سید عاطف علی
لائبریرین
شکریہ حسان ۔ آداب
آپ کی توجہ کا ۔شکریہ کس بات کا ؟
آپ کی توجہ کا ۔
خوبصورت خوبصورت۔ کیا بات ہے۔زنقص ِتشنہ لبی داں بعقل ِ خویش مناز
تجھ پاس ہے جو چیز، وہ گل پاس نہیں ہے
وہ رنگ نہیں اس میں وہ بوُ باس نہیں ہے
لب لعلِ بدخشاں ہیں تو آنکھیں ہیں زمرُّد
طرّے کو ترے حاجت ِ الماس نہیں ہے
ہے خون ِ تمنّا سے مزیّن مرا نامہ
گوحاشیہ زیبائی ءِ قرطاس نہیں ہے
کیوں کر ہو بیاں لذّتِ اشک ِ شب ِ مہجور
اس کا کوئی پیمانہ ؤ مقیاس نہیں ہے
اک خواب میں مستور ہے دنیا کی حقیقت
اس بات کا ہم کو مگر احساس نہیں ہے
نازاں ہے سرابوں کا طلسمات سمجھ کر!
ناداں ہے ابھی تو ! کہ تجھے پیاس نہیں ہے
کہتے ہو کہ دنیا ہے یہ امید پہ قائم !
یہ وعدہءِ موہوم ہمیں راس نہیں ہے
ہر شب ہے شب ِ قدر تجھے قدر اگر ہو
" ہر دم دمِ عیسی ہے تجھے پاس نہیں ہے "
۔۔۔
سید عاطف علی
×××××××××××××××××××××××××××××
دلت فریب گر از جلوہ ءِ سراب نخورد-عرفی
نازاں ہے سرابوں کا طلسمات سمجھ کر!
ناداں ہے ابھی تو ! کہ تجھے پیاس نہیں ہے-ماخوذ
بہت بہت شکریہ و آداب خلیل بھائی ۔واہ ، کیا کہنے ، زبردست شاہ صاحب
صد آداب صدیق امین بھائی ۔ اور بہت سا شکریہ ۔واہ ، کیا کہنے ، زبردست شاہ صاحب
اعلیٰ، بہت خوبکیوں کر ہو بیاں لذّتِ اشک ِ شب ِ مہجور
اس کا کوئی پیمانہ ؤ مقیاس نہیں ہے
کیا کہنے۔۔۔ مزا آگیا۔۔۔ لیکن ایسی لڑکی کہاں سے لائیں جس کو یہ شعر سنائیں اور وہ سمجھ بھی جائے۔۔۔ یعنی سنانے کا لطف آئے۔۔۔لب لعلِ بدخشاں ہیں تو آنکھیں ہیں زمرُّد
طرّے کو ترے حاجت ِ الماس نہیں ہے
آہا۔۔۔۔ کیا بات ہے سیدی۔۔۔ اعلینازاں ہے سرابوں کا طلسمات سمجھ کر!
ناداں ہے ابھی تو ! کہ تجھے پیاس نہیں ہے
یہ مصرعہ بھی ایک فارسی شعر سے ٹکرا رہا ہے شاید جامی کا ہےہر شب ہے شب ِ قدر تجھے قدر اگر ہو
نین جی۔ از حد ممنون ہوں مع اس مشورے کے کہ۔ ایسی لڑکیاں اب تک نانیاں دادیاں بن چکی ہوں گی۔ اس کام کے لیے کوئی اور غزل تلاش کیجیے۔ مثلا ۔ میں کان کا بندا یا ہاتھ کا کنگن ہوتا وغیرہ۔لیکن ایسی لڑکی کہاں سے لائیں جس کو یہ شعر سنائیں اور وہ سمجھ بھی جائے
کیا نہیں ہے گل پاس۔۔۔۔تجھ پاس ہے جو چیز، وہ گل پاس نہیں ہے
۔چند تازہ اشعار تغزل کے پیش ہیں ۔
چھٹا شعر عرفی شیرازی کے ایک فارسی شعر سے ماخوذ ہے ۔۔ اور آخری مصرع خواجہ میر درد کی تضمینی بندش ہے۔
تجھ پاس ہے جو چیز، وہ گل پاس نہیں ہے
وہ رنگ نہیں اس میں وہ بوُ باس نہیں ہے
لب لعلِ بدخشاں ہیں تو آنکھیں ہیں زمرُّد
طرّے کو ترے حاجت ِ الماس نہیں ہے
ہے خون ِ تمنّا سے مزیّن مرا نامہ
گوحاشیہ زیبائی ءِ قرطاس نہیں ہے
کیوں کر ہو بیاں لذّتِ اشک ِ شب ِ مہجور
اس کا کوئی پیمانہ ؤ مقیاس نہیں ہے
اک خواب میں مستور ہے دنیا کی حقیقت
اس بات کا ہم کو مگر احساس نہیں ہے
نازاں ہے سرابوں کا طلسمات سمجھ کر!
ناداں ہے ابھی تو ! کہ تجھے پیاس نہیں ہے
کہتے ہو کہ دنیا ہے یہ امید پہ قائم !
یہ وعدہءِ موہوم ہمیں راس نہیں ہے
ادراک کی سرحد سے میں خود لوٹ کے آیا
اب یوں نہ کہو حد کا مجھے پاس نہیں ہے
امید اجابت ہے جو یہ ہاتھ جڑے ہیں
کاسہ مرا مجبورئ افلاس نہیں ہے
ہر شب ہے شب ِ قدر تجھے قدر اگر ہو
" ہر دم دمِ عیسی ہے تجھے پاس نہیں ہے "
۔۔۔
سید عاطف علی
بصد آداب و تشکر علوی صاحب، آپ کی پذیرائی نہایت قیمتی ہے۔بہت خوب ، عاطف صاحب ! ماشاء اللہ ! نہایت نفیس غزل ہے . مبارک ہو .
آداب و تشکر فہد بھائی۔واہ عاطف بھائی کیا استادانہ غزل ہے۔