"میری پسند"

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
تنگ آ چکے ہیں کشمکشِ زندگی سےہم
ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں‌ بے دلی سے ہم

مایوسئ مآلِ محبت نہ پوچھئے
اپنوں سے پیش آئے ہیں ‌بیگانگی سے ہم

لو آج ہم نے توڑ دیا رشتۂ امید
لو اب کبھی گلہ نہ کریں گے کسی سے ہم

ابھریں گے ایک بار ابھی دل کے ولولے
گودب گئے ہیں بارِ غمِ زندگی سے ہم

گر زندگی میں مل گئے پھر اتفاق سے
پوچھیں گے اپنا حال تری بے بسی سے ہم

اللہ رے فریبِ مشیت کہ آج تک
دنیا کے ظلم سہتے رہے خامشی سے ہم
(ساحر لدھیانوی)​
 

نوید صادق

محفلین
دن کو دفتر میں اکیلا، شب، بھرے گھر میں اکیلا
میں کہ عکسِ منتشر، ایک ایک منظر میں اکیلا

اُڑ چلا وہ، اک جدا خاکہ لئے سر میں، اکیلا
صبح کا پہلا پرندہ آسماں بھر میں اکیلا

کون دے آواز خالی رات کے اندھے کنوئیں میں
کون اُترے خواب سے محروم بستر میں، اکیلا

اُس کو تنہا کر گئ کروٹ کوئی پچھلے پہر کی
پھر اُڑا بھاگا وہ سارا دن، نگر بھر میں اکیلا

ایک مدھّم آنچ سی آواز، سرگم سے الگ کچھ،
رنگ اک دبتا ہوا سا، سارے منظر میں اکیلا

بولتی تصویر میں اِک نقش، لیکن کچھ ہٹا سا
ایک حرفِ معتبر لفظوں کے لشکر میں اکیلا

جاؤ موجو، میری منزل کا پتہ کیا پوچھتی ہو
اک جزیرہ ، دور افتادہ، سمندر میں اکیلا

جانے کس احساس نے آگے نہیں بڑھنے دیا تھا
اب پڑا ہوں قید، میں رستے کے پتھّر میں اکیلا

ہو بہو میری طرح چپ چاپ مجھ کو دیکھتا ہے
اک لرزتا، خوبصورت عکس، ساغر میں اکیلا

شاعر: بانی
 

شمشاد

لائبریرین
مرے سرکش ترانوں کی حقیقت ہے تو اتنی ہے
کہ جب بھی دیکھتا ہوں بھوک کے مارے کسانوں کو
غریبوں ‌مفلسوں کو بے کسوں بے سہاروں کو
سسکتی نازنیینوں کو، تڑپتے نوجوانوں کو
حکومت کے تشدد کو امارت کے تکبر کو
کسی کے چیتھڑوں کو اور شہنشاہی خزانوں کو

تو دل تابِ نشاطِ بزمِ عشرت لا نہیں‌سکتا
میں‌چاہوں بھی خواب آور ترانے گا نہیں سکتا
(ساحر لدھیانوی)
 

شمشاد

لائبریرین
وقت کے تیر تو سینے پہ سنبھالے ہم نے
اور جو نیل پڑے ہیں ، تری گفتار سے ہیں
رُوح سے چھیلے ہوئے جسم جہاں بکتے ہیں
ہم کو بھی بیچ دے، ہم بھی اُسی بازار سے ہیں
(گلزار)​
 

عمر سیف

محفلین
ہجومِ شہر سے ہٹ کر حدودِ شہر کے بعد
وہ مُسکرا کے مِلے بھی تو کون دیکھتا ہے
ہجومِ درد میں کیا مُسکرائیے کہ یہاں
خزا ں میں پھول کھلے بھی تو کون دیکھتا ہے
 

شمشاد

لائبریرین
بعد از وقت

دل کو احساس سے دوچار نہ کر دینا تھا
سازِ خوابیدہ کو بیدار نہ کر دینا تھا

اپنے معصوم تبسم کی فروانی کو
وسعتِ دید پہ گلبار نہ کر دینا تھا

شوقِ مجبور کو بس ایک جھلک دکھلا کر
واقفِ لذّتِ تکرار نہ کر دینا تھا

چشمِ مشتاق کی خاموش تمناؤں کو
یک بیک مائلِ گفتار نہ کر دینا تھا

جلوۂ حسن کو مستور ہی رہنے دیتے
حسرتِ دل کو گنہگار نہ کر دینا تھا
(فیض احمد فیض)​
 

عیشل

محفلین
پلکوں کی باڑ کے اُس طرف
نگاہوں کو لگا وہ ان کہی کی طرح
پرت در پرت کھولنے پر بھی
محسوس ہوا وہ بند گلی کی طرح
 

شمشاد

لائبریرین
ہر سنگ پہ لکھا مرا افسانہ رہے گا
دیوانہ تو دیوانہ ہے، دیوانہ رہے گا

اس عمر میں ہم یادِ خدا خاک کریں گے
دل جیسا تھا ویسا ہی صنم خانہ رہے گا

جتنا کہ غمِ عشق میں دشوار ہے جینا
اس درجہ ہی آساں ہمیں مرجانا رہے گا

اے دوست تر ا آنا ہمیں یاد نہیں ہے
ہاں یاد بہت تیرا چلا جانا رہے گا

لو دل بھی چلا عشق میں ہاتھوں سے نکل کے
کیا شہرِ وفا میں کوئی اپنا نہ رہے گا

کیا کیجئے مدت سے ہے دستور ہی ایسا
میکش تو چلے جائیں گے میخانہ رہے گا

غربت میں بھی ہے سایۂ دیوار کی امید
اے دل تو کہاں تک یوں ہی دیوانہ رہے گا

سرور جو رہی حالتِ گریہ یہی تیری
پھر کوئی بھی دریا کہیں پیاسا نہ رہے گا
(سرور عالم راز سرور)​
 

شمشاد

لائبریرین
ہر سنگ پہ لکھا مرا افسانہ رہے گا
دیوانہ تو دیوانہ ہے، دیوانہ رہے گا

اس عمر میں ہم یادِ خدا خاک کریں گے
دل جیسا تھا ویسا ہی صنم خانہ رہے گا

جتنا کہ غمِ عشق میں دشوار ہے جینا
اس درجہ ہی آساں ہمیں مرجانا رہے گا
(سرور عالم راز سرور)​
 

عمر سیف

محفلین
میرے دل کے سارے موسم
تیرے نام کے ساتھ ہیں
جیسے ہی میں آنکھیں موندوں
سامنے تو آجاتا ہے
کھلتے گلاب کا پچھلا موسم
دل کو خوب ستاتا ہے
لب میرے مسکراتے ہیں
پر آنکھ میں آنسو آتے ہیں
میرے دل کے سارے موسم
کیوں تیرے نام کے ساتھ ہیں
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top