھر کے باتیں کیں اور حظ اُٹھایا۔ ایک ساتھی راستے میں گلشن اقبال میں سڑک کے کنارے اپنے مدرسے کے قریب اُتر گئے اور ہم مولانا کو لے کر شاہ فیصل کالونی پہنچے اور انہیں جامعہ پہنچادیا۔ یوں یہ سفر جو ہماری زندگی کا ایک یادگار سفربن گیا بالآخر اپنے اختتام کو پہنچا جو آج بھی ہمیں یاد آتا ہے تو خوشی سے جھوم جاتے ہیں۔
آج محفل کے اس مراسلے میں مولانا کے تفصیلی حالاتِ زندگی پڑھے تو یقین جانیے لطف آگیا۔ شکریہ جناب
یوسف-2 بھائی۔
ٹیگ
مزمل شیخ بسمل