پڑھنے لکھنے میں کوئی دلچسپی نہ تھی اس وجہ سے زیادہ نہیں پڑھ سکا اسی لئے چہارم کلاس میں سکول کو خیر آباد کہہ دیا اور اپنی کم عمری میں ہی اپنے ابا جان کے ساتھ چھاپہ خانہ(پرنٹنگ پریس) کے شعبے کی طرف قدم بڑھائے۔ میرے ابا جان بھی میری طرح ہی چار کلاس پڑھے ہیں اور چھاپہ خانہ شعبے میں اچھے اور میعاری کام کی وجہ سے اُنہیں محترم جانا جاتا ہے ۔ اب تک کمپوزنگ (ٹائیپوگرافی) سے لے کر پرنٹنگ میں اُنہیں ایک اچھے اور شفیق اُستاد کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ مجھے کمپوزنگ کا شوق اُنہیں کو دیکھتے ہوئے(گلے) پڑ گیا۔ کیونکہ ٹائیوگرافی میں تمام لفظ اُلٹے ہی ہوتے ہیں اور میں اُنہیں دیکھتے بہت حیرت زدہ ہوتا تھا ۔
ابتداء میں مجھے میرے ابا جان نے مہروں (سٹیمپ) کے کام میں ڈالا ۔ وہ زیادہ بڑا کام نہیں تھامگر ایک ترتیب ضرور تھی اس کام میں کہ صحیح لائن اور لینتھ آگئی اور مجھے یہ ضرور علم تھا کہ یہ کام ایک نہ ایک دن ماضی میں چلا جائے گا کیونکہ کمپیوٹر کا دور شروع ہو چکا تھا اور میری مارکیٹ میں کمپوٹر آپریٹر اور ڈیزائنر کی اچھی خاصی عزت دی جاتی تھی ۔ اب تو ’’ٹکے ٹوکری‘‘ ہوگئے ہیں وہ بھی مگر اب بھی جو اچھا کام کرتے ہیں ’’اللہ‘‘ کے شکر سے اُن کے فہرست میں نام ضرور شامل ہے۔
مجھے جو مہروں (سٹیمپ ) والے اُستاد ملے وہ بہت شفیق ہیں اُنہوں نے مجھے نادرعلی سے نکھارکر مجھے نایاب کیا اور میں یہی دُعا کرتا ہوں کہ اُن جیسا شفیق اُستاد سب کو ملے کیونکہ اہلِ نظر ہیں نظر والوں کی ایک پہچان ہے کہ وہ پہچان جاتے ہیں کہ وہ کہا تک غوطہ لگا سکتا ہے ۔
اور جب سے میں نے اُردو ویب۔آرگنائزیشن جوائن کیا ہے تو بہت ہی فیض یاب ہوا ہوں ۔
نہیں تو پہلے یہی سوچتا تھا :
چن کے رستہ عشق کا ، ہم نے نادر
کبھی نایاب تھے اب کوئی پوچھتا بھی نہیں