داغ میرے دل کو دیکھ کر، میری وفا کو دیکھ کر - داغ دہلوی

کاشفی

محفلین
غزل
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)

میرے دل کو دیکھ کر، میری وفا کو دیکھ کر
بندہ پرور منصفی کرنا، خدا کو دیکھ کر

ہم اِنہی آنکھوں سے دیکھیں گے ترا حسن و جمال
گر یہی آنکھیں رہیں ا پنی ، خدا کو دیکھ کر

اب تو دیکھا تم نے اپنے داد خواہوں کا ہجوم
اب تو آنکھیں کھُل گئیں روزِ جزا کو دیکھ کر

حضرتِ زاہد ہماری چھیڑ کی عادت نہیں
گدگدی ہوتی ہے دل میں پارسا کو دیکھ کر

ہم مٹے جس پر، تری بے ساختہ وہ بات تھی
تو بھی عاشق ہو ہی جاتا اُس ادا کو دیکھ کر

غیر نے مہندی لگائی اُس کے ہاتھو ں میں جو داغ
خون آنکھوں میں اُتر آیا حنا کو دیکھ کر
 

فرخ منظور

لائبریرین
واہ واہ! کیا شعر ہے۔
حضرتِ زاہد ہماری چھیڑ کی عادت نہیں
گدگدی ہوتی ہے دل میں پارسا کو دیکھ کر

بہت شکریہ کاشفی صاحب! مزا آ گیا۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
اتفاق سے آج اس مصرعے پر غور کیا۔ انہیں کی جگہ "انہی" ہونا چاہیے۔ کاشفی صاحب ہو سکے تو اسے درست کر دیجیے۔
ہم
اِنہیں آنکھوں سے دیکھیں گے ترا حسن و جمال
 

جیہ

لائبریرین
جس دن غالب کا اثر اتر گیا ، وہ میری زندگی کا آخری دن ہوگا ان شاء اللہ

ابو عثمان بھائی کے دعوے پر میں اور کیا کہہ سکتی سوائے اس کے کہ

ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیئے
 

فرخ منظور

لائبریرین
لیکن ایک بار جسے داغ کا اثر چڑھ جائے تو غالب کا تو اتر سکتا ہے پر داغ کا نہیں۔

داغ کے بارے میں غالب کا ایک شعر۔
داغِ فراقِ صحبت شب کی جلی ہوئی
اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے

داغ کے لئے ایریل ہے نا۔ ;)
 
Top