ایک صاحب جو تقلیدی روش کے سخت مخالف اور قرآن و سنت سے ہی دین کے فہم کا دعوی کرتے ہیں اور اس کی تبلیغ بھی کرتے ہیں ، میں ان کا حوالہ بطور نمونہ رقم کرتا ہوں ،
و آیہ کریمہ فانکحوا ما طلب لکم من النساء مثنی و ثلث و رباع بر محاورہ عرب عربا و ائمہ لغت مفید جواز نکاح دو دو و سہ سہ و چہار چہار نسائ در یک بار ست و دراں تعرضے از برائے مقدار عدد زناں نیست ۔ ۔ ۔ ۔ و اگر کسے نقل مخالف این معنی از ائمہ لغت و اعراب باشد پس مقام استفادہ از وے است ۔۔۔
عرف الجادی من حنان ہدی الہادی ص 111
یہ صاحب بھی ویسے تو احادیث کو ماننے کا دعوئ کرتے ہیں ، مگر صرف صحیح اور صریح احادیث کو۔
اب ہر کوئی سوچے کہ ان صاحب کا بیان کردہ معنی آیت کے ترجمے کے خلاف نہیں ، اس آیت سے یہ مسئلہ کہ اس سے چار تک ہی بیویاں کرنے کی اجازت ہے ، حدیث سے ثابت ہے ، اور وہ بھی اس طرح کہ اول اس آیت میں " واو " کو " او " کے معنی میں قرار دیا گیا ہے ، اور آیت کو بوقت عقد کتنی عورتوں سے بیک وقت نکاح کر سکتے ہیں اس معنی میں نہیں ، بلکہ اس آیت کے شان نزول کے طورپر مذکور احادیث کے پیش نظر سب نے اس کا معنی بیان کیا ہے ۔
مختصر یہ ہے کہ ما قبل زمانہ اسلام میں لوگ متعدد عورتوں سے نکاح کرتے اور پھر حقوق ادا نہ فرماتے، ان کو تنبیہ کی گئی اور اور چار تک کی حد بیان کی گئی ۔
یعنی یہاں یہ پس منظر بحوالہ حدیث سامنے ہے کہ پہلے چار سے زیادہ نکاح ہوتے تھے ۔
اگر اس پس منظر کا خیال نہ کریں تو مطلب یہ کہ پہلے ایک نکاح ہوتا تھا ، قرآن نے چار کی اجازت دی ۔
اور اس سے بھی ایک قدم آگے، اگر حدیث کے بیان کردہ شان نزول کو سامنے نہ رکھیں تو مطلب یہ ہوگا کہ " نکاح کرو " یعنی چار سے نکاح کرنا فرض ! ! !
ہے کوئی اس استدلال کا جواب ، بدون حدیث کے ۔ فقط قرآن سے ؟ ؟ ؟
و آیہ کریمہ فانکحوا ما طلب لکم من النساء مثنی و ثلث و رباع بر محاورہ عرب عربا و ائمہ لغت مفید جواز نکاح دو دو و سہ سہ و چہار چہار نسائ در یک بار ست و دراں تعرضے از برائے مقدار عدد زناں نیست ۔ ۔ ۔ ۔ و اگر کسے نقل مخالف این معنی از ائمہ لغت و اعراب باشد پس مقام استفادہ از وے است ۔۔۔
عرف الجادی من حنان ہدی الہادی ص 111
یہ صاحب بھی ویسے تو احادیث کو ماننے کا دعوئ کرتے ہیں ، مگر صرف صحیح اور صریح احادیث کو۔
اب ہر کوئی سوچے کہ ان صاحب کا بیان کردہ معنی آیت کے ترجمے کے خلاف نہیں ، اس آیت سے یہ مسئلہ کہ اس سے چار تک ہی بیویاں کرنے کی اجازت ہے ، حدیث سے ثابت ہے ، اور وہ بھی اس طرح کہ اول اس آیت میں " واو " کو " او " کے معنی میں قرار دیا گیا ہے ، اور آیت کو بوقت عقد کتنی عورتوں سے بیک وقت نکاح کر سکتے ہیں اس معنی میں نہیں ، بلکہ اس آیت کے شان نزول کے طورپر مذکور احادیث کے پیش نظر سب نے اس کا معنی بیان کیا ہے ۔
مختصر یہ ہے کہ ما قبل زمانہ اسلام میں لوگ متعدد عورتوں سے نکاح کرتے اور پھر حقوق ادا نہ فرماتے، ان کو تنبیہ کی گئی اور اور چار تک کی حد بیان کی گئی ۔
یعنی یہاں یہ پس منظر بحوالہ حدیث سامنے ہے کہ پہلے چار سے زیادہ نکاح ہوتے تھے ۔
اگر اس پس منظر کا خیال نہ کریں تو مطلب یہ کہ پہلے ایک نکاح ہوتا تھا ، قرآن نے چار کی اجازت دی ۔
اور اس سے بھی ایک قدم آگے، اگر حدیث کے بیان کردہ شان نزول کو سامنے نہ رکھیں تو مطلب یہ ہوگا کہ " نکاح کرو " یعنی چار سے نکاح کرنا فرض ! ! !
ہے کوئی اس استدلال کا جواب ، بدون حدیث کے ۔ فقط قرآن سے ؟ ؟ ؟