تمہارے آستاں کا جو کوئی دیوانہ کہلائے
تم ہی کہہ دو وہ دنیا کے لئے کیوں ٹھوکریں کھائے
زمانے سے ہمیں کیا ہے ہمارا مدعا تم ہو
بدلنا چاہتا ہے یہ زمانہ تو بدل جائے
ابھی تو ہم زمانے کی نظر میں کچھ نہیں لیکن
یہ ممکن ہے ہمارے بعد دنیا ہوش میں آئے
کوئی مجبور ہے کیوں اور کیوں مختار ہے کوئی
جہاں والوں کو یہ راز مشیت کون سمجھائے
نہ جانے کیا بنا دیتا خیال ماسوا مجھ کو
بہت اچھا کیا تم میری دنیا میں چلے آئے
نہ جانے کس کی صورت دیکھ کر آیا ہے دیوانہ
کہ اس کے خیر مقدم کے لئے دیر و حرم آئے
ہمیں بھی اک نظر جلوہ دکھا اے داور محشر
کلیم و طور کا قصہ کہاں تک کوئی دہرائے
بلا کے رنج و غم درپیش ہیں راہ محبت میں
ہماری منزل دل تک ہمیں اللہ پہنچائے
تیری خاطر ہی اس نے ٹھوکریں کھائیں زمانے کی
تیرے در سے اب اٹھ کر تیرا دیوانہ کہاں جائے
ابھی تک تو غبار آلود ہے آئینۂ ہستی
جو چاہیں آپ تو یہ آئینہ آئینہ بن جائے
مئے عشرت کے بدلے زہر غم تھا اپنے ساغر میں
کچھ ایسے بھی ہماری زیست میں لیل و نہار آئے
میرا دل کہہ رہا ہے اس میں کوئی راز پنہاں ہے
دم آخر ایک عالم آ گیا ہے وہ نہیں آئے
فقیری اس کی سلطانی سے کم ہوتی نہیں صادقؔ
طلب ہوتے ہوئے بھی ہاتھ جو اپنے نہ پھیلائے
صادق دہلوی