زیرک
محفلین
مہنگائی کی سونامی کے اثرات اور غریب عوام کی حالتِ زار
چلیں ہم حکومت کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ختم کرنے کا دعویٰ مان لیتے ہیں اور وزیراعظم کا یہ بیان بھی سچ مان لیتے ہیں "باہرکی ایجنسیز جب کہتی ہیں کہ معیشت مستحکم ہو گئی ہے تو اعتماد ملتا ہے"۔ وزیراعظم سے صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ حکومتوں کو اعتماد تبھی ملتا ہے جب عوام ان کے ساتھ ہوں، کیا آپ کو اور آپ کے وزراء کو بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے عوام کے کچن کا خسارہ نظر نہیں آ رہا؟ جو کہ آئے دن بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ تنخواہ دار طبقے کو ہی لیں 30 ہزار ماہوار کمانے والوں کے لیے مہنگائی %22 تک بڑھ گئی ہے، 500 روز کے کمانے والے دیہاڑی دار مزدور کے لیے تو یہ شرح %45 سمجھ لیں، ایسے میں وہ کھائے گا کیا؟ حکومت کو مہنگائی کی سونامی کو روکنا ہو گا وگرنہ ان کے جانے کے دن مقرر سمجھیں۔ دفتروں میں بیٹھے وزراء کو یہ علم نہیں کہ مہنگائی نے عوام سے دو وقت کی روٹی تک چھین لی ہے۔ اشیائے خوردو نوش کی قیمتیں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ لوگوں کی پہنچ سے ہی دور ہو تی جا رہی ہیں۔ ان کے پاس وقت ہو تو وہ وفاقی ادارہ شماریات پاکستان کے دفتری بابوؤں کے بنائے ہوئے اعداد و شمار ہی دیکھ لیں تو شاید ان کی آنکھ کھل جائے۔٭وفاقی ادارہ شماریات پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں %16.53 اضافہ ہوا ہے۔
٭نومبر 2019 میں افراطِ زر کی شرح میں نومبر 2018 کے مقابلے میں %12.28 اضافہ ہوا۔
٭جبکہ اکتوبر 2019 کے مقابلے میں مہنگائی % 1.2 بڑھی ہے۔
٭اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں ایک سال کے دوران %16.53 اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
٭گندم %18، آٹا %17.4، گوشت کی قیمت میں %10.4 اضافہ ہوا۔
٭برائیلر مرغی %11.98، مچھلی %11/33 اور تازہ دودھ %8.11 فیصد مہنگا ہوا۔
٭خوردنی تیل %14.12 اور بناسپتی گھی کی قیمت میں %16.47 اضافہ ہوا۔
٭مسور کی دال کی قیمت %18.2، مونگ کی دال %56.89، ماش کی دال %35.13 اور چنے کی دال %15 مہنگی ہوئی۔
٭پیاز کی قیمت %159 فیصد اور ٹماٹر کی قیمت میں %376 فیصد کا ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا۔
٭تازہ سبزیوں کی قیمتوں میں بھی %37.73 اضافہ دیکھنے میں آیا۔
٭مکانات کے کرائے %9.68 بڑھ گئے۔
٭بجلی کے بلوں میں اوسطاً %3.68، گیس میں %13.43 اور مٹی کے تیل کی قیمت میں %30.9 اضافہ ہوا۔
٭ادویات کی قیمت میں %10.74 طبی آلات کی قیمت میں %7.21 اضافہ دیکھنے میں آیا۔
٭ڈاکٹروں کی فیس میں ٪33۔13 اضافہ ہوا ۔
٭لیبارٹری ٹیسٹ کی فیسوں میں ٪7۔52 اضافہ دیکھنے میں آیا۔
٭موٹر وہیکل ٹیکس، پیٹرول اور گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافے سے ٹرانسپورٹ کے اخراجات ٪7۔21 تک بڑھ گئے ہیں۔
نوٹ: حکومتی حامی خوشی سے اس پوسٹ کو "ناپسندیدہ" قرار دے سکتے ہیں۔