مولویت کیا ہے؟ مولویت کی تاریخ اور اس کے اغراض و مقاصد؟

مولویت کیا ہے؟

یہ جاننا ضروری ہے کہ مولوی ہے کون اور مولویت کیا ہے اور کب سے قایم ہے؟

مولویت کب سے قائم ہے؟
تقریا" 2500 سال سے۔

مولویت کی پہچان۔
قرآن کے خلاف سخت حجت بازی۔ قرآن کے علاوہ کتبِ روایات پر ایمان۔ قرآن پر سامنے ایمان، پیچھے دوسری کتب پر بھی ایمان، یعنی منافقت۔ اور اس سلسلے میں تاویلات۔ یہ نشانیاں 1400 برس سے قرآن سے ثابت ہیں۔

مولویت کیا ہے؟
مولویت ایک مذموم سیاسی نظام ہے، جو کہ مذہبی قدروں سے فائدہ اٹھا کر معصوم ذہنوں کو اپنے حق میں ہموار کرتا ہے۔ اس مقاصد کے لئے مولویوں نے اپنی تصانیف کا سلسلہ جاری رکھا ہے جو کہ حد درجہ مذہبی کتب سے ملتی جلتی ہوتی ہیں۔ ان مولویوں کا طریقہ واردات 2500 سال سے ایک ہی ہے۔ کہ ایک یا زیادہ انسٹی ٹیوشن قائم ہو (دارلعلوم، ویٹیکن یا یہودی گرجا جیسے) اور اس میں صرف بہت ہی سلیکٹڈ لوگوں کو داخلہ دیا جائے تاکہ تعلیم محدود رہے ایک مکتبہ فکر کے پاس۔ پھر ایک بادشاہ کو سپورٹ کیا جائے جو ان مولویوں کو واپس سپورٹ فراہم کرے اور مولوی اکیلا قانون سازی کرتا رہے، مذہب کی آڑ میں۔

کیا مولویت صرف اسلام تک محدود ہے؟
جی نہیں، مولوی 2500 سال پرانی ایک تحریک ہے۔ اس کی اپنی کتب ہیں اور مزید بہت سی شاخیں ہیں۔ 2500 سال پہلے ایران، عراق اور لبنان اور اسرائیل تک انکے سراغ ملتے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ یہ تمام پیغمبروں کی مخالفت کرتے رہے ہیں اور ان کی کتب میں‌ملاوٹ۔ آتشکدہ ایران، ویٹیکن، عیسی علیہ سلام کے مخالف ربائی۔ان مولویوں کی اعلی مثالیں ہیں۔ ان کو قرآن کافر نہیں بلکہ منافق کہہ کر مخاطب کرتا ہے۔ اس لئے کہ یہ لوگ بظاہر قرآن کوسب کے سامنے تسلیم کرتے ہیں اور بعد میں اس میں مسلسل اضافہ کے خواہاں رہتے ہیں۔ ان کو اولیں ربائیوں نے توراۃ اور انجیل کے ساتھ یہی سلوک روا رکھا۔ آج تورات صرف حدیث موسوی، حدیث داؤدی ، حدیث سلیمانی اور حدیث عیسوی کی شکل میں ہی ملتی ہے۔ ان ہی روایات کو ربائیوں اور مولویوں نے کتب روایات میں حدیث نبوی کے نام سے سمونے کی کوشش کی۔ ان کی ایک بڑی مثال حجت بازی کی سورۃ البقرہ میں ملتی ہے۔ جہاں‌گائے کاٹنے کے حکم الہی کو ان مولویں نے مسلسل سوال کرکے خود اپنے لئے ایک مشکل بنا لیا۔ اسی طرح یہ آج بھی نماز و تسبیح کے حکم الہی کے بارے میں اپنی حجت سے باز نہیں آتے کہ ھاتھ کہاں‌باندھیں اور کتنے اوپر یا نیچے کریں۔ جو کہ نبی اکرم کی سنت جاریہ کی موجودگی میں بے معنی سوالات ہیں۔

مولویت کے اغراض‌و مقاصد۔
مولویوں، ربائیوں، آیت الوؤں یا فاتھرز اور پریسٹس وغیرہ کا مقصد ہمیشہ بادشاہ گر بن کر اپنے آپ کو ریوارڈ کرنا یعنی انعام دینا رہا ہے۔ یہ انعامات مالی، نسوانی اور معاشرہ میں سٹیٹس کی صورت ملتے رہے ہیں۔ اس طرح یہ فرد واحد کی حکومت کو سپورٹ کرتے ہیں اور فرد واحد کی قانون سازی کو پروموٹ‌کرتے ہیں۔ فرد واحد کی حکومت اور فرد واحد کی قانون سازی قرآن کے احکامات کے خلاف ہے۔ لہذا مولوی قرآن کو سم قاتل سمجھتے ہیں اور حتی الامکان کوشش کرتے ہیں کے اس کے احکامات سامنے نہ آئیں۔ قرآن حکیم ایک شورائی نظام حکومت، شورائی مقننہ اور اس طرح وجود میں آنے والی حکومت کا حامی ہے۔ جو کہ فرد واحد کی حکومت اور فرد واحد کی قانون سازی کے خلاف ہے۔ لہذا مولویت کا قرآن سے بے زاری کا اظہار بہت پرانا ہے۔ اس مقصد کے لئے ان لوگوں نے منافقت کے اصولوں پر "شریعت " کا طریقہ نکالا ہے۔ جو کہ ان کے اپنے قوانین، جن کو یہ "فتاوی" کا نام دیتے ہیں پر مبنی ہے۔ اس طرح یہ حکومت پر اپنا کنٹرول قائم کرتے ہیں۔

ان کی بنیادی مقاصد ہیں:
1۔ سخت غیر قرانی سزاؤں کی مدد سے عوام پر کنٹرول۔
2۔ عورتوں‌کو قرآن کےاحکام خلاف بند کرکے،عورتوں کی بلیک مارکیٹنگ اور عورتوں کی تجارت۔ اس سلسلے میں مردوں اور عورتوں کی برین واشنگ۔
3۔ خود مولویت کو مذہب کی آڑ میں‌چھپا کر اپنے مذموم ارادوں کی تکمیل۔اور اپنے آپ کو نوازنا، جبکہ عوام الناس کو فقر کی تعلیم
4۔ مدرسوں کو اپنے متبہ فکر تک محدود رکھنا تاکہ عوام علم میں اضافہ کے باعث کوئی سوال نہ کرسکیں۔

مولویت کا طریقہ کار
ان کا طریقہ کار مذہب کی آڑ میں شکار کھیلنا ہے۔
1۔ یہ آپ سے کبھی اجتماعی فرایض‌کے بارے میں‌ بحث نہیں کریں گے، لیکن مولوی حضرات اجتماعی قوانین خود بنائیں گے۔
2۔ یہ آپ کی توجہ ہمیشہ آپ کے انفرادی معاملات، جیسے عبادات اور روز مرہ کے فرایض‌تک محدود رکھیں گے۔
3۔ جب بھی آپ ان سے اجتماعی معاملات پر بحث کریں اور عوام الناس کی ریاست میں شرکت کی بات کریں یہ بحث کا رخ‌ ہمیشہ شخصی معاملات کی طرف موڑ‌دیں‌گے۔
4۔ معاشرہ میں فساد، جیسے جہاد کے نام پر۔
5۔ معاشرہ میں‌اپنے نظام کا نفاذ، موجودہ مذہبی نظام کی آڑ میں
6۔ جب آپ ان کو پکڑ ہی لیں تو یا یہ پھنس جائیں تو پھر یہ قرآن، (اس سے پہلے انجیل، اس سے پہلے زبور، اس سے پہلے تورات) کی آیات کو اس طرح بیان کریں گے کہ آپ ان کی تصحیح میں ہی پھنس جائیں گے۔
7۔ عوام کو یہ یقین دلانا کہ پبلک ویلتھ یعنی عوام کے دولت کے حقدار عوام نہیں بلکہ بادشاہ کا بیٹا ہے اور عوام کی دولت لٹانے کا حق پیدائشی ملتا ہے۔
8۔ بادشاہ کو یقین دلانا کہ وہی مذہب کی رو سے ساری عوام کی دولت کا مالک ہے اور عوام کو تو بس بادشاہ کی خدمت کرنا چاہئیے۔
9۔ بادشاہ کو عورتوں کی فراہمی۔ حرم کی تشکیل تاکہ اس طرح کی رشوت سے اپنے حرم کی تشکیل جاری رہے۔ اور ان باتوں کا مذہبی جواز - جیسے لونڈی جائز ہے۔ عوام کی دولت بادشاہ پر حلال ہے، بنا کسی روک ٹوک۔ اور اپنے لئے وظیفوں کا اجراء

10۔ اس طرح جانوروں‌کی خصلیتوں کی ترویج۔ جب کہ قرآن کی تعلیم انسانیت پر مشتمل ہے۔

ان کے یہ طریقہء‌کار قرآن حکیم تفصیل سے بیان کرتا ہے۔ اور ان سب قسم کے پھندوں کو ہم پر واضح کرتا ہے تاکہ ہم ان سے بچ سکیں۔ ان لوگوں کو قرآن مشرکین اور منافقین کے نام سے پہچانتا ہے۔ مشرک اس لئے کے یہ قران کے احکامات کے ساتھ اپنی کتابوں‌پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور اس کے لئے نت نئی تاویلات گھڑتے ہیں۔

یہ کبھی صاف طور پر نہیں مانتے کہ یہ قرآن کے علاوہ کسی کتاب پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہ بات خود قرآن سے عیاں‌ہے۔ لیکن جب بھی بات آگے بڑھائیں گے اپنی کتب روایات کو جو ہر دور میں شکلیں بدلتی رہی ہیں شامل کرلیں گے۔ اور اس پر مکمل ایمان کا اظہار کریں گے، کہ یہ کتب بھی قرآن کے مساوی ہیں اور کبھی تبدیل نہیں ہوتی ہیں۔

ان کا اپنا ایک ذات پات کا نظام ہے، جس میں چھوٹا مولوی بڑا مولوی اور پھر مفتی اور اس کے بعد مفتی اعظم بننے کے خواب دیکھتا رہتا ہے۔ 2500 سال سے یہ گروپ مختلف مذاہب کا جامہ پہن کر عوام الناس کو دھوکہ دیتا رہا ہے۔ کبھی یہ گروپ یہودی بنا تو کبھی عیسائی اور کبھی نصرانی تو کبھی کاردانی۔ کبھی زرتشتت بنا اور جب اسلام نے زرتشتیوں کو شکست دی تو یہ فرقہ فوراَ‌ مسلمان ہوگیا۔ بغل میں‌چھری اور منہ میں رام رام

حدیث رسول پاک انتہائی خوبصورت اور پاک کلام پر مشتمل ہوتی ہیں۔ لیکن ان مولویوں نے ان خوبصورت احادیث کو اپنی کتب روایت میں شامل کرکے، اس میں اپنے خداؤں اور شیطانوں‌کی باتیں‌بھی شامل کرلی ہیں۔ اس سے ہی بچانے کے لئے ہی اللہ تعالی نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ خود لیا ہے۔

جس قدر ہو سکے مولویت کے مذموم سیاسی عزائم سے بچیں اور اس مولوی نیٹ ورک کی شناخت کرنا سیکھیں۔ بہت سے عام معصوم لوگ ان کی مذہب سے قریب باتیں سن کر ان کے قریب آجاتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمنوا بن جاتے ہیں۔ ذہن میں‌رکھئے کہ ہمارا کتب میں ہمارے ایمان کا حصہ صرف وہی اصل کتب ہیں جن کو قرآن واضح‌کرتا ہے۔

جن لوگون نے نا دانستہ ان کا ساتھ دیا اور پھر جاننے کے بعد مولویت سے الگ ہوگئے۔ وہ ان میں‌شامل نہیں ہیں۔ ہمارے رسول اللہ کو سب سے زیادہ تکلیف پہنچانے والے منافقین ہی رہے۔

انشاء اللہ ان مولویوں کی قرآن کی تکفیر کا مفصل جواب قرآن حکیم و سنت و حدیث کی روشنی میں‌ان کو ملے گا۔ کہ تاریخ‌گواہ ہے کہ رات جب بھی ایک سورج بجھاتی ہے، صبح ایک نیا سورج تراش لاتی ہے۔


والسلام
 
ایک دوست نے بہت اچھا سوال کیا کہ آپ پاپائیت کو مولویت کیوں کہتے ہیں۔

اس نام کے رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ جس مکتبہء فکر نے جدید علوم، علم القرآن ، علم سنت اور علم اقوالِ رسول محترم صلعم کی بھرپور مخالفت کہ اور یہ مخالفت علی گڑھ یونیورسٹی کے قیام کے ساتھ اور بڑھ گئی اور آج بھی جاری ہے، خود اپنے آپ کو "مولوی"‌ خطاب سے نوازتا تھا اور ہے۔ اگر اس کے لئے کوئی دوسرا نام بہتر ہے تو بتائیے

ضروری نہیں کہ ایک شخص نام کا مولوی ہو اور وہ مولویت کا دلدادہ بھی ہو۔ یہ بالکل ایسا ہے، جیسا کہ 'خان' ایک نام ہے اور 'خان بہادر' ایک لقب۔ اسی طرح 'مولویت' ان لوگوں کی سیاسی تنظیم و کردار کا نام ہے جو خود کو اس نام سے پکارتے ہیں۔ یہ آرٹیکلز اس مخصوص قسم کے لوگوں کے لئے مخصوص‌ہیں۔
 

شمشاد احمد

محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم

محترم فاروق سرور خان صاحب

‏آپ کی گذارشات مولویت کیا ہے کے عنوان سے نظر سے‌گزری ہیں۔ جناب اس تحریر سے کیا ثابت کرنا ‌چا رہے ہیں وہ کم از کم مجہ پہ تو واضح نہیں ہوا۔ البتہ ‏آپ کی تحریر سے‌اتنا ضروری پتہ ‌چل رہا ہے کہ ‏آپ نے مولویت کو یا سمج۔ا نہیں یا سمج۔نا نہیں‌‌چا رہے ہیں اور کسی خاص مقصد کے لئے ‏آپ نے اردو محفل میں یہ موضوع قائم کیا ہے۔

‏آپ کی اس تحریر میں مولویت کے خلاف تو ‌چارج شیٹ پائی جاتی ہے لیکن کاش ‏آپ نے مسٹر کے کردار کو ب۔ی واضح کیا ہوتا۔۔ لیکن خدارا ‏آپ ایسا کرنا ب۔ی نہیں۔ کیونکہ جب ‏آپ کومولویت میں دنیا ب۔ہر کی خرابیاں نظر ‏آتی ہیں تو مسٹر بے ‌چارے کا نہ جانے ‏آپ کیا حال کریں‌گے۔
 

ساجد

محفلین
ایک دوست نے بہت اچھا سوال کیا کہ آپ پاپائیت کو مولویت کیوں کہتے ہیں۔

اس نام کے رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ جس مکتبہء فکر نے جدید علوم، علم القرآن ، علم سنت اور علم اقوالِ رسول محترم صلعم کی بھرپور مخالفت کہ اور یہ مخالفت علی گڑھ یونیورسٹی کے قیام کے ساتھ اور بڑھ گئی اور آج بھی جاری ہے، خود اپنے آپ کو "مولوی"‌ خطاب سے نوازتا تھا اور ہے۔ اگر اس کے لئے کوئی دوسرا نام بہتر ہے تو بتائیے

ضروری نہیں کہ ایک شخص نام کا مولوی ہو اور وہ مولویت کا دلدادہ بھی ہو۔ یہ بالکل ایسا ہے، جیسا کہ 'خان' ایک نام ہے اور 'خان بہادر' ایک لقب۔ اسی طرح 'مولویت' ان لوگوں کی سیاسی تنظیم و کردار کا نام ہے جو خود کو اس نام سے پکارتے ہیں۔ یہ آرٹیکلز اس مخصوص قسم کے لوگوں کے لئے مخصوص‌ہیں۔
فاروق بھائی ،
میں اس مقام پر لفظ "مولوی" پر آپ کے خیالات کو تھوڑا سمجھ نہیں پایا ہوں۔ آپ کی بات ٹھیک ہے کہ ہر ایرے غیرے نے صرف داڑھی رکھ کر اور چند آیات قرآنی یاد کرکے خود کو مولویوں کی فہرست میں شامل کر لیا اور ہماری عوام نے بھی اپنی کم علمی کی بناء پر ان کو "مولوی" تسلیم بھی کر لیا لیکن اس ایک ہی لفظ "مولوی" میں ہم ان جاہلوں اور حقیقی علماء دین کو یکجا کر کے کیا زیادتی نہیں کر رہے؟ لفظ "مولوی" ہماری تاریخ کے جید علماء نے بھی اپنے نام کے ساتھ استعمال کیا ہے اور وہ واقعی ایسا کہلانے کے مستحق بھی تھے۔ لیکن اب اگر یہی لفظ ان سطحی سوچ رکھنے والوں کے لئیے ہم استعمال کریں تو میرے حساب سے نا مناسب ہے۔
میرے خیال میں لفظ "مولوی" ان جاہلوں کے لئیے استعمال کرنے کی بجائے ہم انہیں مولوی کہے بغیر بھی ان کے کرتوتوں کا پوسٹ مارٹم کر سکتے ہیں۔ ہاں جہاں جہاں یہ لوگ خود کو مولوی کہلاتے نظر آئیں وہاں ان کی "مولویت" کی حقیقت ضرور بیان کرنا چاہئیے۔
اگر میں آپ کی بات کو ٹھیک نہیں سمجھ پایا ہوں تو براہِ کرم میری تصحیح فرمائیے۔
 
برادر من شمشاد، بہت شکریہ وضاحت طلب کرنے کا۔ سیدھا سادہ جواب یہ ہے کہ 16ویں صدی سے 19ویں صدی تک خصوصاَ‌برصغیر پاک ہند میں ایک سیاسی تجربہ ہوا یا کیا گیا۔ اس کے پیچھے کون لوگ تھے، ان کے کیا مقاصد تھے اور اسکے نتائج کیا نکلے۔ آپ ذرا پیچھے دیکھئے، ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت کی یادگار ایک بھی یونیورسٹی نہیں۔ کوئی شفاخانوں‌کا مربوط نظام نہیں۔ اس کی وجوہات و نتائج جاننے کے لئے یہ مضامین ترتیب دئے گئے ہیں۔ تاکہ مستقبل میں‌ہم بہتر فیصلہ کرسکیں۔ کسی فرد کی چارج شیٹ بنانا مقصد نہیں اور نہ ہی یہ مضامین کسی ایک شخص کے بارے میں ہیں۔ اگر آپ کو میری دی کوئی معلومات درست نظر نہ آئے یہ کوئی ریفرنس غلط ہو تو ضرور مطلع فرمائیں۔ مجھے درست کرکے خوشی ہوگی۔ لیکن یہ نہ کہئیے کہ اس معلومات کو جانچنے کا حق ہم کھو بیٹھے ہیں۔

آپ یہ بھی دیکھ لیجئے،

'مسٹر' کو قرآن، سنت و اقوالِ رسول کی تعلیم کی جو ضرورت آپ کو محسوس ہوتی ہے، آپ اس پر لکھئے، آپ کے خیالات جان کر خوشی ہوگی۔
 
جناب محترم، بہت ہی شکریہ وضاحت طلب کرنے کا۔ کچھ دوستوں نے ملائیت او ملا ازم تجویز کیا، مجھے ان میں سے کسی پر اعتراض‌ نہیں۔ مقصد اس سسٹم کو اجاگر کرنا ہے

فاروق بھائی ،
میں اس مقام پر لفظ "مولوی" پر آپ کے خیالات کو تھوڑا سمجھ نہیں پایا ہوں۔ آپ کی بات ٹھیک ہے کہ ہر ایرے غیرے نے صرف داڑھی رکھ کر اور چند آیات قرآنی یاد کرکے خود کو مولویوں کی فہرست میں شامل کر لیا اور ہماری عوام نے بھی اپنی کم علمی کی بناء پر ان کو "مولوی" تسلیم بھی کر لیا لیکن اس ایک ہی لفظ "مولوی" میں ہم ان جاہلوں اور حقیقی علماء دین کو یکجا کر کے کیا زیادتی نہیں کر رہے؟ لفظ "مولوی" ہماری تاریخ کے جید علماء نے بھی اپنے نام کے ساتھ استعمال کیا ہے اور وہ واقعی ایسا کہلانے کے مستحق بھی تھے۔ لیکن اب اگر یہی لفظ ان سطحی سوچ رکھنے والوں کے لئیے ہم استعمال کریں تو میرے حساب سے نا مناسب ہے۔
میرے خیال میں لفظ "مولوی" ان جاہلوں کے لئیے استعمال کرنے کی بجائے ہم انہیں مولوی کہے بغیر بھی ان کے کرتوتوں کا پوسٹ مارٹم کر سکتے ہیں۔ ہاں جہاں جہاں یہ لوگ خود کو مولوی کہلاتے نظر آئیں وہاں ان کی "مولویت" کی حقیقت ضرور بیان کرنا چاہئیے۔
اگر میں آپ کی بات کو ٹھیک نہیں سمجھ پایا ہوں تو براہِ کرم میری تصحیح فرمائیے۔
درست لفظ 'مولوی' نہیں 'مولویت' ہے۔ یہ ایک سیاسی نظام ہے، جس کا تجربہ ہم 1500 سے 1800 کے وسط تک برِصغیر پاک و ہند میں کر چکے ہیں۔ اوپر کا آرٹیکل اسی نظام کے بارے میں ہے، اس کے علاوہ بھی دو آرٹیکل اسی نظام کے بارے میں موجود ہیں۔ اس سیاسی نظام کا مالک صرف بادشاہ نہیں تھا، اس کے نیچے ایک مکمل سیاسی انفراسٹرکچر تھا، جو اس کو سپورٹ کرتا تھا۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا، آپ دیکھئے اور اپنی رائے کا اظہار کیجئے۔ تھوڑا سا تحمل اور برداشت کے ساتھ سوچئے کہ اس 'سیاسی نظام' کے نتیجے میں جو کچھ برآمد ہوا، کیا وہی ایک اسلامی نظام سے برآمد ہونا چاہیئے؟

کیا بعینہ اس سیاسی نظام کا تجربہ کرنے کے لئے ہم دوبارہ تیار ہیں؟ اور اس طرح جبر، تعلیم اداروں کا تعطل، سخت ترین غیر قرآنی سزائیں اور رائے عامہ کی آزادی کی ممانعت، استصواب رائے کے حق کو عوام سے واپس لے لینا اور صرف کتب روایات پر مبنی مدرسوں کے قیام کے لئے، کیا ہم تیار ہیں؟ کیا ایسے سیاسی نظام کا ہمارا فیصلہ جانتے بوجھتے ہوئے ہے۔ یا ہم کومزید تعلیم قرآن و سنت و اقوال رسول کی کے ضرورت ہے؟ اور درست معنوں میں ایک 'اسلامی' نظریہ کی ضرورت ہے۔

لیکن اس ایک ہی لفظ "مولوی" میں ہم ان جاہلوں اور حقیقی علماء دین کو یکجا کر کے کیا زیادتی نہیں کر رہے؟ لفظ "مولوی" ہماری تاریخ کے جید علماء نے بھی اپنے نام کے ساتھ استعمال کیا ہے اور وہ واقعی ایسا کہلانے کے مستحق بھی تھے۔

اس بہترین وضاحت کے لئے آپ کا بہت شکریہ۔ ہم اس سیاسی نظام کی بات کریں گے، کسی فرد کی بات قطعاَ‌نہیں کریں گے۔ اور وہ علماء کہ جن کی طرف آپ نے اشارہ فرمایا ہے، ان میں سے کوئی بھی اس زمرہ میں‌نہیں آتا۔

والسلام
 
برادر من شمشاد، بہت شکریہ وضاحت طلب کرنے کا۔ سیدھا سادہ جواب یہ ہے کہ 16ویں صدی سے 19ویں صدی تک خصوصاَ‌برصغیر پاک ہند میں ایک سیاسی تجربہ ہوا یا کیا گیا۔ اس کے پیچھے کون لوگ تھے، ان کے کیا مقاصد تھے اور اسکے نتائج کیا نکلے۔ آپ ذرا پیچھے دیکھئے، ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت کی یادگار ایک بھی یونیورسٹی نہیں۔ کوئی شفاخانوں‌کا مربوط نظام نہیں۔ اس کی وجوہات و نتائج جاننے کے لئے یہ مضامین ترتیب دئے گئے ہیں۔ تاکہ مستقبل میں‌ہم بہتر فیصلہ کرسکی۔ کسی فرد کی چارج شیٹ بنانا مقصد نہیں اور نہ ہی یہ مضامین کسی ایک شخص کے بارے میں ہیں۔ اگر آپ کو میری دی کوئی معلومات درست نظر نہ آئے یہ کوئی ریفرنس غلط ہو تو ضرور مطلع فرمائیں۔ مجھے درست کرکے خوشی ہوگی۔ لیکن یہ نہ کہئیے کہ اس معلومات کو جانچنے کا حق ہم کھو بیٹھے ہیں۔

'مسٹر' کو قرآن، سنت و اقوالِ رسول کی تعلیم کی جو ضرورت آپ کو محسوس ہوتی ہے، آپ اس پر لکھئے، آپ کے خیالات جان کر خوشی ہوگی۔

فاروق صاحب ،

ابھی ساجد بھائی نے بھی وضاحت کی ہے اور میں نے بھی آپ سے عرض کیا تھا کہ لفظ مولوی بہت قدآور شخصیات اپنے لیے استعمال کرتی رہی ہیں اور بطور لقب بھی کئی جید علما کے لیے استعمال ہوا ہے اس لیے مناسب ہوگا کہ آپ لفظ 'ملا' کو استعمال کریں اور اس حوالے سے ایک اور اصطلاح علمائے سو استعمال ہوتی جو ان عالموں کے بارے میں ہے جو حق کی بجائے طاغوت اور باطل کا ساتھ دیتے ہیں مگر آپ کا یہ اصرار کہ لفظ مولوی ہی استعمال کیا جائے چہ معنی دارد ؟

اس کے ساتھ آپ نے جو ایک اور حساس موضوع چھیڑ دیا ہے جس کا اس سے سرے سے تعلق ہی نہیں تھا وہ کتب احادیث کو آپ مولویت سے جوڑ رہے ہیں اور اس کے لیے آپ نے جوش خطابت میں ہر طرح کے دلائل کو یکجا کر دیا اور جا بجا احادیث‌ کی معتبر کتب کو بھی صرف کتب روایات کہہ کر ان کی اہمیت اور قدر کو گھٹا رہے ہیں۔ کہیں پر اگر آپ سے کہا گیا ہے کہ آپ نے یہ بات کس طرح سے کہہ دی تو بجائے آپ اس کا جواب دینے کے صرف یہ کہہ دیتے ہیں کہ میں نے حوالوں سے بات کی ہے اگر کوئی حوالہ غلط دیا ہے تو بتا دیں ورنہ آپ حوالہ دے دیں یعنی الزام تو آپ غلط ہونے کا لگائیں اور کوئی اس الزام کا جواب طلب کرے تو الٹا اسی سے حوالہ کا مطالبہ کر دیتے ہیں جب کہ یہ طے شدہ اصول ہے کہ جو تنقید کا نشانہ بناتا ہے ثبوت فراہم کرنا بھی اس کی ذمہ داری ہوتی ہے نہ کہ تنقید پر استفسار کرنے والے کی۔

بار بار آپ کا یہ قول پڑھنے کو مل رہا ہے
اگر آپ کو میری دی کوئی معلومات درست نظر نہ آئے یہ کوئی ریفرنس غلط ہو تو ضرور مطلع فرمائیں۔ مجھے درست کرکے خوشی ہوگی۔ لیکن یہ نہ کہئیے کہ اس معلومات کو جانچنے کا حق ہم کھو بیٹھے ہیں۔

آپ کی معلومات جہاں درست نظر نہیں آ رہی وہاں کئی دوستوں نے آپ کو مطلع کیا ہے مگر آپ اس پر ریفرنس مانگنے بیٹھ جاتے ہیں اب اگر آپ نے ریفرنس کوئی دیا ہی نہ ہو تو اسے کہاں سے غلط ثابت کریں۔ معلومات ضرور جانچیے مگر صرف دوسروں کی ہی نہیں اپنی بھی۔

ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت کی یادگار ایک بھی یونیورسٹی نہیں۔ کوئی شفاخانوں‌کا مربوط نظام نہیں۔ اس کی وجوہات و نتائج جاننے کے لئے یہ مضامین ترتیب دئے گئے ہیں۔

کیا آپ کے خیال میں ہندوستان میں مسلمانوں کی ترقی کی راہ صرف اس لیے مسدود رہی کہ مولوی حضرات نے عوام کو اٹھنے نہ دیا ، کیا یہ ہی ایک وجہ تھی ؟ کیا صرف ایک طبقہ پر ساری ذمہ داری ڈال کر ہم صحیح وجوہات تلاش کرنے میں کامیاب رہیں گے ؟


ذرا وضاحت سے اور نام لے کر بتائیں کہ کس طبقہ اور مکتبہ فکر نے جدید علوم، علم القرآن ، علم سنت اور علم اقوالِ رسول محترم صلعم کی بھرپور مخالفت کی ، یار رہے کہ آپ ایک ہی سانس میں مذہبی اور جدید علوم لکھ رہے ہیں ، اس کا ثبوت بھی آپ کو دینا ہے کیونکہ یہ بات آپ نے متعدد جگہوں پر کہی ہے۔

آپ علم حدیث اور کتب حدیث جو کہ مروجہ نام ہیں انہیں لکھنے سے اتنے گریزاں کیوں ہیں ، بار بار ان کی جگہ علم اقوال رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طویل اصطلاح استعمال کرتے ہیں مگر علم حدیث نہیں ، کیوں؟
 

ساجد

محفلین
جناب محترم، بہت ہی شکریہ وضاحت طلب کرنے کا۔ کچھ دوستوں نے ملائیت او ملا ازم تجویز کیا، مجھے ان میں سے کسی پر اعتراض‌ نہیں۔ مقصد اس سسٹم کو اجاگر کرنا ہے


درست لفظ 'مولوی' نہیں 'مولویت' ہے۔ یہ ایک سیاسی نظام ہے، جس کا تجربہ ہم 1500 سے 1800 کے وسط تک برِصغیر پاک و ہند میں کر چکے ہیں۔ اوپر کا آرٹیکل اسی نظام کے بارے میں ہے، اس کے علاوہ بھی دو آرٹیکل اسی نظام کے بارے میں موجود ہیں۔ اس سیاسی نظام کا مالک صرف بادشاہ نہیں تھا، اس کے نیچے ایک مکمل سیاسی انفراسٹرکچر تھا، جو اس کو سپورٹ کرتا تھا۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا، آپ دیکھئے اور اپنی رائے کا اظہار کیجئے۔ تھوڑا سا تحمل اور برداشت کے ساتھ سوچئے کہ اس 'سیاسی نظام' کے نتیجے میں جو کچھ برآمد ہوا، کیا وہی ایک اسلامی نظام سے برآمد ہونا چاہیئے؟

کیا بعینہ اس سیاسی نظام کا تجربہ کرنے کے لئے ہم دوبارہ تیار ہیں؟ اور اس طرح جبر، تعلیم اداروں کا تعطل، سخت ترین غیر قرآنی سزائیں اور رائے عامہ کی آزادی کی ممانعت، استصواب رائے کے حق کو عوام سے واپس لے لینا اور صرف کتب روایات پر مبنی مدرسوں کے قیام کے لئے، کیا ہم تیار ہیں؟ کیا ایسے سیاسی نظام کا ہمارا فیصلہ جانتے بوجھتے ہوئے ہے۔ یا ہم کومزید تعلیم قرآن و سنت و اقوال رسول کی کے ضرورت ہے؟ اور درست معنوں میں ایک 'اسلامی' نظریہ کی ضرورت ہے۔



اس بہترین وضاحت کے لئے آپ کا بہت شکریہ۔ ہم اس سیاسی نظام کی بات کریں گے، کسی فرد کی بات قطعاَ‌نہیں کریں گے۔ اور وہ علماء کہ جن کی طرف آپ نے اشارہ فرمایا ہے، ان میں سے کوئی بھی اس زمرہ میں‌نہیں آتا۔

والسلام
فاروق بھائی ،
وضاحت کرنے کا بہت شکریہ۔
میں نے یہ سوال اس لئیے کیا تھا کہ اس دھاگے کی افتتاحی تحریر کا آغاز اس جملے سے ہوتا ہے ، "یہ جاننا ضروری ہے کہ مولوی ہے کون اور مولویت کیا ہے اور کب سے قایم ہے
اور اس میں مولویت کے بیان کو تو میں پڑھ اور سمجھ لیا لیکن مولوی کی تعریف نہیں کی گئی۔ شاید اسی وجہ سے تشنگی کا احساس ہو رہا ہے۔
میں یہ قیافہ کر رہا ہوں کہ اگر مولوی اور مولویت لازم و ملزوم ہیں تو کیا جو علماء دین حقیقی عالم ہیں اور خود کو مولوی کہلوانا پسند کرتے ہیں وہ کس کھاتے میں ڈالے جائیں؟
اور اگر مولوی اور مولویت کا باہم کوئی تعلق نہیں ہے تو اُن بے ہودہ افعال و افکار (جن کا بیان آپ نے مولویت کے باب میں کیا) کو ماننے اور پھیلانے والوں کو ہم کیا نام دے سکتے ہیں؟
اور اگر ہم ان بے ہودہ افکار پھیلانے والوں کو مولوی کہیں تو دین اسلام کی اللہ کے احکام کے عین مطابق تبلیغ کرنے والوں کو ہم کیا نام دیں؟
براہِ کرم ذرا تفصیل سے بیان فرمائیے تا کہ ابہام دور ہو جائے۔
 
پہلے واضح کرچکا ہوں کہ آپ کی وضاحت مولویت اور ملائیت کی کافی ہے۔

اس سے پیشتر کہ میں آپ کے اگلے سوال کا جواب دوں، براہ کرم یہ بتائیے اس مضمون میں جس سیاسی نظام کی طرف 'مولویت' کی اصطلاح اشارہ کرتی ہے، وہ آپ کو نظر آتا ہے؟
 
درج ذیل اقتباس عظیم شیروانی کے ایک آرٹیکل سے لیا گیا ہے۔ جو یہاں ہے۔
http://socialjusticeindia.org/education.htm
نوٹ کیجئے :
One maulvi I met in Meerut recently boasted that if a person can read and understand the Quran, he does not need any further education.​
یہ رویہ کب سے ہے، کوئی صاحب اس پر روشنی ڈالیں گے؟ یہ ایک مولوی کا بیان ہے یا بہت سے ایسے ہیں، اور کب سے ہیں؟ اس کا مداوا کیا ہے؟
There are two commonly prevalent explanations regarding the educational 'backwardness' of Muslims in India . One explanation is that Muslims are educationally 'backward' because they have been slow to take advantage of the educational development witnessed in the country in recent decades due to their particular attitudes or cultural ethos. Zafar Masood works for a Muslim NGO in Moradabad , the Zafar Manav Seva Sansthan. He believes that the problem arises from the close link between the religious and secular spheres of life in Islam and the emphasis placed upon religious education among Muslims. According to this view, some Muslims have failed to respond to secular education or take advantage of educational developments on account of their supposed resistance to 'secular' education. This is attributed to their alleged preference for madrasas over 'modern', 'secular' schools. Sections of the ulama, for their part, have played a crucial role in promoting the view that the 'real' education is religious, not 'modern'. One maulvi I met in Meerut recently boasted that if a person can read and understand the Quran, he does not need any further education.​
 
آپ نے ایسا بیان کیا جیسے مولویت ایک سسٹم ہو؟
اگر ہے‌تو سرخیل کون؟


آپ نے کتابوں کی بات کی کہ کتابوں میں اپنی باتیں شامل کیں
کون سی کتابیں اور وہ کون ہیں؟

۲۵۰۰ سال یعنی حضرت عیسی علیہ السلام سے بھی پہلے؟
ابتدا کس نے‌کی؟

سورہء بقرہ میں گائےٍ والوں کو آپ نے مولوی کہا؟
اسکی کیا دلیل؟

لونڈی یا باندی کی مثال دی آپ‌ نے‌!! قرآن اچھی طرح پڑھیں ان شاء اللہ کافی تسلی بخش جوابات آپ کو مل جائیں گے۔

دار العلوم کو آپ نے برے‌لفظوں میں یاد کیا۔۔۔ کبھی دار العلوم میں جاکر دیکھ‌ لیں آپکی باتیں کتنی سچی ہیں!!

میں نے پورا مضمون نہیں پڑھا سرسری نظر ماری تو تناقضات کا پلندہ نظر آیا یہ مضمون۔ اس میں آپ‌ نے‌تاریخی حوالات دئیے‌ لیکن کوئی دلیل ذکر نہیں کی۔

کسی معتبر عالم یا مولوی سے‌ کبھی ملاقات بھی کی؟ میں ان لوگوں کی بات نہیں کرتا جو علماء کا لبادہ اوڑتے‌ ہیں۔۔۔

آپ‌ اپنی فکر وطاقت کو بھلے کاموں میں صرف کریں تو بہتر ہوگا۔ اگر آپ‌ کہتے‌ ہیں کہ مولوی نفرت پھیلاتے‌ ہیں تو آپ یہ کام کرکے‌ ان کے‌خلاف کیا کر رہے ہیں؟
پھر آپ‌ اور مولوی میں کیا فرق؟

یہ تو صرف اس مضمون پر اعتراضات کے سمندر سے‌ چند قطرے آپکو دکھائے‌ ہیں وہ بھی سرسری نظر ڈال کر۔۔۔۔

میری مدینہ پاک سے‌ دعا ہے خدا تعالی آپکو راہِ ہدایت عطا فرمائے
اور مجھے بھی ہدایت دے۔

اور شر سے محفوظ رکھے
 

ساجد

محفلین
پہلے واضح کرچکا ہوں کہ آپ کی وضاحت مولویت اور ملائیت کی کافی ہے۔

اس سے پیشتر کہ میں آپ کے اگلے سوال کا جواب دوں، براہ کرم یہ بتائیے اس مضمون میں جس سیاسی نظام کی طرف 'مولویت' کی اصطلاح اشارہ کرتی ہے، وہ آپ کو نظر آتا ہے؟
فاروق بھائی ،
جن برے افعال کی بابت آپ ارشاد فرما رہے ہیں بے شک وہ موجود ہیں ۔ لیکن اگر ہم سابقہ و تشنہ نکات کی وضاحت کئیے بغیر آگے بڑھتے جائیں گے تو معاملہ کھُلنے کی بجائے کھَلنے کا اندیشہ پیدا ہو جائے گا۔
جن چیزوں کی طرف آپ کا اشارہ ہے وہ صرف 2500 سال سے ہی نہیں ہیں۔ ان کا آغاز تو اسی وقت سے ہوتا ہے جب بارگاہِ خدا وندی میں سرکش شیطان نے اللہ کے فرمانبردار بندوں کو راہِ حق سے بھٹکانے کی ہرزہ سرائی کی تھی۔ پھر ہم اس کو صرف 2500 سال پہلے ہی سے کیوں دیکھتے ہیں؟ حالانکہ قرآن پاک ہمیں ایک مشہور واقعہ اصحاب کہف کا بیان فرماتا ہے ۔ وہ لوگ جن سرکشوں کی وجہ سے غار میں گئے تھے کیا ہم ان کو مولوی کہہ سکتے ہیں؟ اور کیا اس وقت کی سیاسی صورت حال کو مولویت کہا جا سکتا ہے؟ پھر کیا بات ہے کہ نجاشی کہ دربار میں حضرت جعفر بن طیار جو بیان دیتے ہیں اس میں وہ اس مولویت کا ذکر کرتے دکھائی نہیں دیتے اور ہم سب جانتے ہیں کہ یہ واقعہ آپ کے مضمون میں بیان کردہ 2500 سال قبل کے عرصے کے دوران ہی ہوا۔
مطلب یہ کہ نہ تو 2500 سال پہلے مولویت تھی اور نہ اُس سے بھی سینکڑوں یا ہزاروں سال پہلے واقعہ اصحابِ کہف کے وقت تھی۔ ہاں اس کو شیطانیت ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ان نیک اور پاکباز لوگوں کے مخالفین اسی شیطان کی پیروی کر رہے تھے کہ جو بارگاہِ ایزدی سے نکالا گیا تھا اور یہی شیطان آج بھی لوگوں کو روزِ اول کی طرح سے بہکانے میں مصروف ہے۔ اور مجھے کہنے دیجئیے کہ اگر یہ شیطان مذہب کی آڑ میں چھپتا ہے تو یہ سیاست اور اقتصاد کی آڑ میں بھی چھپتا ہے۔
کبھی تو یہ کسی کو امام مہدی کے دعوے پر اکساتا ہے اور کبھی کسی کو جھوٹا نبی ہونے کی تحریک دیتا ہے۔ کبھی یہ کمزوروں اور لاچاروں کے استحصال کی سازش کرتا ہے تو کبھی بُش کو خون سے ہاتھ رنگنے کے لئیے "خُدائی اشارے" کا روپ دھارتا ہے۔ کبھی یہ انبیاء کی ہرزہ سرائی کے لئیے آزادی تحریرو تقریر کا جال بچھاتا ہے تو کبھی ہولو کاسٹ کا فسانہ تراش کر اس کا بدلہ دوسروں کو بے گھر کرکے لینے کا سبق پڑھاتا دکھائی دیتا ہے۔ کبھی یہ حضرت عیسی کے قتل پر لوگوں کو اکساتا دکھائی دیتا ہے تو کبھی طائف کی پہاڑیوں میں رحمۃ للعلمین پر پتھر مارتا نظر آتا ہے۔ کہیں مادر پدر آزاد ہو کر جنگلوں اور چوراہوں میں زنا کو عام کرواتا ہے تو کہیں سر پر صرف سکارف اوڑھنے کی پاداش میں ملک بدریاں کروا کر اپنے ہونے کا ثبوت پیش کرتا ہے۔کہیں یہ قرآن کی آیات میں تبدیلی کی سازشیں کرتا ہے تو کہیں ایسے ادیبوں کو زن اور زر کا لالچ دیتا ہے جو اللہ کی آیات کو توڑ مروڑ کر پیش کریں۔ کہیں وہ انسانی حقوق کا ڈھنڈورہ پیٹتا ہے تو کہیں انسانوں کی کھوپڑیوں کا انبار اپنے ہاتھوں سے لگاتا ہے۔
کبھی وہ مولوی کے روپ میں جلوہ گر ہوتا ہے تو کبھی مسٹر کلین کی شکل میں۔
ہم یہ ہرگز نہیں کہہ سکتے کہ تمام برائیوں اور کمزوریوں کا سبب صرف ایک مخصوص طبقہ ہے۔ علماء سُو نے جو غلط کام کئیے اس کا الزام تمام عُلماء پر نہیں رکھا جا سکتا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ کسی ایک ڈاکٹر کی غفلت کی وجہ سے کسی مریض کے فوت ہو جانے پر ہم تمام ڈاکٹروں کو مؤرد الزام نہیں ٹھہرا سکتے۔
آپ غور کیجئیے کہ مولویت اور 2500 سال کا تعلق کس چیز کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ مانا کہ یورپ اور امریکہ بہت شاندار ادیب بھی ہیں جو اپنے فن میں اس قدر تاک ہیں کہ جھوٹ کو بھی سچ ثابت کر دیتے ہیں لیکن اللہ نے ہمیں بھی سوچنے کے لئیے ایک دماغ دیا ہے۔
کیا یہ کام بھی مولویوں یا مولویت کا ہے کہ جاپان پر ایٹم بم گرایا گیا اور لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ آن واحد میں اتار دیا گیا؟ مجھے دُکھ ہے کہ کیوبا ، ویتنام ، افریقہ کے لا تعداد مما لک ، پانامہ ، فلپائن ، ہندوستان ،ملایا اور موجودہ وقت میں لیبیا ، سوڈان ، صومالیہ ، پاکستان ، عراق ، کویت اور افغانستان میں لاکھوں انسانوں کو اپنی خون آشامی کی بھینٹ چڑھانے والے یہ شیطان کے چیلے آپ جیسے بیدار مغز آدمی کو بھی اپنی ڈس انفارمیشن کا شکار بنانے میں کامیاب ہو گئے۔
والسلام علیکم و رحمۃاللہ
 
ساجد صاحب، اگر ہم موضوع پر ہی رہیں تو بہتر ہے۔ یہ موضوع نہیں میری تحریر کا، جس طرف آپ اشارہ کر رہے ہیں۔ آپ لکھئے اپنے اس موضوع پر، جس پر آپ نے اشارہ کیا ہے۔ میں حتی الامکان کوشش کروں‌گا کہ مناسب تائید و تنقید فراہم کرسکوں۔

واضح کرتا چلوں کے 'یہ طریقہ' کہ پہلے اظہارِ اتفاق اور پھر اچانک روش کی تبدیلی، کہ بہت پرانا طریقہ رہا ہے مولویت کا۔ ہم میں سے بہت سے دوستوں نے بالواسطہ سیکھ لیا ہے۔ موضوع پر مناسب سوالات، تبصرات، تائیدات، تنقیدات بہت اچھی بات ہے۔ کردار کشی سے گریز کیجئے۔

یہ موضوع ہے، ایک واضح سیاسی نظام جس کی تفاصیل کچھ لکھ چکا ہوں اور کچھ مزید لکھوں‌گا، آپ کی تنقید و تائید کے لئے کھلی ہیں۔ جس طرح سوشیالوجی کو سوکس سے نہیں بدلا جاسکتا، اس سیاسی نظام جس کو میں نے مولویت کانام دیا ہے، مغرب کی شیطانیت سے نہیں بدلا جاسکتا۔ ایک جرم کی تاویل میں دوسرا جرم نہیں‌کیا جاتا۔

آپ ابتدا کیجئے، اس نظام کو سمجھنے کی۔ سعودی یا برطانوی فرمانروا سے پوچھئے کہ وہ عوام کی دولت سے کنارہ کش ہونے کا کیا پلان رکھتا ہے۔ اور اس کے لئے کونسے الفاظ موزوں ہونگے۔ جو جدید تعلیم آج سعودی عرب میں پھیلائی جارہی ہے، اسی تعلیم کا ہندوستان کا مولوی کیوں مخالف ہے؟ آپ سوچئے اور جواب دیجئے۔ اسی طرح کی فرد واحد کی حکومت اور فرد واحد کی قانون سازی ہندوستان میں رہی۔ آپ تھوڑی سی تحقیق کیجئے اور بتائیے کہ یہ درست ہے یا نہیں۔ امریکہ، مغرب اور ایسے دوسرے موضوعات کو ہم کسی اور دھاگہ کے لئے اٹھا رکھیں تو بہتر ہوگا۔

نوٹ: سب بھائیوں سے استدعا ہے کہ اس بحث میں شرکت کے ساتھ ساتھ، قرآن آسان تحریک کی پروف ریڈنگ میں بھی ہاتھ بٹا کر عملی حصہ بھی لیں۔
 

ساجد

محفلین
فاروق بھائی ،
میں نے اس دھاگے پر آپ کی کسی بات کی تائید یا تردید نہیں کی۔ میں نے تو ایک سوال پوچھا تھا جس کا جواب آپ نے نہیں دیا ابھی تک۔ جو کچھ اپنی آخری پوسٹ میں مَیں نے لکھا وہ میرے ہی نہیں آپ کے بھی مشاہدات ہیں اور آپ اس دھاگے کو جوں جوں آگے بڑھائیں گے آپ کو اندازہ ہو تا جائے گا کہ میں نے جو کچھ لکھا وہ موضوع سے باہر ہرگز نہیں۔
فاروق بھائی ، میں نے کسی کی کردار کشی نہیں کی صرف حقائق بیان کئیے ہیں۔ میں بذات خود بحث کے دوران کردار کشی کا سخت مخالف ہوں۔ اگر ایسا ہوا ہے تو نشان دہی فرما دیجئیے۔
اظہارِ اتفاق اور بعد میں روش کی تبدیلی ، والی بات نہیں ہے ۔ میں کم از کم کسی بات پر آپ سے اختلاف کا حق تو رکھتا ہی ہوں اگر اس کو بھی آپ مولویت کے کھاتے میں ڈال دیں تو 'جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے'۔
مجھ کو یہ بیماری ہے کہ میں انتہا پسندی کا قائل نہیں ہوں۔ مطلب یہ نہ لیفٹسٹ اور نہ ہی رائٹسٹ ہوں۔ جو کچھ میری آنکھیں دیکھتی ہیں اور دماغ سوچتا ہے من و عن بیان کر دیتا ہوں۔
میں ان مولویوں اور ان کی مولویت کا تو مخالف ہوں کہ جو نام کے مولوی ہیں لیکن یہ اصطلاح یہاں جن معانی میں استعمال ہونے جا رہی ہے وہ مزید بہت ساری غلط فہمیاں پیدا کرنے کا سبب بنے گی۔
تاریخ ، مذہب ، اور سیاست کے حوالے سے میں آپ کے خیالات سے بے حد قریب ہوں اور کبھی کبھی لگتا ہے کہ آپ نے تو سچ میں میرے دل کی بات کہہ دی۔
کیوں کہ میرے دماغ میں جو ابہام ہے ابھی وہ دور نہیں ہو سکا اس لئیے فی الحال میں اس دھا گے پر اپنے تبصرے روک رہا ہوں تا کہ دیگر ساتھی ہماری آپسی بحث کی وجہ سے کوفت محسوس نہ کریں۔ جب مجھے میرے سوال کا جواب مل جائے گا میں پھر سے حاضر ہوں گا اور اس موضوع پر آپ کے ساتھ تبادلہ خیال ہو گا۔
والسلام علیکم و رحمۃاللہ
 
برادر من ساجد، سب سے پہلے جو الفاظ آپ کو دلآزاری کرتے ہوئے لگیں، بناء توضیح ‌و توجیح واپس۔

اور اس کے بعد، جو مسئلہ آپ کو تنگ کر رہا ہے، مجھے بھی تنگ کرتا رہا ہے۔ میری نگاہ میں یہ ایک سیاسی نظام اور ایک نکتہ نگاہ ہے اور اگر آپ اس کے لئے ایک بہتر اصطلاح تجویز کرسکیں تو مجھے بھی آسانی ہوگی۔ محب اور دوسرے برادران نے 'ملائیت' تجویز کیا ہے، مناسب ہے۔ میں نے یہ اس لئے ڈراپ کردیا تھا کہ اس طرح زمرے میں صرف طعنہ زنی ہوئی ہے، مشکلات کی نشاندہی نہیں۔

اس نظام میں کون کون شامل تھے؟ اس کو اس طرح دیکھئے۔ میرا ایک پڑوسی ڈیموکریٹ ہے اور دوسرا ریپبلکن۔میرا اپنا جھکاؤ اگر ڈیموکریٹس کی طرف ہوگا تو ریپبلکن برے لگیں گے۔ اب اگر میں اس ری پبلکن کا نام لکھتا ہوں تو کوئی جانتا بھی نہیں۔ اسی طرح‌ شخصیات کے نام لینا بے کار ہے۔ اس نظام کی پہچان میرا مقصد ہے، کہ اس میں گیہوں اور گھن مساوی پستا ہے۔

کیوں؟ اس لئے کہ اس سے علمی انحطاط پیدا ہتا ہے ، آج بھی، اس نظام کے تحت چلنے والے بیشتر مدارس، جدید علوم کی تعلیم کس قدر دیتے ہیں، آپ خود جانتے ہیں۔ یہ علمی انحطاط معاشرہ کے تنزل کا ذمہ دار ہے۔ اس کے شرکاء کی شخصیت کیا ہیں، غیر ضروری ہے ، یہ نظام چلتا کیسے ہے اور اس کی انرجی کہاں سے جنریٹ ہوتی ہے، یہ زیادہ ضروری ہے۔

اس کے برعکس دیکھئے تو جدید مدارس میں دینی تعلیم کس قدر معدوم ہے، آپ جانتے ہی ہیں، یہ تصویر کا دوسرا رخ‌ ہے۔ میں مزید اسلامی تعلیم جدید مدارس میں شامل کرنے کا سپورٹر ہوں۔ کم از کم اتنا ہو کہ ہم ایک غیر مسلم کو بتا سکیں کے ہماری کتاب کہتی کیا ہے؟ ہائی اسکول کے پڑھے ہوئے لڑکے سے ذرا پوچھئے کہ زکوۃ کس کس مد میں خرچ ہونی چاہئیے اور یہ کس آیت میں‌ہے تو مجھے یقین ہے کے ایک بڑی تعداد حوالہ نہ دے سکے گی۔ جب کے یہ فرض‌ ہے تو اس کی تعلیم بھی فرض‌ہونی چاہئیے؟

میں ان مولویوں اور ان کی مولویت کا تو مخالف ہوں کہ جو نام کے مولوی ہیں لیکن یہ اصطلاح یہاں جن معانی میں استعمال ہونے جا رہی ہے وہ مزید بہت ساری غلط فہمیاں پیدا کرنے کا سبب بنے گی۔
یہ دیکھنا تو بہت آسان ہے کہ کوئی نام کا مولوی ہے۔ یہ اس آرٹیکل کا موضوع نہیں۔
لیکن اس مکمل پراسیس کا 100 سال اور 200 سال کے عرصے میں معاشرے پر کیا اثر ہوتا ہے؟
یہ ہے وہ سوال جس کا جواب دینے کی کوشش کر رہا ہوں۔ امید ہے اس جواب سے آپ کو ایک اچھی اصطلاح ڈھونڈنے میں‌ آسانی ہوگی۔

اس تفصیل کے بعد امید ہے کہ آپ یا کوئی دوسرے صاحب، ایک بہتر اصطلاح تجویز کرسکیں گے۔ ایسی اصطلاح جو ذمہ داری تو ڈالتی ہو اس نظام پر لیکن باعث دل آزاری نہ ہو۔

والسلام
 

ظفری

لائبریرین
میں نے ابھی ساری پوسٹیں نہیں پڑھیں مگر جو بھی سرسری طور پر پڑھا ہے اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ہم مسلکی اور گروہی تعصب کا جلد شکار ہوجاتے ہیں ۔ ہم اختلافِ رائے کو دین سے بے خبری ، قرآن و سنت سے بغاوت سے کم تر کوئی حیثیت دینے کو تیار نہیں ہوتے ۔ علم کی دنیا میں اصل اہمیت دلیل اور استدلال کی ہے ۔ یہاں سوال در سوال کی بھر مار ہے ۔ اگر کہیں اختلاف ہے تو اسے مدبر اور سہل انداز میں بیان کیا جاسکتا ہے ۔ دلیلیں دی جاسکتیں ہیں ۔ مگر مضمون کے اصل ماخذ کو چھوڑ ہم کہیں اور اُلجھ رہے ہیں ۔ جس سے اس مضمون کی افادیت ختم ہوتی جا رہی ہے ۔ یہاں ایک نظام کی بات کی جارہی ہے جس نے اسلام کے تشخص کو شدید نقصان پہنچایا ہے ۔ اور اس نظام کو چلانے والوں کی کئی چہرے ہمارے آس پاس بکثرت پائے جاتے ہیں ۔ یہاں مجھے کسی کی اہانت اور برائی کرنا مقصود نہیں لگ رہا ۔ مگر جیسا کہ میں نے کہا کہ ہم گروہی اور مسلکی تعصب کے آگے فکری اور عقلی دلائل کو بلکل رد کردیتے ہیں ۔ جو کسی بھی طور پر مثبت نہیں ہے ۔ یہاں کچھ حضرات، مولوی اور مولانا سے ملاقات کا ثبوت تو مانگتے ہیں‌ مگر ایسے مولوی اور مولانا کو بھی یہ کہہ کر ماننے سے انکار کردیتے ہیں کہ وہ علم کا لبادہ اُڑھتے ہیں ۔ یعنی وہی بات ہوگئی جس کی طرف یہاں یہ بحث شروع کی گئی ہے ۔ پہلے مضمون کے اصل ماخذ کو تو سمجھا جائے ۔ تنقید اور طنز کسی مناسب وقت کے لیئے اٹھا رکھا جائے تو کیا یہ اچھا نہ ہوگا ۔؟
 
مولویت

دین ملا فی سبیل اللہ فساد۔
مولوی ، ملا اور مولانا کا فرق
مولوی : جس کی نسبت مولا کی طرف ہو۔
ملا: املا سے نکلا ہوا معنی پڑھا لکھا گرئمر دان
مولاناٌ: ہمارا مولا۔

اگر غلطی ہو گئی ہو تو اصلاح کرنا۔
کیونکہ بھگوڑا مولوی ہوں۔
 
صاحبو، کئی اچھے سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ محب صاحب نے بھی اور دوسرے حضرات نے بھی۔ میرا آئندہ آرٹیکل 'مولویت:‌ دینی کتب کا سیاسی استعمال ' بہت سے سوالاں کا جواب دیگا، جو میں نے یہاں نہیں‌دیے۔ اس کا اندا ز تھوڑا سا مختلف ہے کہ سمجھنے سمجھانے میں‌آسانی ہو، یہ اس نکتہ نظر سے لکھا گیا ہے۔ محب صاحب کے کچھ سوالات کے جوابات بھی اگلے آرٹیکل میں موجود ہیں۔
 

اجمل

محفلین
دین ملا فی سبیل اللہ فساد۔
مولوی ، ملا اور مولانا کا فرق
مولوی : جس کی نسبت مولا کی طرف ہو۔
ملا: املا سے نکلا ہوا معنی پڑھا لکھا گرئمر دان
مولاناٌ: ہمارا مولا۔

اگر غلطی ہو گئی ہو تو اصلاح کرنا۔
کیونکہ بھگوڑا مولوی ہوں۔

مَولَوی کا مطلب ہوتا ہے ۔ معلّم ۔ مدرّس ۔ دین دار ۔ پابندِ شریعت ۔ عالمِ دین ۔
انگریزی کے لفظ گریجوئَیٹ کا ترجمہ بھی مَولَوی ہوتا ہے

مَولَوِیّت کا مطلب ہوتا ہے ۔ مَولِوی پَن ۔مَولَوی بننے کی صلاحیت

مُلّا کا مطلب ہوتا ہے ۔ عمدہ لکھنے والا ۔ عالِم ۔ فاضل ۔ مسجد میں نماز پڑھانے والا ۔ بچوں کو پڑھانے والا ۔

اگر یقین نہ آئے تو دو چار قاموس جِسے انگریزی میں ڈکشنری کہتے ہیں دیکھ لیجئے ۔
 

فرید احمد

محفلین
سرور خاں صاحب یہ بھی بتا دیں کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سے اب تک قرآن کن کے ہاتھوں ہم تک پہنچا ؟
اور ہاں ایک سوال خاص ؟
جو آپ کی شخصیت کو یہاں متعین کرنے کے لیے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ
آپ کی نظر میں حدیث کا کیا مقام ہے ؟ واضح وضاحت کرین تو کرم ہوگا
 
Top