طاہر
محفلین
“ تیرے بھیگے بدن کی خوشبو سے“
پھولوں کو یہ احساس ہوا
کوئی اور بھی ان سے بہتر ہے
کوئی اور بھی عنبر عنبر ہے
کسی اور کے گرد بھی بھونرے ہیں
جو اُس کو چاہ کر سنورے ہیں
تیرے بالوں کو جو دیکھتی ہے
وہ رات شرم سے مرتی ہے
اور چپکے چپکے کہتی ہے
وہ زلف بڑی ہی کالی ہے
سب جگ سے وہ نرالی ہے
تیری کاجل سے بھری آنکھوں کو
ہرنی چھپ چھپ دیکھتی ہے
اور من ہی من میں کُڑہتی ہے
کہ کسی اور کے نین میں جادو ہے
جو ہر ایک سے اب بے قابو ہے
تیرے چہرے کو جب وہ دیکھتا ہے
احسا س سے نظریں جھکا لے وہ
وہ چاند جو رات چمکتا ہے
ہر ٹوٹنے والے تارے سے
بس ایک ہی بات وہ کہتا ہے
“اک چاند زمین پہ رہتا ہے“
پھولوں کو یہ احساس ہوا
کوئی اور بھی ان سے بہتر ہے
کوئی اور بھی عنبر عنبر ہے
کسی اور کے گرد بھی بھونرے ہیں
جو اُس کو چاہ کر سنورے ہیں
تیرے بالوں کو جو دیکھتی ہے
وہ رات شرم سے مرتی ہے
اور چپکے چپکے کہتی ہے
وہ زلف بڑی ہی کالی ہے
سب جگ سے وہ نرالی ہے
تیری کاجل سے بھری آنکھوں کو
ہرنی چھپ چھپ دیکھتی ہے
اور من ہی من میں کُڑہتی ہے
کہ کسی اور کے نین میں جادو ہے
جو ہر ایک سے اب بے قابو ہے
تیرے چہرے کو جب وہ دیکھتا ہے
احسا س سے نظریں جھکا لے وہ
وہ چاند جو رات چمکتا ہے
ہر ٹوٹنے والے تارے سے
بس ایک ہی بات وہ کہتا ہے
“اک چاند زمین پہ رہتا ہے“