نوید ناظم
محفلین
میرے بھی دردِ دل کا سامان ہو چکا ہے
شاید کہ وہ اب آئے، امکان ہو چکا ہے
مانا کہ ہجر میں مجھ کو ہے ملا خسارہ
اس میں مگر ترا بھی نقصان ہو چکا ہے
وہ ہنس نہیں رہا تھا حالت پہ آج میری
گویا کہ مجھ سے اب وہ انجان ہو چکا ہے
ہاں تیری بے وفائی پر کچھ گلہ تھا پہلے
مدت ہوئی کہ اب اطمینان ہو چکا ہے
کیا اُس نے بھی وفا کا اب کر لیا ارادہ
کیا واقعی وہ اتنا نادان ہو چکا ہے
اب ختم کیجئے نا یہ سلسلہ ستم کا
پہلے ہی مجھ پہ کافی احسان ہو چکا ہے
دیکھو نوید کو کہتے ہیں کہ ہجر میں یہ
بس چند ہی دنوں کا مہمان ہو چکا ہے
شاید کہ وہ اب آئے، امکان ہو چکا ہے
مانا کہ ہجر میں مجھ کو ہے ملا خسارہ
اس میں مگر ترا بھی نقصان ہو چکا ہے
وہ ہنس نہیں رہا تھا حالت پہ آج میری
گویا کہ مجھ سے اب وہ انجان ہو چکا ہے
ہاں تیری بے وفائی پر کچھ گلہ تھا پہلے
مدت ہوئی کہ اب اطمینان ہو چکا ہے
کیا اُس نے بھی وفا کا اب کر لیا ارادہ
کیا واقعی وہ اتنا نادان ہو چکا ہے
اب ختم کیجئے نا یہ سلسلہ ستم کا
پہلے ہی مجھ پہ کافی احسان ہو چکا ہے
دیکھو نوید کو کہتے ہیں کہ ہجر میں یہ
بس چند ہی دنوں کا مہمان ہو چکا ہے