قیصرانی
لائبریرین
آج وائس آف رشیا کی اردو سروس پر یہ حیرت انگیز آرٹیکل پڑھا۔ آپ کے لئے پیش ہے
کیا انسان موہن جو دڑو سے ہاتھ دھو بیٹھے گا؟
پاکستان میں موہن جو دڑو کا مستقبل مخدوش ہے۔ عالمی شہرت کی حامل یہ تاریخی یادگار شکست و ریخت کا شکار ہے۔ تپتی ہوئی گرمیاں، کڑاکے کی سردیاں، مون سون کی بارش اور نمی کے باعث خطرہ ہے کہ یہ یادگار بیس برس میں معدوم ہو جائے گی۔ اس قدیم شہر کی باقیات کو محفوظ کرنے کا کام 1924 میں شروع کیا گیا تھا۔ ماہرین سمجھتے ہیں کہ اس یادگار کو جسے 1980 میں عالمی ورثے کی فہرست میں درج کیا گیا تھا پھر سے محفوظ کیے جانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے معروف سیاستدان بلاول بھٹو زرداری نے مطالبہ کیا ہے کہ موہن جو دڑو کو محفوظ کرنے کے کام کی خاطر ایک خصوصی فنڈ بنایا جائے۔
ایسے میں جب ماہرین حدشات عیاں کر رہے ہیں اور سیاستدان اس کی بنیاد پر سیاسی سرمایہ بنا رہے ہیں، موہن جو دڑو بھرتا چلا جا رہا ہے۔ وہ علامات رفع ہو رہی ہیں جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ انسانوں کی تاریخ سے متعلق ہماری معلومات ابھی ناکافی ہیں۔
حقائق کا ایک پورا سلسلہ ہے جسے آج تک سائنسدان منکشف نہیں کر پارہے ہیں۔ بہت سے تحقیقات یہ ثابت کرتی ہیں کہ عین ممکن ہے کہ موہن جو دڑو کا ماضی ہیروشیما و ناگاساکی کا کے ماضی کا سا رہا ہو، جہاں لوگ جوہری دھماکے کے باعث مر گئے تھے لیکن موہن جو دڑو پہ یہ آفت بیسویں صدی میں نہیں بلکہ تقریبا" پانچ ہزار برس پہلے ٹوٹی تھی۔
جب 1922 میں ماہرین حفریات نے موہن جو دڑو کو زمین کھود کر نکالا تھا تب بھی کچھ کم اسرار ان کے منتظر نہیں تھے۔ عمارتوں کی دیواریں اور شہر کے گرد گرینائٹ کی فصیل پر شیشے کی قسم کی تہہ جمی ہوئی تھی۔ ایسا تب ہی ہو سکتا ہے جب یک لخت درجہ حرارت بے تحاشا ہو جائے۔ گرینائٹ کو پگھلائے جانے کی خاطر پندرہ سو ڈگری سنٹی گریڈ سے زیادہ حدّت درکار ہوتی ہےجو لاوے کی حدت سے ڈیڑھ گنا بیشتر ہے۔ تاحتٰی ہمارے ہائی ٹیک عہد میں بھی اتنی حدت یا تو نیپام بم کے پھٹنے سے اور یا ایٹم بم کے دھماکے سے پیدا کی جا سکتی ہے۔
شہر سے ملنے والے انسانوں کے چوالیس ڈھانچوں کے تجزیے سے ماہرین اس نتیجے پہ پہنچے تھے کہ ان کی موت ایک ہی وقت پہ ہوئی تھی۔ یہ لوگ ایک غیر معمولی آسن میں تھے یعنی انہوں نے کسی شے سے بچنے کی خاطر خود کو چھپانے کی کوشش کی تھی لیکن ماہرین کے لیے بھونچکا دینے والا انکشاف یہ تھا کہ ان انسانوں کی موت جلنے سے یا کسی چوٹ کے لگنے سے نہیں بلکہ تابکاری کی بڑی مقدار کے باعث واقع ہوئی تھی، تابکاری کی یہ مقدار اس مقدار سے کئی گنا زیادہ تھی جس کا شکار ہیروشیما اور ناگاساکی کے لوگ ہوئے تھے۔
متشکک لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسا انتہائی ہولناک آتشزدگی سے بھی ہو سکتا ہے جو آسمانی بجلی کے گرنے یا شہابیے کے گرنے سے ہو سکتی ہے۔ لیکن نہ تو آسمانی بجلی اور نہ ہی تاحتٰی کئی دن جاری رہنے والی آتشزدگی سے اس قدر حدّت پیدا ہو سکتی ہے جو گرینائٹ کو پگھلا دے۔ پھر پوری طرح سے محفوظ انسانی ڈھانچوں پہ آتشزدگی کی کوئی بھی علامت نہیں پائی گئی تھی۔ کیمیائی تجزیے کے مطابق حدت میں بے تحاشا اضافہ یک لخت ہوا تھا جو تقریبا" پانچ منٹ جاری رہا تھا۔
موہن جو ڈرو اصل میں موئن جو دڑو ہے ، سندھی زبان کے اس لفظ کا مطلب "مرے ہووں کا ٹیلہ" ہے۔ یہ جاننا دلچسپ ہوگا کہ تباہی سے پہلے یہ شہر کیا کہلاتا تھا؟
قدیم ہندوستان کی پرانی کتابوں میں پراسرار ہتھیاروں کا کچھ کم ذکر نہیں ہے۔ ان کو مختلف ناموں سے بیان کیا گیا ہے جیسے "وجر" "اندر اگنی" " وشنو کا تیر"" برہما کا سونٹا" وغیرہ، لیکن ان کا اثر ایک سا بیان کیا گیا ہے یعنی دس ہزار سورجوں جتنا شدید دھماکہ"۔ قدیم ہندوستان کی کتاب مہابھارت کے ساتویں حصے میں لکھا ہے کہ جو لوگ پانی میں غوطہ کھا کر دھماکے کی تباہی سے بچ رہے تھے ان کے بھی بال اور ناخن جھڑ گئے تھے، تیار غذائیں چشم زدن میں ناکارہ ہوگئی تھیں اور اس واقعے کے بعد آسمان پر کئی سال گہرے بادل چھائے رہے تھے۔ لگتا ایسے ہی ہے جیسے ان تحریروں میں جوہری ہتھیاروں کا ذکر ہے۔ بالوں اور ناخنوں کا گر جانا تابکاری کے اثر سے ہی ہو سکتا ہے۔ تابکار شعاعیں غذا کو خراب کر دیتی ہیں۔ جوہری دھماکے سے پیدا ہونے والی ریڈیائی گرد جو اوپر کی جانب اٹھتی ہے اور سورج کو کئی سال کے لیے ڈھانپ سکتی ہے کو بادلوں سے تشبیہہ دی گئی ہوگی۔ آج کی سائینسی کتابوں میں اسے "جوہری جاڑا" کہا جاتا ہے۔
ڈاکٹر اوپن ہائیمر، جو جوہری بم تخلیق کرنے والوں مین سے ایک تھے، مہابھارت کی اس تحریر کو سن کر حیران رہ گئے تھے۔ پہلے جوہری تجربے کے موقع پر انہوں نے قدیم ہندوستان کے عہد کا وہ اشلوک بھی پڑھا تھا کہ " مجھ میں پوری کائنات کی طاقت ہے اور اب میں دنیا تباہ کرنے والا بن چکا ہوں"۔
کیا ہندوستان کے پاس قدیم زمانے میں جوہری ہتھیار تھے، اس پر بحث تمام ہونے میں نہیں آ رہی۔ ایک بات واضح ہےکہ ہمارے پاس اس حقیقت کے کافی ثبوت ہیں کہ ایک مہیب دھماکہ ہوا تھا جس نے قدیم تہذیب کو ملیا میٹ کر دیا تھا۔ تاہم آج وثوق سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ دھماکہ جوہری دھماکہ ہی تھا۔ دوسری جانب اس کے خلاف بھی کوئی ثبوت نہیں ہے۔
محققین کو چکرا دینے والے اس سوال کا مستقبل میں جواب جاننے کی خاطر کم از کم اتنا ضرور کیا جانا ہوگا کہ اس منفرد یادگار میں شکست و ریخت کے عمل کو روکا جانا ہوگا۔
کیا انسان موہن جو دڑو سے ہاتھ دھو بیٹھے گا؟
پاکستان میں موہن جو دڑو کا مستقبل مخدوش ہے۔ عالمی شہرت کی حامل یہ تاریخی یادگار شکست و ریخت کا شکار ہے۔ تپتی ہوئی گرمیاں، کڑاکے کی سردیاں، مون سون کی بارش اور نمی کے باعث خطرہ ہے کہ یہ یادگار بیس برس میں معدوم ہو جائے گی۔ اس قدیم شہر کی باقیات کو محفوظ کرنے کا کام 1924 میں شروع کیا گیا تھا۔ ماہرین سمجھتے ہیں کہ اس یادگار کو جسے 1980 میں عالمی ورثے کی فہرست میں درج کیا گیا تھا پھر سے محفوظ کیے جانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے معروف سیاستدان بلاول بھٹو زرداری نے مطالبہ کیا ہے کہ موہن جو دڑو کو محفوظ کرنے کے کام کی خاطر ایک خصوصی فنڈ بنایا جائے۔
ایسے میں جب ماہرین حدشات عیاں کر رہے ہیں اور سیاستدان اس کی بنیاد پر سیاسی سرمایہ بنا رہے ہیں، موہن جو دڑو بھرتا چلا جا رہا ہے۔ وہ علامات رفع ہو رہی ہیں جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ انسانوں کی تاریخ سے متعلق ہماری معلومات ابھی ناکافی ہیں۔
حقائق کا ایک پورا سلسلہ ہے جسے آج تک سائنسدان منکشف نہیں کر پارہے ہیں۔ بہت سے تحقیقات یہ ثابت کرتی ہیں کہ عین ممکن ہے کہ موہن جو دڑو کا ماضی ہیروشیما و ناگاساکی کا کے ماضی کا سا رہا ہو، جہاں لوگ جوہری دھماکے کے باعث مر گئے تھے لیکن موہن جو دڑو پہ یہ آفت بیسویں صدی میں نہیں بلکہ تقریبا" پانچ ہزار برس پہلے ٹوٹی تھی۔
جب 1922 میں ماہرین حفریات نے موہن جو دڑو کو زمین کھود کر نکالا تھا تب بھی کچھ کم اسرار ان کے منتظر نہیں تھے۔ عمارتوں کی دیواریں اور شہر کے گرد گرینائٹ کی فصیل پر شیشے کی قسم کی تہہ جمی ہوئی تھی۔ ایسا تب ہی ہو سکتا ہے جب یک لخت درجہ حرارت بے تحاشا ہو جائے۔ گرینائٹ کو پگھلائے جانے کی خاطر پندرہ سو ڈگری سنٹی گریڈ سے زیادہ حدّت درکار ہوتی ہےجو لاوے کی حدت سے ڈیڑھ گنا بیشتر ہے۔ تاحتٰی ہمارے ہائی ٹیک عہد میں بھی اتنی حدت یا تو نیپام بم کے پھٹنے سے اور یا ایٹم بم کے دھماکے سے پیدا کی جا سکتی ہے۔
شہر سے ملنے والے انسانوں کے چوالیس ڈھانچوں کے تجزیے سے ماہرین اس نتیجے پہ پہنچے تھے کہ ان کی موت ایک ہی وقت پہ ہوئی تھی۔ یہ لوگ ایک غیر معمولی آسن میں تھے یعنی انہوں نے کسی شے سے بچنے کی خاطر خود کو چھپانے کی کوشش کی تھی لیکن ماہرین کے لیے بھونچکا دینے والا انکشاف یہ تھا کہ ان انسانوں کی موت جلنے سے یا کسی چوٹ کے لگنے سے نہیں بلکہ تابکاری کی بڑی مقدار کے باعث واقع ہوئی تھی، تابکاری کی یہ مقدار اس مقدار سے کئی گنا زیادہ تھی جس کا شکار ہیروشیما اور ناگاساکی کے لوگ ہوئے تھے۔
متشکک لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسا انتہائی ہولناک آتشزدگی سے بھی ہو سکتا ہے جو آسمانی بجلی کے گرنے یا شہابیے کے گرنے سے ہو سکتی ہے۔ لیکن نہ تو آسمانی بجلی اور نہ ہی تاحتٰی کئی دن جاری رہنے والی آتشزدگی سے اس قدر حدّت پیدا ہو سکتی ہے جو گرینائٹ کو پگھلا دے۔ پھر پوری طرح سے محفوظ انسانی ڈھانچوں پہ آتشزدگی کی کوئی بھی علامت نہیں پائی گئی تھی۔ کیمیائی تجزیے کے مطابق حدت میں بے تحاشا اضافہ یک لخت ہوا تھا جو تقریبا" پانچ منٹ جاری رہا تھا۔
موہن جو ڈرو اصل میں موئن جو دڑو ہے ، سندھی زبان کے اس لفظ کا مطلب "مرے ہووں کا ٹیلہ" ہے۔ یہ جاننا دلچسپ ہوگا کہ تباہی سے پہلے یہ شہر کیا کہلاتا تھا؟
قدیم ہندوستان کی پرانی کتابوں میں پراسرار ہتھیاروں کا کچھ کم ذکر نہیں ہے۔ ان کو مختلف ناموں سے بیان کیا گیا ہے جیسے "وجر" "اندر اگنی" " وشنو کا تیر"" برہما کا سونٹا" وغیرہ، لیکن ان کا اثر ایک سا بیان کیا گیا ہے یعنی دس ہزار سورجوں جتنا شدید دھماکہ"۔ قدیم ہندوستان کی کتاب مہابھارت کے ساتویں حصے میں لکھا ہے کہ جو لوگ پانی میں غوطہ کھا کر دھماکے کی تباہی سے بچ رہے تھے ان کے بھی بال اور ناخن جھڑ گئے تھے، تیار غذائیں چشم زدن میں ناکارہ ہوگئی تھیں اور اس واقعے کے بعد آسمان پر کئی سال گہرے بادل چھائے رہے تھے۔ لگتا ایسے ہی ہے جیسے ان تحریروں میں جوہری ہتھیاروں کا ذکر ہے۔ بالوں اور ناخنوں کا گر جانا تابکاری کے اثر سے ہی ہو سکتا ہے۔ تابکار شعاعیں غذا کو خراب کر دیتی ہیں۔ جوہری دھماکے سے پیدا ہونے والی ریڈیائی گرد جو اوپر کی جانب اٹھتی ہے اور سورج کو کئی سال کے لیے ڈھانپ سکتی ہے کو بادلوں سے تشبیہہ دی گئی ہوگی۔ آج کی سائینسی کتابوں میں اسے "جوہری جاڑا" کہا جاتا ہے۔
ڈاکٹر اوپن ہائیمر، جو جوہری بم تخلیق کرنے والوں مین سے ایک تھے، مہابھارت کی اس تحریر کو سن کر حیران رہ گئے تھے۔ پہلے جوہری تجربے کے موقع پر انہوں نے قدیم ہندوستان کے عہد کا وہ اشلوک بھی پڑھا تھا کہ " مجھ میں پوری کائنات کی طاقت ہے اور اب میں دنیا تباہ کرنے والا بن چکا ہوں"۔
کیا ہندوستان کے پاس قدیم زمانے میں جوہری ہتھیار تھے، اس پر بحث تمام ہونے میں نہیں آ رہی۔ ایک بات واضح ہےکہ ہمارے پاس اس حقیقت کے کافی ثبوت ہیں کہ ایک مہیب دھماکہ ہوا تھا جس نے قدیم تہذیب کو ملیا میٹ کر دیا تھا۔ تاہم آج وثوق سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ دھماکہ جوہری دھماکہ ہی تھا۔ دوسری جانب اس کے خلاف بھی کوئی ثبوت نہیں ہے۔
محققین کو چکرا دینے والے اس سوال کا مستقبل میں جواب جاننے کی خاطر کم از کم اتنا ضرور کیا جانا ہوگا کہ اس منفرد یادگار میں شکست و ریخت کے عمل کو روکا جانا ہوگا۔