فہیم ملک جوگی
محفلین
زمانۂ قدیم کی شاعری میں ہمیشہ حُسن و عشق ، دُکھ ، درد ، غم ، ستم ، محبوب کے خدوخال اور اُس کی بے رخی و بے وفائی کا تذکرہ رہا ہے ، اور دیگر کئی موضوعات میں سے ، مے اور میخانے پر مے پرست شعرا کے علاوہ دیگر شعرا نے بھی کئی ہزار اشعار رقم کیے۔ لیکن آج کے دور کی اکثر شاعری میں "چائے " پر اشعار ملتے ہیں۔اور اس چائے پرستی شاعری میں بس محبوب کی رنگت ملتی ہے ، مگر محبوب کی آنکھوں سے چائے پینے کا تخیل ابھی سفر میں ہے ، اور محبوبہ کی زلفوں سے قطرہ قطرہ ٹپکتی شراب کی آرزو بھی ابھی پَکی نہیں ، بس! اُبل رہی ہے۔
ماضی میں جہاں "مے‛‛ و مے نوشی پر شاعری لکھی گئی ہے ، وہاں "میخانے‛‛ پر بھی خیال باندھا گیا ہے ، یعنی مے کے مناسبات کا ذکر ہوتا آیا ہے ، جیسے پیمانہ ، میخانہ ، ساقی ، رند ، نشہ یہ سب مے کے مناسبات ہیں۔اساتذہ فرماتے ہیں کہ: "لکھاری کو مناسبات کا بہت خیال رکھنا چاہیے ، اس سے کلام کا حُسن دو چند ہوجاتا ہے‛‛۔
اب اگر خوش قسمتی سے شاعری میں "چائے‛‛ چائے نوشی کا زمانہ چل ہی رہا ہے ، تو حضور کچھ چائے کے مناسبات کا خیال بھی رکھا کریں ، جیسا کہ: شاعری میں "چائے خانہ‛‛ کیوں گمنام ہے؟ "چائے خانے‛‛ پر بھی ایک آدھ مصرع ہونا چاہیے ، مے میں پیمانہ ہے ، جام ہے ، تو چائے کا فنجان کہاں ہے؟چائے دان پر بھی طبع آزمائی ہو۔چونکہ اردو میں مَے خوار ، مَے کش ، مے گُسار ، مے نوش کے لیے رِند کا لفظ استعمال ہوا ہے ، تو چائے خوار ، چائے کش ، چائے گُسار ، چائے نوش کو "رِند‛‛ بنانے کے لیے کوئی لفظ تو ہونا چاہیے؟؟ماہرِ لسانیات نے مے پِلانے والے کو ساقی مخاطب کیا ہے ، تو چائے پلانے والے کے لیے کوئی لفظ؟؟
"مے انگوری‛‛ ہو یا "چائے تندوری‛‛ دونوں کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے ، پہلے مے خواری و مے کشی لوگوں کا سَر لے کر جاتی تھی ، اب چائے خواری و چائے کشی نے سر دھڑ کی بازی لگائی ہوتی ہے ، "مولوی فقیر دین" فرماتے ہیں کہ چائے کے بِنا زندگی پھیکی اور بے رونق ہے ، مولا اس کے موجد پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے ، حلال میں حرام کے مزے کرا دیے ، بہشتی نے۔"چاچا بوٹا" فرماتے ہیں چائے پینے کے بعد مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر میں اپنے دونوں ہاتھوں سے دو ٹریکٹر پکڑ لوں اور وہ اپنی اپنی طرف زور لگائیں تو میں ان کو ہلنے نہیں دوں گا ، اتنی انرجی محسوس ہوتی ہے۔
لیکن نذیر پٹواری ارشاد فرماتے ہیں کہ "چائے کی کیتلی‛‛ ہو یا "شراب کی بوتل‛‛ حقیقت میں ان سب پر بھاری ہے "لسی کی چاٹی ‛‛۔
پُرانے وقتوں مِیں چند شعرا مشروبِ مشرق(لسی) پِی کر بھی مشاعرے میں شرکت کرتے تھے ، تب اگر کوئی شاعر محفل مِیں مَے پر مصرع کہتا تھا ، تو سُننے والوں کو سرُور ملتا تھا ، اور بے اختیار منہ سے نکلتا کہ:
واہ ! حضور ، پھر فرمایے ، کس تیور سے مصرع لگایا ہے ، کیاکہنے ! واہ واہ ! مکرر ارشاد ہو
اور جب حضور مکرر مصرع کہہ کر دوسرا مصرع ارشاد فرماتے تب شعر ، شعر نہیں رہتا تھا ، سو بوتلوں کا نشہ ہوتا تھا۔اور سامعین میں سے مدح و ستائش کے نادر و نایاب جملے ایجاد ہوتے تھے ، گویا لوگ جھوم اُٹھتے تھے ، اور ذہن و دل پُرسکون ہوتے تھے۔
اور اب صورتِ حال یہ ہے ، آپ مشاعرہ تو دُور کی بات ، آپ چائے پر ایک شعر بلکہ صرف ایک مصرع لکھ کر کہیں چسپاں کر دیں ، تب پڑھنے والے "آہ‛‛ آہ‛‛ کرتے ہوئے ٹھنڈی آہیں بھرنے لگتے ہیں ، اور داد کا انداز یوں ہوتا ہے کہ:
"چائے تو زندگی ہے‛‛ ہائے ہائے ‛‛ چائے ہی چاہت ہے‛‛ چائے نہ ہوتی تو میں مر چُکا ہوتا/ہوتی ، ماشاءاللہ اب "چائے‛‛ کی مدح و ستائش خوب ہوتی ہے۔
طلسمِ مصر ہے اُس کے حَسین ہاتھوں میں
جو وہ بنائے تو چائے کو جام کر دے گا
(شہزاد قیس )
یعنی یہ طے ہے کہ حَسین ہاتھ چائے کو جام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اور ویسے بھی جب چائے فروش کے ہاتھوں میں اگر طلسمِ مصر ہو تو چائے کے علاوہ ہاتھوں سے اور کئی کارنامے سرانجام دیے جا سکتے ہیں۔
چائے افسردہ پیالی میں پڑی رہتی ہے
جسم تنہائی کی کُرسی میں دھنسا رہتا ہے
(یاور عظیم)
چائے اور جسم کا ربط تو خوب ہے ہی ، افسردہ پیالی اور تنہائی کی کُرسی کا احوال بھی قابلِ تعریف ہے۔ جسم کا تنہائی کی کُرسی میں دھنسے رہنا اور چائے کا پیالی میں افسردہ پڑے رہنا ، چائے خوار کے آلسی پن کا اظہار ہے۔
غائبانہ شریک کر کے تمہیں
ایک چُسکی بھری ہے چائے کی
(نامعلوم)
کیا عجیب منطق ہے محبوب کی شرکت غائبانہ ہے ، لیکن چائے کی چُسکی بھرنے کے لیے چائے اور چُسکی حاضر ناظر ہے۔ اگر سب کچھ غائبانہ ہی کیا جائے تو کیا بُرائی ہے ۔
چائے خواروں سے زیادہ ، چائے پرستوں کے ہاں چائے بہت لطیف ہے ، ان کے ہاں چائے کا رنگ اس قدر ہلکا کہ واہمہ پر اس کی ہستی مشتبہ ہو جائے ، اور کیف اس قدر تند کہ بلا مبالغہ اس کا ہر فنجان قاآنی کے رطلِ گراں کی یاد تازہ کر دے ، چاچا بوٹا اور مولوی فقیر دین کے چائے پینے کا انداز دیکھ کر ، فدوی کو "امام الہند ابوالکلام آزاد‛‛ کا انداز یاد آ جاتا ہے:
"شاید آپ لوگوں کو معلوم نہیں کہ چائے کے باب میں چائے خوار کے بعض اختیارات ہوتے ہیں ، جب چائے خوار چائے کی لطافت و شیرینی کو تمباکو کی تندی و تلخی سے ترکیب دے کر ایک کیفِ مرکب پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے ، تو چائے کے پہلے گھونٹ کے ساتھ ہی متصلاً ایک سگریٹ بھی سُلگا لیا کرتا ہے ، پھر اس ترکیبِ خاص کا نقشِ عمل یوں جماتا ہے کہ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد چائے کا ایک گھونٹ لیتا ہے۔ اور متصلاً سگریٹ کا بھی ایک کش لیتا ہے۔ علمی اصطلاح میں اس صورتِ حال کو علیٰ السبیل التوالی و التعاقب کہتے ہیں۔ اس طرح اس سلسلۂ عمل کی ہر کڑی چائے کے ایک گھونٹ اور سگرٹ کے ایک کش کے باہمی امتزاج سے بتدریج ڈھلتی جاتی ہے اور سلسلۂ کار دراز ہوتا رہتا ہے۔مقدار کے حُسنِ تناسب کا انضباط ملاحظہ ہو کہ ادھر فنجان آخری جُرعہ سے خالی ہوتا ہے ، اُدھر تمباکوے آتش زدہ سگرٹ کے آخری خطِ کشید تک پہنچ کر دم لیتا ہے۔ کیا کہیے ان دو اجزاے تند و لطیف کی آمیزش سے کیف و سرور کا کیسا معتدل مزاج ترکیب پذیر ہوتا ہے۔"
جی چاہتا ہے اوقات سے باہر نکلوں " غالب ‛‛ کے الفاظ مستعار لے کر جسارت کرتے ہوئے "روحِ غالب" درگزر فرمائے :
ہم کو اُن سے "چاہ" کی ہے اُمید
جو نہیں جانتے "چاء" کیا ہے
چاہ : چاہنے کا عمل ، چاہت ، محبت ، عشق ، ذوق و شوق لگاؤ۔
چاء : چائے۔
گُستاخ شاعر نے دورِ حاضر کو مدِ نظر رکھتے ہوئے چاہ اور چاء کا ربط بنایا ۔یعنی چاہت و محبت کی آرزو رکھنے سے پہلے چائے کی چُسکیوں کے سُر اور ردھم کو جاننا لازم ہے۔
بہرکیف! یہ آج کا سچ ہے چائے اب ہماری ثقافت کا اہم حصہ بن چُکی ہے۔ ہم مہمانوں کی چائے پانی سے ہی آؤ بھگت کرتے ہیں ، اور پھر چائے کی ہر سِپ کے دوران ہی ہم اپنی حالیہ کارگزاریوں پر گفتگو کرتے ہیں۔
فدوی کو چائے کی عاشقی بہت خوفناک اور دیوانہ کُن تب محسوس ہوئی جب میرے ایک دوست نے شادی والے دن سنجیدہ شرط رکھی کہ دودھ پلائی رسم کی جگہ چائے پلائی ہو گی آخر کار لڑکی والوں نے ہتھیار ڈال دیے اور چائے پلائی رسم پر حامی بھری۔
فدوی کے ذاتی خیال میں زمانۂ مستقبل میں شاید تاریخ والا یوں رقم طراز ہو گا کہ:
شادی کی رسومات میں ایک رسم ہوتی تھی دودھ پِلائی اور اب رسم ہوتی ہے چائے پِلائی۔
ماضی میں جہاں "مے‛‛ و مے نوشی پر شاعری لکھی گئی ہے ، وہاں "میخانے‛‛ پر بھی خیال باندھا گیا ہے ، یعنی مے کے مناسبات کا ذکر ہوتا آیا ہے ، جیسے پیمانہ ، میخانہ ، ساقی ، رند ، نشہ یہ سب مے کے مناسبات ہیں۔اساتذہ فرماتے ہیں کہ: "لکھاری کو مناسبات کا بہت خیال رکھنا چاہیے ، اس سے کلام کا حُسن دو چند ہوجاتا ہے‛‛۔
اب اگر خوش قسمتی سے شاعری میں "چائے‛‛ چائے نوشی کا زمانہ چل ہی رہا ہے ، تو حضور کچھ چائے کے مناسبات کا خیال بھی رکھا کریں ، جیسا کہ: شاعری میں "چائے خانہ‛‛ کیوں گمنام ہے؟ "چائے خانے‛‛ پر بھی ایک آدھ مصرع ہونا چاہیے ، مے میں پیمانہ ہے ، جام ہے ، تو چائے کا فنجان کہاں ہے؟چائے دان پر بھی طبع آزمائی ہو۔چونکہ اردو میں مَے خوار ، مَے کش ، مے گُسار ، مے نوش کے لیے رِند کا لفظ استعمال ہوا ہے ، تو چائے خوار ، چائے کش ، چائے گُسار ، چائے نوش کو "رِند‛‛ بنانے کے لیے کوئی لفظ تو ہونا چاہیے؟؟ماہرِ لسانیات نے مے پِلانے والے کو ساقی مخاطب کیا ہے ، تو چائے پلانے والے کے لیے کوئی لفظ؟؟
"مے انگوری‛‛ ہو یا "چائے تندوری‛‛ دونوں کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے ، پہلے مے خواری و مے کشی لوگوں کا سَر لے کر جاتی تھی ، اب چائے خواری و چائے کشی نے سر دھڑ کی بازی لگائی ہوتی ہے ، "مولوی فقیر دین" فرماتے ہیں کہ چائے کے بِنا زندگی پھیکی اور بے رونق ہے ، مولا اس کے موجد پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے ، حلال میں حرام کے مزے کرا دیے ، بہشتی نے۔"چاچا بوٹا" فرماتے ہیں چائے پینے کے بعد مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر میں اپنے دونوں ہاتھوں سے دو ٹریکٹر پکڑ لوں اور وہ اپنی اپنی طرف زور لگائیں تو میں ان کو ہلنے نہیں دوں گا ، اتنی انرجی محسوس ہوتی ہے۔
لیکن نذیر پٹواری ارشاد فرماتے ہیں کہ "چائے کی کیتلی‛‛ ہو یا "شراب کی بوتل‛‛ حقیقت میں ان سب پر بھاری ہے "لسی کی چاٹی ‛‛۔
پُرانے وقتوں مِیں چند شعرا مشروبِ مشرق(لسی) پِی کر بھی مشاعرے میں شرکت کرتے تھے ، تب اگر کوئی شاعر محفل مِیں مَے پر مصرع کہتا تھا ، تو سُننے والوں کو سرُور ملتا تھا ، اور بے اختیار منہ سے نکلتا کہ:
واہ ! حضور ، پھر فرمایے ، کس تیور سے مصرع لگایا ہے ، کیاکہنے ! واہ واہ ! مکرر ارشاد ہو
اور جب حضور مکرر مصرع کہہ کر دوسرا مصرع ارشاد فرماتے تب شعر ، شعر نہیں رہتا تھا ، سو بوتلوں کا نشہ ہوتا تھا۔اور سامعین میں سے مدح و ستائش کے نادر و نایاب جملے ایجاد ہوتے تھے ، گویا لوگ جھوم اُٹھتے تھے ، اور ذہن و دل پُرسکون ہوتے تھے۔
اور اب صورتِ حال یہ ہے ، آپ مشاعرہ تو دُور کی بات ، آپ چائے پر ایک شعر بلکہ صرف ایک مصرع لکھ کر کہیں چسپاں کر دیں ، تب پڑھنے والے "آہ‛‛ آہ‛‛ کرتے ہوئے ٹھنڈی آہیں بھرنے لگتے ہیں ، اور داد کا انداز یوں ہوتا ہے کہ:
"چائے تو زندگی ہے‛‛ ہائے ہائے ‛‛ چائے ہی چاہت ہے‛‛ چائے نہ ہوتی تو میں مر چُکا ہوتا/ہوتی ، ماشاءاللہ اب "چائے‛‛ کی مدح و ستائش خوب ہوتی ہے۔
طلسمِ مصر ہے اُس کے حَسین ہاتھوں میں
جو وہ بنائے تو چائے کو جام کر دے گا
(شہزاد قیس )
یعنی یہ طے ہے کہ حَسین ہاتھ چائے کو جام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اور ویسے بھی جب چائے فروش کے ہاتھوں میں اگر طلسمِ مصر ہو تو چائے کے علاوہ ہاتھوں سے اور کئی کارنامے سرانجام دیے جا سکتے ہیں۔
چائے افسردہ پیالی میں پڑی رہتی ہے
جسم تنہائی کی کُرسی میں دھنسا رہتا ہے
(یاور عظیم)
چائے اور جسم کا ربط تو خوب ہے ہی ، افسردہ پیالی اور تنہائی کی کُرسی کا احوال بھی قابلِ تعریف ہے۔ جسم کا تنہائی کی کُرسی میں دھنسے رہنا اور چائے کا پیالی میں افسردہ پڑے رہنا ، چائے خوار کے آلسی پن کا اظہار ہے۔
غائبانہ شریک کر کے تمہیں
ایک چُسکی بھری ہے چائے کی
(نامعلوم)
کیا عجیب منطق ہے محبوب کی شرکت غائبانہ ہے ، لیکن چائے کی چُسکی بھرنے کے لیے چائے اور چُسکی حاضر ناظر ہے۔ اگر سب کچھ غائبانہ ہی کیا جائے تو کیا بُرائی ہے ۔
چائے خواروں سے زیادہ ، چائے پرستوں کے ہاں چائے بہت لطیف ہے ، ان کے ہاں چائے کا رنگ اس قدر ہلکا کہ واہمہ پر اس کی ہستی مشتبہ ہو جائے ، اور کیف اس قدر تند کہ بلا مبالغہ اس کا ہر فنجان قاآنی کے رطلِ گراں کی یاد تازہ کر دے ، چاچا بوٹا اور مولوی فقیر دین کے چائے پینے کا انداز دیکھ کر ، فدوی کو "امام الہند ابوالکلام آزاد‛‛ کا انداز یاد آ جاتا ہے:
"شاید آپ لوگوں کو معلوم نہیں کہ چائے کے باب میں چائے خوار کے بعض اختیارات ہوتے ہیں ، جب چائے خوار چائے کی لطافت و شیرینی کو تمباکو کی تندی و تلخی سے ترکیب دے کر ایک کیفِ مرکب پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے ، تو چائے کے پہلے گھونٹ کے ساتھ ہی متصلاً ایک سگریٹ بھی سُلگا لیا کرتا ہے ، پھر اس ترکیبِ خاص کا نقشِ عمل یوں جماتا ہے کہ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد چائے کا ایک گھونٹ لیتا ہے۔ اور متصلاً سگریٹ کا بھی ایک کش لیتا ہے۔ علمی اصطلاح میں اس صورتِ حال کو علیٰ السبیل التوالی و التعاقب کہتے ہیں۔ اس طرح اس سلسلۂ عمل کی ہر کڑی چائے کے ایک گھونٹ اور سگرٹ کے ایک کش کے باہمی امتزاج سے بتدریج ڈھلتی جاتی ہے اور سلسلۂ کار دراز ہوتا رہتا ہے۔مقدار کے حُسنِ تناسب کا انضباط ملاحظہ ہو کہ ادھر فنجان آخری جُرعہ سے خالی ہوتا ہے ، اُدھر تمباکوے آتش زدہ سگرٹ کے آخری خطِ کشید تک پہنچ کر دم لیتا ہے۔ کیا کہیے ان دو اجزاے تند و لطیف کی آمیزش سے کیف و سرور کا کیسا معتدل مزاج ترکیب پذیر ہوتا ہے۔"
جی چاہتا ہے اوقات سے باہر نکلوں " غالب ‛‛ کے الفاظ مستعار لے کر جسارت کرتے ہوئے "روحِ غالب" درگزر فرمائے :
ہم کو اُن سے "چاہ" کی ہے اُمید
جو نہیں جانتے "چاء" کیا ہے
چاہ : چاہنے کا عمل ، چاہت ، محبت ، عشق ، ذوق و شوق لگاؤ۔
چاء : چائے۔
گُستاخ شاعر نے دورِ حاضر کو مدِ نظر رکھتے ہوئے چاہ اور چاء کا ربط بنایا ۔یعنی چاہت و محبت کی آرزو رکھنے سے پہلے چائے کی چُسکیوں کے سُر اور ردھم کو جاننا لازم ہے۔
بہرکیف! یہ آج کا سچ ہے چائے اب ہماری ثقافت کا اہم حصہ بن چُکی ہے۔ ہم مہمانوں کی چائے پانی سے ہی آؤ بھگت کرتے ہیں ، اور پھر چائے کی ہر سِپ کے دوران ہی ہم اپنی حالیہ کارگزاریوں پر گفتگو کرتے ہیں۔
فدوی کو چائے کی عاشقی بہت خوفناک اور دیوانہ کُن تب محسوس ہوئی جب میرے ایک دوست نے شادی والے دن سنجیدہ شرط رکھی کہ دودھ پلائی رسم کی جگہ چائے پلائی ہو گی آخر کار لڑکی والوں نے ہتھیار ڈال دیے اور چائے پلائی رسم پر حامی بھری۔
فدوی کے ذاتی خیال میں زمانۂ مستقبل میں شاید تاریخ والا یوں رقم طراز ہو گا کہ:
شادی کی رسومات میں ایک رسم ہوتی تھی دودھ پِلائی اور اب رسم ہوتی ہے چائے پِلائی۔