محمدظہیر
محفلین
آخری روزے کے دن سوچ رہا تھا ابھی تک عید کے لیے کپڑے نہیں خریدے پتا نہیں عید کے موقع پر کونسے کپڑے پہنوں گا. اتنے میں بڑے بھائی کا فون آیا، کہنے لگے والد صاحب کے ساتھ جاکر عید کے لیے شاپنگ کرلو. مجھے فیملی کے ساتھ شاپنگ کرنے سے زیادہ دوستوں کے ساتھ شاپنگ کرنا پسند ہے، لیکن اس دفعہ میرے پورے دوست میرے ساتھ نہیں ہیں. بعض اعلی تعلیم کے لیے دوسری جگہوں پر گئے ہوئے ہیں بعض کمائی کے لیے. ایک کزن ہیں جن کے ساتھ اچھا وقت گزرتا تھا لیکن ان کی بھی شادی ہونے کے بعد وہ پہلے جیسا گھنٹوں وقت ساتھ نہیں گزار سکتے اس لیے ان کی لائف میں زیادہ دخل نہیں دے رہا. کنواروں کا مسئلہ ہوتا ہے کہ ان کا ساتھ دینے والے ہر وقت میسر نہیں ہوتے. بہر حال میں یہ کہ رہا تھا کہ عید کی شاپنگ کے لیے والد صاحب کے ساتھ عشاء کے بعد جانا تھا. میں، میرے دوسرے بھائی اور پاپا مل کر عید کے لیے کپڑے خریدنے گئے. پہلے والد صاحب کے لیے کپڑے لینا تھا، میں نے بچپن سے والد صاحب کو سفید لباس میں ہی دیکھا ہے. اس دفعہ کچھ دبدیلی کے لیے میں نے انہیں عید کے لیے گرے(gray) رنگ کا لباس تجویز کیا تو بھائی نے کہا اب تک پاپا ہمیشہ سفید ہی پہنے ہیں دوسرے رنگ پہننا مناسب نہیں رہے گا. میں نے کہا کبھی کبھار ہٹ کر یا مختلف کرنے سے کچھ نہیں ہوتا اور وہی رنگ کی پٹھانی پسند کی. پاپا میری خواہش کو منع نہیں کرتے اس لیے راضی ہو گئے. میں نے اپنے لیے نیلے رنگ کے کپڑے لیا. میں سوچ رہا تھا کل عید کا دن کس کے ساتھ گزاروں، گھر والوں کے علاوہ خاص دوست کوئی موجود نہیں تھے . شاپنگ کے دوران ایک نئے نمبر سے کال آئی، ایک دوست نے فون کیا تھا جو روزگار کے لیے عرب میں مقیم ہیں، یہ میرے بچپن کے ساتھی ہیں جن کے ساتھ میں نے بہت وقت ساتھ گزارا ہے لیکن افسوس تھا کہ عید کے موقع پر وہ بھی یہاں موجود نہیں ہیں. انہوں نے عید کی مبارکباد دی اور پوچھنے لگے کہاں ہو. میں نے کہا عید کے لیے شاپنگ کر رہا ہوں. انہوں نے پوچھا کہاں شاپنگ کر رہے ہو، میں نے اپنا اڈریس بتایا تو کہنے لگے وہیں رہو آرہا ہوں. میں حیران ہوا کہ یہ کیسے ممکن ہے. انہوں نے بتایا میں انڈیا آیا ہوا ہوں. یہ سن کر پہلے تو مجھے یقین نہیں آیا لیکن پھر خوشی ہوئی کہ چلو عید کے موقع پر وہ آیا تو سہی. بھائی اور پاپا سے کہا آپ لوگ گھر پہنچیں میں کچھ دیر بعد آتا ہوں. اس کے بعد اپنے دوست کے ساتھ اچھا وقت گزارا اور مزید شاپنگ کی.
عید کا دن
عید کی صبح والد صاحب جگانے آ گئے. گھڑی دیکھی تو ابھی کافی وقت تھا. لیکن اس ڈر سے کہ پچھلے سال کی طرح عید کی نماز نہ چھوٹ جائے جلدی پانی نہا کر تیار ہوا اور پوری فیملی نماز عید پڑھنے گئ. آنے کے بعد ناشتہ کر کے سوگیا. دوپہر قریب بارہ بجے آنکھ کھلی تو اپنے دوست کو فون کرکے آنے کو کہا، ایک اور بچپن کے ساتھی کے ہمراہ وہ میرے گھر پہنچے . شیرخرمہ پی کر ہم باہر گئے، چائے سگریٹ کے لیے کوئی دکان کھلی نہیں تھی، بمشکل ایک بنڈی پر چائے سگریٹ بیچنے والا نظر آیا. دوستوں نے سگریٹ پی اور میں بس چائے پر اکتفا کیا کہ ایک سال قبل میں نے سگریٹ نوشی چھوڑ دی تھی. اس کے بعد دوستوں نے تصویریں کھینچنے کے لیے کہیں کھلے مقام پر چلنے کے لیے کہا. بہت دنوں بعد ہم ملے تھے اور رشتہ داروں کے پاس جانے کا موڈ نہیں تھا اس لیے میں چلنے کے لیے تیار ہوا. موسم بہت سہانا تھا، ٹھنڈی ہوائیں چل رہیں تھیں ہم لوگوں نے شہر کے باہر اونچے حصے میں جاکر خوب وقت گزارا اور تصویریں بھی کھینچیں. مغرب کے وقت واپسی ہوئی میں گھر پہنچ کر سو گیا. دوبارہ آنکھ کھلی تو کزن بھائی نے کال کرکے اپنے گھر بلایا. سب لوگ کھانا کھا رہے تھے مجھے بھی بیٹھنے کے لیے کہا. ویسے بھی بھوک بہت لگ رہی تھی تو سیر ہو کر کھا لیا. اس وقت بارش زور سے ہو رہی تھی، بڑے بھائی وہیں تھے ان کے ساتھ واپس آگیا. اردو محفل کھول کر عید کی مبارکباد کا اسٹیٹس رکھا اور پھر میری آنکھ لگ گئی. اور یوں عید کا دن تمام ہوا
عید کا دن
عید کی صبح والد صاحب جگانے آ گئے. گھڑی دیکھی تو ابھی کافی وقت تھا. لیکن اس ڈر سے کہ پچھلے سال کی طرح عید کی نماز نہ چھوٹ جائے جلدی پانی نہا کر تیار ہوا اور پوری فیملی نماز عید پڑھنے گئ. آنے کے بعد ناشتہ کر کے سوگیا. دوپہر قریب بارہ بجے آنکھ کھلی تو اپنے دوست کو فون کرکے آنے کو کہا، ایک اور بچپن کے ساتھی کے ہمراہ وہ میرے گھر پہنچے . شیرخرمہ پی کر ہم باہر گئے، چائے سگریٹ کے لیے کوئی دکان کھلی نہیں تھی، بمشکل ایک بنڈی پر چائے سگریٹ بیچنے والا نظر آیا. دوستوں نے سگریٹ پی اور میں بس چائے پر اکتفا کیا کہ ایک سال قبل میں نے سگریٹ نوشی چھوڑ دی تھی. اس کے بعد دوستوں نے تصویریں کھینچنے کے لیے کہیں کھلے مقام پر چلنے کے لیے کہا. بہت دنوں بعد ہم ملے تھے اور رشتہ داروں کے پاس جانے کا موڈ نہیں تھا اس لیے میں چلنے کے لیے تیار ہوا. موسم بہت سہانا تھا، ٹھنڈی ہوائیں چل رہیں تھیں ہم لوگوں نے شہر کے باہر اونچے حصے میں جاکر خوب وقت گزارا اور تصویریں بھی کھینچیں. مغرب کے وقت واپسی ہوئی میں گھر پہنچ کر سو گیا. دوبارہ آنکھ کھلی تو کزن بھائی نے کال کرکے اپنے گھر بلایا. سب لوگ کھانا کھا رہے تھے مجھے بھی بیٹھنے کے لیے کہا. ویسے بھی بھوک بہت لگ رہی تھی تو سیر ہو کر کھا لیا. اس وقت بارش زور سے ہو رہی تھی، بڑے بھائی وہیں تھے ان کے ساتھ واپس آگیا. اردو محفل کھول کر عید کی مبارکباد کا اسٹیٹس رکھا اور پھر میری آنکھ لگ گئی. اور یوں عید کا دن تمام ہوا
آخری تدوین: