محسن آپ نے بہت اچھے خیالات کا اظہار کیا۔ آپ کے خیالات کی تائید میں مزید وضاحت حاضر ہے۔
فاروق بھائی آپ کی بات پسند آئی۔۔۔ اگر میں یہ مطالبہ کروں کہ مذکورہ کردار کی تنظیم ہم خود اس فورم سے بنائیں کہ ہم خود بھی عام لوگ ہی ہیں تو کیا یہ جذباتی بات تو نہیں ہو گی؟
میرا خیال ہے ہوگی۔
زیادہ بہتر یہ ہے کہ فورم میں صرف معلومات شئیر کی جائیں۔ کسی بھی قسم کی تنظیم ضروری نہیں کہ خفیہ ہو، لوکل سطح پر بنائی جائے۔ ایسی تنظیم ڈیزائین کرنا مشکل نہیں جو خود بخود بڑھتی رہے۔ اور اس میں شامل لوگ جمہوری طرز عمل پر آپس میں مشاورت کرکے ایک عظیم اور عالمی رائے عامہ قایم کرتے رہیں۔ جس کا اثر و نتائج پھر عالمی سطح پر ہر اچھے انسان کے لئے عام طور پر اور مسلمانوں کے لئے خاص طور پر فائیدہ مند ہوں۔ مسلمانوں کے لئے ہی کیوں؟اس لئے کہ دوسری تنظیمیں مسلمانوں کو باہر ہی چھوڑ دیتی ہیں اور ان کا اپنا نکتہ ارتکاز صرف اور صرف کچھ مخصوص مذاہب کے لئے ہی ہے۔ اس طرح وہ صرف ایک مخصوس مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے لئے اچھے ہیں اور خود اپنے آپ کو ہی در پردہ نوازتے رہتے ہیں۔
اور یہ کہ اس کی بنیاد اسلامی امور پر ہو اور اس میں بھی صرف وحدت الہی اور رسالت محمد کو مشترک بنیاد رکھا جائے فقہی و دیگر اختلافی امور کلی طور پر نظر انداز کرتے ہوئے بارہ پتھر باہر رکھا جائے؟
آپ کا یہ فرمانا کہ صرف وحدت الہی اور رسالت محمد کو مشترک بنیاد رکھا جائے اچھا خیال ہے، اس کا فائیدہ یہ ہے کہ جتنی مذہبی شرایط کم ہوں گی، اتنے ہی زیادہ لوگ اس سے اپنے آپ کو منسلک کرسکیں گے ورنہ ایسی کوئی بھی تنظیم صرف ایک فرقہ بن جائے گا۔ اور ایسے ممالک میں جہاںمسلمان زیادہ نہیں، غیر مسلم کسی طور شامل نہیں ہوںگے۔
اور یہ کہ اسے اپنے طور پر دیگر مسلم اقوام میں پھیلانے کی کوشش کی جائے؟ اور یہ کہ ہنر مند ذہین مسلم افراد کو خصوصی طور پر ہدف بناتے ہوئے ایسی تنظیم میں شامل کیا جائے تاکہ رفتہ رفتہ کوئی تیس چالیس برس میں دنیا کے بہترین مسلم دماغ سرکاری سرپرستی سے آزاد ایک جگہ مجتمع ہوں؟ ان سب کی اجتماعی قوت سے ملت اسلامیہ کہ مفادات کے تحفظ کی جنگ لڑی جا سکے بلا بارود کے؟
اغراض و مقاصد واضح ہوں اور مقصد یہ ہو کہ سوشل سطح پر ملا جائے، آپس میں باہمی مدد کا وعدہ کیا جائے تو نہ صرف یہ آپس میں مل کر کام کرنے کے لئے مفید ہوگا بلکہ یہ ایک عالمی سطح پر ایک رائے رکھنے کے لئے بھی پھیل سکتا ہے۔ لوگ بناٌفائیدہ کچھ نہیںکرتے اور یہ فائیدہ صرف نظریاتی نہ ہو بلکہ عملی ہو۔
مسلم حکومتوں سے اسے علیحدہ رکھا جائے کہ وہاں بھی امریکی کارندے ہی بیٹھے ہیں۔۔۔ کیا ایسا ممکن ہے؟ کیا کم سے کم ایسا ممکن نہیں کہ میں اور آپ ہی اس فرضی تنظیم کے رکن بن جائیں؟ خواہ ہماری تمام زندگی میں اس اجتماع میں تیسرا شخص داخل تک نہ ہو پھر بھی محض رضائے الہی کے لیے؟
میرا مقصد کسی نئی تنظیم کا آغاز کرنا نہ تھا۔
فری میسنز کا حوالہ میں نے کیوں دیا؟ اگر امریکہ کے 17 صدر فری میسن نہ ہوتے تو میں بھی اس کو ایک ڈھکوسلہ سمجھتا۔ خود اپنے لئے یہ بہت اچھے ہیں، لیکن ہمارے پاس اس سے بھی بہتر نظریات موجود ہیں بس تنظیم کی کمی ہے۔ اور آرگنائزیشن بھی پر امن باہمی و عالمی فائیدے کے لئے ہونی چاہئیے۔ ایسی کوئی مسلم تنظیم ناپید ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ فری میسنز یا ٹوسٹ ماسٹرز کس طرح آپس میں کنکٹکرتے ہیں اور کس طرح عالمی بنیادوںپر ایک جیسے خیالات رکھتے ہیں۔ اور پھر اس اجتماعی اوپی نین کا عملی استعمال کرتے ہیں۔ آپس میں نوازنے والا کام تو مختلف گروپ پہلے ہی کر رہے ہیں
مزید کی کیا گنجائش ہے؟
ظفری صاحب نے بہت عمدہ بات کی ہے کہ
ہماری تاریخ یہ ہے کہ چند سالوں بعد ہم کسی تبدیلی کو ناگزیر سمجھتے ہیں ۔ اور ہمارے ” سیاسی قائدین ” اس مقصد کے لیئے میدان میں نکل پڑتے ہیں ۔ ہر دورِ اقتدار کے بارے میں یہ تکرار عام ہے کہ ” یہ ہماری تاریخ کا بدترین دور ہے ” ۔
کسی بھی تبدیلی کے لئے ایک نبض جانچنے کی ضرورت ہے۔ اور اس کے لئے ایک اطلاعی نظام کی۔
اس اطلاعی نظام کی ایک مثال:
فرض کیجئے کہ آج ہم کو سب کا یہ ووٹ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کو پاکستان کا صدر نہیں ہونا چاہئیے۔ فرضکیجئے کہ پاکستان کے ہر ذی شعور شخص کا یہی خیال ہے۔ لیکن ہمارے خیال کو جانچنے کا فوری پیمانہ کوئی نہیں؟ ہم کو معلوم نہیں کہ کیا درحقیقت پاکستان کے عوام یہی چاہتے ہیں؟ یا صرف کچھ لوگ جو زیادہ شور مچاتے ہیں ایسا چاہتے ہیں؟ ہم کو پتہ کب چلے گا؟ ایک بلائینڈ جو ہم الیکشن کے دن کھیلیں گے۔ اس میں ہم کو نہیں معلوم کہ نتیجہ کیا نکلے گا۔
آپ پوچھیں گے کہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا طریقہ ہے بھی کیا؟ جی ہے۔ ہر دو چار ہفتے میں الیکشنز؟ وہ کس طرح؟ مختلف ویب سائیٹس سے پتہ چلتا ہے کہ فری میسنز یہ مقصد ہر دو سے چار ہفتے میں حاصل کرتے ہیں۔ لگتا یہ ہے کہ یہ لوگ چھوٹے بڑے مسائیل پر ٹھنڈے ٹھندے ہر دو سے چار ہفتے میں اپنے لوکل لاجز میں باہمی مشورہ کرتے ہیں۔ اور ہر لاج جو 50 سے 10 افراد پر مشتمل ہوتا ہے، اپنے اجلاس کا ریکارڈ رکھتا ہے۔ اس آپس کی ووٹنگ سے، یہ لوگ آپس میں ہی نتائج شئیر کرتے ہیں۔ پھر یہ نتیجہ ہر ممبر کو معلوم ہوتا ہے۔ اوپر سے نیچے تک۔
اب اگر آج فرضکریں کہ --- کسی طور یہ ممکن ہو کہ ---- ہر مہینے ایک جمعے اس طرح کی رائے شماری (خفیہ یا اعلانیہ) ہر مسجد میں ہو اور پھر اس نتیجہ کے مرکزی نتائج کا سب کو علم بھی ہو تو سب کو پتہ ہوگا کہ قوم کا مزاج چھوٹے بڑے مسائل کے بارے میں کیا ہے۔ اس طرح عام آدمی کا اجتماعی فیڈ بیک ان کے منتخب نمائیندوں کو ہر سطح پر پہنچایا جاسکتا ہے۔ اس کے لئے مسجد میں ہر جمعہ کو نماز سے پہلے ایک ایجنڈا ہو، لوگ اپنے ہاتھ کھڑے کریں اس کے حق میں یا مخالفت میں۔ اور ہر مسجد سے نتائج جمع ہوتے رہیں۔ چونکہ رائے کا اندازہ بہت سارے لوگوں کو ہوگا۔ اس رائے میں گڑبڑ کرنا ممکن نہ ہوگا۔ اس طرح حکمران اوپر سے نیچے تک رائے عامہ معلوم کرسکتا ہے اور عام آدمی نیچے سے اوپر رائے بھیج سکتا ہے۔ دو طرفہ۔ یہ ایک سادہ سی مثال ہے۔
یہی طریقہ بڑے فیصلوں سے لے کر چھوٹے فیصلوں تک استعمال ہوسکتا ہے۔ کیسے؟ چھوٹے فیصلے کی مثال: اگر میں شکائت کروں کہ میرے محلے میں کوڑا نہیں اٹھایا جارہا ۔تو شاید ہی کوئی سنے۔ لیکن اگر پوری مسجد جمعے کی نماز کے بعد یہ کہے کہ اس محلے کا کوڑا اٹھایا جائے اور پھر ایک ہی علاقہ کی سو پچاس مساجد سے یہی بات علاقہ کے منتخب شخص کو پہنچادی جائے تو میں نہیں سمجھتا کہ اس پر بالکل کوئی عمل نہیں ہوگا۔
ضرورت اس بات کی نہیں کہ کوئی عمران سیریز کی طرح کی خفیہ تنظیم بنائی جائے۔ ایسا کام جس میں سب کا فائیدہ ہو اس کو خفیہ رکھنے کی کوئی وجہ نہیں۔ باہمی اشتراک سے آپس میں ایک مثبت فیڈ بیک سسٹم کی تنظیم کی جائے۔ جس کا ڈیزائین اس طرح ہو کہ اس کے فائیدے عیاں ہوں اور اس طرح، اس کا خود بخود پھیلاؤ عالمی ہو۔ اس کے اغراض و مقاصد انسانیت کے فائیدہ لئے عموما اور اسلام کے مسلمہ اصولوں پر خصوصا ہو، کسی کی حق تلفی مقصد نہ ہو۔
سوچئے کہ اگر پاکستان کے عوام کو یہ بھی معلوم ہو کہ ان کے حکومت تبدیل کرنے کے فیصلے کے حق میں دوسرے مسلم ممالک کے افراد بھی ہیں تو اعتماد کی سطح کس قدر اوپر ہوگی؟ اس قسم کا نظام ہماری مساجد کے ذریعے بہت آسانی سے ترتیب دیا جاسکتا ہے۔ اور ایسے دو طرفہ اطلاعی نظام یا فیڈ بیک سسٹم کی موجودگی میں کوئی زبردستی کی غلامی تو تھوپ سکتا ہے لیکن زیادہ دن نہیں۔ اگر جنرل صاحب کو یہ پتہ ہو کہ ان کا پیمانہ نیچے جارہا ہے اور یقینی طور پر جارہا ہے اور انہیں یہ معلوم ہو کہ اس کے لئے کیا تبدیل کرنا ہے تو وہ یا منتخب نمائیندے بآسانی درست فیصلے کرسکتے ہیں۔ ہمارے یہاں ایسا ہی نظام بنیادی جمہوریت یعنی بی ڈی سسٹم کی طرز پر بنا تھا لیکن وہ فیل ہوگیا۔ مسجدوں کی مدد سے ایسے مربوط اطلاعی نظام کی تشکیل نسبتا آسان ہے۔
میرے کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ مسجدوںکی مدد سے ایسا نظام بنا لیا جائے بلکہ مقصد یہ ہے کہ ایسے دو طرفہ اطلاعی نظام کی ضرورت کو واضح کیا جائے۔