دن کو دفتر میں اکیلا، شب، بھرے گھر میں اکیلا
میں کہ عکسِ منتشر، ایک ایک منظر میں اکیلا
اُڑ چلا وہ، اک جدا خاکہ لئے سر میں، اکیلا
صبح کا پہلا پرندہ آسماں بھر میں اکیلا
کون دے آواز خالی رات کے اندھے کنوئیں میں
کون اُترے خواب سے محروم بستر میں، اکیلا
اُس کو تنہا کر گئ کروٹ کوئی پچھلے پہر کی
پھر اُڑا بھاگا وہ سارا دن، نگر بھر میں اکیلا
ایک مدھّم آنچ سی آواز، سرگم سے الگ کچھ،
رنگ اک دبتا ہوا سا، سارے منظر میں اکیلا
بولتی تصویر میں اِک نقش، لیکن کچھ ہٹا سا
ایک حرفِ معتبر لفظوں کے لشکر میں اکیلا
جاؤ موجو، میری منزل کا پتہ کیا پوچھتی ہو
اک جزیرہ ، دور افتادہ، سمندر میں اکیلا
جانے کس احساس نے آگے نہیں بڑھنے دیا تھا
اب پڑا ہوں قید، میں رستے کے پتھّر میں اکیلا
ہو بہو میری طرح چپ چاپ مجھ کو دیکھتا ہے
اک لرزتا، خوبصورت عکس، ساغر میں اکیلا
شاعر: بانی