میری فکری تنہائی کا سدباب کیجیے۔۔۔

ابوشامل

محفلین
دُور مت جائیے آج سے 15 سال پہلے کے بھارت کو ہی دیکھ لیجئیے ۔ کیا ایسا نہیں لگتا تھا کہ اس کی ریاستیں عنقریب بکھر جائیں گی لیکن وہاں کے عوام اور کورٹس نے اپنے اپنے طور پر کردار نبھایا اور سیاسی استحکام کی طرف سفر شروع کیا۔
یہی وہ بات ہے جو میں ہمیشہ اپنے دوستوں سے کہتا ہوں کہ جمہوریت ایک ارتقائی عمل ہے اور ہمارے ملک میں اس ارتقائی عمل کو پنپنے کا موقع ہی کتنا دیا گیا۔ کتنے ادوار سیاستدانوں کی حکومت کے رہے جنہیں جمہوری اقدار کو پروان چڑھانے کا موقع دیا گیا۔ بقول آپ کے بھارت کی مثال ہی لے لیں کیا وہ شروع سے ہی اتنا جمہوری تھا، ہر گز نہیں! بلکہ بھارت کی موجودہ مثالی جمہوریت ایک طویل و صبر آزما عمل کا نتیجہ ہے۔ کیا وہاں حالات خراب نہ ہوئے تھے؟ کیا وہاں کے لیڈر بد عنوان نہیں تھے؟ کیا وہاں فسادات نہیں ہوتے تھے؟ لیکن اس کے باوجود فوج نے سیاسی معاملات میں مداخلت کو اپنا شیوہ نہ بنایا اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آج بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے جبکہ ہمارے ہاں کی صورتحال سب کے سامنے ہے۔ تو جب کسی کو موقع ہی نہ دیا گیا تو ان سے شکوہ کس بات کا میری نظر میں پاکستان کے تمام مسائل کی بنیاد فوج کی سیاسی معاملات میں مداخلت ہے۔ اور پاکستان میں اگر تبدیلی لانی ہے تو سب سے پہلے اس کردار کو ختم کیا جانا چاہیے، اس کے بعد عوام جانیں اور سیاست دان جانیں،اگر کوئی سیاست دان صحیح نہیں چلے گا تو عوام خودہی اس سے نمٹ لیں گے۔
 
فاروق بھائی۔۔۔ بلاک والی بات درست ہے۔۔۔ کسی ایک ملک کے لیے خودمختاری سے زندہ رہنا ممکن نہیں بلاک ہونا چاہیے۔۔۔۔
جی بلاک بنانے کے لئے عملی کاروائی کی ضرورت ہے، اس کے لئے کسی حکومت کی پذیرائی کی ضرورت نہیں۔ چند لوگ مل کر یہ کام شروع کرسکتے ہیں۔ اسلامی معاشرہ میں‌اتحاد قائم کرنے کے لیے کچھ زیادہ نہیں کرنا پڑے گا۔ اس طرح کی غیر خفیہ جماعتیں‌جیسے ٹوسٹ ماسٹرز سے تنظیم کا سبق لیا جاسکتا ہے۔ ٹوسٹ ماسٹرز کی تنظیم کا نظام فری میسن ہی سے ملتا جلتا ہے۔ کہ کچھ کم سے کم مذہبی نکات پر سب لوگ متفق ہوں اور مقاصد اچھے ہوں۔ نیک نیتی سے جو بھی کیا جائے پھلتا پھولتا ہے۔ ایسا اتحاد ہی ہمارے رہنماوں کو قوت فراہم کرے گا، جو عوامی سطح پر ہو اور انڈونیشیا سے مراکو تک وسیع ہو۔
 

ظفری

لائبریرین
سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کا کوئی مستقبل بھی ہے؟ یا وہی احمد فراز کی بات جو انہوں نے تازہ ترین انٹرویو میں کہی کہ پاکستان کو صرف کوئی معجزہ ہی ٹھیک کر سکتا ہے؟ آپ کی کیا رائے ہے؟


بات یہ نہیں ہے کہ پاکستان کو کوئی معجزہ ہی ٹھیک کر سکتا ہے ۔ یا یوں کہہ لیں کہ تبدیلی کی ہر کوشش لاحاصل ہے ۔ ایسا کہنا اسی وقت ممکن ہے جب زندگی کو معنویت سے عاری سمجھا جائے ۔ سوال یہ ہے کہ سیاسی تبدیلی کی جہدوجہد کسی ہمہ گیر سماجی تبدیلی پر منتج ہو سکتی ہے ۔ ؟ میرا کہنا یہ ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہے ۔ سیاسی میدان میں وسائل اور وقت کے استعمال کا حاصل صرف عمرِ رائیگاں کا ماتم ہے ۔ جو معاشرتی تبدیلی کے لیئے سنجیدہ ہیں انہیں چاہیئے کہ وہ سیاست کے بجائے کسی اور میدان کا انتخاب کریں ۔ یہاں تبدیلی سے مراد ایک ایسے معاشرے کی تشکیل ہے ۔ جو مادی ترقی کے اعتبار سے مغربی معاشروں سے کسی طرح بھی کم نہ ہو اور اللہ کے حضور میں جواب دہی کا یہ احساس ان کے اجمتاعی ضمیر کا مستقل اور اٹوٹ حصہ ہو ۔ ( اور شاید اسی حوالے سے حجازی صاحب نے پاکستان کے مستقبل کی بات کی ہے ) ۔

میرا کہنا یہ ہے کہ اصل اہمیت معاشرے کی ہے ۔ ریاست معاشرے کا ایک ادارہ ( By - Product ) ہے ۔ ایک مصلح کا میدان معاشرتی اصطلاح ہے ۔ جس کا ایک نتیجہ سیاسی اصلاح ہے ۔ یہ عمل معاشرتی سطح پر ایک شعوری تبدیلی سے شروع ہوگا ۔ اور یہ تبدیلی تعلیم و تربیت سے آتی ہے ۔ میری بات کے مخاطب وہ لوگ ہیں ۔ جن کے نزدیک سیاست کسی مقصدیت کے تابع ہے ۔ میں یہ مشورہ کسی سیاسی لیڈر کو نہ دے سکوں کہ اس کے لیئے ان کا ہدف کوئی دوسرا ہوگا ۔ لیکن اس کی غلطی اسی وقت واضع ہوگی جب تبدیلی کی حکمتِ عملی کسی سنجیدہ بحث کا موضوع بنے ۔

ہماری تاریخ یہ ہے کہ چند سالوں بعد ہم کسی تبدیلی کو ناگزیر سمجھتے ہیں ۔ اور ہمارے ” سیاسی قائدین ” اس مقصد کے لیئے میدان میں نکل پڑتے ہیں ۔ ہر دورِ اقتدار کے بارے میں یہ تکرار عام ہے کہ ” یہ ہماری تاریخ کا بدترین دور ہے ” ۔ میں اگر اپنی معلومات کی بات کروں تو بھٹو کے دور کو اسلام اور قومی سلامتی کے لیئے بدترین قرار دیا گیا ۔ وہ رخصت ہوئے تو گلی و بازاروں میں مٹھائی تقسیم کی گئی ۔ ابھی اس سرشاری کی کیفیت میں ہی تھے کہ معلوم ہوا کہ ملک مارشل لاء کی زرد میں ہے اور پھر گیارہ سال اسی میں گذر گئے ۔ اسی دوران یہ انکشاف ہوا کہ ضیاء کے دور سے زیادہ تاریک دور ملک میں نہیں آیا ۔ وہ گئے تو بینظیر آگئیں ۔ ان کا دور بھی بتایا گیا کہ بدترین دور تھا ۔ پھر نواز شریف کے دور کو بھی اسی عنوان سے نوازا گیا ۔ اور اب یہ سلسلہ جنرل مشرف کے دور تک جاری و ساری ہے ۔ اب تبدیلی کی خواہش پھر شدت سے ہے ۔ لیکن آنے والا دور کیسا ہوگا ۔ کوئی بھی نہیں جانتا ۔ اگر اس تاریخی تسلسل کو سامنے رکھیں تو اُسے بھی بدترین ہونا چاہیئے ۔ کم از کم اقتدار سے محروم لوگوں کی تو یہی رائے ہوگی ۔ لہذا ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا بدترین کا حصول ہی وہ تبدیلی ہے ۔ جس کے ہم خواہشمند ہیں ۔ ؟

موجودہ حالات کا تسلسل کسی کے بھی حق میں نہیں ہے ۔ بے یقینی کی اس کیفیت سے معاشی عمل ، امن وامان ، جہموری اقدار اور سب سے بڑھ کر قومی اداروں کا وقار اور بقاء سب خطرے میں ہے ۔ جو لوگ سیاست میں اس مشن کے ساتھ آئے تھے کہ وہ اس سے معاشرے کو تبدیل کر لیں گے ۔ مگر وہ معاشرے کو کیا تبدیل کرتے ۔ بلکہ سیاست نے انہیں بدل کر رکھ دیا ۔ اب وہ سیاست کے رحم وکرم پر ہیں ۔ اور آج ان کو یہ بھی یاد نہیں کہ وہ اس میدان میں کس عزم کے ساتھ اترے تھے ۔ جماعتِ اسلامی اور عمران خان کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔ میرا تاثر یہ ہے کہ جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ سیاست اور اقتدار کے زور پر اس ملک کو مذید اسلامی یا سیکولر بنا دیں گے تو وہ صرف اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں ۔ اگر ملک کو سیکولر بنانا ممکن ہوتا تو یہ کام 1970 ہی میں ہوجاتا ۔ جب پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تھی ۔ اور اسی طرح اسلام کی کسی خاص تعبیر کا نفاذ یہاں ممکن ہوتا تو آج سرحد کی فضاء بدل چکی ہوتی ۔ سیاست دنیا بھر میں اجتماعیت کی سطح پر درپیش مسائل کو مخاطب کرنے کا نام ہے ۔ اگر ہمیں اپنی سوچوں یا سماجی ہیت میں تبدیلی مقصود ہے تو ہمیں سیاست کے بجائے معاشرے کو مخاطب کرنا چاہیئے ۔ اور سیاست میں سرگرم لوگوں کو یہ چاہیئے کہ وہ پاکستان کے داخلی و خارجی مسائل کے حل کے لیئے کوئی تگ و دو کریں ۔اور کوئی مناسب حل نکالیں ۔

میرے نزدیک محسن حجازی کے سوال ” پاکستان کا مستقبل کیسا ہے ۔ ؟ ” کا جواب صرف ایک حقیقی جہموری ریاست کی تشکیل میں پنہاں ہے ۔ اور اس کے لیئے ناگزیر ہے کہ سیاستدان اپنے طرزِ عمل سے دو باتوں کی ضانت دیں ۔ ایک تو یہ کہ خیالات کی یکسانیت کے باوجود کسی بھی غیر جہموری حکمران سے کوئی سودے بازی نہیں کی جائے گی ۔ اور دوسرا یہ کہ پارلیمنٹ کی بالادستی کو ہرصورت مقدم رکھا اور تسلیم کیا جائے گا ۔ چاہے اکثریت کا فیصلہ ہمارے موقف سے کتنا ہی مخلتف کیوں نہ ہو ۔

میں جانتا ہوں عملاً ایسی کوئی بات نہیں ہونے والی ۔ لوگ آمریت سے امیدیں وابستہ کرتے رہیں گے ۔ سیاست کو تبدیلی کی اساس سمجھیں گے ۔ فوجی حمکرانوں سے معاملات طے کریں گے ۔ اور پارلیمنٹ کے اسی فیصلے کو تسلیم کریں گے جو ان کے موقف کے حسبِ منشا ہوگا ۔ سیاست کے چلن میں یہ تبدیلی صرف اس صورت میں ممکن ہے ۔ جب ملک میں آنے والی ایک بڑی سماجی تبدیلی خود سیاست کے مطالبات کو ہی بدل ڈالے گی ۔ اور مجھے ایسی سماجی تبدیلی کے لیئے اٹھنے والی کسی تحریک کا انتظار ہے ۔ مگر سچ یہ ہے کہ انسان اگر اندر سے تبدیل نہ ہو تو خارجی ذرائع صرف ایک حد تک ہی برائی کو روک سکتے ہیں ۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہمیں اپنے اندر تبدیلی کا یہ احساس کب پیدا کرتے ہیں کہ اُمید سمت ہر درخت کی کونپل زرخیز زمین سے ہی پُھوٹتی ہے ۔
 

محسن حجازی

محفلین
ظفری بالکل ٹھیک کہا آپ نے۔۔۔ خصوصی طور پر تبدیلی کی ذیل میں تو بہت قیمتی بات کہی آپ نے۔۔۔

فاروق بھائی آپ کی بات پسند آئی۔۔۔ اگر میں یہ مطالبہ کروں کہ مذکورہ کردار کی تنظیم ہم خود اس فورم سے بنائیں کہ ہم خود بھی عام لوگ ہی ہیں تو کیا یہ جذباتی بات تو نہیں ہو گی؟ اور یہ کہ اس کی بنیاد اسلامی امور پر ہو اور اس میں بھی صرف وحدت الہی اور رسالت محمد کو مشترک بنیاد رکھا جائے فقہی و دیگر اختلافی امور کلی طور پر نظر انداز کرتے ہوئے بارہ پتھر باہر رکھا جائے؟ اور یہ کہ اسے اپنے طور پر دیگر مسلم اقوام میں پھیلانے کی کوشش کی جائے؟ اور یہ کہ ہنر مند ذہین مسلم افراد کو خصوصی طور پر ہدف بناتے ہوئے ایسی تنظیم میں شامل کیا جائے تاکہ رفتہ رفتہ کوئی تیس چالیس برس میں دنیا کے بہترین مسلم دماغ سرکاری سرپرستی سے آزاد ایک جگہ مجتمع ہوں؟ ان سب کی اجتماعی قوت سے ملت اسلامیہ کہ مفادات کے تحفظ کی جنگ لڑی جا سکے بلا بارود کے؟ مسلم حکومتوں سے اسے علیحدہ رکھا جائے کہ وہاں بھی امریکی کارندے ہی بیٹھے ہیں۔۔۔ کیا ایسا ممکن ہے؟ کیا کم سے کم ایسا ممکن نہیں کہ میں اور آپ ہی اس فرضی تنظیم کے رکن بن جائیں؟ خواہ ہماری تمام زندگی میں اس اجتماع میں تیسرا شخص داخل تک نہ ہو پھر بھی محض رضائے الہی کے لیے؟

یا پھر یہ عمران سیریز والی باتیں ہیں؟
 

ساجد

محفلین
آپ کی بات کسی حد تک تو درست ہے لیکن بہرحال زمینی حقائق بہت مختلف ہیں۔ اگر ہم مختلف میدانوں میں چیونٹی کی رفتار سے ترقی کر رہے ہیں تو ہمارے مقابلے میں دیگر ممالک چیتے کی رفتار سے آگے نکلے جا رہے ہیں، اپنے پڑوسی بھارت کی ہی مثال لیجیے آپ کی بتائی گئی تمام صنعتوں میں ہمارا اس سے کیا مقابلہ ہے؟
ایک اور بات جو میرے ذہن میں کھٹکتی ہے کہ شاید اخلاقی طور پر بھی ہماری قوم اب پہلے جیسی نہیں رہی اور اگر ایک جانب معاشی طور میں بہتری آ رہی ہے تو "ھل من مزید" کی گردان بھی جاری ہے اور "تکاثر" کی دوڑ اپنے عروج پر دکھائی دے رہی ہے۔ سادگی کا عنصر ناپید ہوتا جا رہا ہے اور اس کی جگہ تصنع، بناوٹ اور دکھاوے نے لے لی ہے۔ اور یہ کلچر اب شہروں سے دیہات کی جانب رخ کر رہا ہے۔ اُدھر اخلاقی سطح روز بروز نیچے آتی جا رہی ہے، شرم و حیا جو ہمارے معاشرے کا بنیادی عنصر تھا، اس کو لپیٹ کر پھینک دیا گیا ہے۔ خواتین حتی کہ نو عمر بچیوں کے ساتھ روزانہ پیش آنے والے واقعات اس امرکے گواہ ہیں کہ اخلاقی طور پر ہم ہر روز زوال پذیر ہوتے جا رہے ہیں۔
اور میری نظر میں کسی بھی قوم کی ترقی کے دو اسباب ہو سکتے ہیں ایک اس کا تعلیمی و فکری میدانوں میں کار ہائے نمایاں انجام دینا اور دوسرا اخلاق کی اعلی سطح پر فائز ہونا۔ رومی سلطنت دنیا کی سب سے بڑی سلطنت تھی لیکن اخلاقی گراوٹ نےان کو 200 سال کے اندر ایسا ختم کیا کہ اس کے وجود کے ٹکڑے سمٹنے والا بھی کوئي نہ رہا۔ یورپ اور امریکہ کے عروج کو بھی اسی اخلاقی زوال سے خطرہ لاحق ہے اور ہم نے تو ابھی عروج کی سیڑھی پر پہلا قدم ہی نہیں رکھا اور اسی قدم پر لغزش ہو گئی تو اللہ ہی ہمارا حافظ ہوگا۔
لیکن میں اتنا اتفاق کروں گا کہ جہاں بہت سارے minus points ہیں وہیں کچھ plus points بھی ہیں۔ ہم نہ صورتحال کو مجموعی طور پر اچھا کہہ سکتے ہیں نہ بالکل برا۔

سونے میں تولنے جیسی بات کی ہے فاتح بھائی
جی ، آپ نے درست فرمایا کہ ہماری چیونٹی کی رفتار والی ترقی کی نسبت دیگر ممالک چیتے کی رفتار سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس کے بنیادی اسباب تو وہی ہیں کہ ان ممالک نے اپنی عوام کی تعلیم پر ہم سے کہیں زیادہ توجہ دی اور حکومتوں کی تبدیلیوں کے باوجود انہوں نے اپنی پالیسیوں میں تسلسل ٹوٹنے نہیں دیا۔
بالکل ٹھیک کہا آپ نے کہ ان کی صنعتوں سے ہمارا کیا موازنہ لیکن ایسی بھی حالت نہیں ہے کہ ہم بالکل ہی تہی داماں ہیں ان کے سامنے۔ ہم نے اپنے اجڑے چمن کی تعمیر آج سے 60 برس پہلے شروع کی اور بھارت ہزاروں سالوں سے قائم ایک مضبوط اور مستحکم سیاسی اور مالیاتی نظام سے مالا مال تھا لیکن اگر آپ ترقی کے تناسب کو دیکھیں تو اتنا گہرا نہیں۔ ہاں یہ فرق ضرور ہے کہ ہم پاکستانی اپنے ملک کی اچھی چیز کی بھی تعریف نہیں کرتے اس کے برعکس بھارتی اپنے دیس کی گئی گزری چیز کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں۔
برادر ابو شامل ، یہ بات طے ہے کہ جب جب پیسے کی فراوانی ہو گی تب تب معاشرے میں اس سے متعلقہ برائیوں کی بھی بہتات ہوتی جائے گی۔ سخت قوانین اور تنبیہات اس کو ایک حد تک ہی قابو میں رکھ سکتے ہیں ۔ یہاں بھی بات وہی ہے کہ ترقی کے ساتھ ساتھ ذمہ داریوں کا احساس پیدا کیا جائے اور بات گھوم کر پھر تعلیم و تربیت پر آ جاتی ہے اور یہ پورے معاشرے کے ہر فرد کی انفرادی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اس ذمہ داری کو پورا کرے۔ اس کے لئیے اسلام نے بہت روشن اور رہنما اصول وضع کئیے ہیں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ جہاں سے اسلام کا آغاز ہوا وہاں بھی دولت کی فراوانی کے بعد ان پر عمل نہیں کیا جاتا اور برائیاں ہیں کہ طوفان کی طرح سے بڑھتی جا رہی ہیں ۔ قوانین موجود ، احترام مفقود۔ جو پھنس گیا وہ مجرم جو آنکھ میں دُھول جونک گیا وہ فنکار۔​
 

ابوشامل

محفلین
معاشرتی تبدیلی کے لیئے سنجیدہ ہیں انہیں چاہیئے کہ وہ سیاست کے بجائے کسی اور میدان کا انتخاب کریں ۔ یہاں تبدیلی سے مراد ایک ایسے معاشرے کی تشکیل ہے ۔ جو مادی ترقی کے اعتبار سے مغربی معاشروں سے کسی طرح بھی کم نہ ہو اور اللہ کے حضور میں جواب دہی کا یہ احساس ان کے اجمتاعی ضمیر کا مستقل اور اٹوٹ حصہ ہو ۔
صد فی صد متفق

موجودہ حالات کا تسلسل کسی کے بھی حق میں نہیں ہے ۔ بے یقینی کی اس کیفیت سے معاشی عمل ، امن وامان ، جہموری اقدار اور سب سے بڑھ کر قومی اداروں کا وقار اور بقاء سب خطرے میں ہے ۔ جو لوگ سیاست میں اس مشن کے ساتھ آئے تھے کہ وہ اس سے معاشرے کو تبدیل کر لیں گے ۔ مگر وہ معاشرے کو کیا تبدیل کرتے ۔ بلکہ سیاست نے انہیں بدل کر رکھ دیا ۔ اب وہ سیاست کے رحم وکرم پر ہیں ۔ اور آج ان کو یہ بھی یاد نہیں کہ وہ اس میدان میں کس عزم کے ساتھ اترے تھے ۔ جماعتِ اسلامی اور عمران خان کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔

آپ کی ان دونوں باتوں سے بالکل متفق ہوں کہ اب سیاست کے میدان کو جو غلاظت کا ڈھیر بن چکا ہے اس میں کود کر خود کو گندا کرنے کے بجائے معاشرتی اصلاح کے میدان کا انتخاب کیا جائے تاکہ اس کے ذریعے ملک میں تبدیلی لائے جا سکے۔
عمران خان کو خیر نو وارد ہیں لیکن گذشتہ دو تین دہائیوں کی سیاست نے جماعت اسلامی پر بہت برا اثر ڈالا ہے اگر وہ فکری جماعت کے طور پر منظم رہتی تو خصوصا اصلاح معاشرہ کے لیے اس کا کردار نہایت اہم ہوتا۔
 

ساجد

محفلین
ساجد بھائی!
فری میسنری کے متعلق یہ کتاب دیکھیے گا:
http://www.esnips.com/nsdoc/0acfa804-a507-4657-a07b-bfc41ed8e9d1

مندرجہ ذیل روابط بھی دیکھیے گا:
http://ghazwah-urdu.sitesled.com/Articals/Fitnay/freemasson.htm (اردو)
http://www.phoenixmasonry.org/freemasons_book_of_the_royal_arch.htm (انگریزی)

لیکن چونکہ یہ تنظیم ایک خفیہ تنظیم کی حیثیت سے کام کرتی ہے لہٰذا یہ تمام آرا قیاس بھی ہو سکتی ہیں اور درست بھی۔
فاتح بھائی ،
ربط ارسال فرمانے کا بہت بہت شکریہ۔
 

دوست

محفلین
ظفری بالکل ٹھیک کہا آپ نے۔۔۔ خصوصی طور پر تبدیلی کی ذیل میں تو بہت قیمتی بات کہی آپ نے۔۔۔

فاروق بھائی آپ کی بات پسند آئی۔۔۔ اگر میں یہ مطالبہ کروں کہ مذکورہ کردار کی تنظیم ہم خود اس فورم سے بنائیں کہ ہم خود بھی عام لوگ ہی ہیں تو کیا یہ جذباتی بات تو نہیں ہو گی؟ اور یہ کہ اس کی بنیاد اسلامی امور پر ہو اور اس میں بھی صرف وحدت الہی اور رسالت محمد کو مشترک بنیاد رکھا جائے فقہی و دیگر اختلافی امور کلی طور پر نظر انداز کرتے ہوئے بارہ پتھر باہر رکھا جائے؟ اور یہ کہ اسے اپنے طور پر دیگر مسلم اقوام میں پھیلانے کی کوشش کی جائے؟ اور یہ کہ ہنر مند ذہین مسلم افراد کو خصوصی طور پر ہدف بناتے ہوئے ایسی تنظیم میں شامل کیا جائے تاکہ رفتہ رفتہ کوئی تیس چالیس برس میں دنیا کے بہترین مسلم دماغ سرکاری سرپرستی سے آزاد ایک جگہ مجتمع ہوں؟ ان سب کی اجتماعی قوت سے ملت اسلامیہ کہ مفادات کے تحفظ کی جنگ لڑی جا سکے بلا بارود کے؟ مسلم حکومتوں سے اسے علیحدہ رکھا جائے کہ وہاں بھی امریکی کارندے ہی بیٹھے ہیں۔۔۔ کیا ایسا ممکن ہے؟ کیا کم سے کم ایسا ممکن نہیں کہ میں اور آپ ہی اس فرضی تنظیم کے رکن بن جائیں؟ خواہ ہماری تمام زندگی میں اس اجتماع میں تیسرا شخص داخل تک نہ ہو پھر بھی محض رضائے الہی کے لیے؟

یا پھر یہ عمران سیریز والی باتیں ہیں؟
ست بسم اللہ
 
محسن آپ نے بہت اچھے خیالات کا اظہار کیا۔ آپ کے خیالات کی تائید میں مزید وضاحت حاضر ہے۔

فاروق بھائی آپ کی بات پسند آئی۔۔۔ اگر میں یہ مطالبہ کروں کہ مذکورہ کردار کی تنظیم ہم خود اس فورم سے بنائیں کہ ہم خود بھی عام لوگ ہی ہیں تو کیا یہ جذباتی بات تو نہیں ہو گی؟
میرا خیال ہے ہوگی۔
زیادہ بہتر یہ ہے کہ فورم میں صرف معلومات شئیر کی جائیں۔ کسی بھی قسم کی تنظیم ضروری نہیں کہ خفیہ ہو، لوکل سطح پر بنائی جائے۔ ایسی تنظیم ڈیزائین کرنا مشکل نہیں جو خود بخود بڑھتی رہے۔ اور اس میں شامل لوگ جمہوری طرز عمل پر آپس میں‌ مشاورت کرکے ایک عظیم اور عالمی رائے عامہ قایم کرتے رہیں۔ جس کا اثر و نتائج پھر عالمی سطح پر ہر اچھے انسان کے لئے عام طور پر اور مسلمانوں کے لئے خاص طور پر فائیدہ مند ہوں۔ مسلمانوں کے لئے ہی کیوں؟‌اس لئے کہ دوسری تنظیمیں مسلمانوں کو باہر ہی چھوڑ دیتی ہیں اور ان کا اپنا نکتہ ارتکاز صرف اور صرف کچھ مخصوص مذاہب کے لئے ہی ہے۔ اس طرح وہ صرف ایک مخصوس مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے لئے اچھے ہیں اور خود اپنے آپ کو ہی در پردہ نوازتے رہتے ہیں۔
اور یہ کہ اس کی بنیاد اسلامی امور پر ہو اور اس میں بھی صرف وحدت الہی اور رسالت محمد کو مشترک بنیاد رکھا جائے فقہی و دیگر اختلافی امور کلی طور پر نظر انداز کرتے ہوئے بارہ پتھر باہر رکھا جائے؟
آپ کا یہ فرمانا کہ صرف وحدت الہی اور رسالت محمد کو مشترک بنیاد رکھا جائے اچھا خیال ہے، اس کا فائیدہ یہ ہے کہ جتنی مذہبی شرایط کم ہوں گی، اتنے ہی زیادہ لوگ اس سے اپنے آپ کو منسلک کرسکیں گے ورنہ ایسی کوئی بھی تنظیم صرف ایک فرقہ بن جائے گا۔ اور ایسے ممالک میں جہاں‌مسلمان زیادہ نہیں، غیر مسلم کسی طور شامل نہیں ہوں‌گے۔
اور یہ کہ اسے اپنے طور پر دیگر مسلم اقوام میں پھیلانے کی کوشش کی جائے؟ اور یہ کہ ہنر مند ذہین مسلم افراد کو خصوصی طور پر ہدف بناتے ہوئے ایسی تنظیم میں شامل کیا جائے تاکہ رفتہ رفتہ کوئی تیس چالیس برس میں دنیا کے بہترین مسلم دماغ سرکاری سرپرستی سے آزاد ایک جگہ مجتمع ہوں؟ ان سب کی اجتماعی قوت سے ملت اسلامیہ کہ مفادات کے تحفظ کی جنگ لڑی جا سکے بلا بارود کے؟
اغراض و مقاصد واضح ہوں اور مقصد یہ ہو کہ سوشل سطح‌ پر ملا جائے، آپس میں باہمی مدد کا وعدہ کیا جائے تو نہ صرف یہ آپس میں مل کر کام کرنے کے لئے مفید ہوگا بلکہ یہ ایک عالمی سطح پر ایک رائے رکھنے کے لئے بھی پھیل سکتا ہے۔ لوگ بناٌ‌فائیدہ کچھ نہیں‌کرتے اور یہ فائیدہ صرف نظریاتی نہ ہو بلکہ عملی ہو۔
مسلم حکومتوں سے اسے علیحدہ رکھا جائے کہ وہاں بھی امریکی کارندے ہی بیٹھے ہیں۔۔۔ کیا ایسا ممکن ہے؟ کیا کم سے کم ایسا ممکن نہیں کہ میں اور آپ ہی اس فرضی تنظیم کے رکن بن جائیں؟ خواہ ہماری تمام زندگی میں اس اجتماع میں تیسرا شخص داخل تک نہ ہو پھر بھی محض رضائے الہی کے لیے؟
میرا مقصد کسی نئی تنظیم کا آغاز کرنا نہ تھا۔ :) :)

فری میسنز کا حوالہ میں نے کیوں دیا؟ اگر امریکہ کے 17 صدر فری میسن نہ ہوتے تو میں بھی اس کو ایک ڈھکوسلہ سمجھتا۔ خود اپنے لئے یہ بہت اچھے ہیں، لیکن ہمارے پاس اس سے بھی بہتر نظریات موجود ہیں بس تنظیم کی کمی ہے۔ اور آرگنائزیشن بھی پر امن باہمی و عالمی فائیدے کے لئے ہونی چاہئیے۔ ایسی کوئی مسلم تنظیم ناپید ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ فری میسنز یا ٹوسٹ ماسٹرز کس طرح آپس میں کنکٹ‌کرتے ہیں اور کس طرح عالمی بنیادوں‌پر ایک جیسے خیالات رکھتے ہیں۔ اور پھر اس اجتماعی اوپی نین کا عملی استعمال کرتے ہیں۔ آپس میں نوازنے والا کام تو مختلف گروپ پہلے ہی کر رہے ہیں :) مزید کی کیا گنجائش ہے؟

ظفری صاحب نے بہت عمدہ بات کی ہے کہ
ہماری تاریخ یہ ہے کہ چند سالوں بعد ہم کسی تبدیلی کو ناگزیر سمجھتے ہیں ۔ اور ہمارے ” سیاسی قائدین ” اس مقصد کے لیئے میدان میں نکل پڑتے ہیں ۔ ہر دورِ اقتدار کے بارے میں یہ تکرار عام ہے کہ ” یہ ہماری تاریخ کا بدترین دور ہے ” ۔

کسی بھی تبدیلی کے لئے ایک نبض جانچنے کی ضرورت ہے۔ اور اس کے لئے ایک اطلاعی نظام کی۔

اس اطلاعی نظام کی ایک مثال:
فرض کیجئے کہ آج ہم کو سب کا یہ ووٹ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کو پاکستان کا صدر نہیں ہونا چاہئیے۔ فرض‌کیجئے کہ پاکستان کے ہر ذی شعور شخص کا یہی خیال ہے۔ لیکن ہمارے خیال کو جانچنے کا فوری پیمانہ کوئی نہیں؟ ہم کو معلوم نہیں کہ کیا درحقیقت پاکستان کے عوام یہی چاہتے ہیں؟ یا صرف کچھ لوگ جو زیادہ شور مچاتے ہیں ایسا چاہتے ہیں؟ ہم کو پتہ کب چلے گا؟ ایک بلائینڈ جو ہم الیکشن کے دن کھیلیں گے۔ اس میں ہم کو نہیں معلوم کہ نتیجہ کیا نکلے گا۔

آپ پوچھیں گے کہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا طریقہ ہے بھی کیا؟ جی ہے۔ ہر دو چار ہفتے میں الیکشنز؟ وہ کس طرح؟ مختلف ویب سائیٹس سے پتہ چلتا ہے کہ فری میسنز یہ مقصد ہر دو سے چار ہفتے میں حاصل کرتے ہیں۔ لگتا یہ ہے کہ یہ لوگ چھوٹے بڑے مسائیل پر ٹھنڈے ٹھندے ہر دو سے چار ہفتے میں اپنے لوکل لاجز میں باہمی مشورہ کرتے ہیں۔ اور ہر لاج جو 50 سے 10 افراد پر مشتمل ہوتا ہے، اپنے اجلاس کا ریکارڈ رکھتا ہے۔ اس آپس کی ووٹنگ سے، یہ لوگ آپس میں ہی نتائج شئیر کرتے ہیں۔ پھر یہ نتیجہ ہر ممبر کو معلوم ہوتا ہے۔ اوپر سے نیچے تک۔

اب اگر آج فرض‌کریں کہ --- کسی طور یہ ممکن ہو کہ ---- ہر مہینے ایک جمعے اس طرح کی رائے شماری (خفیہ یا اعلانیہ) ہر مسجد میں ہو اور پھر اس نتیجہ کے مرکزی نتائج کا سب کو علم بھی ہو تو سب کو پتہ ہوگا کہ قوم کا مزاج چھوٹے بڑے مسائل کے بارے میں کیا ہے۔ اس طرح عام آدمی کا اجتماعی فیڈ بیک ان کے منتخب نمائیندوں کو ہر سطح پر پہنچایا جاسکتا ہے۔ اس کے لئے مسجد میں ہر جمعہ کو نماز سے پہلے ایک ایجنڈا ہو، لوگ اپنے ہاتھ کھڑے کریں اس کے حق میں یا مخالفت میں۔ اور ہر مسجد سے نتائج جمع ہوتے رہیں۔ چونکہ رائے کا اندازہ بہت سارے لوگوں کو ہوگا۔ اس رائے میں گڑبڑ کرنا ممکن نہ ہوگا۔ اس طرح حکمران اوپر سے نیچے تک رائے عامہ معلوم کرسکتا ہے اور عام آدمی نیچے سے اوپر رائے بھیج سکتا ہے۔ دو طرفہ۔ یہ ایک سادہ سی مثال ہے۔

یہی طریقہ بڑے فیصلوں سے لے کر چھوٹے فیصلوں تک استعمال ہوسکتا ہے۔ کیسے؟ چھوٹے فیصلے کی مثال: اگر میں شکائت کروں کہ میرے محلے میں کوڑا نہیں اٹھایا جارہا ۔تو شاید ہی کوئی سنے۔ لیکن اگر پوری مسجد جمعے کی نماز کے بعد یہ کہے کہ اس محلے کا کوڑا اٹھایا جائے اور پھر ایک ہی علاقہ کی سو پچاس مساجد سے یہی بات علاقہ کے منتخب شخص کو پہنچادی جائے تو میں نہیں سمجھتا کہ اس پر بالکل کوئی عمل نہیں ہوگا۔

ضرورت اس بات کی نہیں کہ کوئی عمران سیریز کی طرح کی خفیہ تنظیم بنائی جائے۔ ایسا کام جس میں سب کا فائیدہ ہو اس کو خفیہ رکھنے کی کوئی وجہ نہیں۔ باہمی اشتراک سے آپس میں ایک مثبت فیڈ بیک سسٹم کی تنظیم کی جائے۔ جس کا ڈیزائین اس طرح ہو کہ اس کے فائیدے عیاں ‌ہوں اور اس طرح، اس کا خود بخود پھیلاؤ عالمی ہو۔ اس کے اغراض و مقاصد انسانیت کے فائیدہ لئے عموما اور اسلام کے مسلمہ اصولوں پر خصوصا ہو، کسی کی حق تلفی مقصد نہ ہو۔

سوچئے کہ اگر پاکستان کے عوام کو یہ بھی معلوم ہو کہ ان کے حکومت تبدیل کرنے کے فیصلے کے حق میں دوسرے مسلم ممالک کے افراد بھی ہیں تو اعتماد کی سطح کس قدر اوپر ہوگی؟ اس قسم کا نظام ہماری مساجد کے ذریعے بہت آسانی سے ترتیب دیا جاسکتا ہے۔ اور ایسے دو طرفہ اطلاعی نظام یا فیڈ بیک سسٹم کی موجودگی میں کوئی زبردستی کی غلامی تو تھوپ سکتا ہے لیکن زیادہ دن نہیں۔ اگر جنرل صاحب کو یہ پتہ ہو کہ ان کا پیمانہ نیچے جارہا ہے اور یقینی طور پر جارہا ہے اور انہیں یہ معلوم ہو کہ اس کے لئے کیا تبدیل کرنا ہے تو وہ یا منتخب نمائیندے بآسانی درست فیصلے کرسکتے ہیں۔ ہمارے یہاں ایسا ہی نظام بنیادی جمہوریت یعنی بی ڈی سسٹم کی طرز پر بنا تھا لیکن وہ فیل ہوگیا۔ مسجدوں کی مدد سے ایسے مربوط اطلاعی نظام کی تشکیل نسبتا آسان ہے۔

میرے کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ مسجدوں‌کی مدد سے ایسا نظام بنا لیا جائے بلکہ مقصد یہ ہے کہ ایسے دو طرفہ اطلاعی نظام کی ضرورت کو واضح کیا جائے۔
 
ظفری بالکل ٹھیک کہا آپ نے۔۔۔ خصوصی طور پر تبدیلی کی ذیل میں تو بہت قیمتی بات کہی آپ نے۔۔۔

فاروق بھائی آپ کی بات پسند آئی۔۔۔ اگر میں یہ مطالبہ کروں کہ مذکورہ کردار کی تنظیم ہم خود اس فورم سے بنائیں کہ ہم خود بھی عام لوگ ہی ہیں تو کیا یہ جذباتی بات تو نہیں ہو گی؟ اور یہ کہ اس کی بنیاد اسلامی امور پر ہو اور اس میں بھی صرف وحدت الہی اور رسالت محمد کو مشترک بنیاد رکھا جائے فقہی و دیگر اختلافی امور کلی طور پر نظر انداز کرتے ہوئے بارہ پتھر باہر رکھا جائے؟ اور یہ کہ اسے اپنے طور پر دیگر مسلم اقوام میں پھیلانے کی کوشش کی جائے؟ اور یہ کہ ہنر مند ذہین مسلم افراد کو خصوصی طور پر ہدف بناتے ہوئے ایسی تنظیم میں شامل کیا جائے تاکہ رفتہ رفتہ کوئی تیس چالیس برس میں دنیا کے بہترین مسلم دماغ سرکاری سرپرستی سے آزاد ایک جگہ مجتمع ہوں؟ ان سب کی اجتماعی قوت سے ملت اسلامیہ کہ مفادات کے تحفظ کی جنگ لڑی جا سکے بلا بارود کے؟ مسلم حکومتوں سے اسے علیحدہ رکھا جائے کہ وہاں بھی امریکی کارندے ہی بیٹھے ہیں۔۔۔ کیا ایسا ممکن ہے؟ کیا کم سے کم ایسا ممکن نہیں کہ میں اور آپ ہی اس فرضی تنظیم کے رکن بن جائیں؟ خواہ ہماری تمام زندگی میں اس اجتماع میں تیسرا شخص داخل تک نہ ہو پھر بھی محض رضائے الہی کے لیے؟

یا پھر یہ عمران سیریز والی باتیں ہیں؟

واہ محسن حجازی صاحب! آپ نے تو گویا میرے دل کی بات کہہ دی۔ میں گذشتہ کچھ عرصہ سے اپنے بلاگ پر کئی تحاریر اسی موضوع پر لکھ چکا ہوں اور میں زور دیتا رہا ہوں کہ اب عملی قدم اٹھانے کا وقت ہے۔ اتنی منصوبہ بندیاں ہوئی ہیں، اتنا کچھ لکھا گیا ہے، اتنے تجزیئے کئے گئے، لیکن کمی کس چیز کی ہے؟ عملی قدم کی۔ آپ مجھے کہئے یا نہیں، میں اس نئی تنظیم میں شامل ہونے کو تیار ہوں۔ لیکن یہ تنظیم فرضی تنظیم یا عمران سیریز جیسی کیوں ہو؟
(اس فورم کے بجائے اگر اس تنظیم کے لیے کوئی الگ فورم سیٹ کیا جائے اور وہاں تفصیل سے لائحہ عمل طے کرکے قدم اٹھایا جائے تو خوب ہوگا)
 

دوست

محفلین
مقامی سطح پر ایسی تنظمیں بنانے کی بات کی گئی تو عرض کرتا چلوں لوگ مذاق اڑاتے ہیں ایسی باتوں کا۔ ایسی نظروں سے دیکھتے ہیں جیسے پاگل ہے یہ کہنے والا۔ آگے پھر رہ ہی کیا جاتا ہے۔
 

محسن حجازی

محفلین
مقامی سطح پر ایسی تنظمیں بنانے کی بات کی گئی تو عرض کرتا چلوں لوگ مذاق اڑاتے ہیں ایسی باتوں کا۔ ایسی نظروں سے دیکھتے ہیں جیسے پاگل ہے یہ کہنے والا۔ آگے پھر رہ ہی کیا جاتا ہے۔

بس یہی تو ساری بات ہے۔۔۔۔ گل ای مک گئی۔۔۔ اسی لیے میں نے بھی ڈرتے ڈرتے ہی بات کی۔۔۔۔
 
مقامی سطح پر ایسی تنظمیں بنانے کی بات کی گئی تو عرض کرتا چلوں لوگ مذاق اڑاتے ہیں ایسی باتوں کا۔ ایسی نظروں سے دیکھتے ہیں جیسے پاگل ہے یہ کہنے والا۔ آگے پھر رہ ہی کیا جاتا ہے۔

شاکر بھائی! مذاق تو اڑایا ہی جاتا ہے شروع میں۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ہم آنکھیں بند کرلیں مسائل سے۔۔۔۔۔۔ جوانوں میں سے کچھ لوگ آگے آئیں گے تو آہستہ آہستہ صورتحال بہتر ہوتی جائے گی ان شاء اللہ اور لوگ مذاق اڑانے کے بجائے ہمارے ساتھ شمولیت کو ترجیح دیں گے۔
 

ظفری

لائبریرین
نسیم حجازی صاحب کی آواز پر اس فورم پر موجود تقربیاً سبھی دوستوں نے لیبک کہا ہے ۔ جو اس بات کا مظہر ہے کہ ابھی ہم ایک مکمل طور پر سوئی ہوئی قوم ہرگز نہیں ہیں ۔ دوستوں نے بہت ہی گرانقدر مشور ے اور تجاویز پیش کیں ہیں ۔ اور زیادہ تر میری اسی بات کی عکاسی کرتیں ہیں جس میں ایک بڑی تبدیلی کا محرک موجود ہے ۔ اس سلسلے میں فاروق بھائی اور حجازی بھائی کی تجاویز بہت ہی اہم ہیں۔

” آؤ کہ کوئی خواب بنیں ” یہ غالبا امرتا پریتم کی ایک کتاب کا عنوان ہے ۔ آؤ کہ کوئی خواب بنیں۔ مجھے یہ خیال بہت پسند آتا ہے۔ خواب بننا اور وہ بھی لوگوں کے ساتھ مل کر بُننا ایک ایسے کارواں کی شروعات کا سنگِ میل ہے ۔ جس کا کوئی مسافر ایک نہ ایک دن ہماری اس منزل کا بھی سنگِ میل پا لے گا ۔ اور یہی بات اب یہاں دوستوں نے مخلتف حوالوں ‌سے چھیڑی ہے ۔ کہ ” آؤ کہ کوئی خواب بنیں۔”سفر کھٹن ہے ، صبر آزما ہے ، طویل ہے ، مگر اس سفر کا کامیاب اختیام شاید ہماری آنے والی نسلوں‌ کو ہم پر شرمندہ ہونے سے بچا لے ۔ ہوسکتا ہے بہت سوں ‌کے نزدیک یہ چند دیوانوں کا خواب ہو، مگر ہم یہ بھی دیکھیں کہ تاریخ میں بھی ہمیشہ چند لوگ ہی نے کسی نئی تاریخ کی ابتداء اسی طرح کی کمپرسی کی حالت میں کی ہے ۔

اپنے آس پاس نظر اٹھا کر دیکھیں۔ یہ بجلی کے قمقمے، یہ تیزی سے دوڑتی ہوئی گاڑیاں، یہ برق رفتار ہوائی جہاز، یہ ٹیلی فون، یہ ٹیلی وژن، یہ کمپیوٹر، یہ انٹرنیٹ۔ یہ جاننے کی کوشش کیجیئے کہ اس قدر کارآمد ، یہ ساری چیزیں کن لوگوں نے ایجاد کی ہیں۔ آپ کو جواب ملے گا کہ آج کی جدید دنیا میں ایک شخص عام طور پہ جو سہولیات استعمال کرتا ہے ان کی ایجاد کا سہرا بمشکل دو سو لوگوں کے سر ہے۔ پھر ایک اور کام کیجیے۔ صرف ایجادات کو ان کی موجودہ اشکال میں مت دیکھیے، بلکہ ان ایجادات کے پیش رو کا مطالعہ کیجیے اور ان لوگوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کیجیے جن کا کسی نہ کسی قسم کا کردار اس پورے تخلیقی عمل میں رہا ہے۔ مثلاً ہوائی جہاز کے پیش رو ہیں آئی سی انجن ، علمِ دھات سازی ، پہیہ وغیرہ ۔ قصہ مختصر یہ کہ اگر ان سارے لوگوں کا بھی شمار کیجیے جو ایجادات کی موجودہ شکل کے پیچھے کسی نہ کسی موقع پہ اپنا کلیدی کردار ادا کر چکے ہیں تو آپ کا جواب چند ہزار افراد سے اوپر نہ جا پائے گا۔ کس قدر عجیب بات ہے ناں ۔ تو اعدادی نفری کو نہ دیکھیں ۔ تعمیری سوچ کی وسعتوں‌کو ناپنے کی کوشش کریں ۔

اس بارے میں کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ معاشرہ لوگوں سے بنتا ہے۔ بے شعور اور خراب لوگ خراب معاشرہ بناتے ہیں اور اچھے لوگ اچھا معاشرہ ۔ ترقی پذیر ممالک کے خراب نظام کی ذمہ داری آپ جس قدر چاہیں مغرب پہ تھوپنے کی کوشش کریں مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہ ہو پائے گا کہ ان شکست خوردہ معاشروں میں اکثریت باشعور نہیں ہے، سمجھ بوجھ نہیں رکھتی۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگوں میں شعور کیسے بیدار ہوتا ہے، معاشرے کی بھلائی میں فرد کی بھلائی تلاش کرنے کی ہوشیاری کیسے پیدا ہوتی ہے۔ شعور اور ہمہ جہتی تعلیم ایک شے ہیں۔ ہمہ جہتی تعلیم کے کئی پہلو ہیں۔ یہ علم صرف وہ نہیں ہے جو علم معاشی تگ و دو میں کامیابی کے لیے حاصل کرتا ہے۔ یہ علم تاریخ کا علم ہے، اور اس بات کا علم ہے کہ ایمانداری اور محنت کے بغیر کوئی دیرپا ترقی ممکن نہیں۔ اور یہ اس بات کا علم ہے کہ معاشرے میں دوسروں کے ساتھ رہنے میں ہر فرد کے اوپر کس قسم کی ذمہ داریں ہوتی ہیں۔ اور یہ سیاسی معاملات کا علم ہے، اور یہ علم کہ حکومت کیا ہے اور کس طرح معاشرے کے چنیدہ افراد کو سب کے اوپر حق حاکمیت دیا جائے، اور کیسے اس حق کا احتساب کیا جائے، اور کیسے یہ حق منسوخ کیا جائے۔

لوگ نااہل حکمرانوں اور حکومتوں کے زیر اثر زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں۔ انہیں روز اس بات کی سزا ملتی ہے کہ وہ ایک ترقی پذیر ملک میں کیوں پیدا ہوئے۔ لوگوں کو تو اچھی حکومت چاہیے مگر اچھی حکومت کو کیسے لوگ چاہئیں؟ یا یہ کہ اچھی حکومت کن لوگوں سے بنتی ہے؟ یہ سمجھنا چنداں مشکل نہیں کہ اچھی حکومت باآسانی ایسی جگہ بن سکتی ہے جہاں لوگ باشعور ہوں اور فکر رکھتے ہوں۔ ایسے لوگ جنہیں کوئی بات بری لگے تو یہ مظاہرے تو کریں مگر جوش جذبات میں بجلی کے کھمبوں کی بتیاں نہ توڑ دیں۔ پتھر بازی نہ کریں۔ املاک کو آگ نہ لگا دیں۔ ایسے لوگ جو بلند تر تناظر میں اپنا مفاد پہچانتے ہوں، جو اچھی طرح سمجھتے ہوں کہ سب کی بھلائی میں ان کی بھلائی بھی پوشیدہ ہے۔
پھر یہ لوگ کیسے حاصل ہوں؟

اچھے لوگ تو ایک اچھے معاشرے سے بن کر نکلتے ہیں۔ اچھا معاشرہ نہ ہو تو اچھے لوگ کیسے بنیں؟ اور اچھے لوگ نہ ہوں تو اچھی حکومت کیسے قیام میں آئے جو اچھا معاشرہ بنائے؟ بظاہر یہ ایک مشکل صورتحال نظر آتی ہے۔ یوں نظر آتا ہے کہ یہ ایک بہت لمبا اور کٹھن سفر ہوگا۔ ایک نسبتا اچھی حکومت بنے، جوکسی حد تک انصاف فراہم کرے اور لوگوں کی تعلیم کا انتظام کرے اور یوں اچھے لوگ بنائے اور پھر اگلے مرحلے میں تھوڑی سی اور بہتر حکومت قائم ہو، معاشرہ تھوڑا سا اور آگے بڑھے اور یوں یہ مشکل سفر جستہ جستہ طے ہوتا رہے۔ مگر اس درمیان میں بہت سے لوگ ظلم سہتے رہیں گے، پستے رہیں گے۔

آئیے اس مشکل صورتحال سے نکلنے کے لیئے اپنے خواب کی تعبیر کے لیئے عمل پیرا ہوتے ہیں ۔ ( جس خواب کا ذکر دوست یار کر چکے ہیں ) ۔اب ایسا ملک کہ جہاں حکومت نااہل ہے اور نظام مملکت چلانے کی سکت نہیں رکھتی، ہم ایک چھوٹی سی ایسی جگہ بنائیں جہاں جدید دور کی تمام سہولیات ہوں اور ہر چیز صحیح طرح کام کرے ۔ اور پھر اس نقطہ نظر سے کہ یہ جگہ صحیح طرح کام کرتی رہے اور یہاں کے نظام تنزل کی طرف مائل نہ ہوجائیں، ہم اس جگہ کے گرد ایک چہاردیواری کھینچ دیں۔ اور یہاں صرف ان لوگوں کو آنے دیں جو نئی دور کی دنیا کو سمجھتے ہوں، فکر رکھتے ہوں، اور معاشرے کی بھلائی میں فرد کی بھلائی کو پہچانتے ہوں۔ گویا ایک ایسی ممبرشپ کمیونٹی جس میں داخلے کی شرط پیسہ یا طاقت نہ ہو، بلکہ بالغ نظری ہو۔ پھر جب یہ جگہ کامیاب ہوجائے یہاں آبادی بڑھ جائے تو ان میں سے کچھ لوگوں کو لے کر دوسری جگہ ایسی ہی ممبر شپ کمیونٹی بنائیں، اور وہاں اور لوگوں کو بھرتی کریں اور یوں پورے ملک کو تبدیل کرتے جائیں ۔ کیا دنیا میں ایسی کوئی ممبرشپ کمیونٹی موجود ہے ۔ ؟ یقینا نہیں۔ مگر یہ تجربہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
 

عمر میرزا

محفلین
السلام علیکم
بھائیوں! نئی جماعت یاتنظیم بنانے سے پہلے بہتر ہو گا اگر آپ موجودہ تنظیموں کے بارے میں جانےجو کافی عرصے سےاسی میدان میں کوششیں کر رہی ہیں کیونکہ ابھی بھی امت ایسی بانجھ نھی ھوئی کہ اس کے پاس اسکا درد رکھنے والے لوگ نہ ھوں بہت سے ایسےمخلص لوگ اور جماعتیں ہیں جو اجتماعی یا انفرادی طور پر کام کر ررہے ہیں-ان کے بارے میں جانے کے وہ لوگ کیا نظریات رکھتے ھیں ۔ان کا طریقا کار کیا ھے۔ کیا وہ اس معاملے میں سنجیدہ بھی ھیں یا نھیں ،کیا ان کے پاس کوئی عملی لائحہ عمل بھی ھے یا خالی خولی نعرہ بازی ھے۔
اور دوسرے جماعت سازی کوئی آسان کام نہیں اس میں سالوں نہیں دہائیوں کی محنت درکار ہے۔جماعت سازی ایک چیز ھے اور مقصد کے لیے عملی جدوجہد دوسری چیز۔اگر آپ ایک جماعت بناتے ھیں تو آپ کا بہت سا وقت اسے منظم کرنے میں گزر جائے گااور مقصد کا حصول بہت دور رہ جائے گا۔
میں آپ کے حوصلے پست نہی کر رہا بلکہ ایک جماعت کا رکن ھونے کے ناطے ذاتی تجربے کی بنیاد پر بات کر رہا ہوں۔ہم نے بہت سے لوگ دیکھے جنہوں نے جذبات میں آکرانقلابی جماعتیں بنایئں بڑے بلند و بانگ دعوے کیے مگر ایک دو سال کے اندر سب کچھ ختم، پھرشکست خوردہ ھو کر یا تو کتابیں چھاپنی شروع کر دیں یا پھر اپنے محلے کے رفاہی کام شرع کر دیئے۔
آپ موجودہ جماعتیں مثلا ،جماعت اسلامی،تنظیم اسلامی ، یا عرب علاقوں کی اخوان المسلیمین،حزب التحریر یا الجزائر کی Fis یا ترکی کی رفاہ، وغیرہ وغیرہ
ان جما عتوں کے ممبران سے ملیں ان سے انکے نظریات ارو افکار کے بارے میں معلومات حاصل کریں اس بارے بحث و مباحثہ کریں ۔ان جماعتوں کا آپس میں تقابلی جائزہ کریں پھر فیصلہ کریں
پھر بھی اگر کوئی جماعت آپ کے معیار پر پوری نہ اترے تو پھر آخری حل کے طور پر آپ اپنی جماعت بنا لیں۔
انشاءاللہ باقی باتیں آئندہ
والسلام
 

نبیل

تکنیکی معاون
السلام علیکم،
آپ دوست اس گفتگو کو جاری رکھیں۔ ہو سکتا ہے کہ جلد ہی کوئی لائحہ عمل طے پا جائے۔ :)
 
میں ظفری کی بات سے اتفاق کروں گا کہ خواب دیکھنے سے نہیں ڈرنا چاہیے ، بھلا جو شخص خواب بھی دیکھنے سے ڈرتا ہو اس سے زیادہ بزدل اور کون ہوگا۔

خواب دیکھیں گے تو تعبیر ملے گی ہو سکتا ہے ہمیں نہ ملے ہمارے بعد آنے والی نسلوں کو ملے ، کم از کم وراثت میں چند خواب تو چھوڑے جا سکتے ہیں۔ جہاں تک لوگوں کی بات رہی وہ خواب دیکھنے والوں کو پاگل ہی کہا کرتی ہے اور جب یہی پاگل لوگ خوابوں کی تعبیر پا لیتے ہیں تو انہیں بہترین انسان بھی کہتی ہے ۔
 
Top