میرا شہر منگورہ۔

جیہ

لائبریرین
لئیق احمد اور حاتم راجپوت کے اصرار پر

منگورہ پر ایک نظر

منگورہ ضلع سوات کا سب سے بڑا ، مرکزی شہر۔ ضلعے کا صدر مقام

دریائے سوات کے دائیں کنارے پر آباد صرف ۶ مربع کلومیٹر ایریا مگر آبادی چار لاکھ سے زاید

چاروں طرف پہاڑوں سے گھرا ہوا۔ پہاڑ کبھی سرسبز جنگل تھے ۔ اب ایک تہائی آبادی ان پہاڑوں پر آباد۔

سڑکیں تنگ اور پر بیچ ۔ سڑکیں بنانے میں کوئی پلاننگ دکھائی نہیں دیتی۔ ان سڑکوں پر روازانہ تیس ہزار غیر رجسٹرڈ رکشے اور بیس ہزار غیر قانونی (نان کسٹم پیڈ ) گاڑیاں قانون کے سینے پر مونگ دلتی دھندناتی دوڑتی ہیں۔ اور قسم کی گاڑیاں مستزاد

مشہور بازاروں میں مین بازار، نیو روڈ ، تاج چوک، سہراب چوک اور مکان باغ شامل ہیں۔ مین بازار مصروف ترین اور تنگ ترین بازار ہے۔ انارکلی لاہور کی یاد دلاتی ہے۔ بینک سکوئر مین بازار میں ہے جہاں تقریبا ہر ملکی اور غیر ملکی بینکوں کی شاخیں ہیں۔

مکان باغ جدید ترین بازار ہے۔ اب لوگ گلی کوچوں میں مکانات گرا کر دھڑادھڑ دکان اور مارکیٹ بنا رہے ہیں۔

منگورہ کو اگر مسجدوں کا شہر کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، ایک ایک گلی میں دو دو تین مساجد ہیں اور بلامبالغہ آباد مساجد ہیں۔ ہمارے گھر کے پچھواڑے میں مسجد تو گھر کے دروازے کے بالکل سامنے مسجد۔ یہاں تک گھر کے دائیں طرف ۱۰۰ قدم پر مسجد تو بائیں جانب ۱۵۰ قدم پر مسجد موجود ہے۔ ہمارے گھر کے سامنے جو مسجد ہے اس کی تاریخی حیثیت ہے جسے میں لکھنا نہیں چاہتی کہ بقول غالب ۔۔۔۔۔۔میرے پتے سے خلق کو کیوں تیرا گھر ملے

منگورہ تاریخی شہر ہے۔ تاریخ ۲۰۰۰ ہزار سال سے پرانی ہے۔ بدھ مت ، ہندو مت کے سنہرے دور دیکھ چکا ہے۔ یہاں سکندر مقدونی ، محمود غزنوی اور بابر کے قدم پڑ چکے ہیں۔ یہ شہر بابر کا سسرال ہے۔ یوسفزئی کے ملک احمد کی صاحبزادی بی بی مبارک بابر کی دلہن تھیں۔

ایک روایت کے مطابق سکندر مقدونی کی بیوی رکھسان، رخسانہ یا روشنک منگورہ کے نواحی قصبے بریکوٹ سے تعلق رکھتی تھی۔

منگورہ کے قابل دید مقامات زیادہ تر منگورہ تا سیدو شریف روڈ پر واقع ہیں۔

پشاور سے منگورہ پہنچ کر آپ سہراب چوک پر آتے ہیں، سہراب چوک سے نشاط چوک تک سیدھی سڑک جی ٹی روڈ کہلاتی ہے۔ نشاط چوک کے ساتھ ہی مین بازار اور تاریخی مسجد امان اللہ واقع ہیں۔

نشاط چوک سے دائیں طرف سیدو شریف روڈ شروع ہوتا ہے۔ سب سے پہلے دوائیوں کے دکان ہیں۔ اس کے بعد منگورہ خوڑ (برساتی نالا) کا پل ہے جو ریاستی وقت میں غالبا ۱۹۲۶ میں بنا تھا۔ اب تک صحیح سلامت ہے۔ اس کے ساتھ ہی منگورہ پولیس سٹیشن کی جدید عمارت اور ساتھ ہی میونسپل دفاتر ہیں جو کہ ایک سبزہ زار مین واقع ہیں۔اسی سبزہ زار میں پبلک لائبریری بھی ہے۔ متصل ہی مکان باغ چوک اور مکان باغ کا جدید بازار ہے۔ اس کے ساتھ ہی بینکوں کی عمارتوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو کہ گراسی گراؤند کے سامنے تک رہتا ہے۔

گراسی گراؤنڈ کھیلوں کا میدان ہے۔ یہاں فٹ بال گراونڈ، ہاکی گراونڈ اور جدید کرکٹ سٹیڈیم ہیں۔ اس کے ساتھ ہی سکواش کورٹ، ٹینس کورٹ والی بال کورٹ واقع ہیں۔ یہ سارے سہولیات ریاستی دور کی یادگار ہیں۔

گراسی گراونڈ کے ساتھ ہی جدید پبلک لائبریری کی جدید اور دلکش عمارت ہے۔ لائبریری کے سامنے ایک سڑک گل کدہ جاتی ہے ۔ یہاں سب سے پہلے ضلع کچہری اور عدالتیں ہیں جو ایک چاردیواری میں بند ہیں۔اس کے بعد سرکاری گیسٹ ہاوس ہے۔ اس کے بعد تقریبا آدھ کلومیٹر پر بت کڑہ یا بت کدہ کے تاریخی آثار ہیں جو ایک در اصل بدھ مت کے وقتوں کی یونیورسٹی اور اقامت گاہ تھی۔ اس کے بعد مکانات ہیں بھر بت کڑہ نمبر ۲ کے آثار ہیں اور ایک کلومٹر کے بعد بت کڑہ نمبر تین کے بدھ آثار ہیں۔

اب آتے ہیں واپس گراسی گراونڈ کے سامنے۔ گلکدہ روڈ کے متصل میوزیم کی عمارت ہے جس میں سوات کے قیمتی بدھ اور ہندو آثار موجود ہیں۔ میوزیم کے سامنے واپڈا دفاتر اور اس کے متصل جانوروں کا ہسپتال ہے۔ اس کے بعد جدید میڈکل سنٹر وں کا ایک سلسلہ شروع ہوتا ہے جو کہ سنٹرل ہسپتال کے سامنے تک واقع ہیں۔

اس کے سامنے سڑک پر سوات یونی ورسٹی کی عمارت ہے اور اسی کے سامنے گرلز ڈگری کالج ہے جو کہ میری مادر علمی ہے۔ سوات یونیورسٹی کے پیچھے گرلز ہائی سکول کی خوب صورت عمارت ہے۔

سنٹرل ہسپتال کے ساتھ ہی سیدو شریف شروع ہوتا ہے جو کہ پہلے ایک گاوں تھا اب منگورہ کا حصہ ہے۔ سنٹرل ہسپتال سے ۱۰۰ فٹ کے فاصلے پر جہانزیب پوسٹ گریجویٹ کالج کی تاریخی عمارت ہے جو انگریزی حرف ای کے شکل میں بنی ہے۔ اس کے سامنے سڑک کے دوسری طرف سائنس بلاک ہے ۔ سائنس بلاک کے متصل ودودیہ ہال ہے ۔ یہ سب ریاستی دور کی یاد گار ہیں۔

اس ہال کے ساتھ ہی ہاسٹلز کا ایک سلسلہ ہے اور ساتھ ہی کالج کالونی کی جدید بستی آباد ہے۔

ودودیہ ہال کے ساتھ ہی سوات سرینا ہوٹل ہے جو کہ در اصل ریاستی دور کا وزیر اعظم ہاوس تھا ۔ اس کے سامنے کلمہ چوک ہے ۔ کلمہ چوک کے ساتھ ہی پی ٹی ڈی سی ہوٹل اور سیدو میڈکل کالج اور سیدو شریف ہسپتال موجود ہے۔

÷÷÷÷÷÷ شاید دوسری قسط بھی آجائے ÷÷÷÷÷÷÷
 
بے حد معلوماتی تحریر ہے جویریہ بٹیا۔ ویسے اس میں بیان کردہ خاص خاص مقامات کی تصویریں بھی شامل کی جا سکیں تو لطف دوبالا ہو سکتا ہے۔ :) :) :)
 

جیہ

لائبریرین
دوسری اور آخری قسط


تو جناب جنوب کے جانب منگورہ کی سیر ہوگئی اب چلتے مشرق کی طرف

ہم نشاط چوک سے سیدو شریف روڈ کے طرف مڑ گئے تھے۔ اب اسی نشاط چوک سے سیدھا چلتے ہیں ۔ تقریباً ۲۰۰ قدم کے فاصلے پر مین بازار پہنچتے ہیں۔ مین بازار ریاستی دور میں منگورہ کا واحد بازار تھا اب بھی اس کی مرکزی حیثیت بہ حال ہے۔ یہاں پر ہر قسم کا کاروبار ہوتا ہے۔ کیا جیولری شاپس کیا کپڑے کی، الیکٹرانکس کی دکانیں ۔۔۔ یہاں تک کہ چوہے مار دوائی بھی یہاں سے مل سکتی ہے۔ :) جمعے کے دن یہاں جمعہ بازار لگتا ہے۔ اور ہر مال دس روپے سے لے کر ۱۰۰ روپے کا کوٹ، پچاس روپے کی جرسی یہاں پر لے سکتے ہیں وہ بھی امپورٹڈ ۔ بس گوروں کی استعمال شدہ۔ :)

مین بازار ڈاکخانہ روڈ سے شروع ہو کر ڈاک خانہ روڈ پر ہی ختم ہوتا ہے ۔ مین بازار سیدھا ہے اور ڈاکخانہ روڈ نیم دائرے کی شکل میں۔ دونوں مل کر انگریزی حرف ڈی بناتے ہیں۔ اس ڈی میں مین بازار کے متوازی میرا پسندیدہ بازار صرافہ بازار ہے۔ اسی ڈی کے بیچ منگورہ کا سب سے پرانا محلہ ہے جو اولین والئیِ سوات کے نام پربادشاہ صاب چم کہلاتا ہے۔

ڈاکخانہ روڈ یہاں کا سب سے مظلوم بازار ہے۔ پہلے یہ ڈاک خانہ ہوا کرتا تھا تو یہ ڈاکخانہ روڈ کہلاتا تھا۔ ڈاکخانہ یہاں سے شفٹ ہوا تو یہ روڈ پرانا ڈاک خانہ روڈ کہلانے لگا۔ اب یہاں دوبارہ ڈاک خانہ بن گیا ہے تو اب ترقی کر کے پوسٹ آفس روڈ بن گیا ہے۔

ڈاکخانہ روڈ کے ایک سرے پر مین بازار کے ساتھ ایک دوسرا چوک ہے جو حاجی چوک اس واسطے کہلاتا ہے کہ اس سے ایک روڈ حاجی بابا روڈ کے نام سے حاجی بابا کے علاقے جاتی ہے۔ حاجی بابا چوک کے نزدیک ہی لڑکیوں کا ہائی سکول ہے۔ اور حاجی بابا میں لڑکوں کا ہائر سیکنڈری سکول واقع ہے۔ حاجی بابا میں ایک بزرگ حاجی بابا کا مزار ہے۔ حاجی بابا سے ایک سڑک گنبد میرہ کے نام سے جاتی ہے جو آگے جا کر ڈاک خانہ روڈ سے مل کر ایک دائرہ نما شکل بناتی ہے۔ اسی دائرے کے اندر منگورہ کا سب سے بڑا محلہ ‘رنگ محلہ‘ واقع ہے۔ ۔

ڈاکخانہ روڈ پر اگر آگے جائیں تو ہم تاج چوک اور مدین روڈ پہنچ جاتے ہیں۔ یہ روڈ پر سوات کے سیاحتی مقام مدین جاتی ہے ۔ مدین روڈ پر ہی شاہ درہ جو منگورہ کا نواحی علاقہ ہے، واقع ہے۔ شاہد رہ سے آگے زمرد کان محلہ ہے۔ یہی پر ایک پہاڑ میں زمرد کی کان ہے۔ یہاں کی زمرد دنیا بھر میں اچھی کوالٹی کا مانا جاتا ہے اور یہ کان ریاستی دور میں واحد ذریعۂ آمدن تھا۔ شاہ درہ سے مدین روڈ مدین تک دریائے سوات کے کنارے چلتی ہے۔ شاہدرہ سے ایک کلومیٹر آگے منگورہ کا فضا گٹ پارک واقع ہے جو دریائے سوات پر بنا ہے۔ فضاگٹ پارک کے آس پاس درجنوں ہوٹل ہیں۔ ان دنوں تو خاص کاروبار نہیں ہوتا مگر گرمیوں میں یہاں کمرہ ملنا محال ہوتا ہے۔ ۲۰۱۳ کے سیاحتی سیزن میں یہاں ریکارڈ سیاح سوات سیر کرنے آئے تھے۔

فضاگٹ کے پاس ہی منگورہ کا پوش علاقہ حیات آباد واقع ہے جو کہ دریائے سوات کے کنارے آباد ہے۔حیات آباد سے ایک بائی پاس روڈ دریا کنارے مغربی جانب نوے کلے کی طرف جاتی ہے۔ نوے کلے ایک گاوں تھا ۔اب منگورہ کا حصہ ہے۔ نویکلے سے ہم ائرپورٹ روڈ پہنچ جاتے ہیں۔ ائر پورٹ روڈ پر جنوب کی طرف واپس سفر کرکے گرین چوک پہنچ جاتے ہیں۔ گرین چوک سے ہم نیو روڈ پر پہنچ جاتے ہیں۔ نیو روڈ بھی مصروف ترین بازاروں میں سے ایک ہے۔ نیو روڈ پر چل کر ہم واپس سہراب چوک پر پہنچ جاتے ہیں۔ سہراب چوک وہی چوک ہے جہاں سے ہم نے منگورہ کی سیر شروع کی تھی اور یوں ہم سارا منگورہ دیکھ چکے۔
 

جیہ

لائبریرین
بے حد معلوماتی تحریر ہے جویریہ بٹیا۔ ویسے اس میں بیان کردہ خاص خاص مقامات کی تصویریں بھی شامل کی جا سکیں تو لطف دوبالا ہو سکتا ہے۔ :) :) :)
سعود بھائی۔ یہ مضمون انتہائی عجلت میں لکھا۔ تصاویر کے لئے کل سے تلاش شروع کی جائے گی۔
:):)
 

نایاب

لائبریرین
تشکر بھیا۔ دوسری قسط حاضر ہے
بہت شکریہ بہت دعائیں میری محترم بٹیا
آپ کی تحریر نے برسوں پرانے مناظر تازہ کردیئے ۔ بہت سادگی کے ساتھ اک گنجان مقام کو تفصیلی بیان کیا ۔
25 سال گزر گئے ۔۔۔ اب جانے کیسی فضا و ماحول ہے حاجی بابا صاحب کے مزار کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
 

نایاب

لائبریرین
میں بھی آخری دفعہ 21 سال پہلے سوات گیا تھا
عرس میلے کے شوقین رہے ہم ۔ 1988 میں آخری عرس محترم پیر بابا صاحب بونیر میں شرکت کا موقع ملا تھا ۔ اس کے بعد سعودی عرب کا صحرا نصیب ہوگیا ۔۔۔۔۔
آپ کس سلسلے میں گئے تھے ۔۔۔۔۔۔؟
 

عثمان

محفلین
چپلی کباب اور بڑے بڑے افغانی نانوں کا تذکرہ کیا جائے۔ :)
انیس برس پہلے جب منگورہ گیا تھا تو مجھے تو ہر ہوٹل میں یہ دو سوغاتیں ضرور دکھائی دیں۔ :)
 
Top