میری باتیں

ناعمہ عزیز

لائبریرین
میری باتیں کے نام سے میرا بلاگ ہے ، اور اب یہ دھاگہ بھی ایک بلاگ ہی ہے :) یہاں میں بونگیاں لکھا کروں گی جیسے میں اپنے بلاگ پر لکھتی ہوں ، اگر کسی کو سمجھ نا آئیں تو اس کا قصور ہے میرا نہیں ،
اگر آپ کو میری بات سمجھ میں آ جائے تو آپ سمجھ جائیں کہ آپ ابنارمل ہیں ۔
اگر نا آئیں تو میں یہی اس بات کی ضمانت ہے کہ آپ نارمل انسان ہیں :p
یہاں بس میں نے اپنی باتیں کرنی ہیں ، آپ یہاں کمنٹ کر سکتے ہیں ، میری بات سے اختلاف کر سکتے ہیں ، میری باتوں پر تنقید کر سکتے ہیں ۔ پر اس کے بعد اگر میں نے آپ کی ایسی تیسی کر دی تو میرا ذمہ لوٹ پوٹ۔
اس لئے بجائے اس کے ، کہ مجھے کہنا پڑے
حد ادب
گستاخ
آپ پہلے ہی ادب کی حدوں کو قائم رکھئے :p حلیم گفتگو فرمائیے، امن کے ساتھ آئیے ، خاموشی کے ساتھ پڑھیے ، اور اپنی ٹانگوں پر واپس جانے کا عہد کیجیے :tongue:
 

شمشاد

لائبریرین
تمہیں ابھی تک یہی نہیں معلوم کہ تم کون ہو؟

اور اس وقت تم باورچی خانے میں کھڑی ہو تو تمہیں گول گول کالی مرچوں کی تلاش ہے۔
 

عمر سیف

محفلین
میری باتیں کے نام سے میرا بلاگ ہے ، اور اب یہ دھاگہ بھی ایک بلاگ ہی ہے :) یہاں میں بونگیاں لکھا کروں گی جیسے میں
.............................................................................................................................................................
آپ پہلے ہی ادب کی حدوں کو قائم رکھئے :p حلیم گفتگو فرمائیے، امن کے ساتھ آئیے ، خاموشی کے ساتھ پڑھیے ، اور اپنی ٹانگوں پر واپس جانے کا عہد کیجیے :tongue:
وہ کیسے ؟؟
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
ہمارا آج کا سٹیٹس

انسان اگر اندر سے ٹوٹ جائے تو تعمیر حیات کی کتابیں مدد نہیں کر سکتی

بڑا عجیب سا فلسفہ ہے ، پر آسان بھی ہے ، سمجھنا اتنا مشکل نہیں لگتا، کہتے ہیں تلوار کا زخم جسم پر لگتا ہے ، اور باتوں کا روح پر ، باتیں محسوس کی جاتی ہیں، او رہمیشہ کی جاتیں ہیں ، نا بُری باتیں بھلائی جاسکتی ہیں ، نا اچھی باتیں بھلائی جاسکتی ہیں ، باتیں بھی وہ جو بہت اپنے کہیں ، نہیں بلکہ لگا دیں ، تو زیادہ دُکھ ہوتا ہے، دراصل باتیں ہی انسان کو اندر سے توڑنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ،
میں سمجھتی ہوں کہ زندگی گزارنے کے لئے انسان کو زندگی کا احساس چاہئے ، اور جب اسے وہ احساس اپنے اردگرد سے نہیں ملتا تب بھی وہ ٹوٹ جاتا ہے ،
یا ایک انسان عروج کی بلندیوں کو چھو رہا ہو اور ایک دم سے نیچے آگرے تب بھی ٹوٹ جاتا ہے،
یا پھر امیدیں انسان کو توڑتی ہیں ، وہ امیدیں جو ہم اپنوں سے یا لوگوں سے وابسطہ کرتے ہیں۔
 

میر انیس

لائبریرین
ہمارا آج کا سٹیٹس



بڑا عجیب سا فلسفہ ہے ، پر آسان بھی ہے ، سمجھنا اتنا مشکل نہیں لگتا، کہتے ہیں تلوار کا زخم جسم پر لگتا ہے ، اور باتوں کا روح پر ، باتیں محسوس کی جاتی ہیں، او رہمیشہ کی جاتیں ہیں ، نا بُری باتیں بھلائی جاسکتی ہیں ، نا اچھی باتیں بھلائی جاسکتی ہیں ، باتیں بھی وہ جو بہت اپنے کہیں ، نہیں بلکہ لگا دیں ، تو زیادہ دُکھ ہوتا ہے، دراصل باتیں ہی انسان کو اندر سے توڑنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ،
میں سمجھتی ہوں کہ زندگی گزارنے کے لئے انسان کو زندگی کا احساس چاہئے ، اور جب اسے وہ احساس اپنے اردگرد سے نہیں ملتا تب بھی وہ ٹوٹ جاتا ہے ،
یا ایک انسان عروج کی بلندیوں کو چھو رہا ہو اور ایک دم سے نیچے آگرے تب بھی ٹوٹ جاتا ہے،
یا پھر امیدیں انسان کو توڑتی ہیں ، وہ امیدیں جو ہم اپنوں سے یا لوگوں سے وابسطہ کرتے ہیں۔
بہت اچھی اور فلسفیانہ باتیں کی ہیں تم نے ۔ مولا علی(س) فرماتے ہیں انسان دھوکہ نہیں دیتے ان سے وابستہ امیدیں دھوکہ دیتی ہیں۔ اسکا آسان حل میرے نزدیک یہ ہے کہ جس طرح ہم ہر کام کی چیز کو جب اپنے مقام پر اور اپنی جگہ رکھتے ہیں تو کبھی پریشان نہیں ہوتے پریشان تب ہی ہوتے ہیں جب ہم اسکو اسکے معیار کے حساب سے یا اسکی مخصوص خاصیت کے حساب سے اسکو جگہ نہیں دیتے۔ اگر ہم ہر انسان کو اسکی مخصوص فطرت کے حساب سے اپنے دل میں جگہ دیں تو کبھی مایوسی نہیں ہوگی یعنی کسی سے توقعات رکھتے ہوئے ہم کو اسکی مخصوص فطرت کو دیکھنا ہوگا اور اسکو اسی حساب سے ایک خاص جگہ پر رکھنا ہوگا پھر ہم کو کبھی مایوسی نہیں ہوگی کیوںکہ ہم کبھی کسی کم ظرف سے امید ہی نہیں رکھیں گے
 

میر انیس

لائبریرین
حد ہوگئی ناعمہ اتنی اچھی باتیں کرتے کرتے اس دھاگے کا بھی تم وہی حشر کر رہی ہو ۔ تم نے کہا تھا کہ اسکو میرا بلاگ سمجھا جائے ۔ بلاگ میں چھیڑ چھاڑ نہیں ہوتی
 

نایاب

لائبریرین
کون ہوں میں !
کس کی ہے مجھے تلاش!
یہ وہ سوال ہے ۔ جو حساس دل و دماغ کی حامل ایسی ہستیوں کی روح میں جنم لیتا ہے جو کہ جذبہ " انس " سے سرشار ہوتی ہیں اور ان کا وجدان و خیال ان کو اس جواب کی تلاش میں دیوانہ وار مصروف کر دیتا ہے اور اسی سوال کے جواب کی تلاش میں سرگرداں ہستیاں بزبان خلق " پاگل دیوانہ "کے خطاب سے سرفراز ہوتی ہیں ۔
اور جب ان کی سچی نیت کے ساتھ ان کی دیوانہ وار یہ تلاش اپنی منزل تک پہنچتے جواب سے سرفراز ہوتی ہے ۔ تو یہی زبان خلق جس نے انہیں " پاگل و دیوانے " کا خطاب دیا ہوتا ہے ۔ وہی زبان خلق انہیں " مصلح و پیغمبر " کے خطاب سے نوازتی ہے ۔
" جس نے اپنے آپ کو جان لیا اس نے حق سچ کو پہچان لیا "
 
Top