طاہر
محفلین
نظر میں اٹکی شام
نظر کے نگار خانے میں
وہ شام اٹک گئی ہے
جب اُس نے
میری محبتوں کو
کسی کنارے لگنے سے پہلے ہی
بے موت مار دیا
وہ لفظوں کے زہر میں ڈوبے تیر
آج بھی سینہ شگاف رکھتے ہیں
تو بچھڑا تو
پھر یوں ہوا کہ
ہم نے زندگی کو گرنے نہ دیا
اپنی چاہتوں کو تڑپنے نہ دیا
اپنے خالی وجود کی
سسکتی زندگی کو
اجڑنے نہ دیا
مگر آج بھی
نظر کے نگار خانے میں
وہ شام اٹک سی گئی ہے
طاہر احمد طاہر
نظر کے نگار خانے میں
وہ شام اٹک گئی ہے
جب اُس نے
میری محبتوں کو
کسی کنارے لگنے سے پہلے ہی
بے موت مار دیا
وہ لفظوں کے زہر میں ڈوبے تیر
آج بھی سینہ شگاف رکھتے ہیں
تو بچھڑا تو
پھر یوں ہوا کہ
ہم نے زندگی کو گرنے نہ دیا
اپنی چاہتوں کو تڑپنے نہ دیا
اپنے خالی وجود کی
سسکتی زندگی کو
اجڑنے نہ دیا
مگر آج بھی
نظر کے نگار خانے میں
وہ شام اٹک سی گئی ہے
طاہر احمد طاہر