منور رانا نے جس کثرت سے اپنی شاعری میں لفظ ’’ماں‘‘ کا استعمال کیا ہے، ان کے معاصر شعرا میں کسی اور نے نہیں کیا ہے۔۔۔۔۔
بے لوث رشتوں کی خوبصورتی سے اپنے شعری کینوس کو سجانے والے منور رانا صاحب نے ’ماں‘ کے پاکیزہ موضوع کو اس قدر برتا ہے گویا انھوں نے اسے اپنے حق میں’ پیٹنٹ‘ کرالیا ہے۔ انھوں نے مختلف زاویوں اور پہلوئوں سے ماں پر اتنے اشعار کہے ہیں کہ ان کی الگ سے پوری ایک کتاب بن گئی۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ کے حضور دعا ہے کہ مالک انکے درجات بلند فرمائے آمین ۔۔
انکے ماں پر ہمارے پسندیدہ اشعار۔۔۔
چلتی پھرتی ہوئی آنکھوں سے اذاں دیکھی ہے
میں نے جنت تو نہیں دیکھی ہے ماں دیکھی ہے
اس طرح میرے گناہوں کو وہ دھو دیتی ہے
ماں بہت غصے میں ہوتی ہے تو رو دیتی ہے
میں نے روتے ہوئے پونچھے تھے کسی دن آنسو
مدتوں ماں نے نہیں دھویا وہ دوپٹا اپنا
کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی
میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی
لبوں پہ اس کے کبھی بددعا نہیں ہوتی
بس ایک ماں ہے جو مجھ سے خفا نہیں ہوتی