میرا خواب ۔۔۔سیمی ای کامرس ویب سایٹ

السلام علیکم:
محترمان محفل، جہاں تک میرے تعارف کا تعلق ہے جناب میں سیکنڈ ائیر FSc پری انجیئرنگ کا سٹوڈینٹ ہوں۔ نام ہے محمد ندیم اعظم اور عمر 17 سال
کمپیوٹر میرا شوق، میرا عشق ہے۔ یقین مانئیے، ساتویں جماعت تک میں نے کمپیوٹر کی شکل تک نہ دیکھی تھی۔ دراصل میں ایک گاؤں میں رہتا تھا جہاں کمپیوٹر تو کیا ٹیلی فون کی سہولت بھی موجود نہ تھی۔ بہرحال ساتویں کی اواخر میں ہمارا سامنا کمپیوٹر سے یوں ہوا کہ ایک دن دوست کہ گھر پارٹی پر چلے گئے ڈرائنگ روم میں ایک سفید سے ٹی وی اور اس کے ساتھ پیانو جیسے آلے کو دیکھ کر کچھ سمجھ نہ آئی، خفت سے بچنے کے لئے بولا یار ذرا اپنا یہ ٹی وی چلا کر کارٹون تو دکھاؤ۔ دراصل اس وقت ہم نئے نئے بوریولہ شہر میں منتقل ہوئے تھے۔ جواب میں ہنسی سننے کو ملی، حیرت کے اظہار پر بتایا گیا کہ یہ کمپیوٹر ہے۔ ہمارے ذہن میں جو کمپیوٹر کا خاکہ تھا سب کا سب زمین بوس ہوگیا۔ بہرحال یہ تھا کمپیوٹر کا ہمارا پہلا واسطہ۔
بعد ازاں کمپیوٹر ہمارا شوق بن گیا۔ آٹھویں جماعت میں جو سرکاری وظیفہ لگا اس کا کمپیوٹر خرید لیا۔ انٹرنیٹ کی سہولت اگرچہ گھر پر موجود نہ تھی مگر انٹرنیٹ کیفے میرے اس شوق کو پورا کرنے میں معاون ثابت ہوا
میرا شوق شروع سے ہی مختلف انفارمیٹو سائیٹس کو وزٹ کرنا اور ایجوکیشنل سایٹس سے تعلیمی مواد اکٹھا کرنا ہوتا تھا۔ دسویں میں کمپیوٹنگ فورمز سے آشنائی ہوئی۔ وہاں سے اردو محفل کا پتہ چلا۔ اور اس طرح یہ سلسلہ آگے چلا۔ دسویں کے بعد انٹرنیٹ گھر میں لگوا لیا۔
 

ملائکہ

محفلین
ویسے یہ جگہ ہے کہاں؟؟؟؟

مجھے یاد پڑتا ہے جب تیسری میں تھی تو پینٹ کھول کر اس پر تصاویر بناتی تھی:a6:
 

مغزل

محفلین
بورے والا مشہور شہر ہے ۔ بیسیوں شاعر دوست ہیں یہاں ہمارے ۔ تحسین حیدر، توقیر تقی، جاوید جویہ وغیرہ
 
جی تو

السلام علیکم:
معذرت جناب میں اپنی پوری بات مکمل نہ کرسکا۔
بہرحال اب واپس آگیا ہوں سو ٹوٹا ہوا سلسلہ دوبارہ شروع کرتا ہوں
جی تو اس طرح کمپیوٹر سے آشنائی کا سلسلہ یوں ہی آگے بڑھتا گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مہارت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اور دلچسپی بھی بتدریج بڑھتی گئی۔ اور اب تو اگرایک دن آن لائن نہ ہوں تو دن نہیں کٹتا۔ جب پچھلے سال اگست میں 20 NOP سکالرشپ کے سلسلہ میں ٹاپ 450 طلباء و طالبات کے ساتھ بیس دن کی کوچنگ کے لئے LUMS میں قیام کیا تو ہمیں Computer Lab استعمال کرنے کی اجازت نہ تھی۔ مگر 20 دن بغیر کمپیوٹر کے کاٹنا، اف اللہ تصور ہی بھیانک تھا، چناچہ امر بالمجبوری ان کے سرور کمپیوٹر کو ہیک کرنا پڑا۔ کیونکہ ان کے تمام computers ایک سرور کمپیوٹر سے کنٹرول ہوتے تھے۔ بہر حال اچھا وقت تھا۔ 100 ایم بی فی سیکنڈ سپیڈ ، موجیں تھی وہ بھی فری میں بغیر لوڈ شیڈنگ کے۔ مزا آگیا۔میں نے ادھر کوئی 5 جی بی کی ڈاؤن لوڈنگ کی ۔
دراصل فارغ وقت ہی بہت قلیل ہوتا تھا۔ مگر پھر بھی شوق پورا ہوتا رہا
 
باقی

جی تو گفتگو کا سلسلہ پھر جوڑتا ہوں
جی جناب یہ تھا میرا تعارف اب میں آپ کو اپنے خواب سے متعارف کرواے دیتا ہوں
جناب اگرچہ پچھلے کچھ سالوں میں انٹرنیٹ کے استعمال میں ہمارے ہاں‌کافی ترقی ہوئی ہے۔ کمپیوٹر، انٹرنیٹ کا استعمال کافی عام ہوچکا ہے۔ لوگ اب بہت بڑی تعداد میں سوشل سایٹس کا استعمال کرتے ہیں۔ ہر شعبہ نیٹ میں ڈویلپمنٹ دیکھی جاسکتی ہے مگر،ایک ایسا شعبہ ، جس کے بارے میں ، میرا خیال ہے کہ اس میں ہمارے ہاں رواج نہ ہونے کے برابر ہے۔
جی ہاں وہ ہے ای کامرس،
میرے خیال میں اس کی وجہ ہمارے ہاں لوگوں کی آمدنی کا محدود ہونا اور کریڈٹ کارڈز کی کم عامیت ہے۔ یعنی ہمارے ہاں لوگوں کے پاس انٹرنیٹ پر خریداری کے لیئے کارڈز نہیں ہیں ۔ عام لوگوں کی حد تک یہ بات سولہ آنے درست ہے۔
اس سلسلے میں میں چاہتا ہوں کہ سیمی ای کامرس کو فروغ دیا جائے۔ اس کے لئے میری کج فہمی کے مطابق جو نکات قابل عمل ہوسکتے ہیں اندراج کیے دیتا ہوں
 
کوئی بات نہیں حضور آپ کی اتنی تمہید میں میری طرف سے اتنا اضافہ اور سہی کہ میں نے بھی پہلی بار کمپیوٹر کی شکل آٹھویں جماعت میں دیکھی تھی وہ بھی ایک کمپیوٹر انسٹیٹیوٹ کے کانچ کے دروازے کے باہر سے۔ اور پہلی بار کمپیوٹر استعمال کیا تھا انٹرمیڈیٹ مکمل کرنے کے بعد۔ اور ذاتی کمپیوٹر تب لیا تھا جب انجنئیرنگ کے تیسرے سال میں تھا۔ اور اخیر میں یہ کہ ابھی چھ سات ماہ قبل ہی بی ٹیک مکمل کیا ہے۔
 

چاند بابو

محفلین
بورے والا مشہور شہر ہے ۔ بیسیوں شاعر دوست ہیں یہاں ہمارے ۔ تحسین حیدر، توقیر تقی، جاوید جویہ وغیرہ

اچھا اس کا مطلب ہے کہ م م مغل صاحب کے رابطے ہمارے شہر تک بھی ہیں بہت خوب مغل صاحب آپ نے جن تین افراد کے نام بتائے ہیں ان میں سے دو کو تو میں اچھی طرح جانتا ہوں اور رہے توقیر تقی صاحب ان کا مجھے علم نہیں ہے کہ کون ہیں تحسین حیدر اور جاوید حیدر جوئیہ کو میں جانتا ہوں۔ بوریوالا میں اس کے علاوہ بھی بہت سے شہرت یافتہ شاعر اور ادیب موجود ہیں جن میں عدیل حیدر، کاشف سجاد، اے غفارپاشا، رفیع تبسم، اورنگ زیب، صلاح الدین، محمود غزنی،صوفی حنیف ،بابا برکت ماڑی والا، منظور برکت، کلیم شہزاد، مرزا اختر صابری، جمیل حیدرنمایاں ہیں۔کیا آپ ان میں سے بھی کسی کو جانتے ہیں؟
 
السلام علیکم:
جی پھر واپس آئے دیتا ہوں
غالباَ کچھ لوگ معترض ہیں کہ یہ میں کیا لکھ رہا ہوں ، یہ پبلک فورم ہے ہے ذاتی بلاگ نہیں۔ شاید آپ صحیح فرمارہے ہیں۔ لیکن اس ساری تمہید کے پیچھے میرا یہ مقصد ہے کہ آپ میرے بارے میں اچھی طرح جان سکیں تاکہ میں جو آیڈیا پیش کرنے جارہا ہوں اسے سمجھنے میں آسانی ہو۔
بہرحال اختلاف کا حق آپ محفوظ رکھتے ہیں۔
 

دوست

محفلین
السلام علیکم:
جی پھر واپس آئے دیتا ہوں
غالباَ کچھ لوگ معترض ہیں کہ یہ میں کیا لکھ رہا ہوں ، یہ پبلک فورم ہے ہے ذاتی بلاگ نہیں۔ شاید آپ صحیح فرمارہے ہیں۔ لیکن اس ساری تمہید کے پیچھے میرا یہ مقصد ہے کہ آپ میرے بارے میں اچھی طرح جان سکیں تاکہ میں جو آیڈیا پیش کرنے جارہا ہوں اسے سمجھنے میں آسانی ہو۔
بہرحال اختلاف کا حق آپ محفوظ رکھتے ہیں۔
مقصد یہ تھا کہ آپ اچھا لکھ سکتے ہیں۔ آپ کے پیغامات سے لگ رہا ہے۔ تو ایک اچھا بلاگر کیوں نہ مل جائے ہمیں۔
 
شکریہ

مقصد یہ تھا کہ آپ اچھا لکھ سکتے ہیں۔ آپ کے پیغامات سے لگ رہا ہے۔ تو ایک اچھا بلاگر کیوں نہ مل جائے ہمیں۔
السلام علیکم:
بہتر جناب۔ شکریہ آپ نے مجھ ناچیز کو بھی اہمیت دی۔ بہرحال جہاں تک بلاگ شروع کرنے کا تعلق ہے تو سوچا جا سکتا ہو مگر وقت بہت قلیل ہے میرے Lums SSE کے پیپر 1 مارچ کو ہے۔ تیاری میں بہت وقت لگتا ہے۔ بہت مشکل سے وقت نکال کر ادھر آتا ہوں۔ بہر حال پیپرز کے بعد میں حاضر ہوں گا۔
 
آپ تو خوش قسمت ہیں

ویسے یہ جگہ ہے کہاں؟؟؟؟

مجھے یاد پڑتا ہے جب تیسری میں تھی تو پینٹ کھول کر اس پر تصاویر بناتی تھی:a6:
بوریوالہ کہاں ہے؟ آج تک مجھے خود معلوم نہیں۔ مگر یقین رکھیئے پاکستان میں ہی ہے۔ ایک دفعہ میری میڈم جن کا تعلق لاہور سے ہے، نے مجھ سے یہی سوال کیا ۔ میرا جواب تھا کہ آپ لاہور میں
City Terminal پر پاور کی 23-24 نمبر بس میں بیٹھیں ، ساڑھے تین، چار گھنٹوں بعد انشاءاللہ منزل پر پہنچ جایئں گے، کراچی سے مجھے معلوم نہیں۔ بہرحال شاید چاند بابو کو معلوم ہو، عزت مآب ھم شہر صاحب
کہاں ہیں، ذرا مدد کیجیے
جہاں تک آپ کا تھری کلاس میں پینٹ کرنے کا تعلق ہے تو ھم بھی اس مقابلے میں آپ سے کم نہیں، ھم بچپن میں آرٹ کے بہت دلدادہ تھے، بہرحال آپ خوش قسمت تھیں
 

مغزل

محفلین
اچھا اس کا مطلب ہے کہ م م مغل صاحب کے رابطے ہمارے شہر تک بھی ہیں بہت خوب مغل صاحب آپ نے جن تین افراد کے نام بتائے ہیں ان میں سے دو کو تو میں اچھی طرح جانتا ہوں اور رہے توقیر تقی صاحب ان کا مجھے علم نہیں ہے کہ کون ہیں تحسین حیدر اور جاوید حیدر جوئیہ کو میں جانتا ہوں۔ بوریوالا میں اس کے علاوہ بھی بہت سے شہرت یافتہ شاعر اور ادیب موجود ہیں جن میں عدیل حیدر، کاشف سجاد، اے غفارپاشا، رفیع تبسم، اورنگ زیب، صلاح الدین، محمود غزنی،صوفی حنیف ،بابا برکت ماڑی والا، منظور برکت، کلیم شہزاد، مرزا اختر صابری، جمیل حیدرنمایاں ہیں۔کیا آپ ان میں سے بھی کسی کو جانتے ہیں؟

تحسین سے پوچھ لینا میرا اور توقیر تقی کا ۔۔ بتادے گا۔
صلاح الدین صاحب سے کبھی رابطہ نہیں رہا ۔ باقی احباب کا تعارف حاصل ہے اور
ان کا کلام بھی پڑھنے سننے کو ملتا رہتا ہے ۔ خاص طور پر رفیع تبسم سے ۔
والسلام
 
السلام علیکم:
جی میں اپنی بات کو مکمل کرنے کی غرض سے اگلی کڑی پیش کیے دیتا ہوں۔
آپ جب مقامی مارکیٹ نظام کے بغور جائزہ لیتے ہیں۔تو آپ کوبآسانی یہ بات نظر آئے گی کہ اس میں بہت سی خامیاں ہیں، بالخصوص جب آپ اس کا باقی ممالک میں رائج نظاموں سے تقابل کرتے ہیں۔ میری نظر میں سب سے بڑی خامی لوگوں کا کاروبار کے سلسلے میں جدید ٹیکنالوجی کا نا اپنانا ہے۔
ہمارے ہاں لوگ کاروبار کو صرف جوں کی توں حالت میں چلاتے ہیں، کوئی نیا تجربہ نہیں کرتا، لوگوں میں سسٹمیٹک اپروچ کی نہایت کمی ہے۔
ہمارے ہاں کاروبار زیادہ تر چل چلاؤ کے طریقہ سے روا دواں ہیں۔ خاص طور پر وعدہ خلافی، ھمارے ہاں ایک سمبل بن چکی ہے۔ ایک مثال دیے دیتا ہوں
جب آپ کے ہاں کوئی الیکٹریک آلہ خراب ہوجاتا ہے تو آپ مکینک کو بلا بیجھتے ہیں، اس کا طرز عمل دیکھیئے، وعدہ کرے گا کہ انشاءاللہ صبح صادق پہنچ جاؤں گا، مگر صبح کیا ، دوپہر گزرنے کو ہے، بندہ ابھی تک نہیں آیا، پھر رابطہ کیا تو معلوم ہوا، بس ابھی پہنچ رہا ہوں ، اور یہ ابھی ابھی کرتے کرتے سارا دن گزر گیا، لیکن بندہ ندارد
اگلا دن چڑھ گیا، اور بڑی محنت سے جب تک آپ اسے آنے پر مجبور نہیں کرتے، کھینچ کر نہیں لاتے، یا فون کرکر کے بندے کا سر نہیں کھاتے ، بندہ ٹس سے مس نہیں ہوتا، پھر جب آیا تو جو چیز نہیں بھی خراب اسے بھی خراب کرکے، پیسے وصول کرے گا۔ اور جو کام کرے گا، اس میں بھی اس قدر بے ایمانی کے کل ہی خراب ہوجاوے، تاکہ اس کو پھر بلائے جائے
 
اس طرح تمام کاروبار اسی طرز کا نمونہ پیش کرتے ہیں، دوکان والا وہ آپ کو لوٹ کھانے کو دوڑے گا، رکشے والا، الغرض ہر شخص، موقع کی تلاش میں کب دوسرے کو پھنسانا ہے،
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس طریقے سے ان کا وارے نیارے ہورہے ہیں، کیا قہ خوشحال ہوگئے ہیں،
نہیں ذرا پوچھ کے دیکھیئے، ہر وقت رونا پیش کریں گے، ہر وقت شکایت کریں گے کہ بہت مشکل سے گزارا ہورہا ہے، اس قدر بے ایمانی کے باوجود ان کو خوشحالی نصیب کیوں نہیں ہوتی؟
فقط، اس لئے کہ جھوٹ اور بے ایمانی پر قائم کلچر کبھی ترقی نہیں پاتا۔
 
اس طرح تمام کاروبار اسی طرز کا نمونہ پیش کرتے ہیں، دوکان والا وہ آپ کو لوٹ کھانے کو دوڑے گا، رکشے والا، الغرض ہر شخص، موقع کی تلاش میں کب دوسرے کو پھنسانا ہے،
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس طریقے سے ان کا وارے نیارے ہورہے ہیں، کیا قہ خوشحال ہوگئے ہیں،
نہیں ذرا پوچھ کے دیکھیئے، ہر وقت رونا پیش کریں گے، ہر وقت شکایت کریں گے کہ بہت مشکل سے گزارا ہورہا ہے، اس قدر بے ایمانی کے باوجود ان کو خوشحالی نصیب کیوں نہیں ہوتی؟
فقط، اس لئے کہ جھوٹ اور بے ایمانی پر قائم کلچر کبھی ترقی نہیں پاتا۔
 
جی یہ تو تھا ہمارے ہاں مارکیٹ کلچر کا سرسری جائزہ
اب میں آتا ہوں تکنیکی پہلوؤں کی طرف، ہمارے ہوں کلائنٹس کو بالکل اہمیت نہیں دی جاتی، کاروباری حضرات کا گاہکوں سے رویہ بالکل بھی معیاری نہیں ہوتا، استحصال کا بازار گرم ہوتا، ان کی عزت نفس کا بھی احترام نہیں کیا جاتا، اور کوئی ایسا نہ بھی کرے تو گاہکوں کو ٹرخانے کا رواج عام ہے، وقت پر کام مکمل نہیں کیا جاتا، حیلے بہانوں سے کام چلایا جاتا ہے۔
اس سے کاروبار پر لوگوں کا اعتماد قائم نہیں رہ پاتا، لوگ اس لئے نوکریوں کی طرف بھاگتے ہیں، وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ وسلم نے فرمایا تھا کہ 90 فیصد دولت کاروبار(تجارت( میں ہے۔
دراصل کاروبار میں اصولوں کی پیروی ضرورت ہوتی ہے۔ دیکھ لیجیئے اگر آج مائکروسوفٹ کمپیوٹر انڈسٹری میں سرفہرست ہے، تو اس کی وجہ ان کہ بزنس پالیسی ہے، انہوں نے کلائنٹس کو بہت ترجیح دی، ان کے فیڈ بیک کو اہمیت دی اور آج وہ ایک کمپنی تھرڈ ورلڈ کے تمام ممالک کی اکانومی سے بڑی اکانومی کی مالک ہے اس کا Ceo دنیا کا امیر ترین آدمی ہے
آخر ہمارے ہاں یہ چیز کیوں نہیں ہے؟
کیا آپ اس کا جواب دے سکتے ہیں؟
 
جی یہ تو تھا ہمارے ہاں مارکیٹ کلچر کا سرسری جائزہ
اب میں آتا ہوں تکنیکی پہلوؤں کی طرف، ہمارے ہوں کلائنٹس کو بالکل اہمیت نہیں دی جاتی، کاروباری حضرات کا گاہکوں سے رویہ بالکل بھی معیاری نہیں ہوتا، استحصال کا بازار گرم ہوتا، ان کی عزت نفس کا بھی احترام نہیں کیا جاتا، اور کوئی ایسا نہ بھی کرے تو گاہکوں کو ٹرخانے کا رواج عام ہے، وقت پر کام مکمل نہیں کیا جاتا، حیلے بہانوں سے کام چلایا جاتا ہے۔
اس سے کاروبار پر لوگوں کا اعتماد قائم نہیں رہ پاتا، لوگ اس لئے نوکریوں کی طرف بھاگتے ہیں، وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ وسلم نے فرمایا تھا کہ 90 فیصد دولت کاروبار(تجارت( میں ہے۔
دراصل کاروبار میں اصولوں کی پیروی ضرورت ہوتی ہے۔ دیکھ لیجیئے اگر آج مائکروسوفٹ کمپیوٹر انڈسٹری میں سرفہرست ہے، تو اس کی وجہ ان کہ بزنس پالیسی ہے، انہوں نے کلائنٹس کو بہت ترجیح دی، ان کے فیڈ بیک کو اہمیت دی اور آج وہ ایک کمپنی تھرڈ ورلڈ کے تمام ممالک کی اکانومی سے بڑی اکانومی کی مالک ہے اس کا Ceo دنیا کا امیر ترین آدمی ہے
آخر ہمارے ہاں یہ چیز کیوں نہیں ہے؟
کیا آپ اس کا جواب دے سکتے ہیں؟
 
کوئی بات نہیں حضور آپ کی اتنی تمہید میں میری طرف سے اتنا اضافہ اور سہی کہ میں نے بھی پہلی بار کمپیوٹر کی شکل آٹھویں جماعت میں دیکھی تھی وہ بھی ایک کمپیوٹر انسٹیٹیوٹ کے کانچ کے دروازے کے باہر سے۔ اور پہلی بار کمپیوٹر استعمال کیا تھا انٹرمیڈیٹ مکمل کرنے کے بعد۔ اور ذاتی کمپیوٹر تب لیا تھا جب انجنئیرنگ کے تیسرے سال میں تھا۔ اور اخیر میں یہ کہ ابھی چھ سات ماہ قبل ہی بی ٹیک مکمل کیا ہے۔
جناب ہمارا آپ سے کیا مقابلہ، لیکن آپ نے تو آٹھویں میں دیکھا مگر آپ کی آٹھویں تو میرے ساتویں سے پہلے ہی ہوگی، کیوں کیاغلط بولا؟ بہرحال آپ نے انجیئرنگ کس چیز میں کی ہے؟ ہمیں بھی بتائے کیونکہ آپ کے تجربہ ہی ہمارے لئے نقش قدم ثابت ہوگا۔
 
بورے والا مشہور شہر ہے ۔ بیسیوں شاعر دوست ہیں یہاں ہمارے ۔ تحسین حیدر، توقیر تقی، جاوید جویہ وغیرہ

جناب آپ درست فرماتے ہیں کہ یہ ایک مشہور شہر ہے، لیکن یقین مانئے کہ آپ نے جب شعراء کا ذکر فرمایا ، میں‌ان میں سے کسی بھی نہیں جانتا، بلکہ کبھی ان کو پڑھنا تو ایک طرف ان کا نام بھی نہیں سنا، اسے کہتے ہیں چراغ تلے اندھیرا
بہرحال اس کی اصل وجہ ھماری نئی نسل کی بزرگوں سے لاتعلقی ہے، قصور کس کا یہ آپ بہتر جانتے ہیں! لیکن ہم کسی ایک کو دوش نہیں دے سکتے۔
 
Top