نیرنگ خیال
لائبریرین
بھلا ہوا بھلے وقتوں میں ہی ایسے بھلے اشعار کہہ کر مسلمان ہی راہ عدم کو سدھارا۔تیرا رخِ مخطط قرآن ہے ہمارا
بوسہ بھی لیں تو کیا ہے ایمان ہے ہمارا
بھلا ہوا بھلے وقتوں میں ہی ایسے بھلے اشعار کہہ کر مسلمان ہی راہ عدم کو سدھارا۔تیرا رخِ مخطط قرآن ہے ہمارا
بوسہ بھی لیں تو کیا ہے ایمان ہے ہمارا
یہ شعر مجھے بھی بہت پسند آیا تھا جب ناصر کاظمی کا انتخابِ میر کہیں کہیں سے پڑھا تھاتیرا رخِ مخطط قرآن ہے ہمارا
بوسہ بھی لیں تو کیا ہے ایمان ہے ہمارا
بجا کہتے ہو، سچ کہتے ہو پھر کہیو کہ ہاں کیوں ہوبھلا ہوا بھلے وقتوں میں ہی ایسے بھلے اشعار کہہ کر مسلمان ہی راہ عدم کو سدھارا۔
سبحان اللہ۔تیرا رخِ مخطط قرآن ہے ہمارا
بوسہ بھی لیں تو کیا ہے ایمان ہے ہمارا
درست کہتے ہیں۔ آزاد کا زمانہ حسرت سے پہلے کا ہے اور انھوں نے بہتر نشتر کا ذکر کیا ہے تو اس کا مطلب ہے حسرت نے شاید اسی عدد کی رعایت سے میر کے 72 بہترین اشعار انتخاب کیے ہوں گے۔
اور آزاد بھی لکھ رہے ہیں کہ "قدیم سے کہتے آئے ہیں۔۔۔" جس کا مطلب ہے کہ دراصل یہ آزاد کا بھی قول یا اختراع نہیں بلکہ ان سے بھی پہلے سے یہ بہتر نشتر سرگرداں تھے۔میر کے غزلوں کے دیوان اگرچہ رطب ویابس سے بھرے ہوئے ہیں، مگر جو ان میں انتخاب ہیں وہ فصاحت کے عالم میں انتخاب ہیں۔ اُردو زبان کے جوہری قدیم سے کہتے آئے ہیں کہ ستر (۷۰) اور دو بہتر (۷۲) نشتر باقی میر صاحب کا تبرک ہے، لیکن یہ بہتر (۷۲) کی رقم فرضی ہے۔ کیوں کہ جب کوئی تڑپتا ہوا شعر پڑھا جاتا ہے تو ہر سخن شناس سے مبالغہ تعریف میں یہی سُنا جاتا ہے کہ دیکھئے یہ انھیں بہتر نشتروں میں ہے۔
واہدُور بیٹھا غبارِ میر اُس سے
عشق بِن یہ ادب نہیں آتا
ابتدا ہی میں مر گئے سب یار
عشق کی کون انتہا لایا
اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میر
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
تیرا رخِ مخطط قرآن ہے ہمارا
بوسہ بھی لیں تو کیا ہے ایمان ہے ہمارا
سرسری تم جہان سے گزرے!
ورنہ ہر جا ۔۔۔۔ جہانِ دیگر تھا!
احباب نے کچھ شعر لکھے ہیں ایک میں بھی لکھ دوںنرا دھوکا ہی ہے دریائے ہستی
نہیں کچھ تہ سے تجھ کو آشنائی
فہد یار یہ فائل مجھے (ای میل میں یا کسی اور طرح) بھیجو بھئی ۔نوٹ: ابھی پڑھنا باقی ہے
یہ رہافہد یار یہ فائل مجھے (ای میل میں یا کسی اور طرح) بھیجو بھئی ۔
دیکھنے سے تو لگتا ہے فائل سائز کم ہی ہو گا۔
کب تک پڑھ لیں گے۔۔۔آج لیپ ٹاپ کے پی ڈی ایف والے فولڈر میں ایک فائل ملی جو کبھی ڈیجیٹل لائبریری آف انڈیا سے ڈاؤنلوڈ کیا تھا۔ کتاب کا نام ”میر کے نشتر“ ہے جو کسی مسعود الرحمن خان ندوی کی تصنیف ہے۔
۔
۔
نوٹ: ابھی پڑھنا باقی ہے
پڑھ لیں گے بھئی اتنی بھی کیا جلدی ہےکب تک پڑھ لیں گے۔۔۔
بس یہی برس ہے آپ کے پاس۔۔۔ اگلے برس میں خود ارادہ کر لوں گا اس کو پڑھنے کاپڑھ لیں گے بھئی اتنی بھی کیا جلدی ہے