مہوش حیات کو تمغہ امتیاز دینے کے اعلان پر شوبز انڈسٹری حیران

ابوعبید

محفلین
تمغے رے تمغے تیری کونسی کل سیدھی! :)

D2f8RArXgAAglfr.jpg

وارث سر آپ کے فقرے میں زور تمغے پہ ہے یا کل پہ ؟؟ :LOL:
 
آج ہی ایوارڈز کے متعلق گردش کرتی یہ تحریر بذریعہ واٹس ایپ پڑھنے کو ملی۔
گو تحریر کا مدعا کسی اور طرف نشاندہی کے لیے تھا لیکن تذکرہ ایوارڈز سے ہوتا ہواآیا تو سوچا کہ شراکت کر دیتا ہوں۔ :)

۔۔۔۔
احتساب عدالت اسلام آباد کورٹ روم نمبر ایک کے جج محمد بشیر نے 22 فروری کو اوگرا کیس میں نامزد ملزم عقیل کریم ڈھیڈی کے ناقابل ضمانت ورانٹ گرفتاری جاری کئے۔ اس موقع پر ان کا غصہ عروج پر پہنچا ہوا تھا۔ کرسی انصاف پر بیٹھ کر احتساب کے جج محمد بشیر نے حکم صادر کیا کہ عقیل کریم ڈھیڈی اوگرا کیس میں نامزد ملزم ہیں۔ ان پر 82 ارب روپے کی کرپشن کے الزامات ہیں۔ اگلی سماعت پر انھیں ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کیا جائے۔

اگلے ہی روز عقیل کریم ڈھیڈی عدالت پیش ہوتے ہیں اور ناقابل ضمانت ورانٹ گرفتاری مسترد کرنے کی استدعا کرتے ہیں۔ منصف کا دل ’ناجانے‘ کیسے پسیج جاتا ہے۔ وارنٹ گرفتاری منسوخ ہو جاتے ہیں۔ اگلی سماعت پر معمول کے مطابق سب کچھ ہوتا ہے۔ عقیل کریم کے وکلاء پیش ہوتے ہیں۔ دن گزرتے رہے پھر 23 مارچ آ جاتا ہے۔ پاکستان میں یہ دن بڑی شان و شوکت سے منایا جاتا ہے۔ صدر پاکستان اس دن ملک کی اہم شخصیات کو تمغوں اور اعزازات سے نوازتے ہیں جنھوں نے زندگی کے کسی بھی شعبے میں ملک و ملت کا نام روشن کیا ہو۔

ایوارڈز دینا بُری بات نہیں، احسن قدم ہے۔ اس سے ملک کے محسنوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور باقی لوگ بھی ملک و ملت کا نام روشن کرنے کے لیے اپنے اپنے شعبوں میں انتھک محنت کرتے ہیں۔ اس برس 23 مارچ کو صدر پاکستان عزت مآب عارف علوی نے عقیل کریم ڈھیڈی کو بھی پرائڈ آف پرفارمنس سے نوازا۔ میں طالب علم ہوں اس لئے عجب مخمصے میں پڑ گیا ہوں۔ ایک گتھی ہے جو سلجھ نہیں رہی۔ صدر پاکستان نے عقیل کریم ڈھیڈی کو یہ ایوارڈ کس بنیاد پر دیا ؟ ایک ایسا فرد جس پر ملک کو 82 ارب روپے کا نقصان پہنچانے کا الزام ہے اور وہ عدالتوں میں کیس بھگت رہا ہے۔ کرپشن کرنے پر تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا یا پھر کچھ نامعلوم خدمات کے عوض یہ صلہ ملا۔

بعض واقفان حال کا کہنا ہے کہ ملک کے بعض اعلیٰ ریٹائرڈ اہل کاروں کے ساتھ بہت زیادتی ہوئی ہے۔ ایوارڈ کے اصل حقدار تو وہ تھے جنھوں نے ایوارڈ دینے والوں کو یہاں تک پہنچایا ہے۔ اسی طرح عارف حمید بھٹی، صابر شاکر اور مبشر لقمان جیسی نابغہ روزگار شخصیات کو نظر انداز کرنے پر بھی بہت سے حلقے دل گرفتہ ہیں کیونکہ موجودہ وزیراعظم کی چوبیس گھنٹے تعریف اور مدح سرائی میں ان صحافیوں نے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔

82 ارب روپے کی کرپشن کے الزام میں ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرنے اور پھر منسوخ کرنے والے احتساب جج محمد بشیر وہی منصف ہیں جنہوں نے ایون فلیڈ میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو سزائیں سنائی تھی۔ نواز شریف اسی عدالت سے استدعا کرتے رہے کہ ان کی اہلیہ شدید بیمار ہیں، موت و زیست کی جنگ لڑ رہی ہیں چنانچہ انھیں ایک ہفتے کے لیے عدالت سے استثنیٰ دیا جائے۔ مگر منصف جیب سے موبائل نکال کر اس پر ضروری پیغام پڑھتے اور پھر حکم صادر ہوتا کہ دس منٹ بعد واپس آ کر فیصلہ دوں گا۔ جج محمد بشیر عدالت سے متصل کمرے میں جا کر مکمل اطمینان اور صفائے قلب سے غور و فکر کر کے واپس آتے اور فیصلہ سناتے کہ ملزم کی استدعا مسترد کی جاتی ہے۔

مجھے یہاں راؤ رشید یاد آ رہے ہیں جنھوں نے اپنی کتاب “جو میں نے دیکھا” میں لکھتے ہیں کہ جب ایسٹ پاکستان فال ہوا تو “لوگوں کو یحییٰ خان پر بہت غصہ تھا اگر انھیں لوگوں کے حوالے کر دیتے تو لوگ ان کی تکہ بوٹی کر دیتے۔ وہ لکھتے ہیں کہ میری ڈیوٹی پشاور تھی اور پشاور میں یحییٰ خان کا گھر تھا۔ لوگ بہت غصے میں تھے وہ جلوس نکالنا چاہتے تھے اور یحییٰ خان کا گھر جلانا چاہتے تھے۔ جلوس نکلا لیکن پولیس کی طرف سے کسی کارروائی کی نوبت ہی نہیں آئی۔ ایک اسلامی سیاسی پارٹی نے جلوس کا رخ شراب خانوں کی طرف موڑ دیا۔ کارکنوں کا کہنا تھا کہ یحییٰ کا قصور نہیں، اصل قصور شراب کا ہے۔ لوگوں نے شراب کی دکانیں توڑیں۔ یہ ایک عجیب قصہ ہوا۔ جلوس بجائے بنگلہ دیش کے قیام کے خلاف ہوتا، وہ شراب کے خلاف ہو گیا۔ اس طرح وہ سارا دن شراب کی دکانیں توڑتے رہے اور بوتلیں پیتے بھی رہے، ’یہاں تک کہ پشاور کے کتے بھی مدہوش ہو گئے‘۔

مقتدر قوتوں کا اصل مسئلہ کرپشن نہیں، نواز شریف تھا۔ اسے سبق سکھانے کے لیے مہروں کو آگے کیا گیا۔ اسے پابند سلاسل کیا گیا اور دوسری طرف کرپشن کیس میں نامزد ملزم کو ایوارڈ سے نوازا جا رہا ہے ۔ سمجھ نہیں آ رہی کہ ایوارڈ بے توقیر ہو گیا یا کرپشن کو عزت مل گئی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
فنونِ لطیفہ یا ساز و آواز سے وابستہ افراد کو ان کی کارکردگی پر سراہنا اور ان کو قومی اعزار دینا ایک اچھا کام ہے بشرطیکہ معیار کی دھجیاں نہ اُڑائی جائیں، مثال کے طور پر 'بھارت رتن' انڈیا کا سب سے بڑا سول اعزاز ہے۔ انہوں نے جہاں جواہر لعل نہرو، سردار پٹیل، مولانا ابوالکلام آزاد، بابا صاحب ایمبدکر، ڈاکٹر ذاکر حسین، مدر ٹریسا وغیرہم کو اس اعزاز سے نوازا ہے وہیں انہوں لتا منگیشکر جی، اُستاد بسم اللہ خان (شہنائی نواز) اور پنڈت روی شنکر (ستار نواز) کو بھی اس ایوارڈ سے نواز ہے۔ یہ تینوں شخصیات اپنے اپنے فن کے عروج پر ہیں، زندگیاں صرف کر دیں خدمت میں، اور یہاں پرائڈ آف پرفارمنس اندھے کی ریوڑیوں کی طرح بانٹا جاتا ہے۔
 

ابوعبید

محفلین
آج ہی ایوارڈز کے متعلق گردش کرتی یہ تحریر بذریعہ واٹس ایپ پڑھنے کو ملی۔
گو تحریر کا مدعا کسی اور طرف نشاندہی کے لیے تھا لیکن تذکرہ ایوارڈز سے ہوتا ہواآیا تو سوچا کہ شراکت کر دیتا ہوں۔ :)

۔۔۔۔
احتساب عدالت اسلام آباد کورٹ روم نمبر ایک کے جج محمد بشیر نے 22 فروری کو اوگرا کیس میں نامزد ملزم عقیل کریم ڈھیڈی کے ناقابل ضمانت ورانٹ گرفتاری جاری کئے۔ اس موقع پر ان کا غصہ عروج پر پہنچا ہوا تھا۔ کرسی انصاف پر بیٹھ کر احتساب کے جج محمد بشیر نے حکم صادر کیا کہ عقیل کریم ڈھیڈی اوگرا کیس میں نامزد ملزم ہیں۔ ان پر 82 ارب روپے کی کرپشن کے الزامات ہیں۔ اگلی سماعت پر انھیں ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کیا جائے۔

اگلے ہی روز عقیل کریم ڈھیڈی عدالت پیش ہوتے ہیں اور ناقابل ضمانت ورانٹ گرفتاری مسترد کرنے کی استدعا کرتے ہیں۔ منصف کا دل ’ناجانے‘ کیسے پسیج جاتا ہے۔ وارنٹ گرفتاری منسوخ ہو جاتے ہیں۔ اگلی سماعت پر معمول کے مطابق سب کچھ ہوتا ہے۔ عقیل کریم کے وکلاء پیش ہوتے ہیں۔ دن گزرتے رہے پھر 23 مارچ آ جاتا ہے۔ پاکستان میں یہ دن بڑی شان و شوکت سے منایا جاتا ہے۔ صدر پاکستان اس دن ملک کی اہم شخصیات کو تمغوں اور اعزازات سے نوازتے ہیں جنھوں نے زندگی کے کسی بھی شعبے میں ملک و ملت کا نام روشن کیا ہو۔

ایوارڈز دینا بُری بات نہیں، احسن قدم ہے۔ اس سے ملک کے محسنوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور باقی لوگ بھی ملک و ملت کا نام روشن کرنے کے لیے اپنے اپنے شعبوں میں انتھک محنت کرتے ہیں۔ اس برس 23 مارچ کو صدر پاکستان عزت مآب عارف علوی نے عقیل کریم ڈھیڈی کو بھی پرائڈ آف پرفارمنس سے نوازا۔ میں طالب علم ہوں اس لئے عجب مخمصے میں پڑ گیا ہوں۔ ایک گتھی ہے جو سلجھ نہیں رہی۔ صدر پاکستان نے عقیل کریم ڈھیڈی کو یہ ایوارڈ کس بنیاد پر دیا ؟ ایک ایسا فرد جس پر ملک کو 82 ارب روپے کا نقصان پہنچانے کا الزام ہے اور وہ عدالتوں میں کیس بھگت رہا ہے۔ کرپشن کرنے پر تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا یا پھر کچھ نامعلوم خدمات کے عوض یہ صلہ ملا۔

بعض واقفان حال کا کہنا ہے کہ ملک کے بعض اعلیٰ ریٹائرڈ اہل کاروں کے ساتھ بہت زیادتی ہوئی ہے۔ ایوارڈ کے اصل حقدار تو وہ تھے جنھوں نے ایوارڈ دینے والوں کو یہاں تک پہنچایا ہے۔ اسی طرح عارف حمید بھٹی، صابر شاکر اور مبشر لقمان جیسی نابغہ روزگار شخصیات کو نظر انداز کرنے پر بھی بہت سے حلقے دل گرفتہ ہیں کیونکہ موجودہ وزیراعظم کی چوبیس گھنٹے تعریف اور مدح سرائی میں ان صحافیوں نے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔

82 ارب روپے کی کرپشن کے الزام میں ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرنے اور پھر منسوخ کرنے والے احتساب جج محمد بشیر وہی منصف ہیں جنہوں نے ایون فلیڈ میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو سزائیں سنائی تھی۔ نواز شریف اسی عدالت سے استدعا کرتے رہے کہ ان کی اہلیہ شدید بیمار ہیں، موت و زیست کی جنگ لڑ رہی ہیں چنانچہ انھیں ایک ہفتے کے لیے عدالت سے استثنیٰ دیا جائے۔ مگر منصف جیب سے موبائل نکال کر اس پر ضروری پیغام پڑھتے اور پھر حکم صادر ہوتا کہ دس منٹ بعد واپس آ کر فیصلہ دوں گا۔ جج محمد بشیر عدالت سے متصل کمرے میں جا کر مکمل اطمینان اور صفائے قلب سے غور و فکر کر کے واپس آتے اور فیصلہ سناتے کہ ملزم کی استدعا مسترد کی جاتی ہے۔

مجھے یہاں راؤ رشید یاد آ رہے ہیں جنھوں نے اپنی کتاب “جو میں نے دیکھا” میں لکھتے ہیں کہ جب ایسٹ پاکستان فال ہوا تو “لوگوں کو یحییٰ خان پر بہت غصہ تھا اگر انھیں لوگوں کے حوالے کر دیتے تو لوگ ان کی تکہ بوٹی کر دیتے۔ وہ لکھتے ہیں کہ میری ڈیوٹی پشاور تھی اور پشاور میں یحییٰ خان کا گھر تھا۔ لوگ بہت غصے میں تھے وہ جلوس نکالنا چاہتے تھے اور یحییٰ خان کا گھر جلانا چاہتے تھے۔ جلوس نکلا لیکن پولیس کی طرف سے کسی کارروائی کی نوبت ہی نہیں آئی۔ ایک اسلامی سیاسی پارٹی نے جلوس کا رخ شراب خانوں کی طرف موڑ دیا۔ کارکنوں کا کہنا تھا کہ یحییٰ کا قصور نہیں، اصل قصور شراب کا ہے۔ لوگوں نے شراب کی دکانیں توڑیں۔ یہ ایک عجیب قصہ ہوا۔ جلوس بجائے بنگلہ دیش کے قیام کے خلاف ہوتا، وہ شراب کے خلاف ہو گیا۔ اس طرح وہ سارا دن شراب کی دکانیں توڑتے رہے اور بوتلیں پیتے بھی رہے، ’یہاں تک کہ پشاور کے کتے بھی مدہوش ہو گئے‘۔

مقتدر قوتوں کا اصل مسئلہ کرپشن نہیں، نواز شریف تھا۔ اسے سبق سکھانے کے لیے مہروں کو آگے کیا گیا۔ اسے پابند سلاسل کیا گیا اور دوسری طرف کرپشن کیس میں نامزد ملزم کو ایوارڈ سے نوازا جا رہا ہے ۔ سمجھ نہیں آ رہی کہ ایوارڈ بے توقیر ہو گیا یا کرپشن کو عزت مل گئی ہے۔

یہ عقیل کریم وہی نہیں ہیں جو عمران خان کے جلسوں کے فنانسر ہیں ؟؟؟
 

جاسم محمد

محفلین
مقتدر قوتوں کا اصل مسئلہ کرپشن نہیں، نواز شریف تھا۔ اسے سبق سکھانے کے لیے مہروں کو آگے کیا گیا۔ اسے پابند سلاسل کیا گیا اور دوسری طرف کرپشن کیس میں نامزد ملزم کو ایوارڈ سے نوازا جا رہا ہے ۔ سمجھ نہیں آ رہی کہ ایوارڈ بے توقیر ہو گیا یا کرپشن کو عزت مل گئی ہے۔
یہ محض آپ کی خام خیالی ہے کہ مقتدر قوتوں کی نواز شریف سے کوئی خاص دشمنی ہے۔ کسے معلوم نہیں کہ میاں صاحب کو سیاست میں کون لے کر آیا تھا؟ کس نے انہیں پیسے دے کر بینظیر کے خلاف اسلامی جمہوری اتحاد بنایا؟ یہ وہی مقتدر قوتیں تھیں جنہیں آج صبح شام لیگی میڈیا سیل لتاڑ رہا ہوتا ہے۔ فرقان احمد بالکل ٹھیک کہتے ہیں کہ تاریخ سے سبق سیکھیں۔ تاریخ دہرائیں نہیں۔ اگر نواز شریف اور زرداری نے میثاق جمہوریت پر من و عن عمل کیا ہوتا تو آج دونوں کو یہ دن دیکھنے نہ پڑتے۔
 
یہ محض آپ کی خام خیالی ہے کہ مقتدر قوتوں کی نواز شریف سے کوئی خاص دشمنی ہے
اس وقت کی مقتدر قوتوں نے ایم کیو ایم بھی بنائی تھی جنھیں آج کی قوتیں توڑ پھوڑ چکی ہیں، انھی مقتدر قوتوں نے طالبان کو ہوا بنایا تھا اورپھر انھی قوتوں نے ان کی رگ رگ سے خون نچوڑنا شروع کر دیا وغیرہ۔

ہر دور کی مقتدر قوتوں کی اپنی پالیسی اور اپنے لاڈلے ہوتے ہیں، اس فرق کو اگرنصب شدہ حکومت سمجھ لیتی تو ان کے ہاتھ میں مکمل کٹھ پُتلی نا بنتی۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
ہر دور کی مقتدر قوتوں کی اپنی پالیسی اور اپنے لاڈلے ہوتے ہیں، اس فرق کو اگرنصب شدہ حکومت سمجھ لیتی تو ان کے ہاتھ میں مکمل کٹھ پُتلی نا بنتی۔ :)
اس کی وضاحت کریں۔ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ موجودہ نصب شدہ حکومت ماضی کی نصب شدہ حکومتوں کی طرح اسٹیبلشمنٹ سے "پنگا" لے اور یوں انتقامی کروائی پر روایتی سیاسی شہید کارڈ کھیلنا شروع کر دے؟ معذرت کے ساتھ مگر موجودہ نصب حکومت نے ماضی سے سبق سیکھ لیا ہے :)
 
اس کی وضاحت کریں۔ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ موجودہ نصب شدہ حکومت ماضی کی نصب شدہ حکومتوں کی طرح اسٹیبلشمنٹ سے "پنگا" لے اور یوں انتقامی کروائی پر روایتی سیاسی شہید کارڈ کھیلنا شروع کر دے؟ معذرت کے ساتھ مگر موجودہ نصب حکومت نے ماضی سے سبق سیکھ لیا ہے :)

اے میں کہیا۔۔۔۔ اِکوکِیسَٹ چلائی چلائی تُساں تھکنے نہیں او۔
دو دیہاڑے ریسٹ نا کَری کِنھاں!!!
نہیں تے۔۔۔ پہلاں پکساں تے فیر ترکساں۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
اے میں کہیا۔۔۔۔ اِکوکِیسَٹ چلائی چلائی تُساں تھکنے نہیں او۔
دو دیہاڑے ریسٹ نا کَری کِنھاں!!!
نہیں تے۔۔۔ پہلاں پکساں تے فیر ترکساں۔ :)
ان کے ہاتھ میں مکمل کٹھ پُتلی نا بنتی۔
تو اس کا اور کیا مطلب ہے؟ ظاہر ہے ہر نصب شدہ حکومت کے پاس اختیارات تو ہوتے نہیں ہیں۔ اس نے وہی کرنا ہے جو اسٹیبلشمنٹ نے کروانا ہے۔ جب تک دونوں ایک پیج پر رہیں گے حکومت قائم رہی ہے۔ جہاں کہیں ان بن ہوئی وہیں غداری کے فتوے، کرپشن سکینڈلز اور حکومت یہ جا وہ جا :)
 

جاسم محمد

محفلین
اس فرق کو اگرنصب شدہ حکومت سمجھ لیتی تو ان کے ہاتھ میں مکمل کٹھ پُتلی نا بنتی۔
نجم سیٹھی کی چڑیا کہہ رہی ہے کہ آبپارہ اور لوہار کورٹس سے خلاف توقع فیصلے آنے پر خان صاحب نے مقتدر قوتوں کے سامنے بُڑ بُڑ کی ہے۔ یعنی کٹھ پتلی والا رومانس پیریڈ اختتام پزیر ہوا۔ اور یوں سول ملٹری تعلقات حسب معمول نارمل (تناؤ کا شکار) ہو گئے ہیں :)
 

فرقان احمد

محفلین
خان صاحب کو 'راہِ راست' پر رکھنے کے لیے 'اُن' کے پاس بہت کچھ ہو گا۔ دراصل اسٹیبلشمنٹ کی ایک مجبوری یہ ہوتی ہے کہ انہیں اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ بنا کر رکھنا پڑتی ہے اور یہ کام وہ ہر حکومت کے ہنی مون پیریڈ کے ختم ہوتے ہی شروع کر دیتے ہیں۔ ہماری دانست میں نئے وزیراعظم کے لیے موزوں شخصیت کی تلاش کا کام ابھی سے شروع کر دیا جائے گا۔
 
نجم سیٹھی کی چڑیا کہہ رہی ہے کہ آبپارہ اور لوہار کورٹس سے خلاف توقع فیصلے آنے پر خان صاحب نے مقتدر قوتوں کے سامنے بُڑ بُڑ کی ہے۔ یعنی کٹھ پتلی والا رومانس پیریڈ اختتام پزیر ہوا۔ اور یوں سول ملٹری تعلقات حسب معمول نارمل (تناؤ کا شکار) ہو گئے ہیں :)
نجم سیٹھی کی چڑیا سے بہت پہلے مارچ کے اوائل میں تین خبریں نکلی تھیں، لیکن پوسٹ نا کیں کہ ذرائع نے صبر کی تلقین فرمائی تھی۔ دو کی بھنبھناہٹ رات سیٹھی صاحب کے پروگرام میں سننے کو ملی۔ لگتا ہے خبروں کے متعلق 'ایک قدم آگے' کا اشارہ مل گیا ہے۔
 

لاریب مرزا

محفلین
حیرت ہے!! محترمہ کو کس کام کی بناء پر تمغہ امتیاز سے نوازا گیا ہے؟؟ ان کی اداکاری بالکل بھی جاندار نہیں ہے۔

نصیبو لال ہی شاید رہ گئی ہے پیچھے، الامان۔ :)
نصیبو لال کو تمغہ امتیاز مل جاتا تو کم از کم یہ حیرت نہ ہوتی کہ یہ بھلا کونسا "امتیازی" کام کر رہی ہیں!! :LOL:
 
Top