موویز پلینٹ

معزز اور ( بقول برادرم عبدالقیوم چوہدری ) پیارے پیارے محفلین مابدولت کو بھی ایک بلوچی فلم میں ایک دکان کے مالک کا کردار ادا کرتے ہوئے دیکھ کر ( ازراہ تفنن ) اپنا سر دھن سکتے ہیں ! گرچہ پیش نظر فلم سن 2005 میں بنی تھی ، تاہم فلم کے اس منظر اور اس سے اگلے منظر میں معزز محفلین کا مابدولت کو پہچاننے کے حوالے سے مابدولت قطعا" مبتلائے تردد نہیں ہیں ۔ :):)


تاہم اس منظر میں آواز مابدولت کی اپنی نہیں ہے ،کیونکہ چند تکنیکی وجوہ کی بنا پر مابدولت کی آواز کی جگہ کسی اور صداکار کی آواز ڈبنگ کی گئی تھی جو گمان اغلب ہے کہ محفلین کو بھونڈی محسوس ہوگی ۔

بہت خوب جناب
 
معزز اور ( بقول برادرم عبدالقیوم چوہدری ) پیارے پیارے محفلین مابدولت کو بھی ایک بلوچی فلم میں ایک دکان کے مالک کا کردار ادا کرتے ہوئے دیکھ کر ( ازراہ تفنن ) اپنا سر دھن سکتے ہیں ! گرچہ پیش نظر فلم سن 2005 میں بنی تھی ، تاہم فلم کے اس منظر اور اس سے اگلے منظر میں معزز محفلین کا مابدولت کو پہچاننے کے حوالے سے مابدولت قطعا" مبتلائے تردد نہیں ہیں ۔ :):)


تاہم اس منظر میں آواز مابدولت کی اپنی نہیں ہے ،کیونکہ چند تکنیکی وجوہ کی بنا پر مابدولت کی آواز کی جگہ کسی اور صداکار کی آواز ڈبنگ کی گئی تھی جو گمان اغلب ہے کہ محفلین کو بھونڈی محسوس ہوگی ۔
واہ کیا بات ہے امین بھیا ۔
 
واہ کیا بات ہے امین بھیا ۔
سند پسندیدگی عطا کرنے پر مابدولت برادران محترم محمد وارث ، شہزادہ صاحب اور عدنان کے قلب صمیم کی عمیق گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتے ہیں ۔:):)
 
اگورہ ، فزیشن تنقیدی مقدمہ۔
آج یورپ مذھب کے نام سے اتنا متنفر کیوں ہے کیوں مذھب کا نام اتے ہی یورپ کے ماتھے پر تیوڑی پڑ جاتی ہے؟ اس کے پیچھے صدیوں کی داستان ظلم ہے مذھب اور مذھبی میں بہت فرق ہوتا ہے اور اس وقت خرابی پیدا ہوتی ہے جب مذھبی مذہب کا علمبردار بن جاتے ہیں یورپ میں یہی سب ہوا مذھب کے نام پر کلیسا نے اجارہ داری قائم رکھی لوگوں کو ریاست اور کلیسا کا غلام بنائے رکھا کبھی عورتوں کو وچ ڈاکٹر کہہ کر زندہ جلا دیا گیا کبھی سائنس اور فلسفہ کے طالب علموں کو زندہ درگور کر دیا گیا عقل فہم شعور کے دروازے بند رکھے گئے اور صدیوں تک اس ظلم کو برداشت کرنے کے بعد لوگ نا صرف کلیسا کے خلاف اٹھے بلکہ مذھب بھی نفرت کا نشانہ بنا اور یوں مذھب ریاست سے اور لوگوں کی ذاتی زندگیوں سے بھی رخصت ہو گیا اور انسانیت واخلاقیات نے اس کی جگہہ لے لی۔۔
اگورہ
ہم مسلمانوں نے صدیوں تک ایک دنیا پر حکومت کی ہم نے قدیم یونانی سائنس کو جدید بنیادوں پر استوار کیا، قوانین کی تشریح کی اور مزید سائنسی ایجادات کیں، ہم نے فلسفے کو دوام بخشا ابن رشد جیسا فلاسفر پیدا کیا ہم نے رومی جیسا شاعر اور ابن عربی جیسا صوفی پیدا کیا ہم نے ابن الہیثم البیرونی ، الرازی، ابن نفیس و البیرونی جیسے نگینے اور اور ابن سینا جیسا فزیشن پیدا کیا کیوں کہ تب ہم میں کوئی سائنس و فلسفے کو دین سے متصادم ہونے والا فتوی نہیں دیتا تھا تب ہمارے علما کا کام دین کی خدمت تھا دین کی ترویج اور تبھی ہم نے سلطنت عباسیہ، غرناطہ اور عثمانیہ قائم کی لیکن پھر ہمارے بھی وہی مذھبی لوگ مذھب کے علمبردار بن گئے اور ہم نے قرآن کی پرنٹنگ پر فتوی دیا ہم نے لاؤڈ سپیکر، سائنس اور غرض سب کو دین اسلام سے خارج کر دیا اور
ہمارے ذہن میں یہ راسخ کردیا گیا تھا یہ دنیا " دنیاوی کتوں " کےلئے ہے

چنانچہ ہم نے دفاع, علم, تحقیق, انڈسٹری اور معیشت "دنیاوی کتوں" پر چھوڑ دی اور اپنے لئے دنیاوی کتوں کی غلامیں پسندکرلی

یوں "دنیاوی کتے" اہل ایمان کے حکمران بن گئے , دنیا مسائل کا حل تلاش کرتی رہی ,

یہ انٹی بائیوٹک, گاڑیاں, جہاز, کیڑے مار ادویات,اور میزائل بناتی رہی ,

ہم وظائف ,تعویزوں , اور پھونکوں سے دشمن کی توپوں میں کیڑے پڑنے کا انتظار کرتے رہے,

ہمیں یقین دلایا گیا کہ تم صرف عبادت کرو,

وظائف اور پھونکیں مارو, اورغیروں کو کام کرنے دو. ...........

چنانچہ پورا عالم اسلام" دنیاوی کتوں " کا غلام بن

گیا .
فزیشن۔ اور اگورہ دو ایسی ہی فلمیں ہیں

میری اس تحریر سے ہر ایک انسان کا اتفاق کرنا ضروری نہیں ہے ۔
aRlSK3z.jpg


iaOyjVz.jpg
 
12 Angry Men AS WE SEE

کبھی کبھی ایسا بهی ہوتا ہے کہ زندگی آپ کو فیصلے کا اختیار دے کر امتحان میں ڈال دیتی ہے- آپ کا فیصلہ کسی کی زندگی سنوار بهی سکتا ہے اور کسی کی زندگی برباد بهی کر سکتا ہے- ایسی صورتحال میں اپنے فیصلے کو منوانے کے لئے آپ کو ایسے کون سے دلائل دینے چاہئیے کہ لوگوں کی اکثریت آپ سے متفق ہو جائے؟

اس سوال کا جواب آپ کو اس مووی میں ملے گا۔ کہانی شروع ہوتی ہے ایک کورٹ کے سین سے جس میں ایک لڑکے پر اپنے باپ کے قتل کا الزام ہوتا ہے اور تمام ثبوت اور گواہ لڑکے کے خلاف ہوتے ہیں- جج تمام ضروری کاروائی کے بعد کیس جیوری کو سونپ دیتا ہے۔

جیوری میں موجود 12 لوگوں کو ایک کمرے میں فیصلہ کرنے کے لئے بھیج دیا جاتا ہے- کیس اتنا سیدها اور آسان ہوتا ہے کہ جب جیوری ممبرز فیصلے کے لئے ووٹ ڈالتے ہیں تو سبهی ممبرز لڑکے کو قصوروار گردانتے ہیں سوائے ایک ممبر کے-

اگر دیکها جائے تو بات وہیں ختم ہو جانی چاہیے تهی- فیصلہ بهی تقریباً ہو چکا تها کہ اکثریت کے خیال میں لڑکا مجرم ہے لیکن وہ سب ایک کمرے میں بند تھے اور انہیں وہاں کچھ وقت بهی گزارنا تها تاکہ یہ تاثر پیدا ہو کہ خوب بحث مباحثے کے بعد فیصلہ کیا گیا ہے- سب سے بڑی بات 11 لوگوں کا یہ تجسس کہ آخر اتنے سیدهے سادهے کیس میں دو رائے کیسے ہو سکتی ہے؟

جیورر Juror نمبر 8 ، جس نے لڑکے کو not guilty قرار دیا، سے جب اس کے فیصلے کی وجہ پوچهی گئی تو اس نے کمال بےنیازی سے کہا، " میں بات کرنا چاہتا ہوں-" مطلب اس کے پاس کوئی ٹھوس وجہ بھی نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ وہ بحث کئے بغیر کوئی فیصلہ نہیں دینا چاہتا-

اس طرح اس کے Not guilty کہنے پر کمرے میں موجود سارے جیوری ممبرز کے درمیان ایک بحث چھڑ گئی۔ اور 11 جیوری ممبرز اس ایک جیوری ممبر کو قائل کرنے میں لگ گئے- اور یوں ایک کمرے میں بند 11 غصیلے حضرات اپنی بات کو سچ ثابت کرنے کے لئے مختلف دلائل دینے لگے- لیکن دلیل دیتے دیتے کب وہ خود ایک ایک کر کے جیورر نمبر آٹھ سے متفق ہوتے چلے گئے پتا ہی نہ چلا اور فلم کے آخر میں کیس کا فیصلہ بدل چکا تها-

فیصلہ سازی، دلائل کی کھوج، برین اسٹارمنگ (Brainstormin) اور Out of the Box سوچ کے حوالے سے ایک بہترین مووی جو آپ کو ایک بار تو ضرور اپنے مخالفین کی رائے کا احترام کرنے اور ان کے نظریات پر کچھ پل رک کر سوچنے اور غور کرنے پر مجبور کر دے گی-

12 Angry Men (1957)
Henry Fonda


یہ ریویو فیس بک پر "موویز پلینٹ" نامی گروپ میں "از دانست" کے نام سے ایک دوست شئیر کر چکا ہے اور یہ تحریر ہوبہو اس کی نقل ہے۔
ابن توقیر بھائی نے بالکل صحیح حوالہ دیا ہے۔
 

فہد اشرف

محفلین
یہ ریویو فیس بک پر "موویز پلینٹ" نامی گروپ میں "از دانست" کے نام سے ایک دوست شئیر کر چکا ہے اور یہ تحریر ہوبہو اس کی نقل ہے۔
ابن توقیر بھائی نے بالکل صحیح حوالہ دیا ہے۔
بقول شہزادہ صاحب
اب ایک فلم ہے تو بات بھی ایک جیسی ہی ہو گی نا
 
Top