الف نظامی
لائبریرین
سن 2000 کے بعد ملک میں گاڑیوں کی "طلب" میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔ بینک فنانسنگ کے ذیعے گاڑیوں کی طلب بڑھانے والوں میں سے کسی نے نہیں سوچا تھا کہ اتنی گاڑیوں کو چلانے کے لئے جس انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے اسکی "رسد" کا کیا کرنا ہے۔ خوش قسمتی سے اس کی رسد کا بندوبست کسی نے پہلے ہی فراہم کیا ہوا تھا۔ مگر کس نے؟
جواب ہے ن لیگ۔ تصور کیجئے اگر موٹروے نہ ہوتی تو لاھور اسلام آباد سفر کا حال کیا ہوتا!
- ممکن ہے بعض لوگ اس صورت حال کا تصور نہ کرپائیں۔ اس کا تصور کرنے کے لئے آئیے اسی دور کے ایک اور پہلو کا ذکر کرتے ہیں۔ اسی عرصے میں ملک میں بینک قرضوں پر مبنی دیگر اشیاء کی فنانسنگ کا رجحان عام ہوا۔ لوگوں نے اے سی، فریج سمیت بہت سے الیکٹرک اپلائنسز خریدنا شروع کردیں جس سے بجلی کی طلب میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔ اس بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لئے جس رسد کی ضرورت ہے، طلب بڑھانے والی حکومت نے اس کے بارے میں کچھ نہ سوچا۔ پہلی صورت حال کی طرح بدقسمتی سے چونکہ کسی حکومت نے اس کی رسد کا بندوبست نہیں کیا ہوا تھا لہذا اس سب کا نتیجہ ملک میں بجلی کے بدترین شارٹ فال کی صورت میں نکلا اور یوں ہم نے وہ دن بھی دیکھے جب بڑے شہروں میں 8 سے 12 گھنٹے اور دیہاتوں میں 16 سے 20 گھنٹے تک بجلی غائب رہتی اور انڈسٹری کو تو بجلی ملنے کا سوال ہی نہیں تھا۔ 2013 میں ملک میں بجلی کی زیادہ سے زیادہ طلب تقریبا 16 ھزار میگاواٹ تک جاتی تھی جس میں ہر سال تقریبا 1500 میگاواٹ تک اضافہ ہوجاتا ہے۔
رسد میں اس اضافے کا کس نے سوچا اور اس کا بندوبست کیا؟ جواب ہے ن لیگ۔
آج ملک میں بجلی کی پیداوار 19 ہزار میگاواٹ ہے، وہ بھی اپریل کے مہینے میں کہ جب دریاؤں کے بہاؤ میں کمی کے سبب ھائیڈل پاور (پانی) سے حاصل شدہ بجلی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ یاد رہے، پچھلے کئی سالوں سے انڈسٹری کو بلاتعطل 24 گھنٹے بجلی کی فراہمی جاری ہے۔
سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ آج سے پانچ سال پہلے جو لوگ سحری کرکے گاڑی میں سی این جی بھروانے کے لئے قطار میں لگ جایا کرتے تھے اور ایک گھنٹے میں گیس مل جانے پر ساتھیوں کو شکرا کہا کرتے تھے کہ "آج تو میرا نمبر جلدی آگیا اور شکر ہے گیس کا پریشر بھی ٹھیک تھا"، وہ لوگ بھی آج یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ "حکومت نے کیا ہی کیا ہے؟"
جواب ہے ن لیگ۔ تصور کیجئے اگر موٹروے نہ ہوتی تو لاھور اسلام آباد سفر کا حال کیا ہوتا!
- ممکن ہے بعض لوگ اس صورت حال کا تصور نہ کرپائیں۔ اس کا تصور کرنے کے لئے آئیے اسی دور کے ایک اور پہلو کا ذکر کرتے ہیں۔ اسی عرصے میں ملک میں بینک قرضوں پر مبنی دیگر اشیاء کی فنانسنگ کا رجحان عام ہوا۔ لوگوں نے اے سی، فریج سمیت بہت سے الیکٹرک اپلائنسز خریدنا شروع کردیں جس سے بجلی کی طلب میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔ اس بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لئے جس رسد کی ضرورت ہے، طلب بڑھانے والی حکومت نے اس کے بارے میں کچھ نہ سوچا۔ پہلی صورت حال کی طرح بدقسمتی سے چونکہ کسی حکومت نے اس کی رسد کا بندوبست نہیں کیا ہوا تھا لہذا اس سب کا نتیجہ ملک میں بجلی کے بدترین شارٹ فال کی صورت میں نکلا اور یوں ہم نے وہ دن بھی دیکھے جب بڑے شہروں میں 8 سے 12 گھنٹے اور دیہاتوں میں 16 سے 20 گھنٹے تک بجلی غائب رہتی اور انڈسٹری کو تو بجلی ملنے کا سوال ہی نہیں تھا۔ 2013 میں ملک میں بجلی کی زیادہ سے زیادہ طلب تقریبا 16 ھزار میگاواٹ تک جاتی تھی جس میں ہر سال تقریبا 1500 میگاواٹ تک اضافہ ہوجاتا ہے۔
رسد میں اس اضافے کا کس نے سوچا اور اس کا بندوبست کیا؟ جواب ہے ن لیگ۔
آج ملک میں بجلی کی پیداوار 19 ہزار میگاواٹ ہے، وہ بھی اپریل کے مہینے میں کہ جب دریاؤں کے بہاؤ میں کمی کے سبب ھائیڈل پاور (پانی) سے حاصل شدہ بجلی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ یاد رہے، پچھلے کئی سالوں سے انڈسٹری کو بلاتعطل 24 گھنٹے بجلی کی فراہمی جاری ہے۔
سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ آج سے پانچ سال پہلے جو لوگ سحری کرکے گاڑی میں سی این جی بھروانے کے لئے قطار میں لگ جایا کرتے تھے اور ایک گھنٹے میں گیس مل جانے پر ساتھیوں کو شکرا کہا کرتے تھے کہ "آج تو میرا نمبر جلدی آگیا اور شکر ہے گیس کا پریشر بھی ٹھیک تھا"، وہ لوگ بھی آج یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ "حکومت نے کیا ہی کیا ہے؟"