میری دوسری غزل -

فرخ منظور

لائبریرین
بے طلب ہم کو جو کرے سیراب
ایسا دریا کہاں، سحاب کہاں

مکتبِ عشق "مِیں" گیا ہی نہیں
تجھ سے ملنے کی مجھ میں تاب کہاں


بہت خوب سخنور صاحب،

نذرانہء تحسین حاضرِ خدمت ہے۔۔۔ قبول کیجے۔

مخلص
محمد احمد

بہت بہت شکریہ محمد احمد صاحب! قبلہ آپ کے تعارف کے دھاگے میں میں نے پوچھا تھا کہ آپ کے پسندیدہ شعرا کونسے ہیں - براہِ مہربانی ضرور بتائیے گا -
 

آصف شفیع

محفلین
فرخ صاحب کی یہ غزل پہلی غزل سے بہتر ہے اور اس میں انہوں نے شعر نکالے ہیں۔
مطلع :
حباب کا تعلق دریا سے ہوتا ہے صحرا سے نہیں۔ چونکہ بات سراب کی ہو رہی ہے اور سراب پانی ہی لگتا ہے اس لیے شاید سراب کے پانی سے حباب کشی کی گئی ہے۔ لیکن میرے خیال میں سراب میں پانی کے عکس کے باوجود حباب کا نقشہ نہیں بنتا۔ ( احباب سے رائے درکار ہے)۔ دوسرے مصرعے میں "دیکھے" کی "ے " بری طرح گر رہی ہے۔ دیکھ پڑھا جا رہا ہے۔
دوسرا، تیسرا اور چوتھا شعر کوئی خاص نہیں ہیں۔ ان کو تو نکال ہی دینا چاہئیے۔
پانچواں شعر خوب ہے
چھٹا شعر بھی اچھا ہے۔ بلکہ نیا خیال ہے کہ محبوب سے ملنے کی تاب پیدا کرنے کیلیے مکتبِ عشق جانا ضروری ہے
ساتویں شعر پر اس لیے اعتراض ہو سکتا ہے کہ وہ کتاب تو بہرحال موجود ہے اور اس کی حفاظت کا ذمہ خود باری تعالی نے اٹھا رکھا ہے۔
آٹھواں شعر مناسب ہے
نواں شعر بھی ٹھیک ہے ۔ ویسے ذکرِ یار کرنے سے کون اٹھ کر گیا اٹھ کر گیا ( دوسرا محبوب!!!۔ ۔۔۔ ۔۔۔)
ارے مقطع سے تو لگتا ہے بہہہہہہت سے محبوب ہیں ۔ بہت سے عشق کیے جناب نے۔ اتنے محبوب مبارک ہوں۔ مگر آپ تو مکتبِ عشق گئے ہی نہیں!!!!!! ٹھیک کہا نا! اور پکڑے گئے۔۔۔،
 

فرخ منظور

لائبریرین
اتنی عرق ریزی سے جائزہ لینے کے لئے بہت بہت شکریہ آصف صاحب۔۔ جہاں تک اشعار کے مطالب کا تعلق ہے ان کی تشریح و معانیٰ نکالنا قارئین پر چھوڑتا ہوں۔ :)
 

جیہ

لائبریرین
اور جناب حاضر ہے اس غذل کی مزاحیہ تشریح


فرخ سے پیشگی معافی چاہتی ہوں

________________________________________
دل کے صحرا میں اب حباب کہاں
تشنگی دیکھے ہے سراب کہاں

شاعر کا دل اتنا وسیع ہے جتنا کہ صحرا ہوتا ہے۔ اور صحر بھی صحرائے اعظم کہ اس میں حباب ہوتے ہیں اور نہ احباب۔ شاعر چونکہ روزے سے ہیں تو پیاس کے مارے سراب کے پیچھے بھاگ رہا ہے

جو کہا میں نے "ہے حجاب کہاں؟"
مجھ سے بولیں کہ "اب شباب کہاں"

اس شعر میں لگتا ہے شاعر کی ملاقات محبوبہ سے کافی سالوں بعد ہو گئی ہے۔۔۔ اب وہ پانچ پوتوں کی دادی ہے۔ ظاہر ہے اس وقت وہ شباب کہاں کہ پردے کا اہتمام ہو اور نہ وہ اتنی بد صورت تھی کہ بد صورتی چھپانے کے لئے اس عمر میں پردہ کرتی۔

اک نگہ میں ہی جو کرے گھائل
تیری تیغوں میں ایسی آب کہاں

محبوبہ اپنے ساتھ تیغوں کا پشتارا لئے پھرتی ہے اور جس کی طرف دیکھتی ہے اس پر وار کرتی ہے۔ مگر شاعر چونکہ ہر وقت زرہ بکتر پہنے ہوئے پھرتے ہیں تو اس پر تیغوں کا اثر نہیں ہوتا

جس کو دیکھوں تو چاہتا جاؤں
ایسا نکھرا مگرشباب کہاں

شاعر کا مزاج بچپن سے عاشقانہ ہے مگر ہر ایرے غیرے کو خاطر میں کب لاتے ہیں اکثر خوباں کی فرمائش یہ کہہ کر رد کر لیتے ہیں ۔ کہ یہ منہ اور مسور کی دال

بے طلب ہم کو جو کرے سیراب
ایسا دریا کہاں، سحاب کہاں

شاعر کو مانگنے سے چڑ ہے اس لئے بضد ہیں کہ دریا خود میرے پاس آکر میرے پاؤں دھو لے۔ سحاب بیچاری اس کا دل رکھنے کو پل بھر برس جاتی ہے مگر دریا شاعر کو خاطر میں نہیں لاتا۔

مکتبِ عشق "مِیں" گیا ہی نہیں
تجھ سے ملنے کی مجھ میں تاب کہاں



جس کو پڑھ کر سبھی کو ہو ایقاں
میرے مولا ہے وہ کتاب کہاں

در اصل شاعر پڑھا لکھا نہیں تو بہانے بناتا ہے کہ میں اس وجہ سے مکتب نہیں گیا کہ وہاں مولا بخش سے ڈر لگتا تھا ۔ مکتب سکول کو کہتے ہیں اور عشق تو صرف مصرعے کا وزن پورا کرنے کے لئے لائے ہیں ۔
نیز یہ بھی ایک بہانہ ہے کہ مکتب میں ایسی کوئی کتاب نہیں کہ اس کو پڑھ کر علم کے ساتھ ساتھ ایقان بھی حاصل ہو

ماورا کردے دو جہاں سے مجھے
تیری آنکھوں میں‌ وہ شراب کہاں

یہاں پھر بے چاری محبوبہ پر برس رہے ہیں کہ یہ کیسی چائے بنائی ہے کہ میری طبیعت اچھی نہ کی۔ یہاں شراب اپنے لغوی معنوں میں لائے ہیں یعنی پینے کی چیز


یونہی ہم نے تھا ذکرِ یار کیا
چل دئیے روٹھ کر جناب کہاں

لگتا ہے یہاں رقیب (یعنی اصلی عاشق کہ رقیب تو شاعر ہوتا ہے کہ جسے محبوبہ گھاس نہیں ڈالتی) کو چھیڑ رہے ہیں اور رقیب ناتواں و بے طاقت اور شاعر ماشاء اللہ ہٹا کٹا۔ تو رقیب کو بھاگتے ہی بنی


کیا بتاؤں کہ کتنے عشق کیے
میرے فرخ ابھی حساب کہاں

اس شاعر میں شاعر کی ڈائری گم ہونے کی شکایت ہے باقی شعر صاف ہے۔۔۔ یعنی معنئ شعر فی البطن شاعر نہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اور جناب حاضر ہے اس غذل کی مزاحیہ تشریح


فرخ سے پیشگی معافی چاہتی ہوں

________________________________________
دل کے صحرا میں اب حباب کہاں
تشنگی دیکھے ہے سراب کہاں

شاعر کا دل اتنا وسیع ہے جتنا کہ صحرا ہوتا ہے۔ اور صحر بھی صحرائے اعظم کہ اس میں حباب ہوتے ہیں اور نہ احباب۔ شاعر چونکہ روزے سے ہیں تو پیاس کے مارے سراب کے پیچھے بھاگ رہا ہے

جو کہا میں نے "ہے حجاب کہاں؟"
مجھ سے بولیں کہ "اب شباب کہاں"

اس شعر میں لگتا ہے شاعر کی ملاقات محبوبہ سے کافی سالوں بعد ہو گئی ہے۔۔۔ اب وہ پانچ پوتوں کی دادی ہے۔ ظاہر ہے اس وقت وہ شباب کہاں کہ پردے کا اہتمام ہو اور نہ وہ اتنی بد صورت تھی کہ بد صورتی چھپانے کے لئے اس عمر میں پردہ کرتی۔

اک نگہ میں ہی جو کرے گھائل
تیری تیغوں میں ایسی آب کہاں

محبوبہ اپنے ساتھ تیغوں کا پشتارا لئے پھرتی ہے اور جس کی طرف دیکھتی ہے اس پر وار کرتی ہے۔ مگر شاعر چونکہ ہر وقت زرہ بکتر پہنے ہوئے پھرتے ہیں تو اس پر تیغوں کا اثر نہیں ہوتا

جس کو دیکھوں تو چاہتا جاؤں
ایسا نکھرا مگرشباب کہاں

شاعر کا مزاج بچپن سے عاشقانہ ہے مگر ہر ایرے غیرے کو خاطر میں کب لاتے ہیں اکثر خوباں کی فرمائش یہ کہہ کر رد کر لیتے ہیں ۔ کہ یہ منہ اور مسور کی دال

بے طلب ہم کو جو کرے سیراب
ایسا دریا کہاں، سحاب کہاں

شاعر کو مانگنے سے چڑ ہے اس لئے بضد ہیں کہ دریا خود میرے پاس آکر میرے پاؤں دھو لے۔ سحاب بیچاری اس کا دل رکھنے کو پل بھر برس جاتی ہے مگر دریا شاعر کو خاطر میں نہیں لاتا۔

مکتبِ عشق "مِیں" گیا ہی نہیں
تجھ سے ملنے کی مجھ میں تاب کہاں



جس کو پڑھ کر سبھی کو ہو ایقاں
میرے مولا ہے وہ کتاب کہاں

در اصل شاعر پڑھا لکھا نہیں تو بہانے بناتا ہے کہ میں اس وجہ سے مکتب نہیں گیا کہ وہاں مولا بخش سے ڈر لگتا تھا ۔ مکتب سکول کو کہتے ہیں اور عشق تو صرف مصرعے کا وزن پورا کرنے کے لئے لائے ہیں ۔
نیز یہ بھی ایک بہانہ ہے کہ مکتب میں ایسی کوئی کتاب نہیں کہ اس کو پڑھ کر علم کے ساتھ ساتھ ایقان بھی حاصل ہو

ماورا کردے دو جہاں سے مجھے
تیری آنکھوں میں‌ وہ شراب کہاں

یہاں پھر بے چاری محبوبہ پر برس رہے ہیں کہ یہ کیسی چائے بنائی ہے کہ میری طبیعت اچھی نہ کی۔ یہاں شراب اپنے لغوی معنوں میں لائے ہیں یعنی پینے کی چیز


یونہی ہم نے تھا ذکرِ یار کیا
چل دئیے روٹھ کر جناب کہاں

لگتا ہے یہاں رقیب (یعنی اصلی عاشق کہ رقیب تو شاعر ہوتا ہے کہ جسے محبوبہ گھاس نہیں ڈالتی) کو چھیڑ رہے ہیں اور رقیب ناتواں و بے طاقت اور شاعر ماشاء اللہ ہٹا کٹا۔ تو رقیب کو بھاگتے ہی بنی


کیا بتاؤں کہ کتنے عشق کیے
میرے فرخ ابھی حساب کہاں

اس شاعر میں شاعر کی ڈائری گم ہونے کی شکایت ہے باقی شعر صاف ہے۔۔۔ یعنی معنئ شعر فی البطن شاعر نہیں۔

واہ واہ واہ، کیا پُر لطف تشریح لکھی ہے جیہ، لاجواب!

لیکن آپ سے شکایت یہ کہ ہاتھ کچھ "ہلکا" رکھ گئی ہیں، نہ جانے کیوں :)
 

جیہ

لائبریرین
شکریہ وارث / آپ کی شکایت بے جا ہے کیوں کہ اگر ہاتھ ہلکا نہ رکھتی تو مجھ پر بھاری پڑٹا
 

فرخ منظور

لائبریرین
شکریہ وارث / آپ کی شکایت بے جا ہے کیوں کہ اگر ہاتھ ہلکا نہ رکھتی تو مجھ پر بھاری پڑٹا

ایسی کوئی بات نہیں ۔ آپ ہاتھ ہلکا نہ رکھیِں اور وارث صاحب سے بھی گذارش ہے کہ اگر ان کے ذہن میں کوئی تشریح ہے تو وہ بھی ضرور تحریر کریں۔ :)
 

جیا راؤ

محفلین
مکتبِ عشق "مِیں" گیا ہی نہیں
تجھ سے ملنے کی مجھ میں تاب کہاں

یونہی ہم نے تھا ذکرِ یار کیا
چل دئیے روٹھ کر جناب کہاں



واہ جناب۔۔۔ بہت خوبصورت غزل ہے۔۔۔۔ :)
ڈھیر ساری داد قبول فرامائیے۔۔۔ :)
 

جیا راؤ

محفلین
اور جناب حاضر ہے اس غذل کی مزاحیہ تشریح


فرخ سے پیشگی معافی چاہتی ہوں

________________________________________
دل کے صحرا میں اب حباب کہاں
تشنگی دیکھے ہے سراب کہاں

شاعر کا دل اتنا وسیع ہے جتنا کہ صحرا ہوتا ہے۔ اور صحر بھی صحرائے اعظم کہ اس میں حباب ہوتے ہیں اور نہ احباب۔ شاعر چونکہ روزے سے ہیں تو پیاس کے مارے سراب کے پیچھے بھاگ رہا ہے

جو کہا میں نے "ہے حجاب کہاں؟"
مجھ سے بولیں کہ "اب شباب کہاں"

اس شعر میں لگتا ہے شاعر کی ملاقات محبوبہ سے کافی سالوں بعد ہو گئی ہے۔۔۔ اب وہ پانچ پوتوں کی دادی ہے۔ ظاہر ہے اس وقت وہ شباب کہاں کہ پردے کا اہتمام ہو اور نہ وہ اتنی بد صورت تھی کہ بد صورتی چھپانے کے لئے اس عمر میں پردہ کرتی۔

اک نگہ میں ہی جو کرے گھائل
تیری تیغوں میں ایسی آب کہاں

محبوبہ اپنے ساتھ تیغوں کا پشتارا لئے پھرتی ہے اور جس کی طرف دیکھتی ہے اس پر وار کرتی ہے۔ مگر شاعر چونکہ ہر وقت زرہ بکتر پہنے ہوئے پھرتے ہیں تو اس پر تیغوں کا اثر نہیں ہوتا

جس کو دیکھوں تو چاہتا جاؤں
ایسا نکھرا مگرشباب کہاں

شاعر کا مزاج بچپن سے عاشقانہ ہے مگر ہر ایرے غیرے کو خاطر میں کب لاتے ہیں اکثر خوباں کی فرمائش یہ کہہ کر رد کر لیتے ہیں ۔ کہ یہ منہ اور مسور کی دال

بے طلب ہم کو جو کرے سیراب
ایسا دریا کہاں، سحاب کہاں

شاعر کو مانگنے سے چڑ ہے اس لئے بضد ہیں کہ دریا خود میرے پاس آکر میرے پاؤں دھو لے۔ سحاب بیچاری اس کا دل رکھنے کو پل بھر برس جاتی ہے مگر دریا شاعر کو خاطر میں نہیں لاتا۔

مکتبِ عشق "مِیں" گیا ہی نہیں
تجھ سے ملنے کی مجھ میں تاب کہاں



جس کو پڑھ کر سبھی کو ہو ایقاں
میرے مولا ہے وہ کتاب کہاں

در اصل شاعر پڑھا لکھا نہیں تو بہانے بناتا ہے کہ میں اس وجہ سے مکتب نہیں گیا کہ وہاں مولا بخش سے ڈر لگتا تھا ۔ مکتب سکول کو کہتے ہیں اور عشق تو صرف مصرعے کا وزن پورا کرنے کے لئے لائے ہیں ۔
نیز یہ بھی ایک بہانہ ہے کہ مکتب میں ایسی کوئی کتاب نہیں کہ اس کو پڑھ کر علم کے ساتھ ساتھ ایقان بھی حاصل ہو

ماورا کردے دو جہاں سے مجھے
تیری آنکھوں میں‌ وہ شراب کہاں

یہاں پھر بے چاری محبوبہ پر برس رہے ہیں کہ یہ کیسی چائے بنائی ہے کہ میری طبیعت اچھی نہ کی۔ یہاں شراب اپنے لغوی معنوں میں لائے ہیں یعنی پینے کی چیز


یونہی ہم نے تھا ذکرِ یار کیا
چل دئیے روٹھ کر جناب کہاں

لگتا ہے یہاں رقیب (یعنی اصلی عاشق کہ رقیب تو شاعر ہوتا ہے کہ جسے محبوبہ گھاس نہیں ڈالتی) کو چھیڑ رہے ہیں اور رقیب ناتواں و بے طاقت اور شاعر ماشاء اللہ ہٹا کٹا۔ تو رقیب کو بھاگتے ہی بنی


کیا بتاؤں کہ کتنے عشق کیے
میرے فرخ ابھی حساب کہاں

اس شاعر میں شاعر کی ڈائری گم ہونے کی شکایت ہے باقی شعر صاف ہے۔۔۔ یعنی معنئ شعر فی البطن شاعر نہیں۔


بہت خوب جیہ جی۔۔۔۔۔۔ :biggrin::biggrin:
 

فرخ منظور

لائبریرین
مکتبِ عشق "مِیں" گیا ہی نہیں
تجھ سے ملنے کی مجھ میں تاب کہاں

یونہی ہم نے تھا ذکرِ یار کیا
چل دئیے روٹھ کر جناب کہاں



واہ جناب۔۔۔ بہت خوبصورت غزل ہے۔۔۔۔ :)
ڈھیر ساری داد قبول فرامائیے۔۔۔ :)

داد کے لئے بہت بہت شکریہ جیا صاحبہ
 
Top