فرخ صاحب کی یہ غزل پہلی غزل سے بہتر ہے اور اس میں انہوں نے شعر نکالے ہیں۔
مطلع :
حباب کا تعلق دریا سے ہوتا ہے صحرا سے نہیں۔ چونکہ بات سراب کی ہو رہی ہے اور سراب پانی ہی لگتا ہے اس لیے شاید سراب کے پانی سے حباب کشی کی گئی ہے۔ لیکن میرے خیال میں سراب میں پانی کے عکس کے باوجود حباب کا نقشہ نہیں بنتا۔ ( احباب سے رائے درکار ہے)۔ دوسرے مصرعے میں "دیکھے" کی "ے " بری طرح گر رہی ہے۔ دیکھ پڑھا جا رہا ہے۔
دوسرا، تیسرا اور چوتھا شعر کوئی خاص نہیں ہیں۔ ان کو تو نکال ہی دینا چاہئیے۔
پانچواں شعر خوب ہے
چھٹا شعر بھی اچھا ہے۔ بلکہ نیا خیال ہے کہ محبوب سے ملنے کی تاب پیدا کرنے کیلیے مکتبِ عشق جانا ضروری ہے
ساتویں شعر پر اس لیے اعتراض ہو سکتا ہے کہ وہ کتاب تو بہرحال موجود ہے اور اس کی حفاظت کا ذمہ خود باری تعالی نے اٹھا رکھا ہے۔
آٹھواں شعر مناسب ہے
نواں شعر بھی ٹھیک ہے ۔ ویسے ذکرِ یار کرنے سے کون اٹھ کر گیا اٹھ کر گیا ( دوسرا محبوب!!!۔ ۔۔۔ ۔۔۔)
ارے مقطع سے تو لگتا ہے بہہہہہہت سے محبوب ہیں ۔ بہت سے عشق کیے جناب نے۔ اتنے محبوب مبارک ہوں۔ مگر آپ تو مکتبِ عشق گئے ہی نہیں!!!!!! ٹھیک کہا نا! اور پکڑے گئے۔۔۔،