میریاں راتاں چانن چانن، نھیرے اوہناں ملے نیں - نیرنگ خیال

نیرنگ خیال

لائبریرین
پنجابی غزل مع اُردُو ترجمہ
میریاں راتاں چانن چانن، نھیرے اوہناں ملے نیں نیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نسبت میری نال حسین دے، شمر اوہناں دے ولے نیں نیں۔۔۔۔۔۔۔
اوہ ہتھ جیہڑے رُکھاں وانگوں دھُپاں نوں ڈک لیندے سن سن۔۔۔۔۔۔۔
رُت ڈھلی تے اکھیں ڈِٹھا، ہاڑ چ سڑدے کلے نیں نیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ظالم اپنی ہِک دے زور تے، راجے نہیں جے بن جاندے جاندے۔۔۔۔۔۔۔
بُزدِل اوہناں دے ہتھ پیر نیں، اوہناں نال جو رلے نیں نیں۔۔۔۔۔۔۔۔
اک بِرہا دا مچدا بھانبڑ، دوجی چُلھے بُجھدی لاٹ لاٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکلاپے تے بھُکھ نے ساڈے دونویں پاسے ملے نیں نیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جھڑدے پتر وگدے اتھرو ایہو گل سمجھاندے نیں نیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نیں
پتر جد کھِنڈن تے آوندے، کھِنڈنوں کدی نہ ٹلے نیں نیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ذوالقرنین (نیرنگ خیال)​
میری راتیں روشن روشن ، اُن کے پاس اندھیرے ہیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
نسبت میری حسین سے ہے ، وہ ساتھ شمر کے رہتے ہیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ہاتھ جو پیڑوں کے مانند دھوپ میں سایا کرتے تھے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رُت بدلی تو کیا دیکھا وہ دھوپ میں تنہا جلتے ہیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کب خلق پہ راج کیا کرتے ہیں ظالم اپنی طاقت سے سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُن کا زور تو وہ بزدل ہیں جو بازو بن جاتے ہیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آگ بھڑکتی بِرہا کی ، اور آنچ ہے بُجھتے چولھے کی کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تنہائی اور بھوک نے دونوں جانب گھیرے ڈالے ہیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جھڑتے پتے ، بہتے آنسو بات یہی سمجھاتے ہیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پتے جھڑنے پر آجائیں تو ہر حال میں جھڑ کر رہتے ہیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ظہیر احمد ظہیر
واہ۔۔۔ آپ نے کیسے کتاب کی صورت اس کو لکھا۔۔۔ کمال
 
واہ۔۔۔ آپ نے کیسے کتاب کی صورت اس کو لکھا۔۔۔ کمال

ان شاء اللہ جب اِس طرح لکھنے پر عبور ہوجائے گا تو ضرور شیئر کروں گا، نین بھیا۔ دوسرے آپ کی غزل بہت خوبصورت ہے اور برکتی بھی کیونکہ کافی دنوں سے باکسز میں مساوی اسپیسنگ کے جو تجربے کررہا تھا وہ آج کسی حد تک کامیابی کے پاس پاس پہنچے ہیں مگر جب اِسے جواب یا اقتباس کے لیے نقل کرتے ہیں تو ترتیب بگڑ جاتی ہے گویامجھے ابھی مزید مشق کرنا ہوگی۔۔۔
ظہیر بھائی کا ترجمہ ظاہر ہے ایک کہنہ مشق ،کارآزمودہ اور ماہر ِ فن کا ترجمہ ہے ، اُن کی محبت، وسعتِ قلبی ،کشادہ نظری ، لیاقت اور بلندی ٔ فکر تعارف کی محتاج ہے نہ اُن کی ذاتِ بابرکات ستائش کی طلبگار ۔ رب کریم اُن جیسے لائق اساتذہ کو سلامت رکھے ، یہی لوگ محفل کی آن بان شان ہیں ، خدا کرے محفل کی آن بان شان ہمیشہ قائم رہے ، آمین۔​
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
غزل
ذوالقرنین نیرنگؔ
میریاں راتاں چانن چانن، نھیرے اوہناں ملے نیں نیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نسبت میری نال حسین دے، شمر اوہناں دے ولے نیں نیں۔۔۔۔۔۔۔
اوہ ہتھ جیہڑے رُکھاں وانگوں دھُپاں نوں ڈک لیندے سن سن۔۔۔۔۔۔۔
رُت ڈھلی تے اکھیں ڈِٹھا، ہاڑ چ سڑدے کلے نیں نیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ظالم اپنی ہِک دے زور تے، راجے نہیں جے بن جاندے جاندے۔۔۔۔۔۔۔
بُزدِل اوہناں دے ہتھ پیر نیں، اوہناں نال جو رلے نیں نیں۔۔۔۔۔۔۔۔
اک بِرہا دا مچدا بھانبڑ، دوجی چُلھے بُجھدی لاٹ لاٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکلاپے تے بھُکھ نے ساڈے دونویں پاسے ملے نیں نیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جھڑدے پتر وگدے اتھرو ایہو گل سمجھاندے نیں نیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پتر جد کھِنڈن تے آوندے، کھِنڈنوں کدی نہ ٹلے نیں نیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ
ظہیراحمدظہیؔر
میری راتیں روشن روشن ، اُن کے پاس اندھیرے ہیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
نسبت میری حسین سے ہے ، وہ ساتھ شمر کے رہتے ہیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ہاتھ جو پیڑوں کے مانند دھوپ میں سایا کرتے تھے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رُت بدلی تو کیا دیکھا وہ دھوپ میں تنہا جلتے ہیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کب خلق پہ راج کیا کرتے ہیں ظالم اپنی طاقت سے سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُن کا زور تو وہ بزدل ہیں جو بازو بن جاتے ہیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آگ بھڑکتی بِرہا کی ، اور آنچ ہے بُجھتے چولھے کی کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تنہائی اور بھوک نے دونوں جانب گھیرے ڈالے ہیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جھڑتے پتے ، بہتے آنسو بات یہی سمجھاتے ہیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پتے جھڑنے پر آجائیں تو ہر حال میں جھڑ کر رہتے ہیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت عمدہ اور اعلی ظہیر بھائی۔۔ ۔۔ ایک چھوٹا سا معاملہ۔۔۔ وہ یہ کہ آخری شعر کے مصرعہ ثانی میں ، میں نے پُتر یعنی بیٹے کا استعمال کیا ہے بہ نسبت پَتر یعنی پتے کے۔۔۔
بہت شکریہ ، نین بھائی !
پنجابی شاعری اچھی خاصی سمجھ میں آجاتی ہے لیکن مشکل الفاظ سمجھنے کے لیے سیاق و سباق کا سہارا لینا پڑتا ہے ۔ میں پَتر اور پُتر میں تمیز نہیں کرسکا۔ ذہن اس طرف گیا ہی نہیں۔ اب تصحیح کردیتا ہوں۔ ویسے یہ اردو ترجمہ کم ، ترجمانی زیادہ ہے ۔ لفظی ترجمے سے گریز کیا میں نے۔
آپ کی اس غزل میں متعدد الفاظ میرے لیے نئے تھے۔ چنانچہ اپنے ایک پنجابی دوست ڈاکٹر گونڈل سے فون کنسلٹیشن کرنا پڑی۔ :) ۔ ڈاکٹر صاحب شاعری کا اعلیٰ ذوق رکھتے ہیں اور میاں محمد بخش کی شاعری سے بہت لگاؤ ہے انہیں۔ انہوں نے رہنمائی فرمائی ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ایک دولفظوں پر وہ بھی اٹکے اورتصدیق کے لیے اپنی بیگم سے پوچھا۔ :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
یہ ربط دیا جائے۔۔۔۔ ویسے آپ کی پنجابی سمجھ بوجھ بھی لاجواب ہے۔۔۔۔
والد کے بارے میں آپ کا شعر پڑھ کر کچھ احساسات اور یادیں جاگ اٹھی تھیں ۔ اور پھر آپ کی مندرجہ بالا پوری غزل پڑھ کر بے اختیار جی چاہا کہ اس کا اردو ترجمہ کیا جائے۔ چند سال پہلے چوہدری عبدالقیوم صاحب نے ارشاد سندھو کی ایک غزل پوسٹ کی تھی ۔ اُس غزل میں بھی کم و بیش وہی مضامین تھے کہ جو آپ کی اس غزل میں ہیں ۔ وہ غزل دراصل ایک غریب بیٹی کی طرف سے اپنے باپ کے نام خطابیہ ہے ۔ وہ بے ساختہ خطابیہ دل کے تار مرتعش کرگیا ۔ وہ ترجمہ محولہ بالا لڑی ہی میں موجود ہے۔
اپنی ایک پرانی بات یہاں پھر دہراؤں گا کہ شاعری سمجھنے کی نہیں بلکہ محسوس کرنے کی چیز ہوتی ہے۔ چنانچہ بعض اوقات کسی ایسی زبان کی شاعری کہ جس پر آپ کو پورا عبور بھی نہ ہو آپ کے احساسات کو جگا دیتی ہے ۔ دل میں اتر جاتی ہے۔ یہی کامیاب شاعری کی علامت ہے!
پشتو ، براہوی ، اطالوی ، فرانسیسی اور پرتگالی زبانوں میں بالکل بھی نہیں ہوتا ہے
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین

نیرنگ خیال

لائبریرین
بہت شکریہ ، نین بھائی !
محبت تو آپ کی ہے ظہیر بھائی۔۔۔۔ اس ذرے کے لیے یہ پذیرائی بہت ہے۔

پنجابی شاعری اچھی خاصی سمجھ میں آجاتی ہے لیکن مشکل الفاظ سمجھنے کے لیے سیاق و سباق کا سہارا لینا پڑتا ہے ۔ میں پَتر اور پُتر میں تمیز نہیں کرسکا۔ ذہن اس طرف گیا ہی نہیں۔ اب تصحیح کردیتا ہوں۔ ویسے یہ اردو ترجمہ کم ، ترجمانی زیادہ ہے ۔ لفظی ترجمے سے گریز کیا میں نے۔
میری اتنی سوچ اور علم نہیں کہ آپ سے کلام کر سکوں۔۔۔ لیکن اس نکتے پر میری ناقص رائے میں پتے اور بیٹے کا معاملہ نہ تھا کہ میں نے خود ان کو ایک ہی مفہوم میں استعمال کیا ہے۔ تاہم تخریب اور جھڑنے میں وہی فرق ہے جو خارجی اور داخلی کیفیات کا ہوتا ہے۔ ایسا مجھے لگتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ زیادہ گہرائی میں جا کر یہ بھی ایک ہی ہوجاتے ہوں۔
آپ کے ترجمے کی خوبصورتی میں کوئی کلام نہیں۔۔۔۔ مجھے آپ کی پنجابی سوجھ بوجھ نے ورطہ حیرت میں مبتلا کر دیا تھا۔

آپ کی اس غزل میں متعدد الفاظ میرے لیے نئے تھے۔ چنانچہ اپنے ایک پنجابی دوست ڈاکٹر گونڈل سے فون کنسلٹیشن کرنا پڑی۔ :) ۔ ڈاکٹر صاحب شاعری کا اعلیٰ ذوق رکھتے ہیں اور میاں محمد بخش کی شاعری سے بہت لگاؤ ہے انہیں۔ انہوں نے رہنمائی فرمائی ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ایک دولفظوں پر وہ بھی اٹکے اورتصدیق کے لیے اپنی بیگم سے پوچھا۔ :)
ارے واہ۔۔۔۔ کیا بات ہے۔۔۔ وہ تو بہت مشکل شاعری ہے۔۔۔ کماااال۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

نیرنگ خیال

لائبریرین
والد کے بارے میں آپ کا شعر پڑھ کر کچھ احساسات اور یادیں جاگ اٹھی تھیں ۔ اور پھر آپ کی مندرجہ بالا پوری غزل پڑھ کر بے اختیار جی چاہا کہ اس کا اردو ترجمہ کیا جائے۔ چند سال پہلے چوہدری عبدالقیوم صاحب نے ارشاد سندھو کی ایک غزل پوسٹ کی تھی ۔ اُس غزل میں بھی کم و بیش وہی مضامین تھے کہ جو آپ کی اس غزل میں ہیں ۔ وہ غزل دراصل ایک غریب بیٹی کی طرف سے اپنے باپ کے نام خطابیہ ہے ۔ وہ بے ساختہ خطابیہ دل کے تار مرتعش کرگیا ۔ وہ ترجمہ محولہ بالا لڑی ہی میں موجود ہے۔
آپ نے لنک درست نہیں دیا۔ مجھے خود ہی ڈھونڈنا پڑے گی۔

اپنی ایک پرانی بات یہاں پھر دہراؤں گا کہ شاعری سمجھنے کی نہیں بلکہ محسوس کرنے کی چیز ہوتی ہے۔ چنانچہ بعض اوقات کسی ایسی زبان کی شاعری کہ جس پر آپ کو پورا عبور بھی نہ ہو آپ کے احساسات کو جگا دیتی ہے ۔ دل میں اتر جاتی ہے۔ یہی کامیاب شاعری کی علامت ہے!
صد فیصد متفق۔۔۔ میں خود بھی یہی کہتا ہوں کہ شعر لمحہ ہوتا ہے۔۔۔۔ آہنگ اگر مل گیا تو موسیقیت سنائی دے گی۔ ورنہ نہیں۔۔۔۔ ایسا اکثر ہوتا ہے کہ ایک شعر ایک کیفیت میں مزا نہیں دیتا اور کسی اور دن کسی اور ہی خیال میں طبیعت کو سرشار کرتا ہے۔
اس کیفیت کو بہت زیادہ تو نہیں، مگر کم کم بیان کرتا میرا ایک شعر
اک دوجے وال تکیا ہس پئے
ٹُوٹیا رباب تے میں
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
میری اتنی سوچ اور علم نہیں کہ آپ سے کلام کر سکوں۔۔۔
کیا اردو محفل پر کسرِ نفسی کا عالمی مقابلہ چل رہا ہے؟! :unsure:
لیکن اس نکتے پر میری ناقص رائے میں پتے اور بیٹے کا معاملہ نہ تھا کہ میں نے خود ان کو ایک ہی مفہوم میں استعمال کیا ہے۔ تاہم تخریب اور جھڑنے میں وہی فرق ہے جو خارجی اور داخلی کیفیات کا ہوتا ہے۔ ایسا مجھے لگتا ہے۔
متفق! آپ کے توجہ دلانے کے بعد غور کیا تو معلوم ہو گیا کہ جھڑن اور کھنڈن کے الفاظ مفہوم کی ادائیگی میں کلیدی حیثیت کے حامل ہیں ۔
ارے واہ۔۔۔۔ کیا بات ہے۔۔۔ وہ تو بہت مشکل شاعری ہے۔۔۔ کماااال۔۔۔۔
تین دہائیوں تک رات دن انگریزی ہی سے واسطہ پڑے تو اردو اور پنجابی وغیرہ کند ہو ہی جاتی ہیں ۔
چنانچہ کسی لفظ پر اٹک جائیں تو بیگم کی تصدیق ضروری ہوجاتی ہے کہ وہ روزانہ ایک دو گھنٹے تو فون پر پاکستان ۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ
:):):)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
کیا اردو محفل پر کسرِ نفسی کا عالمی مقابلہ چل رہا ہے؟! :unsure:
کہاں پر چل رہا ہے۔۔۔۔ کیا ساکنان کوچہ کو اس سے باہر رکھنا مغرور عناصر کی چالبازی ہے؟

متفق! آپ کے توجہ دلانے کے بعد غور کیا تو معلوم ہو گیا کہ جھڑن اور کھنڈن کے الفاظ مفہوم کی ادائیگی میں کلیدی حیثیت کے حامل ہیں ۔
:devil3: میں کامیاب ہوگیا۔۔۔ آپ کو پریشان کرنے میں۔۔۔ ہوہوہوہوہو

تین دہائیوں تک رات دن انگریزی ہی سے واسطہ پڑے تو اردو اور پنجابی وغیرہ کند ہو ہی جاتی ہیں ۔
چنانچہ کسی لفظ پر اٹک جائیں تو بیگم کی تصدیق ضروری ہوجاتی ہے کہ وہ روزانہ ایک دو گھنٹے تو فون پر پاکستان ۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ
یہ تو ہے۔۔۔۔
 
Top