میری فکری تنہائی کا سدباب کیجیے۔۔۔

عمر میرزا

محفلین
السلام علیکم
“ رہبر “ اپنی بناوٹ کے لحاظ سے اپنے احتتامی مراحل کو پہنچ چکی ہے اس کے لئے میری طرف سے تمام بھائیوں کو بہت بہت مبارک باد قبول ہو واقعیتا یہ نہایت ھی قابل ستائش کام سر انجام دیا گیا ہے ۔ اسکے لئے حاص طور پر ٍفاروق سرورصاحب نے جتنی عرق ریزی سے ابتدائی منشور اور تنظیم کا خاکہ ترتیب دیا اس پر میں ہی کیا سب احباب ان کی گرانقدر صلاحیتوں کے معترف ہو چکے ہیں۔


صرف ایک رائے کی مختصر وضاحت کرنا چاہوں گا
کہ جب کسی گروہ کے افراد کے “ جذبات “ اور “ افکار “ مشترک ہوں تو ایک جماعت وجود میں آتی ہے اور یہ “ جذبات “ اور “ افکار “ کسی بھی تنظیم کے ارکان کے مابین ربط (conection )قائم کرتے ہیں۔اوراس ربط پر ھی ایک تنظیم کی بقا کا دارو مدار ہوتا ہے۔اگر یہ ربط مضبوط ہو گا تو تنظیم میں زندگی اور حرکت جنم لے گی اور اگر یہ ربط کمزور ہو گا تو کچھ ہی عرصے بعد تنظیم مردہ ہو جائے

مثلا اگر اس ربط کی بنیاد وطنیت(Patriotism) پر ہے تو یہ ایک کمزور ربط ہو گا کیونکہ وطنیت دراصل جبلت بقا(Survival instinct) سے نکلا ہوا ایک وقتی جذبہ ہے اور یہ جذبہ صرف اسی وقت بیدار ہوتا ہے جب ملک کی بقا کو کوئی حطرہ لاحق ہو اور امن و امان یہ بلکل ناپید ہو جاتا ہے ۔اس لئے عام دنوں میں ارکان یا تنظیم سہی طرح کام نہ کر پائے گی۔

یا اگر اس ربط کی بنیاد منفعت benefit پر ہے یعنی ممبران کا آپس میں یا تنظیم کے ساتھ کوئی ذاتی مفاد وابستہ ہے تب بھی یہ کمزور اور پست ربط ہو گا کیونکہ ایسی صورت میں تنظیم کے گرد صرف مطلب پرست لوگ جمع ہوں گے اور جب تک کسی رکن کا تنظیم کے ساتھ کسی بھی قسم کا مفاد وابستہ رہے گا وہ تنطیم کا رکن رہے گا اور جب وہ مفاد حتم ہو جائے گا وہ رکن یقینا تنظیم سے علیحدہ ہو جائے گا۔

اس طرح کے اوربھی فاسد ربط بھی ہیں جیسے روحانیت(spirtuality) یا قومیت (Tribalism).

سب سے مضبوط ربط اگر کوئی ہے تو وہ صرف اور صرف مذ ہب کا ہے کیونکہ اگر کوئی شخص کسی تنظیم سے اس لئے وابستہ ہے کہ جو وہ کام کر رھا ہے وہ حکم الہی ہے اور اس طرح اسے اللہ اور اللہ کے رسول کی رضا حاصل ہو گی تو اس شخص کے دل میں تنظیم اور تنظیم کے ارکان کے لیے محبت ارر الفت پیدا ہو گی اور یہ جزبہ ہے کہ جس میں تغیرات تو آتے ہیں مگر بڑھتا ہی رہتا ہے اس میں کمی نییں آتی ۔اور بحثیت مسلمان ہمیں بھی اسی جذبے کے تحت کوئی تنظیم یا تحریک شروع کرنی چاہیے کیونکہ یہی وہ جذبہ یا نیت ہے جو آخرت میں ہماری نجات کا سبب بنے گا ۔

وطنیت کا جذبہ ایک لحاظ سے پست یوں بھی ہے کہ انسان “ لاشعوری “ طور پر یہ چاہتا ھے کہ اسے اس کی حدمات کے صلے میں “ قائد “ ، “ رہنماہ “ یا “ نجات دہندہ “ کئے طور پر پکارا جائے اور جب یسا نہیں ہوتا اور اس کی تعریف کی بجائے تنقید کی جاتی ہے ۔،تو وہ ہیجان کا شکار ہو جاتا ہے۔

جبکہ مذہبی جذبہ میں عموما انسان کو کسی قسم کی تعریف و تنقید کی کوئی پرواہ نہی ھوتی کیونکہ وہ اپنے اعمال صرف اپنے رب کی خوشنودی کے لئے کر رہا ہوتا ہے۔


اس لئے میں یہ تجویز کروں گا کہ صرف “باہمی بھائی چارے“ کے نعرے پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ اوپر دیئے گئے نقطہ نظر کے مظابق اس پر نظر ثانی کی جائے۔

والسلام
 
عمر میرزا صاحب، آپ کے خیالات قابل تعریف ہیں۔ اس تنظیم کے منشور پر نظرثانی فرمائیے اور مناسب تبدیلیاں اس میں ڈالئیے تاکہ جس توازن کی طرف آپ نے نشاندہی کی ہے وہ برقرار رہے۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ بتدریج تبدیلیوں کی مدد سے اور مناسب پریاریٹیز کےوقت کے ساتھ ساتھ شمول سے یہ کاوش مسلمانوں کے لئے مفید ثابت ہو۔ ابتدا چند مناسب نکات سے ہی کیجئے جیسا کہ مختلف لوگوں نے اظہار کیا ہے۔

آپ کے تائیدی کلمات اور ہمت افزائی کا شکریہ۔
والسلام
 

عمر میرزا

محفلین
اس تنظیم کے منشور پر نظرثانی فرمائیے اور مناسب تبدیلیاں اس میں ڈالئیے

;) فاروق صاحب !میرے سے نظر ثانی کے لئے اصرار نہ کریں ۔۔۔۔
یہ نہ ہو کہ مناسب مناسب اور تھوڑی تھوڑی تبدیلیاں کرتے کرتے " رہبر " حزب ا لتحریر " میں نہ بدل جائے:grin:
 

ظفری

لائبریرین
بنیادی طور سے میرا بھی یہی خیال ہے کہ تنظیم فلاحی ہونی چاہیئے ۔ کیونکہ ملک میں لوگوں کو سیاست کی نہیں فلاح کی زیادہ ضرورت ہے ۔ اور یہ فلاحی ضرورت تعلیم سے لیکر روزگار ، امن وامان اور پھر انصاف کے تقاضوں کے ساتھ زندگی کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کی متقاضی ہو ۔ تنظیم کے قیام کا مقصد پوری طرح واضع ہوچکا ہے ۔ مگر ایک اہم بات جس کا میں ذکر یہاں ضروری سمجھتا ہوں کہ انسان نے جب بھی تاریخ میں کسی اجتماعیت کی تشکیل کی ہے تو اس نے ساتھ ہی اس بات کا بھی اہتمام کیا ہے کہ اس اجتماعیت کو کسی اخلاقی نظام کے تابع رکھا جائے ۔ اور ہم یہاں ایک اجتماعیت کی تشکیل کر رہے ہیں ۔ لہذا اس اجتماعیت یا تنظیم کو بھی ایک ایسے اخلاقی ضابطے کا پابند رکھا جائے ۔ جو کہ تنظیم کے منشور کا حصہ ہو ۔
بات بہت لمبی ہوگئی ہے اور اب گفتگو اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ میرے ذہن میں اس تنظیم کی کچھ اس طرح شکل ابھرتی ہے کہ :

" ایک تنظیم ہے ۔ جس کا منشور ملک و قوم کی شعوری اور ظاہری حالت بدلنی ہے ۔ اور اس منشور کے بنیادی نکات " یہ ، یہ " ہیں ۔ اور یہ تنظیم اخلاقی سطح پر باہمی مشاورت کو اہمیت دیکر اس سے حاصل ہونے والے نتائج کو تنظیم کے قانون کی ایک عملی شکل دینے پر عمل پیرا ہے ۔ اور پھر اس عملی شکل کا مظہر ملک اور قوم کی حالت بدلنے سے مشروط ہے ۔"​

میرا خیال ہے کہ اب ہمیں وہ نکات یا منشور جس پر اب تک ہم بحث کر چکے ہیں یا جسے ہم اس تنظیم کی بنیاد بنانے والے ہیں ۔ اس پر اب سوچیں کہ اسے کس طرح محدود کر کے دستاویز کی شکل دی جائے ۔ میرا خیال ہے ایک بنیادی منشور کے ساتھ اس کے تین ذیلی نکات ہونے چاہئیں ۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ ایک یہ ہوگا کہ لوگ اسے پڑھ کر تنظیم کے منشور اور اس کی افادیت سے فوری طور پر آگاہ ہوسکیں گے ۔ اس کام کے بعد فوراً ہی پہلی میٹنگ میں ایک دو آسان سے ہدف مقرر کر دیئے جائیں ۔ جن میں ممبرز کی تعداد اور ان کے اصلاحی اور فلاحی کام کا تعین کیا جا سکے ۔ اور پھر کام کی نوعیت کے اعتبار سے تنظیم کے منتظم اور دیگر عہدوں کا بھی تعین کر دیا جائے ۔

میرا خیال ہے ۔ یہ کام پہلے ہوجانا چاہیئے ۔ اس سلسلےمیں آپ سب اپنی صلاحیتوں کو استعمال میں لائیں ۔ اور پھر انشاءاللہ ہم یہ مرحلہ طے ہوجانے کے بعد عملی میدان میں قدم رکھ دیں گے ۔ اللہ ہم کو اس آزمائش اور میدان میں کامیاب فرمائے ۔ آمین ثم آمین ۔
 
آمین۔ ثم آمین ، آپ کے خیالات کی تائید کرتا ہوں۔ مجوزہ ابتدائی منشور پر میرا ووٹ سپورٹ میں ہے۔ اب وقت ہے کہ دوسرے اصحاب ترامیم تجویز کریں، نکات کو واضح شکل دیں اور پھر اپنا اپنا ووٹ دیں۔
 
میں کل لاہور جا رہا ہوں اور ایک ہفتہ بعد واپسی ہوگی ، امید ہے میرے آنے تک منشور بن چکا ہوگا اور میں اس عرصے میں چار پانچ لوگوں کو تیار کر چکا ہوں گا۔
 
کہاں ہیں دوست لوگ؟ :eek:

تنظیم
ایک تحریک جس کا مقصد عوام میں سیاسی، سماجی و معاشرتی شعور بیدار کرکے ان کو ایک اچھا اور مفید شہری بنایا جائے۔ یہ تنظیم قطعا غیر مسلح اور امن پسند ہوگی، اس کا دین اگرچہ اسلام ہوگا تاہم اس کے دروازے ہر دین و مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے کھلے ہوں گے۔​
 
ظفری کی کمی بڑی شدت سے محسوس ہو رہی ہے ۔

میں ، نظامی ، ساجد اقبال ، فاتح کو تو رضامند کر چکا ہوں اور ایک ہفتہ میں ہماری میٹنگ بھی ہو جائے گی باقی احباب بھی بتا دیں۔
 

محسن حجازی

محفلین
جانا کہاں ہے۔ اصل میں ہم ایک لایعنی سی بحث میں پڑ گئے کہ کیا ڈھانچہ ہوگا کیا کیوں کیسے فلاں تحریک فلاں بات یہ اور وہ یہ باریکی وہ باریکی۔۔۔ اور کام کی بات بھول گئے۔۔۔ اصل کام تنظیم سازی نہیں اصلاح احوال ہے۔ اس طرف کسی کا دھیان کم ہی گیا دوسری موشگافیوں میں پڑے رہے۔
آئیے کام شروع کرتے ہیں۔ پہلی بات تو کچھ مسائل پر غوروفکر ہے۔ میں پہلا مسئلہ آپ کا سامنے رکھتا ہوں۔

پاکستان میں جرنیلی حکومت مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی اور ظلم و ستم جاری ہے۔ تفصیلات میں نہیں جاؤں گا کیوں کہ سب با خبر ہیں۔ اس کے بعد انتخابات بھی سر پر ہیں۔ ابھی صرف وردی اتارنے سے ہی لوگ کافی تھم سے گئے ہیں اور یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ کافی صورتحال بہتر ہو گئی ہے۔ وگر نہ حقیقت یہ ہے کہ کچھ بھی نہیں بدلا بلکہ حالات خراب تر ہو گئے ہیں۔ اب اگر انتخابات ہو گئے اور پاکستان کی دو بڑی جماعتوں میں سے کسی کی حکومت بن گئی تو عوام پھر پر سکون ہو جائیں گے لیکن حالات اسی ڈگر پر رہیں گے۔
اس صورتحال سے بچنے کے کیا کیا جا سکتا ہے؟
یہ سوال ہے اس وقت اس تنظیم کے سوچنے کا۔ خزانچی کون ہوگا اور کس کی رائے چلے گی کیا ہوگا، یہ بعد کی باتیں ہیں میں انہیں اہمیت نہیں دیتا۔ جہاں بھی چند صالح اور نیک نیت لوگ اکٹھے ہوں گے وہاں اختلاف رائے اور ٹکرااؤ کے امکانات کم سے کم فوری نہیں ہوں گے۔ ساتھ ساتھ سب طے ہوتا رہے گا۔ تنظیم سازی کے متعلق میں مزید ایک لفظ سننے کا روادار نہیں۔
بس اس سوال کے بارے میں صرف ٹھوس تجاویڑ چند سطروں سے زیادہ نہ ہوں۔ تجزیہ مت کیجیے TODO Steps کیا ہوں یہ بتائیے۔
 
پاکستان میں جرنیلی حکومت مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی اور ظلم و ستم جاری ہے۔ تفصیلات میں نہیں جاؤں گا کیوں کہ سب با خبر ہیں۔ اس کے بعد انتخابات بھی سر پر ہیں۔ ابھی صرف وردی اتارنے سے ہی لوگ کافی تھم سے گئے ہیں اور یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ کافی صورتحال بہتر ہو گئی ہے۔ وگر نہ حقیقت یہ ہے کہ کچھ بھی نہیں بدلا بلکہ حالات خراب تر ہو گئے ہیں۔ اب اگر انتخابات ہو گئے اور پاکستان کی دو بڑی جماعتوں میں سے کسی کی حکومت بن گئی تو عوام پھر پر سکون ہو جائیں گے لیکن حالات اسی ڈگر پر رہیں گے۔
اس صورتحال سے بچنے کے کیا کیا جا سکتا ہے؟
سچ تو یہ ہے کہ اس صورتحال سے بچنے کے لیے ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ :( کیوں کہ ہم ابھی ہوکر بھی نہیں ہیں۔ ہاں، ہمارے بس میں جتنا ہے، وہ یہ ہے کہ مختصر جائزہ لیا جائے اس بات کا کہ عوام جس صورتحال کو ٹھیک اور بہتر سمجھ رہی ہے، اس کی حقیقت کیا ہے، اور عوام کو اس حقیقت کا اندازہ دلایا جائے، احساس بیدار کیا جائے۔ فی الحال صرف اتنا ہی ہوسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الیکشن میں کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کی تاریخ گزر گئی ہے ورنہ اس پر غور ہوسکتا تھا۔ :lll: (معذرت)
 

خرم

محفلین
بھائی سب سے پہلی اور بنیادی بات تو یہ ہے کہ ہم سب عہد کریں کہ کوئی کام خلافِ قانون اور خلافِ ضابطہ نہیں کریں گے۔ اور پھر اس عمل پر سختی سے قائم رہیں اور اس پر ایک دوسرے کی مدد کریں۔ پھر اس کے بعد اپنے حلقہ احباب میں اس بات کی ترویج کریں‌کہ ہر کام کرتے وقت صرف اس کے صحیح اور حق ہونے کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے اور وقتی آسانی کی بجائے قانون کی پاسداری کو ترجیح دی جائے۔ اگر ہم اس عمل پر قائم رہتے ہیں تو انشاء اللہ کچھ برسوں میں ہمارے گلی محلوں میں‌ایسی جماعت پیدا ہو چکی ہوگی جو ہر عملِ زندگی کا فیصلہ صرف حق اور انصاف کے مطابق کرنے والی ہوگی۔ یہ سوچ جیسے جیسے فروغ پائے گی انشاء اللہ بہتری کے آثار اسی تناسب سے نمودار ہوں گے۔ یہ کام اگرچہ مدت طلب ہے لیکن میرے خیال میں اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں فی الحال کہ عوامی رائے عامہ بیدار کئے بغیر نہ تو کوئی تحریک چل سکتی ہے اور نہ کامیاب ہو سکتی ہے۔
 

خاور بلال

محفلین
خرم صاحب نے ضابطہ اخلاق کی طرف توجہ دلائی۔ میں ان کی بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہنا چاہوں گا کہ "جھوٹ" نام کی ایک چیز ہوتی ہے، اس چیز سے اجتناب بھی ضابطہ اخلاق میں شامل کیا جائے۔
 

محسن حجازی

محفلین
لیکن انتخابات کا مسئلہ؟ وہ تو جوں کا توں ہے؟ اس کے بارے میں بھی کچھ رائے دیجیے۔ کوئی تجویز؟ میں تو شاید اس دفعہ ووٹ ہی نہ دوں۔۔۔ شاید کبھی نہ دوں۔
 

دوست

محفلین
میرا ارادہ بن رہا کہ ووٹ‌ دوں۔ کس کو نوازشریف کو چونکہ وہی ایک میدان میں ہے جس نے ججوں کو بحال کروانے کا نعرہ لگایا ہے۔ ورنہ وہی عمران خان والا طریقہ تو ہوگا ہی۔۔۔
 
میرا مخلصانہ مشورہ مانیں‌تو اپنا قیمتی ووٹ ضائع نہ کریں اور پی پی پی کے امیدوار کوووٹ دیں۔ ویسے بھی ابھی کل ہی نواز شریف نے کہا کہ پی پی پی اور نون کی منزل ایک ہے۔
انشاللہ بہتر ہوگا۔ اطمینان سے پی پی پی کو ووٹ دیں ۔
 

خاور بلال

محفلین
میرا مخلصانہ مشورہ مانیں‌تو اپنا قیمتی ووٹ ضائع نہ کریں اور پی پی پی کے امیدوار کوووٹ دیں۔ ویسے بھی ابھی کل ہی نواز شریف نے کہا کہ پی پی پی اور نون کی منزل ایک ہے۔
انشاللہ بہتر ہوگا۔ اطمینان سے پی پی پی کو ووٹ دیں ۔
بی بی کو کس بنا پر ووٹ دیا جائے۔ ان کی اسلام دوستی پر؟ حب الوطنی پر، امریکا نوازی پر، بے حسی پر، ڈاکٹر قدیر کو دشمنوں کے حوالے کرنے کے عزائم پر، قوم کا خون چوس چوس کر محلات تعمیر کرنے پر، یا مفاہمتی آرڈیننس کے ذریعے گناہ معاف ہوجانے کی خوشی میں؟
 
Top