میرے بھی دردِ دل کا سامان ہو چکا ہے ( مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن)

نوید ناظم

محفلین
میرے بھی دردِ دل کا سامان ہو چکا ہے
شاید کہ وہ اب آئے، امکان ہو چکا ہے

مانا کہ ہجر میں مجھ کو ہے ملا خسارہ
اس میں مگر ترا بھی نقصان ہو چکا ہے

وہ ہنس نہیں رہا تھا حالت پہ آج میری
گویا کہ مجھ سے اب وہ انجان ہو چکا ہے

ہاں تیری بے وفائی پر کچھ گلہ تھا پہلے
مدت ہوئی کہ اب اطمینان ہو چکا ہے

کیا اُس نے بھی وفا کا اب کر لیا ارادہ
کیا واقعی وہ اتنا نادان ہو چکا ہے

اب ختم کیجئے نا یہ سلسلہ ستم کا
پہلے ہی مجھ پہ کافی احسان ہو چکا ہے

دیکھو نوید کو کہتے ہیں کہ ہجر میں یہ
بس چند ہی دنوں کا مہمان ہو چکا ہے
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب نوید ناظم صاحب! اچھے اشعار ہیں ! لیکن ردیف ہر جگہ نہیں نبھ سکی ۔ کچھ لسانی کوتاہیوں کی طرف اشارہ کرتا ہوں ۔ ہونا فعلِ ناقص ہے ۔ اس لئے ہوچکا ہے کی ردیف صرف کچھ مخصوص قوافی کے ساتھ ہی چلے گی ۔
میرے بھی دردِ دل کا سامان ہو چکا ہے
شاید کہ وہ اب آئے، امکان ہو چکا ہے
امکان ہے ، امکان تھا ، امکان ہوگا تو سب درست ہیں ۔ لیکن امکان ہوچکا ہے درست نہیں ۔ امکان پیدا ہوچکا ہے درست ہوگا۔

ب ختم کیجئے نا یہ سلسلہ ستم کا
پہلے ہی مجھ پہ کافی احسان ہو چکا ہے
یہاں کافی کے بجائے خاصا کا محل ہے ۔

دیکھو نوید کو کہتے ہیں کہ ہجر میں یہ
بس چند ہی دنوں کا مہمان ہو چکا ہے
یہاں مہمان رہ گیا ہے کا محل ہے ۔
 

الف عین

لائبریرین
ظہیر میاں کے مشورے کے علاوہ میں صرف یہ کہنا چاہوں گا اور جو اکثر کہا بھی ہے کہ چار افاعیل کی بحریں جو دو ٹکڑوں میں منقسم ہوتی ہیں ان میں ہر ٹکڑے میں بات مکمل ہو جائے تو اچھا ہے۔ کجا یہ کہ پورا لفظ ہی ٹوٹ جائے جیسا اطمینان یہاں ٹوٹ رہا ہے یا
مانا کہ ہجر میں مجھ ۔۔۔ کو ہے ملا خسارہ
غلط ہے۔ یہ یوں ہو سکتا ہے
مانا کہ ہجر میں ہے مجھ کو ملا خسارہ

اسی طرح
دیکھو نوید کو کہتے ہیں کہ ہجر میں یہ
میں 'کہتے' ہی ٹوٹ گیا ہے
 

نوید ناظم

محفلین
بہت خوب نوید ناظم صاحب! اچھے اشعار ہیں ! لیکن ردیف ہر جگہ نہیں نبھ سکی ۔ کچھ لسانی کوتاہیوں کی طرف اشارہ کرتا ہوں ۔ ہونا فعلِ ناقص ہے ۔ اس لئے ہوچکا ہے کی ردیف صرف کچھ مخصوص قوافی کے ساتھ ہی چلے گی ۔

امکان ہے ، امکان تھا ، امکان ہوگا تو سب درست ہیں ۔ لیکن امکان ہوچکا ہے درست نہیں ۔ امکان پیدا ہوچکا ہے درست ہوگا۔


یہاں کافی کے بجائے خاصا کا محل ہے ۔


یہاں مہمان رہ گیا ہے کا محل ہے ۔
زہے نصیب کہ آپ نے تبصرے سے نوازا' ممنون ہوں!

امکان ہے ، امکان تھا ، امکان ہوگا تو سب درست ہیں ۔ لیکن امکان ہوچکا ہے درست نہیں ۔ امکان پیدا ہوچکا ہے درست ہوگا۔
بالکل درست' یہ خامی یا کمی تو ہے لیکن ردیف کی مجبوری امکان ''پیدا'' نہیں ہونے دے گی' اگر یہاں کوئی رعایت کا پہلو نکلتا ہو تو مبتدی کا بھلا ہو گا' گرچہ کہ یہ خامی موجود رہے گی اس میں۔


یہاں کافی کے بجائے خاصا کا محل ہے ۔
جی بہتر' اس کو حکم کے مطابق کر دیا۔

یہاں مہمان رہ گیا ہے کا محل ہے۔
صحیح، مقطع کو حذف کر کے اس کی جگہ پر یہ شعر لے آیا ہوں' آپ اس کو اک نظر دیکھیے گا۔۔۔۔

آواز دے رہا ہے مجھ کو جو دشت یارو
سمجھو مکیں یہ گھر میں مہمان ہو چکا ہے
 

نوید ناظم

محفلین
ظہیر میاں کے مشورے کے علاوہ میں صرف یہ کہنا چاہوں گا اور جو اکثر کہا بھی ہے کہ چار افاعیل کی بحریں جو دو ٹکڑوں میں منقسم ہوتی ہیں ان میں ہر ٹکڑے میں بات مکمل ہو جائے تو اچھا ہے۔ کجا یہ کہ پورا لفظ ہی ٹوٹ جائے جیسا اطمینان یہاں ٹوٹ رہا ہے یا
مانا کہ ہجر میں مجھ ۔۔۔ کو ہے ملا خسارہ
غلط ہے۔ یہ یوں ہو سکتا ہے
مانا کہ ہجر میں ہے مجھ کو ملا خسارہ

اسی طرح
دیکھو نوید کو کہتے ہیں کہ ہجر میں یہ
میں 'کہتے' ہی ٹوٹ گیا ہے

مانا کہ ہجر میں مجھ ۔۔۔ کو ہے ملا خسارہ
غلط ہے۔ یہ یوں ہو سکتا ہے
مانا کہ ہجر میں ہے مجھ کو ملا خسارہ
بہت شکریہ سر' آپ کی رہنمائی کے بغیر کوئی شعر کہنا انتہائی مشکل کام ہے میرے لیے تو۔

اسی طرح
دیکھو نوید کو کہتے ہیں کہ ہجر میں یہ
میں 'کہتے' ہی ٹوٹ گیا ہے[/QUOTE]
یہ شعر حذف کر دیا' دوسرا شعر جو اوپر ظہیر صاحب کی خدمت میں عرض کیا ہے وہ یوں ہے۔۔

آواز دے رہا ہے مجھ کو جو دشت یارو
سمجھو مکیں یہ گھر میں مہمان ہو چکا ہے

ظہیر میاں کے مشورے کے علاوہ میں صرف یہ کہنا چاہوں گا اور جو اکثر کہا بھی ہے کہ چار افاعیل کی بحریں جو دو ٹکڑوں میں منقسم ہوتی ہیں ان میں ہر ٹکڑے میں بات مکمل ہو جائے تو اچھا ہے۔ کجا یہ کہ پورا لفظ ہی ٹوٹ جائے جیسا اطمینان یہاں ٹوٹ رہا ہے
سر اس میں غلطی یہ ہوئی کہ حضرتِ غالب کی غزل دیکھی جو دو ٹکّڑوں میں تھی' اُس میں ایک مصرع ٹوٹا دیکھا ' مصرع بھول گیا ہوں لفظ یاد ہے ''معلوم''۔۔۔ اور ایسے ہو رہا تھا معلو- م۔ تو سمجھا شاید ایک آدھ مصرع کی اجازت ہو۔ لیکن کیا یہ قبول ہو گا؟ ورنہ تو یہ شعر حذف کرنا پڑے گا؟
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
کیا اشارہ غالب کے اس شعر سے ہے
حال دل نہیں معلوم، لیکن اس قدر یعنی
ہم نے بار ہا ڈھونڈا، تم نے بارہا پایا
فاعلن مفاعیلن میں دوسرا رکن مفاعیلان آ سکتا ہے۔ یہ لفظ کو دو حصوں میں ٹوٹنا نہیں۔
 

نوید ناظم

محفلین
کیا اشارہ غالب کے اس شعر سے ہے
حال دل نہیں معلوم، لیکن اس قدر یعنی
ہم نے بار ہا ڈھونڈا، تم نے بارہا پایا
فاعلن مفاعیلن میں دوسرا رکن مفاعیلان آ سکتا ہے۔ یہ لفظ کو دو حصوں میں ٹوٹنا نہیں۔
صحیح۔۔۔۔ سر" اطمینان" والے شعر کو غزل سے نکال دیا اب!
 
Top