میری عید الفطر 2017

لاریب مرزا

محفلین
ہر عید پہ ایسا ہوتا ہے۔ اس دفعہ بھی ہوا. ہمارے ایک بھائی ریسکیو 1122 میں ہوتے ہیں۔ ابھی بتا رہے ہیں کہ عید کے دونوں دن بائیکس کے بہت زیادہ ایکسیڈنٹ ہوئے ہیں۔ ان کی موجودگی میں سترہ ایمرجنسیاں آئیں۔
پتہ نہیں لڑکوں کو تیز بائیک چلانے اور ون وہیلنگ کا اتنا شوق کیوں ہوتا ہے۔ :sad:
 

محمدظہیر

محفلین
ہر عید پہ ایسا ہوتا ہے۔ اس دفعہ بھی ہوا. ہمارے ایک بھائی ریسکیو 1122 میں ہوتے ہیں۔ ابھی بتا رہے ہیں کہ عید کے دونوں دن بائیکس کے بہت زیادہ ایکسیڈنٹ ہوئے ہیں۔ ان کی موجودگی میں سترہ ایمرجنسیاں آئیں۔
پتہ نہیں لڑکوں کو تیز بائیک چلانے اور ون وہیلنگ کا اتنا شوق کیوں ہوتا ہے۔ :sad:
جان کر افسوس ہوا.
چاند رات کو شاپنگ کے دوران شاپنگ مال میں رکھی ہوئی اسپورٹس بائیکس کو دیکھ کر پاپا نے سابق انڈین کرکٹ کپتان اظہرالدین کے بیٹے کا بائیک ایکسیڈنٹ یاد دلایا.
ایسے حادثات کی ایک وجہ والد صاحب نے یہ بتائی کہ سولہ سترہ برس کی عمر میں بچوں کو اپنی زندگی کی اہمیت معلوم نہیں رہتی اور ایکسیڈنٹ کے فوری بعد کے نتائج سے لا پرواہ ہوتے ہیں.
 
آخری روزے کے دن سوچ رہا تھا ابھی تک عید کے لیے کپڑے نہیں خریدے پتا نہیں عید کے موقع پر کونسے کپڑے پہنوں گا. اتنے میں بڑے بھائی کا فون آیا، کہنے لگے والد صاحب کے ساتھ جاکر عید کے لیے شاپنگ کرلو. مجھے فیملی کے ساتھ شاپنگ کرنے سے زیادہ دوستوں کے ساتھ شاپنگ کرنا پسند ہے، لیکن اس دفعہ میرے پورے دوست میرے ساتھ نہیں ہیں. بعض اعلی تعلیم کے لیے دوسری جگہوں پر گئے ہوئے ہیں بعض کمائی کے لیے. ایک کزن ہیں جن کے ساتھ اچھا وقت گزرتا تھا لیکن ان کی بھی شادی ہونے کے بعد وہ پہلے جیسا گھنٹوں وقت ساتھ نہیں گزار سکتے اس لیے ان کی لائف میں زیادہ دخل نہیں دے رہا. کنواروں کا مسئلہ ہوتا ہے کہ ان کا ساتھ دینے والے ہر وقت میسر نہیں ہوتے. بہر حال میں یہ کہ رہا تھا کہ عید کی شاپنگ کے لیے والد صاحب کے ساتھ عشاء کے بعد جانا تھا. میں، میرے دوسرے بھائی اور پاپا مل کر عید کے لیے کپڑے خریدنے گئے. پہلے والد صاحب کے لیے کپڑے لینا تھا، میں نے بچپن سے والد صاحب کو سفید لباس میں ہی دیکھا ہے. اس دفعہ کچھ دبدیلی کے لیے میں نے انہیں عید کے لیے گرے(gray) رنگ کا لباس تجویز کیا تو بھائی نے کہا اب تک پاپا ہمیشہ سفید ہی پہنے ہیں دوسرے رنگ پہننا مناسب نہیں رہے گا. میں نے کہا کبھی کبھار ہٹ کر یا مختلف کرنے سے کچھ نہیں ہوتا اور وہی رنگ کی پٹھانی پسند کی. پاپا میری خواہش کو منع نہیں کرتے اس لیے راضی ہو گئے. میں نے اپنے لیے نیلے رنگ کے کپڑے لیا. میں سوچ رہا تھا کل عید کا دن کس کے ساتھ گزاروں، گھر والوں کے علاوہ خاص دوست کوئی موجود نہیں تھے . شاپنگ کے دوران ایک نئے نمبر سے کال آئی، ایک دوست نے فون کیا تھا جو روزگار کے لیے عرب میں مقیم ہیں، یہ میرے بچپن کے ساتھی ہیں جن کے ساتھ میں نے بہت وقت ساتھ گزارا ہے لیکن افسوس تھا کہ عید کے موقع پر وہ بھی یہاں موجود نہیں ہیں. انہوں نے عید کی مبارکباد دی اور پوچھنے لگے کہاں ہو. میں نے کہا عید کے لیے شاپنگ کر رہا ہوں. انہوں نے پوچھا کہاں شاپنگ کر رہے ہو، میں نے اپنا اڈریس بتایا تو کہنے لگے وہیں رہو آرہا ہوں. میں حیران ہوا کہ یہ کیسے ممکن ہے. انہوں نے بتایا میں انڈیا آیا ہوا ہوں. یہ سن کر پہلے تو مجھے یقین نہیں آیا لیکن پھر خوشی ہوئی کہ چلو عید کے موقع پر وہ آیا تو سہی. بھائی اور پاپا سے کہا آپ لوگ گھر پہنچیں میں کچھ دیر بعد آتا ہوں. اس کے بعد اپنے دوست کے ساتھ اچھا وقت گزارا اور مزید شاپنگ کی.
عید کا دن
عید کی صبح والد صاحب جگانے آ گئے. گھڑی دیکھی تو ابھی کافی وقت تھا. لیکن اس ڈر سے کہ پچھلے سال کی طرح عید کی نماز نہ چھوٹ جائے جلدی پانی نہا کر تیار ہوا اور پوری فیملی نماز عید پڑھنے گئ. آنے کے بعد ناشتہ کر کے سوگیا. دوپہر قریب بارہ بجے آنکھ کھلی تو اپنے دوست کو فون کرکے آنے کو کہا، ایک اور بچپن کے ساتھی کے ہمراہ وہ میرے گھر پہنچے . شیرخرمہ پی کر ہم باہر گئے، چائے سگریٹ کے لیے کوئی دکان کھلی نہیں تھی، بمشکل ایک بنڈی پر چائے سگریٹ بیچنے والا نظر آیا. دوستوں نے سگریٹ پی اور میں بس چائے پر اکتفا کیا کہ ایک سال قبل میں نے سگریٹ نوشی چھوڑ دی تھی. اس کے بعد دوستوں نے تصویریں کھینچنے کے لیے کہیں کھلے مقام پر چلنے کے لیے کہا. بہت دنوں بعد ہم ملے تھے اور رشتہ داروں کے پاس جانے کا موڈ نہیں تھا اس لیے میں چلنے کے لیے تیار ہوا. موسم بہت سہانا تھا، ٹھنڈی ہوائیں چل رہیں تھیں ہم لوگوں نے شہر کے باہر اونچے حصے میں جاکر خوب وقت گزارا اور تصویریں بھی کھینچیں. مغرب کے وقت واپسی ہوئی میں گھر پہنچ کر سو گیا. دوبارہ آنکھ کھلی تو کزن بھائی نے کال کرکے اپنے گھر بلایا. سب لوگ کھانا کھا رہے تھے مجھے بھی بیٹھنے کے لیے کہا. ویسے بھی بھوک بہت لگ رہی تھی تو سیر ہو کر کھا لیا. اس وقت بارش زور سے ہو رہی تھی، بڑے بھائی وہیں تھے ان کے ساتھ واپس آگیا. اردو محفل کھول کر عید کی مبارکباد کا اسٹیٹس رکھا اور پھر میری آنکھ لگ گئی. اور یوں عید کا دن تمام ہوا :)




مابدولت برادرِجوانسال وخوش رو محمدظہیر کی روئیدادِخریداریُ پوشاک برائے موقعُ عیدسعیداورسرگذشتِ عیدوباسی عید کوملاحظہ کرکے بدرجہ غائت محظوظ ہوئے.مابدولت ترکِ سگریٹ نوشی پرناصرف برادرم ظہیرکو مبارکباد پیش کرتے ہوئے قلبی اطمینان ومسرت محسوس کرتے ہیں بلکہ یہ بتانا بھی ازبس ضروری گردانتے ہیں کہ شیرخرمہ کے لذت آموزذکرسے مابدولت کا دہنِ بے ذائقہ پرازآب ہوگیا. ساتھ ہی مابدولت اس مراسلے کی وساطت برادرم ظہیر اور انکے اہلِ خانہ کو عیدالفطرکی مبارکباد دینے میں بھی کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کریں گے!!!:):)
 
آخری تدوین:

محمدظہیر

محفلین
وہ بھی وقتی ہوتا ہے بچوں سے پہلے اور بچوں کے بڑے ہونے کے بعد

اگر ایسا ہے تو بچوں سے پہلے کی مدت کو لمبا کرنا کیسا رہے گا :)

ٹرائی کریں پھر بتائیں عید پر سارے رشتہ دار کیا کہتے ہیں۔

صرف عید پر یا ہر ملاقات پر؟

ہر ملاقات پر لیکن پھر تنگ آ کر ملاقات صرف عید کے عید ہی ہوا کرے گی
اگر واقعی یہ مرحلہ اتنا مشکل ہوگا تو ہم مزید کچھ دن کنوارے اچھے:ROFLMAO:
 

زیک

مسافر
اگر واقعی یہ مرحلہ اتنا مشکل ہوگا تو ہم مزید کچھ دن کنوارے اچھے:ROFLMAO:
مرحلہ اتنا مشکل نہیں۔ بس شادی کے تیسرے دن سے ایک سوال کا جواب دینا ہے کہ اولاد کب ہو رہی ہے اور چھ ماہ ہو گئے تو جو ٹوٹکے ہر کوئی بتائے گا انہیں نظرانداز کرنے کا سلیقہ سیکھنا ہے
 

لاریب مرزا

محفلین
شاید میں اپنی بات سمجھانے میں کامیاب نہیں رہا :)
دیکھیے۔ ازدواجی رشتے سے نہ آپ منسلک ہیں نہ ہم، آپ جو سمجھانا چاہ رہے ہیں شاید ہم سمجھ رہے ہیں۔ لیکن شاید اپنی جگہ پہ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں اور شاید ہم بھی غلط نہیں کہہ رہے۔ اب شاید یہ تو شادی کے تجربے کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ کیا درست ہے اور کیا غلط۔ :p
 

زیک

مسافر
آپ یہیں لکھ دیجیے، لڑی کو ویلیو ایڈ کرنے کے مترادف ہوگا:)
آپ کی اجازت سے میری روداد:

ہفتے کی شام بیگم نے پوچھا کہ عید کل ہے یا نہیں۔ فوراً گوگل کیا تو معلوم ہوا کہ اتوار کو ہمارے ہاں عید ہے۔ بیگم نے سویّاں بنانی شروع کیں۔

عید کے دن صبح صبح اٹھے سائیکلنگ کا لباس تن کیا، سائیکلیں گاڑی کے پیچھے لادیں اور بیٹی کے ساتھ عریبیا ماؤنٹین روانہ ہوئے۔

وہاں پارکنگ پر پہنچ کر کچھ ناخوش ہوئے کہ فیس پانچ ڈالر ہو چکی ہے۔ خیر کیش لفافے میں بند کر کے باکس میں ڈالا اور سائیکلیں کار سے اتاریں۔

یہ پیوڈ ٹریل ہے اور پہاڑی علاقہ۔ آغاز میں دو جھیلیں ہیں۔ ان کے ساتھ سے سائیکلنگ کرتے ہوئے چڑھائی چڑھنے لگے۔

جہاں چڑھائی ہو وہاں اترائی بھی ہوتی ہے۔ ٹریل کافی بل کھاتا ہوا تھا لہذا احتیاط لازم تھی۔ میرا دھیان زیادہ بیٹی کی طرف تھا کہ اس کا ایسے ٹریل پر پہلا تجربہ تھا۔ پچھلے چند دن بارش اور طوفان رہا تھا۔ ٹریل پر درختوں سے ٹوٹی کئی شاخیں پڑی تھیں۔ ایک نظر نہ آئی اور اس پر تیز رفتار سے گزرتے ہوئے سائیکل پر کنٹرول نہ رہا۔ سائیکل نے قلابازی کھائی اور پھر میں نیچے اور سائیکل اوپر تھی۔

بیٹی آواز سن کر رکی۔ اٹھا تو گھٹنے اور کہنی پر زخم تھا۔ فون جو کیس میں بند سائیکل کی ہینڈل بار پر تھا اس کی سکرین کریک ہو چکی تھی۔ سائیکل کی بتی بھی ٹوٹ گئی۔

کچھ منٹ سانس لینے کے بعد واپس کار تک جانے کا ارادہ کیا۔ واپسی پر احساس ہوا کہ دایاں بازو کچھ درد کر رہا ہے کہ اسی پر گرنے کا بوجھ پڑا تھا۔

میری کار میں ہمیشہ فرسٹ ایڈ کٹ ہوتی ہے اس لئے فکر نہ تھی۔ لیکن ہم بیگم کی کار لے کر آئے تھے۔ خیر بیٹی نے اپنے فون پر قریبی ڈرگ سٹور ڈھونڈا اور وہاں پہنچ کر اس نے کچھ فرسٹ ایڈ سامان خریدا۔ میں نے اپنی مرہم پٹی کی اور پھر ہم نے مزید رائڈ کینسل کر کے گھر جانے کا فیصلہ کیا۔ پچھلی بار چند سال پہلے جب ایک رائڈ کے عین آدھ رستے میں گرا تھا اور پسلیوں میں چوٹ لگی تھی تو وہ 45 میل مکمل سائیکلنگ کر کے ہی دم لیا تھا۔ اس بار عید اور بیٹی کا لحاظ کیا۔

گھر پہنچ کر سویوں کا ناشتہ کیا۔ اس وقت تک یہ احساس بڑھ چکا تھا کہ بازو کی ہڈی کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ لہذا بیگم نے ارجنٹ کیئر ڈراپ کیا اور میں نے عید کی دوپہر ڈاکٹر کے ساتھ گزاری۔ ایکس رے سے معلوم ہوا کہ داہنی کہنی کے پاس ہڈی ٹوٹی ہے۔ نرس نے پٹی اور سپلنٹ باندھا اور ساتھ سلنگ پہنایا کہ بازو کو باندھے رکھوں۔ ساتھ آرتھوپیڈک ڈاکٹر کا کارڈ دیا کہ اسے دکھا دوں۔

گھر پہنچ کر صوفے پر براجمان ہو گیا اور باقی کا دن یونہی گزارا۔

شام کو سوچا کہ فون کا کیا کروں۔ سکرین بدلوانے کی بجائے نیا فون آرڈر کیا۔ اتوار کی شام کو آرڈر کرتے ہوئے خوشی ہوئی کہ نیا فون اگلے دن بارے بجے میرے گھر پہنچ جائے گا۔
 

محمدظہیر

محفلین
آپ کی اجازت سے میری روداد:

ہفتے کی شام بیگم نے پوچھا کہ عید کل ہے یا نہیں۔ فوراً گوگل کیا تو معلوم ہوا کہ اتوار کو ہمارے ہاں عید ہے۔ بیگم نے سویّاں بنانی شروع کیں۔

عید کے دن صبح صبح اٹھے سائیکلنگ کا لباس تن کیا، سائیکلیں گاڑی کے پیچھے لادیں اور بیٹی کے ساتھ عریبیا ماؤنٹین روانہ ہوئے۔

وہاں پارکنگ پر پہنچ کر کچھ ناخوش ہوئے کہ فیس پانچ ڈالر ہو چکی ہے۔ خیر کیش لفافے میں بند کر کے باکس میں ڈالا اور سائیکلیں کار سے اتاریں۔

یہ پیوڈ ٹریل ہے اور پہاڑی علاقہ۔ آغاز میں دو جھیلیں ہیں۔ ان کے ساتھ سے سائیکلنگ کرتے ہوئے چڑھائی چڑھنے لگے۔

جہاں چڑھائی ہو وہاں اترائی بھی ہوتی ہے۔ ٹریل کافی بل کھاتا ہوا تھا لہذا احتیاط لازم تھی۔ میرا دھیان زیادہ بیٹی کی طرف تھا کہ اس کا ایسے ٹریل پر پہلا تجربہ تھا۔ پچھلے چند دن بارش اور طوفان رہا تھا۔ ٹریل پر درختوں سے ٹوٹی کئی شاخیں پڑی تھیں۔ ایک نظر نہ آئی اور اس پر تیز رفتار سے گزرتے ہوئے سائیکل پر کنٹرول نہ رہا۔ سائیکل نے قلابازی کھائی اور پھر میں نیچے اور سائیکل اوپر تھی۔

بیٹی آواز سن کر رکی۔ اٹھا تو گھٹنے اور کہنی پر زخم تھا۔ فون جو کیس میں بند سائیکل کی ہینڈل بار پر تھا اس کی سکرین کریک ہو چکی تھی۔ سائیکل کی بتی بھی ٹوٹ گئی۔

کچھ منٹ سانس لینے کے بعد واپس کار تک جانے کا ارادہ کیا۔ واپسی پر احساس ہوا کہ دایاں بازو کچھ درد کر رہا ہے کہ اسی پر گرنے کا بوجھ پڑا تھا۔

میری کار میں ہمیشہ فرسٹ ایڈ کٹ ہوتی ہے اس لئے فکر نہ تھی۔ لیکن ہم بیگم کی کار لے کر آئے تھے۔ خیر بیٹی نے اپنے فون پر قریبی ڈرگ سٹور ڈھونڈا اور وہاں پہنچ کر اس نے کچھ فرسٹ ایڈ سامان خریدا۔ میں نے اپنی مرہم پٹی کی اور پھر ہم نے مزید رائڈ کینسل کر کے گھر جانے کا فیصلہ کیا۔ پچھلی بار چند سال پہلے جب ایک رائڈ کے عین آدھ رستے میں گرا تھا اور پسلیوں میں چوٹ لگی تھی تو وہ 45 میل مکمل سائیکلنگ کر کے ہی دم لیا تھا۔ اس بار عید اور بیٹی کا لحاظ کیا۔

گھر پہنچ کر سویوں کا ناشتہ کیا۔ اس وقت تک یہ احساس بڑھ چکا تھا کہ بازو کی ہڈی کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ لہذا بیگم نے ارجنٹ کیئر ڈراپ کیا اور میں نے عید کی دوپہر ڈاکٹر کے ساتھ گزاری۔ ایکس رے سے معلوم ہوا کہ داہنی کہنی کے پاس ہڈی ٹوٹی ہے۔ نرس نے پٹی اور سپلنٹ باندھا اور ساتھ سلنگ پہنایا کہ بازو کو باندھے رکھوں۔ ساتھ آرتھوپیڈک ڈاکٹر کا کارڈ دیا کہ اسے دکھا دوں۔

گھر پہنچ کر صوفے پر براجمان ہو گیا اور باقی کا دن یونہی گزارا۔

شام کو سوچا کہ فون کا کیا کروں۔ سکرین بدلوانے کی بجائے نیا فون آرڈر کیا۔ اتوار کی شام کو آرڈر کرتے ہوئے خوشی ہوئی کہ نیا فون اگلے دن بارے بجے میرے گھر پہنچ جائے گا۔
عید کے دن سائیکلنگ کا موڈ کیوں بنا سویاں کھا کر گھر پر ہی بیٹھے رہتے.
اب زخم کیسا ہے؟
 

محمدظہیر

محفلین
دیکھیے۔ ازدواجی رشتے سے نہ آپ منسلک ہیں نہ ہم، آپ جو سمجھانا چاہ رہے ہیں شاید ہم سمجھ رہے ہیں۔ لیکن شاید اپنی جگہ پہ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں اور شاید ہم بھی غلط نہیں کہہ رہے۔ اب شاید یہ تو شادی کے تجربے کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ کیا درست ہے اور کیا غلط۔ :p
مجھے معلوم نہیں تھا آپ بھی غیر شادی شدہ ہیں. :p
دعا ہے اللہ آپ کو نیک سیرت ہینڈسم اور کیرنگ ہسبنڈ عطا فرمائے :)
 

محمدظہیر

محفلین
مابدولت برادرِجوانسال وخوش رو محمدظہیر کی روئیدادِخریداریُ پوشاک برائے موقعُ عیدسعیداورسرگذشتِ عیدوباسی عید کوملاحظہ کرکے بدرجہ غائت محظوظ ہوئے.مابدولت ترکِ سگریٹ نوشی پرناصرف برادرم ظہیرکو مبارکباد پیش کرتے ہوئے قلبی اطمینان ومسرت محسوس کرتے ہیں بلکہ یہ بتانا بھی ازبس ضروری گردانتے ہیں کہ شیرخرمہ کے لذت آموزذکرسے مابدولت کا دہنِ بے ذائقہ پرازآب ہوگیا. ساتھ ہی مابدولت اس مراسلے کی وساطت برادرم ظہیر اور انکے اہلِ خانہ کو عیدالفطرکی مبارکباد دینے میں بھی کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کریں گے!!!:):)
محترم و مکرم و برادرم مابدولت، میرے پاس آج الفاظ نہیں ہیں کہ آپ کی اس پُر خلوص محبت کے جواب میں کچھ کہ سکوں . جزاک اللہ خیرا :):):)
 

زیک

مسافر
عید کے دن سائیکلنگ کا موڈ کیوں بنا سویاں کھا کر گھر پر ہی بیٹھے رہتے.
اب زخم کیسا ہے؟
چھٹی تھی اور موسم بھی اچھا تھا۔

بازو سلنگ میں ہے۔ ڈاکٹر کے بقول پلستر کی ضرورت نہیں۔ مکمل ہڈی جڑنے میں شاید چھ ہفتے لگیں گے لیکن پلستر نہ ہونے کی وجہ سے نسبتاً آسانی ہے
 

محمدظہیر

محفلین
چھٹی تھی اور موسم بھی اچھا تھا۔

بازو سلنگ میں ہے۔ ڈاکٹر کے بقول پلستر کی ضرورت نہیں۔ مکمل ہڈی جڑنے میں شاید چھ ہفتے لگیں گے لیکن پلستر نہ ہونے کی وجہ سے نسبتاً آسانی ہے
چھہ ہفتے! یعنی کریک سے خاصی چوٹ آئی ہے. کم از کم اس دوران پھر سے بھاگنے مت لگ جائیے، اپنا خیال رکھیے گا. پیگی کے ساتھ وقت گزاریں :)
 

زیک

مسافر
چھہ ہفتے! یعنی کریک سے خاصی چوٹ آئی ہے. کم از کم اس دوران پھر سے بھاگنے مت لگ جائیے، اپنا خیال رکھیے گا. پیگی کے ساتھ وقت گزاریں :)
ہڈی جڑنے میں تو وقت لگتا ہے۔ باقی ڈاکٹر کے مشورے پر منحصر ہے کہ کب رننگ وغیرہ دوبارہ شروع کروں۔

اچھی بات یہ ہے کہ بایاں بازو نہ تھا اس لئے کام کرنے میں زیادہ مشکل نہیں
 
آخری تدوین:
Top