ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
بھئی آپ اپریل ۲۰۱۴ کی اس غزل کو ڈھونڈ کر سرِ فہرست لے آئے اور اس طرح ہمیں بھی پڑھنے کا موقع دیا ۔ اس لئے آپ کا شکریہ واجب ہوا ۔میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا محترم ظہیر صاحب!!
نوید خان
بھئی آپ اپریل ۲۰۱۴ کی اس غزل کو ڈھونڈ کر سرِ فہرست لے آئے اور اس طرح ہمیں بھی پڑھنے کا موقع دیا ۔ اس لئے آپ کا شکریہ واجب ہوا ۔میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا محترم ظہیر صاحب!!
آپ بھی بہت استاد ہیں حضرت! شکریہ اور دعا کے فوراً بعد مجھ پر استاد ہونے کا الزام بھی لگادیا ۔ بھائی میں تو آپ ہی کی طرح شعر و ادب کا شائق ہوں ۔ بس عمر میں ذرا بڑا ہوں تو کیا ہوا ۔ انکل وغیرہ بیشک کہہ لیجئے مجھے لیکن اور کچھ نہ کہیئے ۔آپ کے اس شکریہ کا بھی بہت شکریہ۔ اللہ پاک آپ کو صحت و سلامتی عطا کریں اور شاد و آباد رکھیں۔ آپ سب محترم اساتذہ کی وجہ سے ہی تو یہ محفل آباد ہے۔
ایک قاری اور ادب کا مشتاق ہونے کے ناطے آپ جیسے محترم شاعروں کے اشعار سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ اسی ناطے آپ ہمارے ہر لحاظ سے استاد ہوئے اور استاد ہی رہیں گے۔ انکل تو اور بھی بہت ہیں لیکن استاد کی عزت و احترام کا ایک اپنا مقام ہے جس سے آپ بخوبی واقف ہیں۔آپ بھی بہت استاد ہیں حضرت! شکریہ اور دعا کے فوراً بعد مجھ پر استاد ہونے کا الزام بھی لگادیا ۔ بھائی میں تو آپ ہی کی طرح شعر و ادب کا شائق ہوں ۔ بس عمر میں ذرا بڑا ہوں تو کیا ہوا ۔ انکل وغیرہ بیشک کہہ لیجئے مجھے لیکن اور کچھ نہ کہیئے ۔
انتہائی ممنون ہوں وارث بھائی۔لاجواب، کیا خوبصورت غزل ہے، واہ واہ واہ
ظہیر بھائی آپ کی محبت و شفقت کا کوئی جواب نہیں۔واہ واہ !! بہت خوب عاطف بھائی ! کیا بات ہے ! یہ آپ ہی کے مضامین ہیں ! بہت داد آپ کیلئے!!
یہ غزل پڑھوانے کیلئے نوید خان صاحب کا بہت شکریہ !
آداب محمد احمد بھائی ۔ آپ کو پسند آئی ۔ سو کاوش وصول ہائی ۔ہمیشہ شاد رہیں ۔واہ واہ خوبصورت اشعار !
حیرت ہے کہ یہ غزل ہم نے اب دیکھی!
بہت شکریہ و آداب علی امان صاحب۔واہ! واہ!
میں آپ کی صلاحیت سے متاثر ہوا۔
ہوگئے گو شکستہ مرے بال و پر
آسماں کو ملی ان سے رفعت مگر
حاصل ِکاوش ِ اہل ِعلم و ہنر
جو ہوا بے خبر وہ ہوا با خبر
راز سینے میں ایسا ہے میرے جسے
ڈھونڈتے ہیں شب و روز شمس و قمر
زہد ِ زاہد رہا قیدِ دستار میں
قیس و فرہاد و وامق ہوے در بدر
آبلوں سے جنوں کو ملا حوصلہ
کتنی ہی منزلیں بن گئیں رہگزر
گفتگو تھی تصور میں تجھ سے فقط
ہمنوا ہوگئے کیوں یہ برگ و شجر
فرصتِ زندگی کا تماشا یہی
غور سے دیکھ لے کو ئی رقص ِشرر
ہو صدائے سگا ں گو وفا کاشعار
ہے فقیری کا مشرب مگر درگزر
شکریہ فاخر رضا بھائی ۔آداب ۔سلامت رہیں ۔
بہت شکریہ محمّد احسن سمیع :راحل: بھائی ممنون ہوں فیاضانہ پذیرائی پہ ۔سلامت رہیں ۔سبحان اللہ، بہت خوب۔ ایک لمحے کو ایسا لگا کہ اقبالؔ کا کلام پڑھ رہا ہوں
دعاگو،
راحلؔ۔
واہ۔۔۔ کیا خوب غزل ہے۔زہد ِ زاہد رہا قیدِ دستار میں
قیس و فرہاد و وامق ہوے در بدر
حالانکہ "غزل" پر آپ کی گہری نگاہ ہے۔حیرت ہے کہ یہ غزل ہم نے اب دیکھی!
پس نوشت: کچھ اشعار کے بارے میں راقم کو یہ گماں ہے کہ عام قاری کی ان کے مفہوم تک رسائی ممکن نہ ہوسکے گی۔ اگر ایسا ہے تو یہ خاکسار عام زبان میں مفہوم سب تک پہنچانے کا ذمہ اپنے کاندھوں پر لینے کو تیار ہے۔