محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
"مقتدرہ" کو آخر ملک و قوم کا اتنا درد کیوں ہے۔ سیانے کہتے ہیں؛افسوس مقتدرہ کو ووٹ کی عزت نہیں ملک دیوالیہ ہونے سے بچانا تھا
"ماں سے بڑھ کر دائی، پھا پھا کٹنی کہلائی"
"مقتدرہ" کو آخر ملک و قوم کا اتنا درد کیوں ہے۔ سیانے کہتے ہیں؛افسوس مقتدرہ کو ووٹ کی عزت نہیں ملک دیوالیہ ہونے سے بچانا تھا
کیونکہ مقتدرہ ہمیشہ الیکشن چوری کرکے اپنی مرضی کی حکومت اقتدار میں لانا چاہتی ہے۔ جو عوام میں مقبول ہوتے ساتھ ہی اپنے پر نکالنا شروع کر دیتی ہے۔ جب اس مقبول عوامی حکومت کو کنٹرول کرنا ممکن نہیں رہتا اور اگلا الیکشن بھی یہی جیتتی نظر آتی ہے۔ تو پھر کسی اور کو اقتدار کیلئے سلیکٹ کرکے اس عوامی حکومت کا بوریا بستر گول کر دیا جاتا ہے۔ یوں یہ سلسلہ مرحلہ وار چلتا رہتا ہے۔ جس سے ملک میں صحیح جمہوریت آتی ہے نہ آمریت۔ بس ایک ہائبرڈ نظام قائم رہتا ہے۔"مقتدرہ" کو آخر ملک و قوم کا اتنا درد کیوں ہے۔ سیانے کہتے ہیں؛
"ماں سے بڑھ کر دائی، پھا پھا کٹنی کہلائی"
شاید آپ درست کہتے ہیں۔ لیکن پیپلز پارٹی کے حوالے سے شاید درست نہیں۔کیونکہ مقتدرہ ہمیشہ الیکشن چوری کرکے اپنی مرضی کی حکومت اقتدار میں لانا چاہتی ہے۔ جو عوام میں مقبول ہوتے ساتھ ہی اپنے پر نکالنا شروع کر دیتی ہے۔ جب اس مقبول عوامی حکومت کو کنٹرول کرنا ممکن نہیں رہتا اور اگلا الیکشن بھی یہی جیتتی نظر آتی ہے۔ تو پھر کسی اور کو اقتدار کیلئے سلیکٹ کرکے اس عوامی حکومت کا بوریا بستر گول کر دیا جاتا ہے۔ یوں یہ سلسلہ مرحلہ وار چلتا رہتا ہے۔ جس سے ملک میں صحیح جمہوریت آتی ہے نہ آمریت۔ بس ایک ہائبرڈ نظام قائم رہتا ہے۔
بھٹو تو ۱۹۷۰ کا الیکشن جیتے ہی نہیں تھے۔ شیخ مجیب جیتے تھے اور حکومت بنانا ان کا جائز جمہوری حق تھا۔ جسے بوٹوں نے کچل دیا اور یوں ملک کے ٹکڑے ہو گئے۔ بھٹو کو چاہیے تھا کہ باقی ماندہ ملک و قوم کو اعتماد میں لینے کیلئے دوبارہ الیکشن کا مطالبہ کرتے۔ مگر موصوف سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔ اور یوں بغیر کسی عوامی مینڈیٹ کے ۵ سال لگاتار حکمرانی کی۔ اس دوران ملک کے ٹکڑے کرنے والے غداروں کی نشاندہی کرنی والی حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کو چھپا دیا کہ اس سے فوج کا مورال ڈاؤن ہو جائے گا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اگلا الیکشن جیتنے کے بعد تازہ دم فوج کے جرنیل نے ان کا تختہ الٹ دیا۔شاید آپ درست کہتے ہیں۔ لیکن پیپلز پارٹی کے حوالے سے شاید درست نہیں۔
بھٹو کو سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اپنی مرضی اور خوشی سے نہیں بنایا ہوگا۔ اسی طرح بینظیر اور زرداری صاحب بھی پاپولر ووٹ لے آئے تھے اور اس کا پریشر تھا تب ہی حکومت ان کے حوالے کی تھی۔
کون سا الیکشن فیئر تھا اور کونسا نہیں کہنا مشکل ہے۔ ۱۹۹۰، ۱۹۹۷، ۲۰۱۳ اور ۲۰۱۸ کے الیکشنز میں پی پی پی کو شکست ہوئی تھی۔ ان سب میں بدترین شکست ۱۹۹۷ کو ہوئی جب پی پی پی قومی اسمبلی کی صرف ۱۸ اور پنجاب اسمبلی کی کوئی سیٹ نہ جیت سکی تھی۔جو بات ہم کہنا چاہ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ پاپولر ووٹ کی طاقت بڑی طاقت ہوتی ہے۔ 70کے الیکشن، 88 کے الیکشن اور بینظیر کی شہادت کے بعد الکشن فیر ہوئے جن میں پیپلز پارٹی کی جیت ہوئی اور انہیں حکومت دینی پڑی۔ پیپلز پاٹی کے ہر دور میں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات کشیدہ رہے اسلیے کہ انہوں نے ووث کے بل پر حکومت حاصل کی تھی۔
زرداری صاحب نے مفاہمت کی سیاست کرکے پانچ سال حکومت تو بلالی لیکن پارٹی کی مقبولیت تقریباً ختم ہوگئی۔
نواز شریف اور عمران اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے لائے گئے ۔ نواز شریف نے حکومت ملنے کے بعد بغاوت کی جبکہ عمران کی پوزیشن اتنی کمزور ہے کہ چوں بھی نہیں کرسکتے۔
اب پنجاب میں پاپولر ووٹ نون کا ہے ۔
۲۰۱۸ کے الیکشن میں بھی پنجاب سے ن لیگ ہی جیتی تھی۔ لیکن اس جیت کا تناسب اتنا کم تھا کہ تحریک انصاف نے ہارنے کے باوجود سارے آزاد امیدوار خرید کر حکومت بنا لی