میرے پسندیدہ اشعار

سیما علی

لائبریرین
گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیونکر ہو
کہے سے کچھ نہ ہوا پھر کہو تو کیونکر ہو
مرزا اسد اللہ خان غالب
 

سیما علی

لائبریرین
جادَہِ جستجو پَہ رَہ منزلِ آگہی نہ پُوچھ
ہو گا سفَر تمام کب؟ ایسے سوال بھی نہ پُوچھ
ضامن جعفری
 

سیما علی

لائبریرین
یوں تو تمام رات تڑپتے کٹی مگر
گزری جو دل پہ وقت سحر کچھ نہ پوچھئے

نظارہ مست مست فضائے کائنات مست
مستی بھری نظر کا اثر کچھ نہ پوچھئے

وحشی کو جیسے پرسش احوال سے ہے ضد
کہہ دے گا سارا حال اگر کچھ نہ پوچھئے
اقفر موہانی
 

سیما علی

لائبریرین
تمہارے آستاں کا جو کوئی دیوانہ کہلائے
تم ہی کہہ دو وہ دنیا کے لئے کیوں ٹھوکریں کھائے

زمانے سے ہمیں کیا ہے ہمارا مدعا تم ہو
بدلنا چاہتا ہے یہ زمانہ تو بدل جائے

ابھی تو ہم زمانے کی نظر میں کچھ نہیں لیکن
یہ ممکن ہے ہمارے بعد دنیا ہوش میں آئے

کوئی مجبور ہے کیوں اور کیوں مختار ہے کوئی
جہاں والوں کو یہ راز مشیت کون سمجھائے

نہ جانے کیا بنا دیتا خیال ماسوا مجھ کو
بہت اچھا کیا تم میری دنیا میں چلے آئے

نہ جانے کس کی صورت دیکھ کر آیا ہے دیوانہ
کہ اس کے خیر مقدم کے لئے دیر و حرم آئے

ہمیں بھی اک نظر جلوہ دکھا اے داور محشر
کلیم و طور کا قصہ کہاں تک کوئی دہرائے

بلا کے رنج و غم درپیش ہیں راہ محبت میں
ہماری منزل دل تک ہمیں اللہ پہنچائے

تیری خاطر ہی اس نے ٹھوکریں کھائیں زمانے کی
تیرے در سے اب اٹھ کر تیرا دیوانہ کہاں جائے

ابھی تک تو غبار آلود ہے آئینۂ ہستی
جو چاہیں آپ تو یہ آئینہ آئینہ بن جائے

مئے عشرت کے بدلے زہر غم تھا اپنے ساغر میں
کچھ ایسے بھی ہماری زیست میں لیل و نہار آئے

میرا دل کہہ رہا ہے اس میں کوئی راز پنہاں ہے
دم آخر ایک عالم آ گیا ہے وہ نہیں آئے

فقیری اس کی سلطانی سے کم ہوتی نہیں صادقؔ
طلب ہوتے ہوئے بھی ہاتھ جو اپنے نہ پھیلائے
صادق دہلوی
 

سیما علی

لائبریرین
تمہیں ہم اپنا دل سمجھے تمہیں اپنی نظر جانا
مگر تم نے ہمارے عشق کو نا معتبر جانا

مری ذوق جبیں ساقی کا عالم ہی نرالا ہے
کہ ہر ذرے کو میں نے آپ ہی کا سنگ در جانا

ہم اپنے عزم پر قائم رہے راہ محبت میں
نہ آغاز سفر سمجھے نہ انجام سفر جانا

زمانے کی نگاہوں میں تمہیں تم تھے تمہیں تم ہو
برا کیا ہے جو میں نے بھی تمہیں جان نظر جانا

نظارہ کر رہے ہیں آج وہ میری تباہی کا
عزیز وارثیؔ اچھا نہیں ایسے میں مر جانا
عزیز وارثی دہلوی
 

سیما علی

لائبریرین
بدلی نہ اس کی رُوح کسی اِنقلاب میں
کیا چیز زندہ بند ہے دل کے رباب میں

لفظوں میں بولتا ہے رگِ عصر کا لہو
لکھتا ہے دستِ غیب کوئی اس کتاب میں

تو ڈھونڈتی ہے اب کسے اے شامِ زندگی
وہ دِن تو خرچ ہو گئے غم کے حساب میں

خوش وقتیوں میں تم جنہیں بھولے ہوئے ہو آج
وہ یاد آئیں گے تمھیں حالِ خراب میں

یارانِ زُود نشہ کا عالم یہ ہے تو آج
یہ رات ڈوب جائے گی جامِ شراب میں

نیندیں بھٹکتی پھرتی ہیں گلیوں میں ساری رات
یہ شہر چھپ کے رات کو سوتا ہے آب میں

یہ آج راہ بھول کے آئے کدھر سے آپ
یہ خواب میں نے رات ہی دیکھا تھا خواب میں

ناصر کاظمی
 
Top