بہت شکریہ بھائی۔۔۔ جیتے رہیںفاتح بھائی بہت خوبصورت غزل ہے ۔ شیئر کرنے کے لیے بہت شکریہ ۔
جسم کی حد سے پرے روح کی منزل سے بعید
تیری ہی ذات میں تا حد نظر چاہتا ہوں
جاسمن بہن! آپ کا شکریہ۔ داد کے لیے بھی اور اس پرانی لڑی کو تازگی بخشنے پر بھیبہت خوب!بہت داد!
آپ کو پسند آئی۔ ہمیں محنت وصول ہوئیبہت خوب! کیا بات ہے!
میں تجھے یار باندازِ دگر چاہتا ہوں ۔ واہ!
محبتیں ہیں آپ کیبہت عمدہ، کیا کہنے
نوازش ہے جنابباندازِ دگر ۔ واہ۔
گر خدا چاہے تو چاہوں میں تجھے بعد الموت
یوں نہیں ہے کہ فقط زندگی بھر چاہتا ہوں
جسم کی حد سے پرے روح کی منزل سے بعید
تیری ہی ذات میں تا حد نظر چاہتا ہوں
میں تجھے یار باندازِ دگر چاہتا ہوں
تیری دیوارِ حرم میں کوئی در چاہتا ہوں
ممنون
اب ٹھیک ہے۔ جاسمن کا شکریہ ادا کرنا ضروری تھا۔
پہلے نظر سے گذری ہوتی اور اس پر کچھ لکھا نہ ہوتا تو تم سے میری جنگ ہونی تھی۔
میں تجھے یار باندازِ دگر چاہتا ہوں
(الزبتھ بیرٹ براؤننگ سے ماخوذ)
میں تجھے یار باندازِ دگر چاہتا ہوں
تیری دیوارِ حرم میں کوئی در چاہتا ہوں
نالۂ شعر میں آثارِ اثر چاہتا ہوں
گو ہوں درماندہ مگر دستِ ہنر چاہتا ہوں
بے کراں ایک سمندر ہے محبت میری
چار اطراف میں اعجازِ اثر چاہتا ہوں
جسم کی حد سے پرے روح کی منزل سے بعید
تیری ہی ذات میں تا حد نظر چاہتا ہوں
روز مرّہ کی ضرورت کی طرح صبح و مسا
میں تجھے مثلِ چراغ اور سحر چاہتا ہوں
عالمِ تیرگی میں تیرے بدن کی شمعیں
مثلِ تابانیِ خورشید و سحر چاہتا ہوں
زیست کی تیرگی میں اے کہ مری مشعلِ جاں
شبِ پر نور و جہاں تاب سحر چاہتا ہوں
کسی کھوئی ہوئی معصوم محبت کی طرح
ہر اک انجام سے بے خوف و خطر چاہتا ہوں
جبر کی قید میں پامردی و بیباکی سے
اپنی معصوم دعاؤں کا ثمر چاہتا ہوں
چاہتا ہوں کہ ہر اک ڈال پہ ہوں برگ و ثمر
اور پرندوں سے بھی آباد شجر چاہتا ہوں
گر خدا چاہے تو چاہوں میں تجھے بعد الموت
یوں نہیں ہے کہ فقط زندگی بھر چاہتا ہوں
(فاتح الدین فاتح)