موٹروے، بجلی، گیس اور ن لیگ - زاہد مغل

الف نظامی

لائبریرین
سن 2000 کے بعد ملک میں گاڑیوں کی "طلب" میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔ بینک فنانسنگ کے ذیعے گاڑیوں کی طلب بڑھانے والوں میں سے کسی نے نہیں سوچا تھا کہ اتنی گاڑیوں کو چلانے کے لئے جس انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے اسکی "رسد" کا کیا کرنا ہے۔ خوش قسمتی سے اس کی رسد کا بندوبست کسی نے پہلے ہی فراہم کیا ہوا تھا۔ مگر کس نے؟
جواب ہے ن لیگ۔ تصور کیجئے اگر موٹروے نہ ہوتی تو لاھور اسلام آباد سفر کا حال کیا ہوتا!


- ممکن ہے بعض لوگ اس صورت حال کا تصور نہ کرپائیں۔ اس کا تصور کرنے کے لئے آئیے اسی دور کے ایک اور پہلو کا ذکر کرتے ہیں۔ اسی عرصے میں ملک میں بینک قرضوں پر مبنی دیگر اشیاء کی فنانسنگ کا رجحان عام ہوا۔ لوگوں نے اے سی، فریج سمیت بہت سے الیکٹرک اپلائنسز خریدنا شروع کردیں جس سے بجلی کی طلب میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔ اس بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لئے جس رسد کی ضرورت ہے، طلب بڑھانے والی حکومت نے اس کے بارے میں کچھ نہ سوچا۔ پہلی صورت حال کی طرح بدقسمتی سے چونکہ کسی حکومت نے اس کی رسد کا بندوبست نہیں کیا ہوا تھا لہذا اس سب کا نتیجہ ملک میں بجلی کے بدترین شارٹ فال کی صورت میں نکلا اور یوں ہم نے وہ دن بھی دیکھے جب بڑے شہروں میں 8 سے 12 گھنٹے اور دیہاتوں میں 16 سے 20 گھنٹے تک بجلی غائب رہتی اور انڈسٹری کو تو بجلی ملنے کا سوال ہی نہیں تھا۔ 2013 میں ملک میں بجلی کی زیادہ سے زیادہ طلب تقریبا 16 ھزار میگاواٹ تک جاتی تھی جس میں ہر سال تقریبا 1500 میگاواٹ تک اضافہ ہوجاتا ہے۔
رسد میں اس اضافے کا کس نے سوچا اور اس کا بندوبست کیا؟ جواب ہے ن لیگ۔
آج ملک میں بجلی کی پیداوار 19 ہزار میگاواٹ ہے، وہ بھی اپریل کے مہینے میں کہ جب دریاؤں کے بہاؤ میں کمی کے سبب ھائیڈل پاور (پانی) سے حاصل شدہ بجلی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ یاد رہے، پچھلے کئی سالوں سے انڈسٹری کو بلاتعطل 24 گھنٹے بجلی کی فراہمی جاری ہے۔

سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ آج سے پانچ سال پہلے جو لوگ سحری کرکے گاڑی میں سی این جی بھروانے کے لئے قطار میں لگ جایا کرتے تھے اور ایک گھنٹے میں گیس مل جانے پر ساتھیوں کو شکرا کہا کرتے تھے کہ "آج تو میرا نمبر جلدی آگیا اور شکر ہے گیس کا پریشر بھی ٹھیک تھا"، وہ لوگ بھی آج یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ "حکومت نے کیا ہی کیا ہے؟"
 

محمد وارث

لائبریرین
کیا ہی شاہانہ اور "مُغلیانہ" سوچ اور "من تُک" ہے جناب تحریر نگار مغل صاحب کی! کیسی خوبصورت مثالیں دی ہیں کہ قاری واقعی ایمان لے آتا ہے ممدوح کی شرافت پر!

مغل صاحب کو سوچنا چاہیئے تھا کہ جب ایک بندہ پانچ دس پندرہ بیس سال یا اس سے بھی زائد عرصے کے لیے حکمران رہتا ہے تو اس کی صوابدید پر ہزاروں کروڑوں، اربوں، کھربوں روپے یا اس سے بھی زائد ہوتے ہیں، دیکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ رقم خرچ کہاں ہوئی؟ "نام نہاد" کرپشن کو ایک طرف رکھتے ہیں، جو سرمایہ ملک میں بظاہر لگا ہوا دکھائی دیتا ہے، دیکھنے کو وہی کافی ہے!

بڑھتی ہوئی گاڑیاں اور موٹر وے نظر آئی، جو ملک میں بیمار لوگ بڑھ رہے ہیں وہ نظر نہیں آئے اور ہسپتال نظر نہیں آئے۔ آبادی کا ایک بڑا حصہ شوگر کا شکار ہو کر دل اور گردوں کا مریض بن چکا ہے۔ تو پھر حکومتیں ہسپتالوں اور تعلیم پرپیسہ کیوں نہیں لگاتیں؟ کیونکہ گاڑی میں گھنٹے سے بیٹھا شخص سی این جی کے انتظار میں حکومت کو گالیاں دیتا ہے، جب کہ ہارٹ اٹیک کروا کر ایک بیڈ یا کرسی پر ہفتوں سے پڑا، مرتا ہوا عام شخص اپنی قسمت کو کوستا ہے کہ اس کے پاس بھی پانچ دس بیس لاکھ یا اس سے بھی زائد رقم ہوتی تو وہ اپنا پرائیوٹ علاج کروا لیتا!

ضرورت پہلے، سہولت بعد میں، فلاحی حکومتوں کے سوچنے کی بات ہے! "کمرشل حکومتیں" پیسے کا استعمال اس کے بر عکس کرتی ہیں۔
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
بڑھتی ہوئی گاڑیاں اور موٹر وے نظر آئی، جو ملک میں بیمار لوگ بڑھ رہے ہیں وہ نظر نہیں آئے اور ہسپتال نظر نہیں آئے۔ آبادی کا ایک بڑا حصہ شوگر کا شکار ہو کر دل اور گردوں کا مریض بن چکا ہے۔ تو پھر حکومتیں ہسپتالوں اور تعلیم پرپیسہ کیوں نہیں لگاتیں؟

  • پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی
  • وزیر آباد انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی
  • راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی
  • آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی
  • فیصل آباد انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی
  • چوہدری پرویز الہی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی ملتان
  • پشاور انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی
  • شہید محترمہ بینظیر بھٹوانسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کراچی
  • کشمیر انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میرپور
 

محمد وارث

لائبریرین
  • پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی
  • وزیر آباد انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی
  • راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی
  • آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی
  • فیصل آباد انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی
  • چوہدری پرویز الہی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی ملتان
  • پشاور انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی
  • شہید محترمہ بینظیر بھٹوانسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کراچی
  • کشمیر انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میرپور
نظامی صاحب شاید آپ کو کبھی کسی ہسپتال جانے، خاص طور پر بڑے امراض (دل، گردے، کینسر) والے ہسپتال جانے کا اتفاق نہیں ہوا، اللہ آپ کو ادھر جانے سے محفوظ رکھے لیکن خدا کی قسم یہاں ان ہسپتالوں میں ایک ایک بیڈ پر دو دو تین مریض ہوتے ہیں، لوگ ڈرپ لگوا کر باہر فٹ پاتھ پر بیٹھے ہوتے ہیں۔ یہاں ایک وہیل چیئر ڈھونڈنے کے لیے بھی پیسے لگانے پڑتے ہیں، یہاں غریب لوگوں کو صرف اینجیو گرافی کروانے کے لیے آٹھ دس بارہ چودہ ماہ بعد کی تاریخ دی جاتی ہے اور اگر کسی کا آپریشن ہے تو اس کا وعدہ قیامت کے دن کا ہے کہ ہارٹ اٹیک کا مارا آپریشن کے انتظار میں تین چار سال کیسے جیے گا؟

باقی اوپر جو آپ نے فہرست دی، کیا یہ کافی ہے؟ اور کیا یہ نون لیگ کی کارکردگی ہے؟ یوں تو پھر جی ٹی روڈ بھی نواز شریف ہی نے بنوائی ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
نظامی صاحب شاید آپ کو کبھی کسی ہسپتال جانے، خاص طور پر بڑے امراض (دل، گردے، کینسر) والے ہسپتال جانے کا اتفاق نہیں ہوا، اللہ آپ کو ادھر جانے سے محفوظ رکھے لیکن خدا کی قسم یہاں ان ہسپتالوں میں ایک ایک بیڈ پر دو دو تین مریض ہوتے ہیں، لوگ ڈرپ لگوا کر باہر فٹ پاتھ پر بیٹھے ہوتے ہیں۔ یہاں ایک وہیل چیئر ڈھونڈنے کے لیے بھی پیسے لگانے پڑتے ہیں، یہاں غریب لوگوں کو صرف اینجیو گرافی کروانے کے لیے آٹھ دس بارہ چودہ ماہ بعد کی تاریخ دی جاتی ہے اور اگر کسی کا آپریشن ہے تو اس کا وعدہ قیامت کے دن کا ہے کہ ہارٹ اٹیک کا مارا آپریشن کے انتظار میں تین چار سال کیسے جیے گا؟

باقی اوپر جو آپ نے فہرست دی، کیا یہ کافی ہے؟ اور کیا یہ نون لیگ کی کارکردگی ہے؟ یوں تو پھر جی ٹی روڈ بھی نواز شریف ہی نے بنوائی ہے۔
راولپنڈی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ایکو کا ٹیسٹ کروانا ہو تو ایک ماہ بعد کا ٹائم دیا جاتا ہے اور اگر آج ہی ٹیسٹ کروانا ہو تو 2000 روپے جمع کروائیے۔ البتہ ایمرجنسی کی سہولیات بہترین ہیں۔

تبدیلی مثبت عمل کی تکرار سے وقوع پذیر ہوتی ہے اور اس میں تدریج کا پہلو شامل ہوتا ہے۔

دیکھیے اب نئی حکومت ہر صوبے میں کم از کم 5 کارڈیالوجی اور یورالوجی کے مراکز قائم کرتی ہے تو یہ بہت بڑی تبدیلی ہوگی۔ یعنی
پنج نعرے پنجتنی تے سوا لکھ نعرا حیدری
 

A jabbar

محفلین
سن 2000 کے بعد ملک میں گاڑیوں کی "طلب" میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔ بینک فنانسنگ کے ذیعے گاڑیوں کی طلب بڑھانے والوں میں سے کسی نے نہیں سوچا تھا کہ اتنی گاڑیوں کو چلانے کے لئے جس انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے اسکی "رسد" کا کیا کرنا ہے۔ خوش قسمتی سے اس کی رسد کا بندوبست کسی نے پہلے ہی فراہم کیا ہوا تھا۔ مگر کس نے؟
جواب ہے ن لیگ۔ تصور کیجئے اگر موٹروے نہ ہوتی تو لاھور اسلام آباد سفر کا حال کیا ہوتا!


- ممکن ہے بعض لوگ اس صورت حال کا تصور نہ کرپائیں۔ اس کا تصور کرنے کے لئے آئیے اسی دور کے ایک اور پہلو کا ذکر کرتے ہیں۔ اسی عرصے میں ملک میں بینک قرضوں پر مبنی دیگر اشیاء کی فنانسنگ کا رجحان عام ہوا۔ لوگوں نے اے سی، فریج سمیت بہت سے الیکٹرک اپلائنسز خریدنا شروع کردیں جس سے بجلی کی طلب میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔ اس بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لئے جس رسد کی ضرورت ہے، طلب بڑھانے والی حکومت نے اس کے بارے میں کچھ نہ سوچا۔ پہلی صورت حال کی طرح بدقسمتی سے چونکہ کسی حکومت نے اس کی رسد کا بندوبست نہیں کیا ہوا تھا لہذا اس سب کا نتیجہ ملک میں بجلی کے بدترین شارٹ فال کی صورت میں نکلا اور یوں ہم نے وہ دن بھی دیکھے جب بڑے شہروں میں 8 سے 12 گھنٹے اور دیہاتوں میں 16 سے 20 گھنٹے تک بجلی غائب رہتی اور انڈسٹری کو تو بجلی ملنے کا سوال ہی نہیں تھا۔ 2013 میں ملک میں بجلی کی زیادہ سے زیادہ طلب تقریبا 16 ھزار میگاواٹ تک جاتی تھی جس میں ہر سال تقریبا 1500 میگاواٹ تک اضافہ ہوجاتا ہے۔
رسد میں اس اضافے کا کس نے سوچا اور اس کا بندوبست کیا؟ جواب ہے ن لیگ۔
آج ملک میں بجلی کی پیداوار 19 ہزار میگاواٹ ہے، وہ بھی اپریل کے مہینے میں کہ جب دریاؤں کے بہاؤ میں کمی کے سبب ھائیڈل پاور (پانی) سے حاصل شدہ بجلی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ یاد رہے، پچھلے کئی سالوں سے انڈسٹری کو بلاتعطل 24 گھنٹے بجلی کی فراہمی جاری ہے۔

سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ آج سے پانچ سال پہلے جو لوگ سحری کرکے گاڑی میں سی این جی بھروانے کے لئے قطار میں لگ جایا کرتے تھے اور ایک گھنٹے میں گیس مل جانے پر ساتھیوں کو شکرا کہا کرتے تھے کہ "آج تو میرا نمبر جلدی آگیا اور شکر ہے گیس کا پریشر بھی ٹھیک تھا"، وہ لوگ بھی آج یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ "حکومت نے کیا ہی کیا ہے؟"
غیر جانب داری اور دیانت کے ساتھ دیکھا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ن لیگ نے اپنے ہر مختصر دور میں عوامی فلاح و بہبود کے لئے بہت کام کیا۔آج اگر بجلی کے معاملے میں بہتری آئی ہے یا مواصلات کے نظام میں مثبت تبدیلیاں دکھائی دے رہی ہیں تو ان کے ساتھ ساتھ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بھی بہت کچھ ہوا ہے۔
لیکن دوست جب آنکھوں پر بغض و عناد کی عینک لگی ہو تو کچھ بھی اچھا دکھائی نہیں دیتا۔سوئے ہوئے کو جگایا جا سکتا ہے مگر جاگتے کو کیسے جگایا جا سکتا ہے ۔ جنہیں حقیقت دیکھنا ہی نہیں انہیں کیسے روشناس کرایا جا سکتا ہے۔
حقیقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نواز شریف کومائنس کرنے کے لئے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑ رہے ہیں،اگر ان کی کارکردگی بہتر نہ ہوتی تو کسی کو یہ سب تردد کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ عوام نے خود سے انہیں سیاست سے باہر پھینک دینا تھا جیسے زرداری کے ساتھ ہوا۔ یہ بہتر کارکردگی کا ہی نتیجہ ہے نواز شریف کو نا اہل کرنے،عمر بھر کے لئے انتخاب لڑنے کے حق سے محروم کر دینے کے با وجود مخالفین کو یقین ہے آج بھی نواز شریف جس کے سر پر ہاتھ رکھ دے گا عوام اسے منتخب کر لیں گے۔

اسی لئے میڈیا ٹرائل،کردار کشی،نیب مقدمات اور وفاداریاں تبدیل کروانے سمیت بہت کچھ کیا گیا ہے اور انتخاب سے پہلے مزیدبہت کچھ ہونے کا امکان دکھائی دے رہا ہے۔
 

فاخر رضا

محفلین
تعلیم، صحت، تحفظ، بجلی، صاف پانی، سڑکیں، نوکریاں، مذہبی رواداری، عدل و انصاف کی فراہمی، سرکاری محکموں سے کرپشن کا خاتمہ اور عوام کی مدد، خارجہ پالیسی اور پڑوسی ممالک سے مثبت برابری کی بنیاد پر تعلقات، پارلیمنٹ کی بالادستی
ان تمام پر حکومت نے کیا کیا. اس بارے میں اپوزیشن کو چاہیے کہ اعداد و شمار کے ساتھ ایک وائٹ پیپر شایع کرے اور پھر یہ ثابت کرے کہ کس طرح پانچ سال میں وہ یہ سب ٹھیک کریں گے
نعرہ حیدری ... یاعلی .. حق حیدر
 
حقیقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نواز شریف کومائنس کرنے کے لئے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑ رہے ہیں،اگر ان کی کارکردگی بہتر نہ ہوتی تو کسی کو یہ سب تردد کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ عوام نے خود سے انہیں سیاست سے باہر پھینک دینا تھا جیسے زرداری کے ساتھ ہوا۔
یہی بات عام آدمی کو یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ پانامہ، اقامہ، 4 فٹ سڑک وغیرہ سب بہانے ہیں۔
 
اس بات پر بھی غور کرنا چاہئیے کہ عمران خان کے دھرنے کے وقت جب کئی دن تک اسلام آباد میں ہنگامہ مچا رہا ، پاکستان سیکریٹیریٹ میں کام رک گیا، سرکاری ٹی وی کی نشریات بند ہوگئیں،چین کے صدر کا دورہ سیکیورٹی رسک کی وجہ سے ملتوی ہوگیا اس وقت اسٹیبلشمنٹ نے ن لیک کی حکومت کو سنہری موقع ہونے کے باوجود سپورٹ کیا۔ ساری پارلیمان اور موقع پرست سیاستدانون نے سوائے عمران کے سنہری موقع ہونے کے باوجود نواز کو سپورٹ کیا ۔ 2013 کے الیکشن میں اسی عدلیہ کے کمیشن نے ن لیک کی حکومت کو جائز قرار دیا۔
آخر نواز سے کیا بھیانک غلطی ہوئی کہ اسی عدلیہ نے اب تک کرپشن ثابت نہ ہونے کے باوجود محض اقامہ کی ٹیکنیکل غلطی کی بنیاد پر ساری زندگی کے لئے نا اہل قرار دے دیا؟ اور اسٹیبلشمنٹ نے عدلیہ کو پوری سپورٹ دئیے رکھی؟
آخر نواز سے ایسا کیا جرم ہوا تھا کہ اس جرم کے چند دن بعد ہی پانامہ کا سکینڈل سامنے آگیا اور رفتہ رفتہ یہ سکینڈل اس کے گلے کا پھندہ بن گیا؟ حالانکہ پانامہ میں نواز کا براہ راست نام نہیں تھا پھر بھی یہ سکینڈل نواز کو لے ڈوبا؟ ان باتوں پر بھی غور کرنا چاہئے
کہتے ہیں کہ رب کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے
 

شاہد شاہ

محفلین
محض اقامہ؟ پھر وہی نون لیگی پروپگنڈہ۔ آپ جانتے بھی ہیں اقامہ رکھا کیوں جاتا ہے؟
نیز اقامہ کے علاوہ عدالت میں جعلی دستاویزات جمع کروانے پر نا اہلی ہوئی تھی۔ کورٹ کا مکمل فیصلہ پڑھیں پھر آنکھیں بند کرکے کہیں محض جعلی دستاویزات جمع کروانے پر نا اہلی کر دی
آخر نواز سے کیا بھیانک غلطی ہوئی کہ اسی عدلیہ نے اب تک کرپشن ثابت نہ ہونے کے باوجود محض اقامہ
 

الف نظامی

لائبریرین
محض اقامہ؟ پھر وہی نون لیگی پروپگنڈہ۔ آپ جانتے بھی ہیں اقامہ رکھا کیوں جاتا ہے؟
نیز اقامہ کے علاوہ عدالت میں جعلی دستاویزات جمع کروانے پر نا اہلی ہوئی تھی۔ کورٹ کا مکمل فیصلہ پڑھیں پھر آنکھیں بند کرکے کہیں محض جعلی دستاویزات جمع کروانے پر نا اہلی کر دی
عمران خان نے عقیدہ ختم نبوت کے حوالے سے کوئی کام کیا ہے؟
 
محض اقامہ؟ پھر وہی نون لیگی پروپگنڈہ۔ آپ جانتے بھی ہیں اقامہ رکھا کیوں جاتا ہے؟
میں تقریبا پندرہ سال سے اپنا اور ساری فیملی کا اقامہ لگوا رہا ہوں مجھے نہیں پتا ہوگا کہ اقامہ کیوں لگوایا جاتا ہے :)
بہرحال اخلاقی اعتبار سے اقامہ لگوانا اتنا بڑا جرم نہیں کہ انسان کو ساری زندگی کے لئے نااہل کردیا جائے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
یہ سب باتیں غیر متعلقہ ہیں ، اصل بات ہے:
الیکشن کے نظام کی بہتری

ایک ایسا نظام جس میں ایک عام لیکن پڑھا لکھا باصلاحیت شخص بھی پارلیمان میں آ سکے اور الیکشن میں حصہ لینا صرف سرمایہ دار اور جاگیردار وڈیرے کا ہی حق نہ ہو۔ اگر آپ ایسا نظام وضع کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو جان لیجیے کہ آپ نے ایک ترقی یافتہ پاکستان کی بنیاد رکھ دی۔

متعلقہ کی ورڈز:
انتخابی اصلاحات ، electoral reforms
 

عباس اعوان

محفلین
یار لوگ بھی کتنے بھولے ہیں !!!!!!!!
صاحبو، اقامہ لگوانے پر کوئی نا اہل نہیں ہوا۔ نااہلی اقامہ لگوا کر تنخواہ چھُپانے سے ہوئی ہے۔آئین کی رُو سے، ہر عوامی نمائندے کو اپنے تازہ اثاثہ جات ظاہر کرنے ہوتے ہیں اور الیکشن کمیشن میں رپورٹ کرنے ہوتے ہیں۔ اگر نہ ظاہر کریں تو جھوٹ اور بددیانتی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ جس سے اثاثہ جات چھپانے والا آئینِ پاکستان کے تحت نااہل قرار پاتا ہے۔
 
یار لوگ بھی کتنے بھولے ہیں !!!!!!!!
یہ بات بھی اتنی غلط نہیں :)
صاحبو، اقامہ لگوانے پر کوئی نا اہل نہیں ہوا۔ نااہلی اقامہ لگوا کر تنخواہ چھُپانے سے ہوئی ہے۔آئین کی رُو سے، ہر عوامی نمائندے کو اپنے تازہ اثاثہ جات ظاہر کرنے ہوتے ہیں اور الیکشن کمیشن میں رپورٹ کرنے ہوتے ہیں۔ اگر نہ ظاہر کریں تو جھوٹ اور بددیانتی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ جس سے اثاثہ جات چھپانے والا آئینِ پاکستان کے تحت نااہل قرار پاتا ہے۔
آپ کی بات درست ہے، آپ کبھی الیکشن کمیشن سے چیک کریں کہ کس رکن اسمبلی نے کتنے اثاثے ظاہر کیئے ہیں، کتنے انہوں نے ظاہر کیئے ہیں اس سے زیادہ تو یہ الیکشن کمپین میں خرچ کر دیتے ہیں اور یہ بات کون نہیں جانتا؟ لاکھوں یہ قانونی کاغذوں میں ظاہر کرتے ہیں اور خرچ کروڑوں کر ڈالتے ہیں ۔ جتنے بڑے بڑے جرائم اس میدان سیاست میں ہورہے ہیں اس کے مقابلے میں اقامہ کی تنخواہ ظاہر نہ کرنا بہت چھوٹا جرم ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
یہ بات بھی اتنی غلط نہیں :)

آپ کی بات درست ہے، آپ کبھی الیکشن کمیشن سے چیک کریں کہ کس رکن اسمبلی نے کتنے اثاثے ظاہر کیئے ہیں، کتنے انہوں نے ظاہر کیئے ہیں اس سے زیادہ تو یہ الیکشن کمپین میں خرچ کر دیتے ہیں اور یہ بات کون نہیں جانتا؟ لاکھوں یہ قانونی کاغذوں میں ظاہر کرتے ہیں اور خرچ کروڑوں کر ڈالتے ہیں ۔ جتنے بڑے بڑے جرائم اس میدان سیاست میں ہورہے ہیں اس کے مقابلے میں اقامہ کی تنخواہ ظاہر نہ کرنا بہت چھوٹا جرم ہے۔
انتخابی نظام کی بہتری سے ہی ملک کی تقدیر بہتر ہو سکتی ہے۔
 

عباس اعوان

محفلین
آپ کی بات درست ہے، آپ کبھی الیکشن کمیشن سے چیک کریں کہ کس رکن اسمبلی نے کتنے اثاثے ظاہر کیئے ہیں، کتنے انہوں نے ظاہر کیئے ہیں اس سے زیادہ تو یہ الیکشن کمپین میں خرچ کر دیتے ہیں اور یہ بات کون نہیں جانتا؟ لاکھوں یہ قانونی کاغذوں میں ظاہر کرتے ہیں اور خرچ کروڑوں کر ڈالتے ہیں ۔ جتنے بڑے بڑے جرائم اس میدان سیاست میں ہورہے ہیں اس کے مقابلے میں اقامہ کی تنخواہ ظاہر نہ کرنا بہت چھوٹا جرم ہے۔
بالکل، جیسا کہ شریف خاندان نے اپنا کاروبار ہمیشہ خسارے میں ظاہر کیا، ٹیکس صرف چند ہزار دیا، بنکوں سے قرضے معاف کروائے، اس کے باوجود اربوں کی جائیداد لندن میں خرید لی اور وہاں کاروبار کھڑے کر لیے۔ اس بات پر آپ کو کم ازکم سوالیہ نشان ضرور نظر آنا چاہیے کہ ایسا کیسے ممکن ہوا ؟اگر ثبوت چاہییں تو نواز شریف کے اسی اور نوے کی دھائی کے کاغذات نامزدگی پر دیکھا جا سکتا ہے۔اس ضمن میں جے آئی ٹی کی رپورٹ کا مطالعہ اکسیر کا درجہ رکھتا ہے۔
جہانگیر ترین، عمران خان، شیخ رشید وغیرہ کا لائف سٹائل ان کے اثاثوں سے بالکل میچ کرتا ہے۔
اگر کسی کے پاس ثبوت ہے کہ کسی نے اپنے تمام اثاثے ظاہر نہیں کیے، تو عدالت جا کر کاروائی کروا سکتا ہے۔ جیسا کہ نواز شریف کے ساتھ ہوا، جہانگیر ترین کے ساتھ ہوا، خواجہ آصف کے ساتھ ہوا۔
 

شاہد شاہ

محفلین
نہ چھیڑ نون لیگیاں نوں
بالکل، جیسا کہ شریف خاندان نے اپنا کاروبار ہمیشہ خسارے میں ظاہر کیا، ٹیکس صرف چند ہزار دیا، بنکوں سے قرضے معاف کروائے، اس کے باوجود اربوں کی جائیداد لندن میں خرید لی اور وہاں کاروبار کھڑے کر لیے۔ اس بات پر آپ کو کم ازکم سوالیہ نشان ضرور نظر آنا چاہیے کہ ایسا کیسے ممکن ہوا ؟اگر ثبوت چاہییں تو نواز شریف کے اسی اور نوے کی دھائی کے کاغذات نامزدگی پر دیکھا جا سکتا ہے۔اس ضمن میں جے آئی ٹی کی رپورٹ کا مطالعہ اکسیر کا درجہ رکھتا ہے۔
جہانگیر ترین، عمران خان، شیخ رشید وغیرہ کا لائف سٹائل ان کے اثاثوں سے بالکل میچ کرتا ہے۔
اگر کسی کے پاس ثبوت ہے کہ کسی نے اپنے تمام اثاثے ظاہر نہیں کیے، تو عدالت جا کر کاروائی کروا سکتا ہے۔ جیسا کہ نواز شریف کے ساتھ ہوا، جہانگیر ترین کے ساتھ ہوا، خواجہ آصف کے ساتھ ہوا۔
 
Top