میری غزل ۔ دنیا میں تری درد کا درمان نہیں ہے

محمد وارث

لائبریرین
جناب محترم محمد وارث صاحب آپ کی غزل پڑھی بہت اچھی لگی پہلے تو میرے طرف سے اتنی اچھی غزل پیش کرنے پر مبارک باد قبول کرے اور اس کے بعد
آپ اور محترم جناب اعجاز اختر صاحب کا بہت شکریہ آپ دونوں کی باتوں سے مجھ جیسے نا علموں کو آپ کی علٰی اور مفید پوسٹ پڑھنے کو ملی اور بہت کچھ سیکھنے کو ملا بہت شکریہ مجھے امید ہے آپ مجھ جیسے نئے لکھنے والو کی اسطرح مدد کرتے رہے گے شکریہ


غزل کی پسندیدگی کیلیے بہت شکریہ آپ کا خرم صاحب، نوازش۔
 

محمد وارث

لائبریرین
آپ نے جو ایک لینک میں غالب صاحب کے شعر سے مثال دی ہے

کچھ تو پڑھئے کہ لوگ کہتے ہیں
آج غالب غزل سرا نہ ہوا

اس شعر کو میں نے کچھ جگہ پر "نہ" کی جگہ فارسی والی "نے" کے ساتھ بھی پڑھا ہے
اس طرح
کچھ تو پڑھئے کہ لوگ کہتے ہیں
آج غالب غزل سرا نے ہوا

اس کے بارے میں مہربانی کر کے کچھ بتاے


خرم صاحب اگر آپ نے کہیں غالب کی محولہ بالا غزل میں "نے" پڑھا ہے تو پھر وہ یقیناً کاتب کی یا پرنٹنگ کی غلطی ہے، کیونکہ غالب کی یہ غزل بحرِ خفیف میں ہے اور اگر 'نہ' کو 'نے' سے بدل دیں، جو کہ ایک سببِ خفیف ہے، تو شعر بے وزن ہو جاتا ہے۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
دنیا میں تری درد کا درمان نہیں ہے
ہر سمت خدا ہیں، کوئی انسان نہیں ہے
بہت خوب وارث بھائي
ليکن "درمان" اور "نہيں" کي بلا فصل "ن" معائب سخن ميں شامل ہےگوکہ بہت سے لوگوں نے اسے روا رکھا ہے ليکن ميں اس بات کا قائل ہوں کي شعر اسي ليے موزوں کيا جاتا ہے کہ وہ ذوق سليم کر مہميز کرے ميں ايسي رخصت کا قائل نہيں جو ذوق پر گرانبار ہو
اور چونکہ "درمان" قافيہ ہے اور قافيہ کے فورا بعد "نہيں ہے" کي رديف آجاتي ہے اس ليے پوري غزل کا تاثر مجرح کر رہي ہے


طاقت کے نشے میں جو لہو سچ کا بہائے
ظالم ہے، لٹیرا ہے وہ سلطان نہیں ہے
خوب ہے ليکن سادہ

یہ بات غلط ہے کہ میں باطل کو نہ جانوں
یہ سچ ہے مجھے اپنا ہی عرفان نہیں ہے
اچھا ہے

جو آگ سے تیری میں نہیں ڈرتا تو واعظ
حوروں کا بھی دل میں کوئی ارمان نہیں ہے
واعظ ! جو نہيں خوف مجھے نارِ س۔۔قر کا
حوروں کا بھي دل ميں کوئي ارمان نہيں ہے

سوچا ہے اسد اب کسی سے میں نہ ملوں گا
کچھ دوست و عدو کی مجھے پہچان نہیں ہے
اس شعر پر پہلے بات ہو چکي ہے اور "ي" کو گرانے کي رخصت بھي زير بحھ لائي گئي ليکن ميں سمجھتا ہوں کہ رخصت کي اجازت بحالت مجبوري ہوتي ہے اور يہاں کوئي ايسي مجبوري نہيں کہ اس رخصت سے فائدہ اٹھايا جائے مصرع کي موجودہ صورت طبع موزوں پر گراں گزرتي ہے
ميري رائے يہ ہے کہ موزوني طبع کو ہے شعر کا پارکھ سمجھنا چاہيے وہ کيا خوب کہا ہے شاعر نے کہ

شعر گويم بہتر از قندو نبات
من ندانم فاعلاتن فاعلات

دوسرے مصرعہ ميں " وائو عاطفہ" کے ساتھ دوست اور عدو کو ملايا گيا ہے جوکہ غريب ہے دونوں مختلف زبانوں کے الفاظ ہيں معروف طريقہ يہ ہے کہ وائو عاطفہ کے ذريعہ ايک ہي زبان کے الفاط کو جمع کيا جائے
مثلا ۔۔۔۔۔۔ روز و شب
اگر اس کو ہم يوں کريں ۔۔۔۔۔۔ روز و رات
تو کتنا عجيب لگے گا
اسي طرح
آفتاب و ماہتاب کو اگر آفتاب و چاند کر ليں
سياہ و سفيد کو اگر ۔۔۔ کالا و سفيد کريں
ابر وباراں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بادل و باراں
جن و انس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جن و آدمي
برگ و گل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پتہ و گل
غرض ايسي ہي بہت سي مثاليں دي جا سکتي ہيں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجموعي طور پر کامياب تجربہ ہے
اميد ہے کہ آپ اس نقد و نظر سے ناراض نہيں ہونگے:)
 

محمد وارث

لائبریرین
شاکر القادری صاحب، سب سے پہلے تو میں آپ کا انتہائی ممنوں ہوں کہ آپ نے اپنا قیمتی وقت نکال کر اس غزل کو دیکھا اور اپنی بیش بہا رائے سے آگاہ کیا، بہت شکریہ آپ کا، نوازش حضور۔


بہت خوب وارث بھائي
ليکن "درمان" اور "نہيں" کي بلا فصل "ن" معائب سخن ميں شامل ہےگوکہ بہت سے لوگوں نے اسے روا رکھا ہے ليکن ميں اس بات کا قائل ہوں کي شعر اسي ليے موزوں کيا جاتا ہے کہ وہ ذوق سليم کر مہميز کرے ميں ايسي رخصت کا قائل نہيں جو ذوق پر گرانبار ہو
اور چونکہ "درمان" قافيہ ہے اور قافيہ کے فورا بعد "نہيں ہے" کي رديف آجاتي ہے اس ليے پوري غزل کا تاثر مجرح کر رہي ہے


آپ نے خود ہی فرما دیا کیا کہ بہت سے لوگوں نے اس روا رکھا ہے، تو آئیے دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ کون ہیں۔

خداوندانِ سخن میر تقی میر اور اسد اللہ خان غالب کے مقام سے کون کافر ناواقف ہے۔ اور ذوق کا مقام خیال آفرینی میں اگر ان سے کم ہے صفائی زبان اور اردو پر جو دسترس ہے وہ شاید ہی کہیں ہو۔ امثال تو دیگر اساتذہ کے ہاں بھی مل جائیں گی لیکن طوالت کے خوف سے صرف انہی تین اساتذہ کے کلام سے کچھ غزلیات پیش کر رہا ہوں جن میں قافیہ اور ردیف کے درمیان بلا فصل ایک ہی حرف ہے اور آہنگ کہیں مجروح نہیں۔ ملاحظہ فرمائیے گا۔


(نون بلا فصل فی قافیہ و ردیف)

میر

عشق کرنے کو جگر چاہیئے آسان نہیں
سب کو دعوٰی ہے ولے ایک میں یہ جان نہیں

ایک بیدرد تجھے پاس نہیں عاشق کا
ورنہ عالم میں کسو خاطرِ مہمان نہیں

کس طرح منزلِ مقصود پہنچیں گے میر
سفرِ دور ہے اور ہم کئے سامان نہیں


ولہ

مجھے تو نورِ نظر نے تنک بھی تن نہ دیا
بہار جاتی رہی دیکھنے چمن نہ دیا

کھلی نہ بات کئی حرف تھے گرہ دل میں
اجل نے اس سے مجھے کہنے اک سخن نہ دیا


ذوق

نہ دیں گواہی جو داغِ کہن نہیں دیتے
دکھائی کیا مرے تن پر چمن نہیں دیتے

عدم کی راہ میں بھی کچھ تو ہے خطر کا گزر
کہ ساتھ لینے بجز یک کفن نہیں دیتے

جو بولوں کچھ تو مجالِ سخن نہیں دیتے
سیوں بھی میں پہ وہ سینے دہن نہیں دیتے



(رائے مہملہ بلا فصل فی قافیہ و ردیف)

میر

موا میں سجدہ میں پر نقش میرا بار رہا
اس آستاں پہ مری خاک سے غبار رہا

بتاں کہ عشق نے بے اختیار کر ڈالا
وہ دل کہ جس کا خدائی میں اختیار رہا

گلی میں اس کی گیا، سو گیا نہ بولا پھر
میں میر میر کر اس کو بہت پکار رہا

ولہ

پلکوں پہ تھے پارۂ جگر رات
ہم آنکھوں میں لے گئے بسر رات

کھلتی ہے جب آنکھ شب کو تجھ بن
کٹتی نہیں آتی پھر نظر رات

پر زلفوں میں مونہہ چھپا کے پوچھا
اب ہوے گی میر کس قدر رات

ولہ

صد تمنا اے یار رکھتے ہیں
تو بھی ہم دل کو مار رکھتے ہیں

غیر ہی موردِ عنایت ہے
ہم بھی تم سے تو پیار رکھتے ہیں

پھیر کرتے ہیں میر صاحب عشق
ہیں جوان، اختیار رکھتے ہیں

ولہ

تا چند ترے غم میں یوں زار رہا کیجے
امیدِ عیادت پہ بیمار رہا کیجے

ہے زیست کوئی یہ بھی جو میر کرے ہے تو
ہر آن میں مرنے کو تیار رہا کیجے

ولہ

طاقت نہیں ہے جی کو، نے اب جگر رہا ہے
اور دل ستم رسیدہ اک ظلم کر رہا ہے

چل ہمنشیں کہ دیکھیں آوارہ میر کو ٹک
خانہ خراب وہ بھی آج اپنے گھر رہا ہے


(ہائے ہوز بلا فصل فی قافیہ و ردیف)

میر

ضبط کرتا نہیں کنارہ ہنوز
ہے گریبان پارہ پارہ ہنوز

آتشِ دل نہیں بجھی شاید
قطرۂ اشک ہے شرارہ ہنوز

عمر گزری دوائیں کرتے ہمیں
دردِ دل کا ہوا نہ چارہ ہنوز



(میم بلا فصل فی قافیہ و ردیف)

غالب

نہ ہوگا یک بیاباں ماندگی سے، ذوق کم میرا
حبابِ موجۂ رفتار ہے نقشِ قدم میرا

محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بیدماغی ہے
کہ موجِ بوئے گل سے ناک میں آتا ہے دم میرا


ذوق

ہوا حمدِ خدا میں دل جو مصروفِ رقم میرا
الف الحمد کا سا بن گیا گویا قلم میرا

رہے نامِ محمد لب پہ یا رب اول و آخر
الٹ جائے بوقتِ نزع جب سینہ میں دم میرا

شہ بغداد کا خطِ غلامی ذوق رکھتا ہوں
نہ کیوں دل اس خطِ بغداد سے ہو جامِ جم میرا

ولہ

معلوم جو ہوتا ہمیں انجامِ محبت
لیتے نہ کبھی بھول کہ ہم نامِ محبت

معراج سمجھ ذوق تو قاتل کی سناں کو
چڑھ سر کے بل اس زینہ سے تا بامِ محبت

ولہ

سب مذاہب میں یہی ہے، نہیں اسلام میں خاص
کہ جہاں عام ہے ہوتا ہے وہاں عام میں خاص

ذوق اسمائے الٰہی ہیں سب اسمِ اعظم
اس کے ہر نام میں عظمت ہے نہ اک نام میں خاص



(الف بلا فصل فی قافیہ و ردیف)

غالب

رشک کہتا ہے کہ اس کا غیر سے اخلاص حیف
عقل کہتی ہے کہ وہ بے مہر کس کا آشنا

شوق ہے ساماں طرازِ نازشِ اربابِ عجز
ذرہ، صحرا دستگاہ و قطرہ دریا آشنا

کوہکن نقاش تک تمثال شیریں تھا اسد
سنگ سے سر مار کر ہووے نہ پیدا آشنا


ذوق

ان سے کچھ وصل کا ذکر اب نہیں لانا اچھا
وہ جو کچھ کہویں تو تم بھی کہے جانا اچھا

بد گماں دیکھو کچھ اسمیں بھی نہ ڈالیں رخنہ
روزنِ در سے نہیں آنکھ لڑانا اچھا

سامنے یار کے اے ذوق بہانا آنسو
ہے تو چاہت کے جتانے کو بہانا اچھا

ولہ

نالہ جب دل سے چلا سینہ میں پھوڑا اٹکا
چلتی گاڑی میں دیا عشق نے روڑا اٹکا

بھاگا مجنوں مری وحشت سے بگولے کی طرح
سامنے میرے ذرا بھی نہ بھگوڑا اٹکا

توسنِ عمر رواں ہر نفس اڑتا ہی رہا
کبھی میدانِ فنا میں نہ یہ گھوڑا اٹکا


قبلۂ من، جب ان اساتذہ کے ہاں روا ہے تو مبتدیوں کو بھی روا ہے، ان کی نظم کا آہنگ مجروح نہیں ہوا تو اس مبتدی کا تو نہ کریں۔ حضور نیاز مندی کا متمنی ہوں۔


اس شعر پر پہلے بات ہو چکي ہے اور "ي" کو گرانے کي رخصت بھي زير بحھ لائي گئي ليکن ميں سمجھتا ہوں کہ رخصت کي اجازت بحالت مجبوري ہوتي ہے اور يہاں کوئي ايسي مجبوري نہيں کہ اس رخصت سے فائدہ اٹھايا جائے مصرع کي موجودہ صورت طبع موزوں پر گراں گزرتي ہے


ارے محترم یہ کوئی عذرِ شرعی تو ہے نہیں کہ اجازت بحالتِ مجبوری ہی ہو، گویا کہ سفر میں قصر کر لو۔ یا پھر یہ کہ ہر شعر کے نیچے یہ لکھا جائے کہ شاعر کو یہاں مجبوری تھی سو اس نے فلاں لفظ کا اخفا کرلیا یا اشباع کر لیا۔ :)

آپ اردو شاعری میں سے ایک، صرف ایک شاعر کا نام بتا دیں جس نے اخفا و اشباع کا استعمال نہ کیا ہو کہ اسکے اشعار کا سرمہ بنا کر آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاؤں اور تحفتہ دوستوں کو ارسال کروں :)

جب "مسلم الثبوت" اساتذہ جگہ جگہ ان مراعات کا استعمال کرتے پھرتے ہیں تو ہم مبتدیوں پر اعتراض کیوں؟

عروض کے مشکل اور نا مقبول رہ جانے کی سب سے بڑی وجہ ہی یہی ہے کہ ہمارے اساتذہ نے اسے بہت مشکل بنا دیا ہے۔ جب تک کوئی خود سیکھ رہا ہوتا ہے اس کی کوشش ہوتی ہے کہ یہ علم آسان ہو جائے لیکن جب سیکھ جاتا ہے تو اسکی کوشش ہوتی ہے کہ جب کسی کو بتائے تو اور مشکل کر کے بتائے حالانکہ ایسا نہیں ہونا چاہیئے، جو مراعات عروض میں حاصل ہیں انکا استعمال کیوں نہ کیا جائے؟ رہی بات مقطع میں ی گرانے کی تو اعجاز صاحب نے کہا تھا کہ ی کیوں گرائی ہے اسکی جگہ 'میں' لاتے اور اسکی نون غنہ اور 'ی' دونوں گرا دیتے :)


دوسرے مصرعہ ميں " وائو عاطفہ" کے ساتھ دوست اور عدو کو ملايا گيا ہے جوکہ غريب ہے دونوں مختلف زبانوں کے الفاظ ہيں معروف طريقہ يہ ہے کہ وائو عاطفہ کے ذريعہ ايک ہي زبان کے الفاط کو جمع کيا جائے
مثلا ۔۔۔۔۔۔ روز و شب
اگر اس کو ہم يوں کريں ۔۔۔۔۔۔ روز و رات
تو کتنا عجيب لگے گا
اسي طرح
آفتاب و ماہتاب کو اگر آفتاب و چاند کر ليں
سياہ و سفيد کو اگر ۔۔۔ کالا و سفيد کريں
ابر وباراں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بادل و باراں
جن و انس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جن و آدمي
برگ و گل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پتہ و گل
غرض ايسي ہي بہت سي مثاليں دي جا سکتي ہيں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجموعي طور پر کامياب تجربہ ہے
اميد ہے کہ آپ اس نقد و نظر سے ناراض نہيں ہونگے:)


آپ کی بات سے مجھے مطلق اتفاق ہے، 'دوست و عدو' غریب ضرور ہے لیکن خلافِ اصول بالکل بھی نہیں ہے۔ اس اعتراض کے وارد ہونے کا مجھے پورا احتمال تھا اور وہ بھی فاتح صاحب کی جانب سے لیکن خوشی ہے کہ انہوں نے اسے صحیح سمجھا۔ ;)

آپ نے جو امثال تحریر فرمائی ہیں مجھے ان سے بھی پورا اتفاق ہے ان کو ایسے نہیں باندھنا چاہیئے لیکن شاید آپ ایک اصول صرفِ نظر کر گئے۔

ترکیب سازی کا اصول یہ ہے کہ دو مختلف زبانوں کے الفاظ کی ترکیب (ترکیبِ اضافی ہو، ترکیبِ توصیفی چاہے ترکیبِ عطفی) نہیں بن سکتی ما سوائے فارسی و عربی کے۔ محمد یعقوب آسی صاحب کی کتاب "فاعلات" میں سے یہ ربط دیکھیئے۔

http://www.urducl.com/Urdu-Books/969-416-206-005/p0164.php

آپ نے جو امثال تحریر فرمائی ہیں مثلاً روز و رات، بادل و باراں وغیرہ ان میں ایک لفظ ہندی اور ایک فارسی کا ہے اور اصول کے مطابق یہ تراکیب غلط ہیں۔

لیکن "دوست و عدو" میں ایک لفظ فارسی اور ایک عربی کا ہے اور اصول کے مطابق ترکیب درست ہے، مثلاً ملاحظہ کریں

جاہ و جلال (جاہ فارسی اور جلال عربی کا ہے لیکن ترکیب درست ہے)
عز و جاہ (عز عربی کا اور جاہ فارسی کا ہے لیکن ترکیب درست ہے)
جلال و حشم (عربی، فارسی)
جور و جفا (عربی، فارسی)
ظلم و ستم (عربی، فارسی)

اسطرح کی تراکیب (اضافی، توصیفی و عطفی) کی بے شمار امثال پیش کی جاسکتی ہیں جو دو مختلف زبانوں عربی اور فارسی سے مل کر بنی ہیں اور صرف انہیں دو زبانوں کی تراکیب درست ہیں۔

'دوست و عدو' جیسا کہ عرض کیا ہے اسکی غرابت میرے ذہن میں تھی لیکن باندھا بہرحال اسلیئے کہ ایک تو خلافِ اصول نہیں اور دوسرے کہ شاید غرابت ہی ندرت کو جنم دیتی ہے۔

شاکر القادری صاحب میں ایک بار پھر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے اس غزل کو اس قابل سمجھا کہ اپنی رائے سے نوازا۔

۔
 

الف عین

لائبریرین
دوست اور عدو مجھ کو بھی کھٹکا ضرور تھا، مگر محض اس لئے کہ دوست عام بول چال میں اس طرح در آیا ہے کہ ہندی کا لفظ محسوس ہونے لگا ہے۔ لیکن جب خیال آیا کہ دوست تو اصل فارسی ہے، تو محض غربت کی وجہ سے اس کو غلطی پر محمول نہیں کیا میں نے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
دوست اور عدو مجھ کو بھی کھٹکا ضرور تھا، مگر محض اس لئے کہ دوست عام بول چال میں اس طرح در آیا ہے کہ ہندی کا لفظ محسوس ہونے لگا ہے۔ لیکن جب خیال آیا کہ دوست تو اصل فارسی ہے، تو محض غربت کی وجہ سے اس کو غلطی پر محمول نہیں کیا میں نے۔


بہت شکریہ اعجاز صاحب ایک بار پھر، اور 'دوست و عدو' کی ترکیب کو غلطی پر محمول نہ کرنے پر آپ کا ممنون و شکر گزار بھی ہوں، نوازش آپ کی۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
برادر مکرم! محمد وارث!
ميں نے اپني پوسٹ ميں يہي عرض کيا تھا کہ دو حروف کا بلا فصل جمع کرنا معائب سخن ميں سے ہے تاہم کئي لوگوں نے اسے روا رکھا ہے ميري ذاتي رائے ميں کوشش کي جاني چاہيئے کہ ايسي کوئي بات شعر ميں نہ آئے

کوئي بھي شاعر جب شعر کہتا ہے ہے تو مشق سخن جو ں جوں بڑھتي چلي جاتي ہے کلام ميں پختگي خود بخود در آتي ہے اگر ہم مشق سخن ميں رخصتوں کي تلاش کي بجائے اپنے اوپر پابندياں عائد کريں تو ہم بہتر نتائج حاصل کر سکتے ہيں
ميں پہلے ہي عرض کر چکا تھا کہ بعض لوگوں نے اسے روا رکھا ہے اس ليے مجھے قائل کرنے کے ليے اساتذہ کے ہاں سے اتني اسناد لانے کي ضرورت تو نہ تھي چليں اسي بہانے کچھ اساتذہ کے کلام سے مستفيد ہونے کا موقع فراہم کر ديا آپ نے
ارے محترم یہ کوئی عذرِ شرعی تو ہے نہیں کہ اجازت بحالتِ مجبوری ہی ہو، گویا کہ سفر میں قصر کر لو۔ یا پھر یہ کہ ہر شعر کے نیچے یہ لکھا جائے کہ شاعر کو یہاں مجبوری تھی سو اس نے فلاں لفظ کا اخفا کرلیا یا اشباع کر لیا۔
بے شک يہ کوئي شرعي عذر نہيں ليکن ہر فن کے اپنے اپنے اصول اور ضابطے ہوتے ہيں اور فن شعر گوئي کي "شرع" ميں رخصت نام کي چيز مخصوص حالات ميں ہي ہوتي ہے اب کوئي اگر اسے ہر حالت ميں استعمال کرنا چاہے تو مجھے کيا عذر ہو سکتا ہے سائيں:) آپ کے ہاں متعلقہ مصرعوں ميں جو مضمون باندھا گيا ہے معمولي سي توجہ سے بغير رخصت استحقاقيہ کے کئي طرح سے باندھا جا سکتا تھا تاہم آپ کو لگتا ہے کہ ہر حالت ميں رخصت اويل کرنا چاہيے تاکہ کوئي چھٹي بچ نہ جائے تو ہمارے سرکاري ملازم کي طرح استعمال کرتے رہيں ميں خود سال کے اختتام پر اپنا ليو اکائونٹ ديکھتا ہوں اور پھر کئي چھٹياں اکٹھي لے کر مزے کرتا ہوں:)

آپ اردو شاعری میں سے ایک، صرف ایک شاعر کا نام بتا دیں جس نے اخفا و اشباع کا استعمال نہ کیا ہو کہ اسکے اشعار کا سرمہ بنا کر آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاؤں اور تحفتہ دوستوں کو ارسال کروں
درست ہے کہ تمام لوگوں نے ايسي رخصت کو برتا ہے ليکن مجھے يقين ہے کہ ان شعراء کے جن جن مصرعوں ميں ايسا کيا گيا ہے جب آپ غور فرمائيں گے تو معلوم ہوگا انہوں نے خواہ مخواہ اس کو نہيں برتا ہوگا ۔۔ اب ايسا بھي تو نہيں ناں کہ اخفا يا اشباع کے بغير اگر مصرع بن سکتا ہے تو بھي يہ ان کو برتنا لازم ہے

ايک اور بات وہ يہ کہ بعض مصارع عروض کے قواعد و ضوابط کے مطابق بالکل موزوں ہوتے ہيں ليکن ناقد کبھي يہ کہہ ديتا ہہے کہ اس کي بندش بڑي چست ہے اور کبھي ناقد کا يہ کہنا ہوتا ہے کہ ڈھيلا مصرع کہا ہے
تو صاحب بہت زيادہ رخصتيں استعمال کرنے سے بندشين چست نہيں رہتيں اور مصرعوں ميں ڈھيلا پن آجاتا ہے
 

شاکرالقادری

لائبریرین
دوست اور عدو مجھ کو بھی کھٹکا ضرور تھا، مگر محض اس لئے کہ دوست عام بول چال میں اس طرح در آیا ہے کہ ہندی کا لفظ محسوس ہونے لگا ہے۔ لیکن جب خیال آیا کہ دوست تو اصل فارسی ہے، تو محض غربت کی وجہ سے اس کو غلطی پر محمول نہیں کیا میں نے۔

بہت شکریہ اعجاز صاحب ایک بار پھر، اور 'دوست و عدو' کی ترکیب کو غلطی پر محمول نہ کرنے پر آپ کا ممنون و شکر گزار بھی ہوں، نوازش آپ کی۔
محترم اعجازاختر صاحب کو يہ ترکيب کھٹکي بھي تھي اور انہوں نے اس کي غرابت بھي محسوس کي تھي اور يہ کھٹکا تو آپ کو خود بھي تھا تاہم آپ نے غرابت ميں ندرت تلاش کرلي اور اس دريافت پر ميں آپ کا بھي شکر گزار ہوں:)
آپ نے جن تراکيب کي مثاليں ديں ہيں ان ميں موجود دونوں زبانوں عربي و فارسي کے جو الفاظ استعمال کيے گئے ہيں وہ فارسي ميں بھي بطور فارسي الفاظ کے ہي مستعمل ہيں اس ليے ان تراکيب ميں غرابت نہيں جہاں تک دوست اور عدو کا معاملہ ہے دوست تو ہے ہي فارسي کا لفظ تاہم عدو بھي فارسي ميں مستعمل ہے ليکن اس کے باوجود اہل فارس کے ہاں بھي ان دونوں حروف کو وائو عاطفہ کے ذريعہ ميرے محدود مطالعہ کے مطابق اساتذہ کے ہاں يکجا نہيں کيا گيا کيونکہ ان دونوں کو يکجا کرنے سے جو غرابت پيدا ہوتي ہے انہيں اس کا ادراک تھا يہ ميں اپنے محدود مطالعے کي بنا پر کہہ رہا ہوں ہو سکتا ہے کہ ايسي کوئي مثال مل جائے ليکن شاذ ہي
:)
اور حضور! ناراض مت ہويئے گا غالبيات اور فارسي کلام کے سلسلہ ميں آپ کي جانب سے شروع کيے جانے والے دھاگوں کي وجہ سے آپ سے جو قلبي تعلق پيدا ہوا تھا اس بنا پر يہ سب باتيں لکھ دي تھيں اور آپ نے خود بھي غزل پوسٹ کرتے ہوئے آراء طلب فرمائي تھي
سو ميں نے بھي اپني رائے کا اظہار کر ديا اور ميرے نقطہ نظر سے يہ کوئي رائے نہيں ہوتي کہ محض "سب اچھا ہے" کہہ ديا جائے۔ واہ واہ ، سبحان اللہ، کيا خوب کہا ہے، يہ جملے اور داد و تحسين کا انداز صرف مشاعروں ميں ہي اچھا لگتا ہے اور يہاں پر بھي ايسا تو بہت سے لوگ کہہ چکے ہيں ليکن مجھے تو رائے دينا تھي ايسي رائے جس کے بعد آپ بھيي تحقيق و جستو کريں اور آئندہ آپ کے کلام ميں بہتري آئے۔ اگر ميں بھي واہ واہ کردوں تو پھر آپ تو مطمئن ہو جائيں گے اور جب کوئي مطمئن ہو جاتا ہے تو ذوق طلب اور خوب سے خوب تر کا سفر رک جاتا ہے۔ سو ميں نے جيسي تيسي رائے دے دي بخدا اس سے کسي کي دل شکني منظور نہ تھي
 

عمر سیف

محفلین
عزیزانِ بزم ایک تازہ غزل آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں، امید ہے اپنی رائے سے مطلع فرمائیں گے۔


دنیا میں تری درد کا درمان نہیں ہے
ہر سمت خدا ہیں، کوئی انسان نہیں ہے

طاقت کے نشے میں جو لہو سچ کا بہائے
ظالم ہے، لٹیرا ہے وہ سلطان نہیں ہے

یہ بات غلط ہے کہ میں باطل کو نہ جانوں
یہ سچ ہے مجھے اپنا ہی عرفان نہیں ہے

جو آگ سے تیری میں نہیں ڈرتا تو واعظ
حوروں کا بھی دل میں کوئی ارمان نہیں ہے

سوچا ہے اسد اب کسی سے میں نہ ملوں گا
کچھ دوست و عدو کی مجھے پہچان نہیں ہے


۔

بہت خوب ۔۔۔۔۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
جن سر آپ نے یہ بات تو 1000 فصد ٹھیک کہی ہے کیوں کے ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے ہم جب بھی کسی کے پاس جاتے ہیں علمِ عروض کو سیکھنے کے لیے تو ہم کو ایسی ایسی باتیں بتائی جاتی ہے کہ ہم کو بہت ہی مشکل لگتا ہے جس کی وجہ سے نئے لکھنے والے علمِ عروض کو سیکھتے ہی نہیں اور میں نے بہت سے ایسے بھی لکھنے والے دیکھے ہیں جو صرف اور صرف علمِ عروض کی مشکل کی وجہ سے غزل لکھنا ہی چھوڑ گے ہیں اور آزاد نظم لکھتے ہیں ان کا بھی یہی کہنا ہے کے ہم کو کوئی سمجھاتا ہی نہیں ہے اور مجھ جیسے کم علم لوگو کو تو علمِ عروض اس وقت تک سمجھ نہیں آ سکتا جب تک آپ جیسے قابل اساتذہ توجو نا دے گے شکریہ
 

محمد وارث

لائبریرین
............. میں نے بہت سے ایسے بھی لکھنے والے دیکھے ہیں جو صرف اور صرف علمِ عروض کی مشکل کی وجہ سے غزل لکھنا ہی چھوڑ گے ہیں اور آزاد نظم لکھتے ہیں ان کا بھی یہی کہنا ہے کے ہم کو کوئی سمجھاتا ہی نہیں ہے ............

خرم صاحب، عروض سے مفر کسی صورت بھی ممکن نہیں، آزاد نظم کا یہ مطلب نہیں کہ وہ عروض کی پابندیوں سے آزاد ہے، اس میں زیادہ سے زیادہ رعایت قافیہ اور ردیف کی ہے یا پھر بحر کے ارکان کو اپنی مرضی کی طوالت سے باندھنے کی لیکن بہرحال آزاد نظم ہوتی کسی نہ کسی بحر میں ہی ہے سو اس میں بھی وزن ہوتا ہے۔ ان 'قیود' سے صرف اور صرف نثری نظم آزاد ہے اور اسے شعراء نظم مانتے ہی نہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اور حضور! ناراض مت ہويئے گا غالبيات اور فارسي کلام کے سلسلہ ميں آپ کي جانب سے شروع کيے جانے والے دھاگوں کي وجہ سے آپ سے جو قلبي تعلق پيدا ہوا تھا اس بنا پر يہ سب باتيں لکھ دي تھيں اور آپ نے خود بھي غزل پوسٹ کرتے ہوئے آراء طلب فرمائي تھي
سو ميں نے بھي اپني رائے کا اظہار کر ديا اور ميرے نقطہ نظر سے يہ کوئي رائے نہيں ہوتي کہ محض "سب اچھا ہے" کہہ ديا جائے۔ واہ واہ ، سبحان اللہ، کيا خوب کہا ہے، يہ جملے اور داد و تحسين کا انداز صرف مشاعروں ميں ہي اچھا لگتا ہے اور يہاں پر بھي ايسا تو بہت سے لوگ کہہ چکے ہيں ليکن مجھے تو رائے دينا تھي ايسي رائے جس کے بعد آپ بھيي تحقيق و جستو کريں اور آئندہ آپ کے کلام ميں بہتري آئے۔ اگر ميں بھي واہ واہ کردوں تو پھر آپ تو مطمئن ہو جائيں گے اور جب کوئي مطمئن ہو جاتا ہے تو ذوق طلب اور خوب سے خوب تر کا سفر رک جاتا ہے۔ سو ميں نے جيسي تيسي رائے دے دي بخدا اس سے کسي کي دل شکني منظور نہ تھي

ارے بالکل بھی نہیں، واللہ بالکل بھی نہیں قبلہ محترم، ناراضگی اور دل شکنی والی قطعاً کوئی بات نہیں ہے شاکر القادری صاحب بلکہ میں تو آپ کا ممنون ہوں کہ آپ نے اپنی قیمتی رائے سے آگاہ فرمایا اور آپکی باتوں نے یقین مانیے مہمیز کا کام ہی کیا ہے جس کیلیے میں ایک بار پھر آپ کا شکر گزار ہوں۔

آپ، اعجاز صاحب اور فاتح صاحب تو اس محفل کی انجمنِ سخن کی جان ہیں حضور، اور میری خوش بختی ہے کہ آپ سب کا ساتھ میسر ہے۔

یقینِ واثق ہے کہ آئندہ بھی اپنی بیش بہا اور بے لاگ رائے سے ہم جیسے مبتدیوں کی راہنمائی فرماتے رہیں گے۔ نوازش آپکی برادرمِ مکرم و محترم۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
خرم صاحب، عروض سے مفر کسی صورت بھی ممکن نہیں، آزاد نظم کا یہ مطلب نہیں کہ وہ عروض کی پابندیوں سے آزاد ہے، اس میں زیادہ سے زیادہ رعایت قافیہ اور ردیف کی ہے یا پھر بحر کے ارکان کو اپنی مرضی کی طوالت سے باندھنے کی لیکن بہرحال آزاد نظم ہوتی کسی نہ کسی بحر میں ہی ہے سو اس میں بھی وزن ہوتا ہے۔ ان 'قیود' سے صرف اور صرف نثری نظم آزاد ہے اور اسے شعراء نظم مانتے ہی نہیں۔

جی ہاں آپ کی بات پھتر پر لکیر ہے جی آپ نے درست فرمایا
میں اکثر اکادمی ادبیات جاتا ہوں تو
وہاں سے بہت کچھ سیکھنے کا ملتا ہے وہاں ایک صاحب ہے اختر رضا سلمی صاحب ان سے میری بات ہوئی تھی تو انھوں نے بھی یہی بات کہی تھی جو آپ نے کہی ہے لیکن بہت سارے اچھے اچھے شاعر ہے انھوں نے بھی نظم لکھیں ہیں جسے محسن نقوی صاحب فراز احمد فراز صاحب اور امجد اسلام امجد صاحب ان کی تو نظمین بہت مشہور ہیں
 

محمد وارث

لائبریرین
آپ صحیح کہہ رہے ہیں خرم صاحب، آزاد نظم اردو شاعری میں ایک مستقل اور اہم شکل اختیار کر چکی ہے۔ اقبال کے بعد، جدید اردو شاعری میں قریب قریب سبھی مشہور شعراء کرام نے آزاد نظم کہی ہے اور کیا خوب کہی ہے۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
آپ صحیح کہہ رہے ہیں خرم صاحب، آزاد نظم اردو شاعری میں ایک مستقل اور اہم شکل اختیار کر چکی ہے۔ اقبال کے بعد، جدید اردو شاعری میں قریب قریب سبھی مشہور شعراء کرام نے آزاد نظم کہی ہے اور کیا خوب کہی ہے۔

جی وارث صاحب میں اسی بات کو مدِنظر رکھ کر بات کر رہا تھا کہ کچھ لوگ آزاد نظم کی وجہ سے علمِ عروض سے بھاگ جاتے ہیں اور نثری نظم یا آزاد نظم کو ہی شاعری سمجھ کر لکھنا شروع کر دیتے ہیں ابھی کچھ دن پہلے کی ہی بات ہے ہمارے علاقے میں ایک تنظم ہے نوائے ادب کے نام سے میں اس کا ممبر ہوں وہاں سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے اس وجہ سے ایک صاحب نے مجھے فون کیا اور کہا سر میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں شعری کے حوالے سے بات کرنی ہے میں نے اس کو بتایا محترم مجھے خود اس بارے میں کچھ پتہ نہیں لیکن میں آپ سے مل لیتا ہوں جب ملا تو محترم نے مجھے اپنا سارا کلام سنایا جس میں نظمیں زیادہ اور غزلیں نا ہونے کے برابر ویسے تومجھے خوب بھی علمِ عروض کے بارے میں علم نہیں ہے لیکن میں نے اس کو رائے دی علمِ عروض کے بارے میں تو وہ مجھے مشہور شاعروں کی نظمیں سنانے لگ گیا کہتا ہے اگو وہ نظمیں لکھ سکتے ہیں تو ہم بھی لکھ سکتے ہیں اور اس وجہ سے محترم نے علمِ عروض سے جاں چھوڑا لی
 

محمد وارث

لائبریرین
اچھی بات ہے جو آپ نئے ساتھیوں کو بتاتے ہیں اور انکی غلط فہمی کو دور کرتے ہیں کہ آزاد نظم اور چیز ہے اور نثری نظم چیزے دیگری۔ آزاد نظم عروض اور وزن کے تابع ہے اور نثری نظم، شاعری یا نظم سرے سے ہے ہی نہیں بلکہ نثر کی ایک قسم ہے۔
 
ایک اور عمدہ غزل۔ بہت عمدہ وارث بھائی
دنیا میں تری درد کا درمان نہیں ہے
ہر سمت خدا ہیں، کوئی انسان نہیں ہے
طاقت کے نشے میں جو لہو سچ کا بہائے
ظالم ہے، لٹیرا ہے وہ سلطان نہیں ہے
یہ بات غلط ہے کہ میں باطل کو نہ جانوں
یہ سچ ہے مجھے اپنا ہی عرفان نہیں ہے

ایک ذرا غزل سے ہٹ کر بات یہ کہ پچھلے دنوں محفل کی سیر کرتے ہوئے کچھ مشاعروں سے گزر ہوا تو خیال آیا کہ آپ سے پوچھا جائے کہ یہ سلسلہ منقطع کیونکر ہوا؟
 
Top