نوسٹلجیا کو نظر انداز کرنا میرے خیال میں ممکن نہیں ہوتا جب آپ وہ کتاب پڑھ رہے جو مصنف کی کسی جگہ سے جذباتی وابستگی کی بناء پر تشکیل پائی ہو۔ یوں بھی دوسروں کے ماضی کے قصے کم از کم مجھے تو نوسٹلجیا میں مبتلاء کر دیتے ہیں حالانکہ وہ میرے ماضی سے بھی کافی بعید کی باتیں ہوتی ہیں۔ اس کتاب کے پیش لفظ میں مصنف لکھتے ہیں:
"ہم پر بھی ماضی کی یادوں کی یورش ہوتی ہے اور واقعات کی گھٹائیں ذہن کی آبیاری کرنے لگتی ہیں تو قلم میں امنگ پیدا ہوجاتی ہے اور دل بے اختیار کچھ لکھنے کو چاہنے لگتا ہے۔"
اور آوازِ دوست میں جابجا علیگڑھ کے حوالے ملتے ہیں۔ ویسے آوازِ دوست جیسی کتاب آج تک پڑھنی نصیب نہیں ہوئی۔
جنٹلمین استغفر اللہ میری معلومات کے مطابق جنٹلمین سیریز کی آخری کتاب ہے۔ اور خلافِ سابق یہ طنز و مزاح سے ہٹ کر کارگل کے واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیق ہے اور مصنف کی انگریزی کتاب Witness To Blunder کا ترجمہ ہے۔ مصنف نے تحقیق اور وطن سے محبت کا حق ادا کردیا اور غلو بھی نہیں آنے دیا۔۔۔
تارڑ صاحب کو میں نے بچپن میں پڑھا تھا، اس کے بعد موقع نہیں ملا یا طبیعت مائل نہیں ہوئی۔ ایک واقعہ شرمندگی کی بھی یاد دلاتا ہے۔ ہوا یوں تھا کہ ۱۲ سال کی عمر میں ناناجان کے گھر میں تارڑ صاحب کی کتاب "نانگا پربت" کو سب کے سامنے "ننگا پربت" کہہ دیا اور پھر اپنی بات پر اڑا بھی رہا کہ بھئی یہ نانگا کیا ہوتا ہے ننگا ہوتا ہے، اس کے بعد جو قہقہہ پڑا ہے تو غالباً خجالت کی بناء پر تارڑ صاحب کی کتب ہاتھ میں لیتے ہوئے ڈرتا ہوں