دائم جی
محفلین
غلام مصطفیٰ دائم ۲۰ اپریل ۱۹۹۵ء کو باغ آزاد کشمیر میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم حیدر آباد میں اور بقیہ گورنمنٹ بوائز ہائی سکول ڈھل قاضیاں ضلع باغ میں حاصل کی، بعد ازاں ۲۰۰۴ء میں ایک نیم سرکاری جامعہ میں دینی و دنیوی تعلیم کے لیے مستقل طور پر اسلام آباد میں منتقل ہو گئے۔ ان دنوں اسلام آباد ہی میں شعبہ عربی سے وابستہ کئی جامعات میں پڑھا رہے ہیں۔
غلام مصطفیٰ دائمؔ کا شمار نوجوان نسل کے ان ابھرتے ہوئے شاعروں میں ہوتا ہے جو غزل کی روایتی حرف کاری کی تھکن بھری نشست سے ذرا اوپر اٹھ کر جدید احساسِ ادراک اور شعورِ امکان کے تازہ مگر پختہ تخلیق کاروں میں گنے جاتے ہیں۔ باقاعدہ شاعری کا آغاز ۲۰۱۴ء سے کیا۔ غزلیں، نظمیں، نعتیں اور ایک مرثیہ بھی کہا۔ غزلیات اور نظموں کے مجموعے عنقریب طباعت آشنا ہوں گے جبکہ مرثیہ نگاری کی طرف ان کا میلان ابھی تازہ ہے۔ ان کی شاعری میں دقیق خیالات اور گہرے احساس کی فراوانی ازحد موجود ہے، نظموں میں بڑے کائناتی سوال اٹھانا اور بے باکی سے اپنے مافی الضمیر کی ترجمانی کرنا ان کا ایک جرأت مندانہ اسلوب ہے جو ان کے معاصر نوجوانوں میں نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔ ان کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان کے معروف شاعر دلاور علی آزر کا کہنا ہے کہ:
”غلام مصطفیٰ دائمؔ جیسے خلاق اور منفرد اسلوب کے حامل شعرا کے بارے میں ہی ہم یہ بات کہنے میں حق بہ جانب ہوتے ہیں کہ یہ شاعروں کے شاعر ہیں۔ وہ اس لیے کہ اُن کی علمی بصیرت اور تنقیدی شعور بھی اُن کی شعری آب داری میں صرف ہوتے ہیں۔ یہ انتہائی غیر معمولی تخلیقی سطح ہے جو قدرت کی طرف سے ان کو اُن کی ریاضت کے عوض خاص ودیعت کی گئی ہے۔ ان کی شاعری میں تاریخ ایسے بیان ہوتی ہے جیسے یہ کوئی بہت آسان مرحلہ ہو۔ تاریخ کی منظریاب جھلکیاں زیادہ تر اُن کی نظم اور اکثر اُن کی غزلیات کا حصہ بنتی ہیں۔ یہ امر اپنے آپ میں سراہے اور چاہے جانے کے لائق ہے۔ غلام مصطفیٰ دائمؔ تاریخ کو شعری جمالیات میں شامل کرنے کے لازوال ہنر سے مالا مال ہیں، تس پر زبان کا چونچال اور بیان کی سحر کاری لفظوں کو معنی کے ساتھ ساتھ معنویت سے بھی ملا دیتی ہے یہ کمالِ فن نہیں تو اور کیا ہے۔ مجھے ان کی شاعری اور شخصیت دونوں سے عشق ہے۔“
دائمؔ شاعری کے علاوہ مخصوص تنقیدی نظر کے حوالے سے بھی پاکستان کے معاصر تنقیدی سیلان کی نمائندہ موج خیزیوں میں اپنے حصے کا ولولہ پیدا کرنے کی سعی کرتے رہتے ہیں۔ عربی و فارسی زبانوں کی ماہرانہ صلاحیت کی وجہ سے ان کے تنقیدی درک اور تحقیقی اسلوب میں پختگی اور گہرائی پائی جاتی ہے۔ متعدد رسائل و جرائد میں ان کے تحقیقی و تنقیدی مضامین شائع ہوئے ہیں۔ شعری و علمی کتب پر دیباچے، مقدمے، تبصرے اور فلیپ وغیرہ ان کی تنقیدی بصیرت اور خود اسلوبی جوہر کی غمازی کرتے ہیں۔ اسلام آباد سے ماہانہ سخن دان کے مدیر رہے جو ۹ شماروں کے بعد بوجوہ بند کر دیا گیا ۔
(ریختہ کے اس ربط سے یہ تعارف کاپی کیا گیا ہے۔)
غلام مصطفیٰ دائمؔ کا شمار نوجوان نسل کے ان ابھرتے ہوئے شاعروں میں ہوتا ہے جو غزل کی روایتی حرف کاری کی تھکن بھری نشست سے ذرا اوپر اٹھ کر جدید احساسِ ادراک اور شعورِ امکان کے تازہ مگر پختہ تخلیق کاروں میں گنے جاتے ہیں۔ باقاعدہ شاعری کا آغاز ۲۰۱۴ء سے کیا۔ غزلیں، نظمیں، نعتیں اور ایک مرثیہ بھی کہا۔ غزلیات اور نظموں کے مجموعے عنقریب طباعت آشنا ہوں گے جبکہ مرثیہ نگاری کی طرف ان کا میلان ابھی تازہ ہے۔ ان کی شاعری میں دقیق خیالات اور گہرے احساس کی فراوانی ازحد موجود ہے، نظموں میں بڑے کائناتی سوال اٹھانا اور بے باکی سے اپنے مافی الضمیر کی ترجمانی کرنا ان کا ایک جرأت مندانہ اسلوب ہے جو ان کے معاصر نوجوانوں میں نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔ ان کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان کے معروف شاعر دلاور علی آزر کا کہنا ہے کہ:
”غلام مصطفیٰ دائمؔ جیسے خلاق اور منفرد اسلوب کے حامل شعرا کے بارے میں ہی ہم یہ بات کہنے میں حق بہ جانب ہوتے ہیں کہ یہ شاعروں کے شاعر ہیں۔ وہ اس لیے کہ اُن کی علمی بصیرت اور تنقیدی شعور بھی اُن کی شعری آب داری میں صرف ہوتے ہیں۔ یہ انتہائی غیر معمولی تخلیقی سطح ہے جو قدرت کی طرف سے ان کو اُن کی ریاضت کے عوض خاص ودیعت کی گئی ہے۔ ان کی شاعری میں تاریخ ایسے بیان ہوتی ہے جیسے یہ کوئی بہت آسان مرحلہ ہو۔ تاریخ کی منظریاب جھلکیاں زیادہ تر اُن کی نظم اور اکثر اُن کی غزلیات کا حصہ بنتی ہیں۔ یہ امر اپنے آپ میں سراہے اور چاہے جانے کے لائق ہے۔ غلام مصطفیٰ دائمؔ تاریخ کو شعری جمالیات میں شامل کرنے کے لازوال ہنر سے مالا مال ہیں، تس پر زبان کا چونچال اور بیان کی سحر کاری لفظوں کو معنی کے ساتھ ساتھ معنویت سے بھی ملا دیتی ہے یہ کمالِ فن نہیں تو اور کیا ہے۔ مجھے ان کی شاعری اور شخصیت دونوں سے عشق ہے۔“
دائمؔ شاعری کے علاوہ مخصوص تنقیدی نظر کے حوالے سے بھی پاکستان کے معاصر تنقیدی سیلان کی نمائندہ موج خیزیوں میں اپنے حصے کا ولولہ پیدا کرنے کی سعی کرتے رہتے ہیں۔ عربی و فارسی زبانوں کی ماہرانہ صلاحیت کی وجہ سے ان کے تنقیدی درک اور تحقیقی اسلوب میں پختگی اور گہرائی پائی جاتی ہے۔ متعدد رسائل و جرائد میں ان کے تحقیقی و تنقیدی مضامین شائع ہوئے ہیں۔ شعری و علمی کتب پر دیباچے، مقدمے، تبصرے اور فلیپ وغیرہ ان کی تنقیدی بصیرت اور خود اسلوبی جوہر کی غمازی کرتے ہیں۔ اسلام آباد سے ماہانہ سخن دان کے مدیر رہے جو ۹ شماروں کے بعد بوجوہ بند کر دیا گیا ۔
(ریختہ کے اس ربط سے یہ تعارف کاپی کیا گیا ہے۔)
آخری تدوین: