حسیب احمد حسیب
محفلین
مولویریا کے مریض ... !
ویسے تو حضرت انسان کو اس دنیا میں تشریف لاتے ہی بہت سے امراض کا سامنا کرنا پڑا جن میں سب سے قدیم مرض ہوس تھا کہ جس نے بھائی کا قتل بھائی کے ہاتھوں کروایا سو ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ انسان بے چارا ہوس کا مارا سب سے پہلے جس مرض میں مبتلا ہوا وہ ایک نفسیاتی مرض تھا ...
اب ان نفسیاتی امراض کا بھی کیا کہنا دماغ سے شروع ہوتے ہیں تو جسمانی اجزائے ترکیبی کے آخری درجے تک آتے ہیں اور انسان کو کہاں کہاں ذلیل کرواتے ہیں مت پوچھئے ..
اب اگر بات مت پوچھنے کی آ ہی گئی ہے تو آپ کو ایک قصہ سناتے ہیں ..
قدیم زمانے کا قصہ ہے ایک صاحب اپنے ایک دوست کے ہاں ملنے تشریف لے گئے قریب پہنچے تو دیکھا رش لگا ہوا ہے اور لوگ باگ ٹکٹ لے کر لائن میں کھڑے ہیں کسی نہ کسی طرح اندر پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں انکے دوست موصوف راجہ اندر بنے بیٹھے ہیں اور کوئی تماشا دکھلا رہے ہیں اور لوگ ہیں کہ نوٹوں کی بارش کیے جا رہے ہیں تماشا بھی کیا تھا ایک عجیب منظر تھا کہ ایک دس انچ کا گھوڑا پھدکتا پھر رہا ہے .
جب تماشا ختم ہوا تو دوست سے پوچھا میاں یہ کیا معاملہ ہے دوست کہنے لگا کیونکہ تم پرانے یار ہو بلکہ یار بے کار ہو اسلئے تمکو بتلاتا ہوں سنو گھنے جنگل میں اونچی پہاڑی پر ایک بزرگ رہتے ہیں یوں تو وہ ہمیشہ حالت استغراق میں ہوتے ہیں لیکن انکی خدمت میں چلے جاؤ جس دن بھی نظر کرم ہوئی آنکھیں کھولینگے اور خواہش دریافت کرینگے من مانگی مراد ملے گی ...
مرتا کیا نہ کرتا بے چارا غم کا مارا چلا جنگل کی اور , اور چڑھا پہاڑی پر کیا دیکھتا ہے ایک بزرگ سیاہ توت جنکے عجیب تھے کرتوت بیٹھے ہیں دھونی رمائے پیر پھیلائے موقع غنیمت جان لگا انکی خدمت میں دن گزرے راتیں گزریں گزرے ماہ و سال اور پھر ہوا ایک دن عجب کمال کھولیں بابے نے آنکھیں اور پوچھا مانگو کیا مانگتے ہیں ...
بس بابا ہیروں سے بھری بوری مل جاوے تو قسمت کا سکندر کہلاؤں
بابا نے آنکھیں بند کیں پھر کھولیں پھر بند کیں پھر کھولیں اور پھر انکی آنکھیں بولیں .
" سکندر جب گیا دنیا سے دونوں ہاتھ خالی تھے "
سوالی تھے ہاں سوالی تھے ہاں ہاں سوالی تھے ..
ترکت تا ترکت تا تا تا دھم ..
اور پھر بابا جی مجرا ختم کرتے ہی گویا ہوئے
جا بچہ جو مانگا ہے ملے گا بلکہ دس گنا ملے گا جا بھاگ بھاگ یہاں سے بھاگ ..
بھاگم بھاگ گھر پہنچتے تو کیا دیکھتے ہیں صحن میں قطار اندر قطار بوریاں لگی ہیں لپکے اور جھپک کر ایک بوری کھولی اور پھر دیکھتے چلے گئے دیکھتے ہی چلے گئے ..
کھیروں سے بھری بوری منہ چڑا رہی تھی ..
بکتے جھکتے پہنچے دوست کے پاس اور لگے پوچھنے
میاں یہ کیا حرامی پن ہے مانگے تھے ہیرے اور مل گئے کھیرے ...
دوست سٹپٹا کر بولا اور ایک بات تو میں بتانا ہی بھول گیا بابا اونچا سنتے ہیں ..
آپ بھی سوچ رہے ہونگے اس قصے کا کہانی سے کیا تعلق ہے چلیے اسکو سمجھنے کیلئے ایک اور قصہ سنیں ...
ایک بار ایک قوم بڑی ذلالت میں پھنسی پڑی تھی اور اس ذلت سے نکلنے کا کوئی راستہ نہ نکلتا تھا کسی نہ کہا کہ فلاں گاؤں چلے جاؤں وہاں ایک لال بجھکڑ ملے گا جو وہ بولے وہی کرنا بس اسی میں تمہاری خلاصی ہے ..
ایک وفد تیار کیا گیا اور وہ وفد روانہ ہوا لال بجھکڑ کی تلاش میں منزلیں مارتا ہوا جب وہ وفد اس بستی میں پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک لمبا سا بانس زمین میں گڑا ہے اور اس بانس پر اپنی تشریف رکھے ایک بابا چڑھا ہے منہ اٹھا کر دیکھا تو کیا دیکھتے ہیں کہ بابا کے سر پر ایک الو بیٹھا سوچ میں غرق ہے گلے سے ایک اچھا دھاری ناگن لپٹی ہوئی ہے گود میں ایک لنگور ہے کہ جس نے دونوں کان پکڑے ہوئے ہیں لال بھجکڑ کے ، زلفیں لہراتی ہوئی زمین تک آتی ہیں جن پے چلتی ہوئی جنویں نیچے اوپر آتی جاتی ہیں اس عجیب منظر کا دیکھنا تھا کہ گرے قدموں میں اور لگے فریاد کرنے ..
لال بجھکڑ نے نکالی پوٹلی سے نسوار اور نسوار لگاتے ہی گویا ہوا ..
دیکھو میرے بچو ... !
تمھارے مسلے کا بس ایک ہی حل ہے
اور وہ ہے " لال بتی "
بستی کے باہر جانے والے راستے پر کھڑے ہو جاؤ اور جیسے ہی لال بتی نظر آوے اسکا پیچھا کرنا ..
مرتے کیا نہ کرتے نکلے بستی سے باہر اور لگے لال بتی کی تلاش میں دوپہر گزری شام آئی شام گزری رات نے پر پھیلائے ابھی شب آدھی ہی ڈھلی تھی کہ عجیب سی آواز آئی
گررڑ گررڑ گڑ گڑ گڑ گھوں گھوں
اور چمکی ایک بتی لال ہوا کمال تو ڈالو دھمال ..
لو جی شروع ہوا لال بتی کا تعقب ایک جانب لال بتی کی گھررڑ گھررڑ
دوسری جانب گھوڑوں کی دگڑ دگڑ ...
صبح کا سورج طلوع ہوا تو کیا دکھتے ہیں
گلاب خان کے ٹرک کی لال بتی انکا منہ چڑا رہی ہے
اور ٹرک شریف کے پچھواڑے پر لکھا ہے
جلنے والے کا منہ کالا ...
مرتے کیا نہ کرتے بکتے جھکتے پہنچے لال بجھکڑ کی بستی اور دیں اسے استعفی کدال اسٹائل کی گالیاں دوسری جانب سے لال بجھکڑ چینخا بس بس بس
میرے پیارے الو کے پٹھو ... ! ... بس
اسی لال بتی میں تمھارے لیے سبق تھا
تمہاری قوم کا مسلہ بھی یہی ہے
ایک طرف ظلمت شب کہ ختم ہی نہ ہووے ہے
اور دوسری جانب لال بتی ..
تو لگا دو قوم کو لال بتی کے پیچھے ...
تو ہم بات کر رہے تھے " مولویریا " کی
اجی یہ کوئی ملیریا نہیں
نہ ہی یہ کوئی لویریا ہے
یہ تو ہے " لال بتی" المعروف مولویریا ...
دور جدید کی یہ بیماری دراصل اس مریل قوم کیلئے دوا
بلکہ یوں سمجھیے کہ یہ ایک ایسی وبا ہے کہ جو لوگوں کو آنکھوں کا نہیں
عقل کا اندھا بنا دیتی ہے ..
یہ بیماری آتی نہیں بلکہ طاری کی جاتی ہے
لوگ کہتے ہیں جب طوفان آتا ہے تو شتر مرغ ریت میں منہ دیکر سمجھتا ہے کہ بچ جاوے گا
اور ہماری قوم جب طوفان آتا ہے تو آنکھوں میں دھول جھونک کر سمجھتی ہے کہ بچ جاوے گی ..
مولویریا دراصل ایک وائرس ہے جیسے ساون کے اندھے کو ہر طرف ہرا دکھائی دیتا ہے
ایسے ہی مولویریا کے شکار کو ہر مولوی برا دکھائی دیتا ..
ایک مولویریا کے مریض کا نفسیاتی ٹیسٹ ...
سوال : تمہارا نام کیا ہے ... ؟
جواب : اوے مولوی .
سوال : کیا کرتے ہو ........ ؟
جواب : ابے گدھے میں نہیں کرتا مولوی کرتا ہے .
سوال : سوال مولوی کیا کرتا ہے ... ؟
جواب : ابے تو مولوی ہے کیا ...
ہاں ہاں تو مولوی ہے ابے سالے ھا ھا ھش ش ش
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مولویریا ایک کیفیت کا نام ہے جو کسی بھی معقول آدمی پر کبھی بھی طاری ہو سکتی ہے ...
سنیے مولویریا کے ایک انٹلیک چول مریض سے ..
پروفیسر چورن چترویدی صاحب آپ عالمی سیاست کی تاریخ کے حوالے سے کیا کہتے ہیں ...
" ہمم ہمم ہم ... دیکھئے سیاست کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی تاریخ کی سیاست پرانی ہے تاریخ میں سیاست اسوقت داخل ہوئی کہ جب سیاست میں تاریخ داخل ہوئی جب تاریخ اور سیاست پاس سے بلکہ آس پاس سے گزریں تو اسوقت وہ دونوں ایک دوسرے سے واقف نہیں تھیں ..
لیکن غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ نے سیاست سے چھیڑ خانی شروع کی اب سیاست بھی کچھ ایسی دودھ کی دھلی تو نہ تھی تو سیاست نے بھی کچھ اوچھی حرکتیں ضرور کی ہونگیں ...
اچانل مولویریا کا دورا پڑتا ہے ...
اور میں تمہیں بتلاؤں اس سیاست کی تاریخ اور تاریخ کی سیاست کی ماں بہن کس نے ایک کی جب سے یہ مولوی اس تاریخ میں گھسا سیاست کی میا تو اسی وقت مری ...
اور ہاں تو بھی مجھے مولوی ہی لگتا ہے ..
ابے سالے ..
ھا ھا ھا ھا ھش ھش ھش ش ش ش ش.............
اور اب لگتا ہے پوری قوم کو اس مولویریا وائرس میں مبتلا کرکے ٹرک کی لال بتی کے پیچھے لگایا جا رہا ہے ..
ہر سوال کا ایک جواب ...
گامے کی لڑکی کیوں بھاگی .... مولوی
گھمن کے ہاں اولاد کیوں نہیں ہوتی ... مولوی
رمضان سے پہلے پندرہ روپے کلو پھکنے والے آلو پچاس روپے کے کیسے ہوئے ... مولوی
شریف پولٹری والے کی ٹنڈ کیسے نکلی ... مولوی
نسوار خان کی شادی کیسے ٹوٹی ... مولوی
میری پجمیا کا ناڑا کون لے بھاگا ... مولوی
اسکی چنریا میں داغ کیسے لاگا ... مولوی ...
ملا ملا کردی نی میں آپے ملا ہوئی ۔
سدو نی مینوں دھیدو ملا، ہیر نہ آکھو کوئی ۔
ملا میں وچّ میں ملے وچّ، ہور خیال نہ کوئی ۔
میں نہیں اوہ آپ ہے، اپنی آپ کرے دلجوئی ۔
ملا ملا کردی نی میں آپے ملا ہوئی ۔
ہتھ کھونڈی میرے اگے منگو، موڈھے بھورا لوئی ۔
بلھا ہیر سلیٹی ویکھو، کتھے جا کھلوئی ۔
ملا ملا کردی نی میں آپےملا ہوئی ۔
سدو نی مینوں دھیدو ملا، ہیر نہ آکھو کوئی ۔
ویسے تو حضرت انسان کو اس دنیا میں تشریف لاتے ہی بہت سے امراض کا سامنا کرنا پڑا جن میں سب سے قدیم مرض ہوس تھا کہ جس نے بھائی کا قتل بھائی کے ہاتھوں کروایا سو ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ انسان بے چارا ہوس کا مارا سب سے پہلے جس مرض میں مبتلا ہوا وہ ایک نفسیاتی مرض تھا ...
اب ان نفسیاتی امراض کا بھی کیا کہنا دماغ سے شروع ہوتے ہیں تو جسمانی اجزائے ترکیبی کے آخری درجے تک آتے ہیں اور انسان کو کہاں کہاں ذلیل کرواتے ہیں مت پوچھئے ..
اب اگر بات مت پوچھنے کی آ ہی گئی ہے تو آپ کو ایک قصہ سناتے ہیں ..
قدیم زمانے کا قصہ ہے ایک صاحب اپنے ایک دوست کے ہاں ملنے تشریف لے گئے قریب پہنچے تو دیکھا رش لگا ہوا ہے اور لوگ باگ ٹکٹ لے کر لائن میں کھڑے ہیں کسی نہ کسی طرح اندر پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں انکے دوست موصوف راجہ اندر بنے بیٹھے ہیں اور کوئی تماشا دکھلا رہے ہیں اور لوگ ہیں کہ نوٹوں کی بارش کیے جا رہے ہیں تماشا بھی کیا تھا ایک عجیب منظر تھا کہ ایک دس انچ کا گھوڑا پھدکتا پھر رہا ہے .
جب تماشا ختم ہوا تو دوست سے پوچھا میاں یہ کیا معاملہ ہے دوست کہنے لگا کیونکہ تم پرانے یار ہو بلکہ یار بے کار ہو اسلئے تمکو بتلاتا ہوں سنو گھنے جنگل میں اونچی پہاڑی پر ایک بزرگ رہتے ہیں یوں تو وہ ہمیشہ حالت استغراق میں ہوتے ہیں لیکن انکی خدمت میں چلے جاؤ جس دن بھی نظر کرم ہوئی آنکھیں کھولینگے اور خواہش دریافت کرینگے من مانگی مراد ملے گی ...
مرتا کیا نہ کرتا بے چارا غم کا مارا چلا جنگل کی اور , اور چڑھا پہاڑی پر کیا دیکھتا ہے ایک بزرگ سیاہ توت جنکے عجیب تھے کرتوت بیٹھے ہیں دھونی رمائے پیر پھیلائے موقع غنیمت جان لگا انکی خدمت میں دن گزرے راتیں گزریں گزرے ماہ و سال اور پھر ہوا ایک دن عجب کمال کھولیں بابے نے آنکھیں اور پوچھا مانگو کیا مانگتے ہیں ...
بس بابا ہیروں سے بھری بوری مل جاوے تو قسمت کا سکندر کہلاؤں
بابا نے آنکھیں بند کیں پھر کھولیں پھر بند کیں پھر کھولیں اور پھر انکی آنکھیں بولیں .
" سکندر جب گیا دنیا سے دونوں ہاتھ خالی تھے "
سوالی تھے ہاں سوالی تھے ہاں ہاں سوالی تھے ..
ترکت تا ترکت تا تا تا دھم ..
اور پھر بابا جی مجرا ختم کرتے ہی گویا ہوئے
جا بچہ جو مانگا ہے ملے گا بلکہ دس گنا ملے گا جا بھاگ بھاگ یہاں سے بھاگ ..
بھاگم بھاگ گھر پہنچتے تو کیا دیکھتے ہیں صحن میں قطار اندر قطار بوریاں لگی ہیں لپکے اور جھپک کر ایک بوری کھولی اور پھر دیکھتے چلے گئے دیکھتے ہی چلے گئے ..
کھیروں سے بھری بوری منہ چڑا رہی تھی ..
بکتے جھکتے پہنچے دوست کے پاس اور لگے پوچھنے
میاں یہ کیا حرامی پن ہے مانگے تھے ہیرے اور مل گئے کھیرے ...
دوست سٹپٹا کر بولا اور ایک بات تو میں بتانا ہی بھول گیا بابا اونچا سنتے ہیں ..
آپ بھی سوچ رہے ہونگے اس قصے کا کہانی سے کیا تعلق ہے چلیے اسکو سمجھنے کیلئے ایک اور قصہ سنیں ...
ایک بار ایک قوم بڑی ذلالت میں پھنسی پڑی تھی اور اس ذلت سے نکلنے کا کوئی راستہ نہ نکلتا تھا کسی نہ کہا کہ فلاں گاؤں چلے جاؤں وہاں ایک لال بجھکڑ ملے گا جو وہ بولے وہی کرنا بس اسی میں تمہاری خلاصی ہے ..
ایک وفد تیار کیا گیا اور وہ وفد روانہ ہوا لال بجھکڑ کی تلاش میں منزلیں مارتا ہوا جب وہ وفد اس بستی میں پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک لمبا سا بانس زمین میں گڑا ہے اور اس بانس پر اپنی تشریف رکھے ایک بابا چڑھا ہے منہ اٹھا کر دیکھا تو کیا دیکھتے ہیں کہ بابا کے سر پر ایک الو بیٹھا سوچ میں غرق ہے گلے سے ایک اچھا دھاری ناگن لپٹی ہوئی ہے گود میں ایک لنگور ہے کہ جس نے دونوں کان پکڑے ہوئے ہیں لال بھجکڑ کے ، زلفیں لہراتی ہوئی زمین تک آتی ہیں جن پے چلتی ہوئی جنویں نیچے اوپر آتی جاتی ہیں اس عجیب منظر کا دیکھنا تھا کہ گرے قدموں میں اور لگے فریاد کرنے ..
لال بجھکڑ نے نکالی پوٹلی سے نسوار اور نسوار لگاتے ہی گویا ہوا ..
دیکھو میرے بچو ... !
تمھارے مسلے کا بس ایک ہی حل ہے
اور وہ ہے " لال بتی "
بستی کے باہر جانے والے راستے پر کھڑے ہو جاؤ اور جیسے ہی لال بتی نظر آوے اسکا پیچھا کرنا ..
مرتے کیا نہ کرتے نکلے بستی سے باہر اور لگے لال بتی کی تلاش میں دوپہر گزری شام آئی شام گزری رات نے پر پھیلائے ابھی شب آدھی ہی ڈھلی تھی کہ عجیب سی آواز آئی
گررڑ گررڑ گڑ گڑ گڑ گھوں گھوں
اور چمکی ایک بتی لال ہوا کمال تو ڈالو دھمال ..
لو جی شروع ہوا لال بتی کا تعقب ایک جانب لال بتی کی گھررڑ گھررڑ
دوسری جانب گھوڑوں کی دگڑ دگڑ ...
صبح کا سورج طلوع ہوا تو کیا دکھتے ہیں
گلاب خان کے ٹرک کی لال بتی انکا منہ چڑا رہی ہے
اور ٹرک شریف کے پچھواڑے پر لکھا ہے
جلنے والے کا منہ کالا ...
مرتے کیا نہ کرتے بکتے جھکتے پہنچے لال بجھکڑ کی بستی اور دیں اسے استعفی کدال اسٹائل کی گالیاں دوسری جانب سے لال بجھکڑ چینخا بس بس بس
میرے پیارے الو کے پٹھو ... ! ... بس
اسی لال بتی میں تمھارے لیے سبق تھا
تمہاری قوم کا مسلہ بھی یہی ہے
ایک طرف ظلمت شب کہ ختم ہی نہ ہووے ہے
اور دوسری جانب لال بتی ..
تو لگا دو قوم کو لال بتی کے پیچھے ...
تو ہم بات کر رہے تھے " مولویریا " کی
اجی یہ کوئی ملیریا نہیں
نہ ہی یہ کوئی لویریا ہے
یہ تو ہے " لال بتی" المعروف مولویریا ...
دور جدید کی یہ بیماری دراصل اس مریل قوم کیلئے دوا
بلکہ یوں سمجھیے کہ یہ ایک ایسی وبا ہے کہ جو لوگوں کو آنکھوں کا نہیں
عقل کا اندھا بنا دیتی ہے ..
یہ بیماری آتی نہیں بلکہ طاری کی جاتی ہے
لوگ کہتے ہیں جب طوفان آتا ہے تو شتر مرغ ریت میں منہ دیکر سمجھتا ہے کہ بچ جاوے گا
اور ہماری قوم جب طوفان آتا ہے تو آنکھوں میں دھول جھونک کر سمجھتی ہے کہ بچ جاوے گی ..
مولویریا دراصل ایک وائرس ہے جیسے ساون کے اندھے کو ہر طرف ہرا دکھائی دیتا ہے
ایسے ہی مولویریا کے شکار کو ہر مولوی برا دکھائی دیتا ..
ایک مولویریا کے مریض کا نفسیاتی ٹیسٹ ...
سوال : تمہارا نام کیا ہے ... ؟
جواب : اوے مولوی .
سوال : کیا کرتے ہو ........ ؟
جواب : ابے گدھے میں نہیں کرتا مولوی کرتا ہے .
سوال : سوال مولوی کیا کرتا ہے ... ؟
جواب : ابے تو مولوی ہے کیا ...
ہاں ہاں تو مولوی ہے ابے سالے ھا ھا ھش ش ش
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مولویریا ایک کیفیت کا نام ہے جو کسی بھی معقول آدمی پر کبھی بھی طاری ہو سکتی ہے ...
سنیے مولویریا کے ایک انٹلیک چول مریض سے ..
پروفیسر چورن چترویدی صاحب آپ عالمی سیاست کی تاریخ کے حوالے سے کیا کہتے ہیں ...
" ہمم ہمم ہم ... دیکھئے سیاست کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی تاریخ کی سیاست پرانی ہے تاریخ میں سیاست اسوقت داخل ہوئی کہ جب سیاست میں تاریخ داخل ہوئی جب تاریخ اور سیاست پاس سے بلکہ آس پاس سے گزریں تو اسوقت وہ دونوں ایک دوسرے سے واقف نہیں تھیں ..
لیکن غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ نے سیاست سے چھیڑ خانی شروع کی اب سیاست بھی کچھ ایسی دودھ کی دھلی تو نہ تھی تو سیاست نے بھی کچھ اوچھی حرکتیں ضرور کی ہونگیں ...
اچانل مولویریا کا دورا پڑتا ہے ...
اور میں تمہیں بتلاؤں اس سیاست کی تاریخ اور تاریخ کی سیاست کی ماں بہن کس نے ایک کی جب سے یہ مولوی اس تاریخ میں گھسا سیاست کی میا تو اسی وقت مری ...
اور ہاں تو بھی مجھے مولوی ہی لگتا ہے ..
ابے سالے ..
ھا ھا ھا ھا ھش ھش ھش ش ش ش ش.............
اور اب لگتا ہے پوری قوم کو اس مولویریا وائرس میں مبتلا کرکے ٹرک کی لال بتی کے پیچھے لگایا جا رہا ہے ..
ہر سوال کا ایک جواب ...
گامے کی لڑکی کیوں بھاگی .... مولوی
گھمن کے ہاں اولاد کیوں نہیں ہوتی ... مولوی
رمضان سے پہلے پندرہ روپے کلو پھکنے والے آلو پچاس روپے کے کیسے ہوئے ... مولوی
شریف پولٹری والے کی ٹنڈ کیسے نکلی ... مولوی
نسوار خان کی شادی کیسے ٹوٹی ... مولوی
میری پجمیا کا ناڑا کون لے بھاگا ... مولوی
اسکی چنریا میں داغ کیسے لاگا ... مولوی ...
ملا ملا کردی نی میں آپے ملا ہوئی ۔
سدو نی مینوں دھیدو ملا، ہیر نہ آکھو کوئی ۔
ملا میں وچّ میں ملے وچّ، ہور خیال نہ کوئی ۔
میں نہیں اوہ آپ ہے، اپنی آپ کرے دلجوئی ۔
ملا ملا کردی نی میں آپے ملا ہوئی ۔
ہتھ کھونڈی میرے اگے منگو، موڈھے بھورا لوئی ۔
بلھا ہیر سلیٹی ویکھو، کتھے جا کھلوئی ۔
ملا ملا کردی نی میں آپےملا ہوئی ۔
سدو نی مینوں دھیدو ملا، ہیر نہ آکھو کوئی ۔
حسیب احمد حسیب